ناظرین محرم کا چاند نظر آتا ہے اور مخالفین عزا کے اشکالات شروع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں کتب تشیع سے بعض روایات کو نقل کیا جاتا ہے کہ جو اس کے نہ پہننے کی طرف تشویق دلاتی ہے۔ آئے اس کا جواب دیتے ہیں۔ پھر اس کی مشروعیت پر کلام کیا جائے گا.
جو روایات نقل کیں جاتیں ہیں لبس السواد کی مکروہیت پر (یعنی کالے لباس کے پہننے پر) تو آئے ان کو نقل کرتے ہے اور ان کی علمی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے
پہلی: امام صادق ع سے منقول روایت کہ یہ دوزخیوں کا لباس ہے (لا تصل فيها فانها لباس أهل النار.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٦ اور اس کی سند یوں ہے:
- أبى رحمه الله قال: حدثنا محمد بن يحيى العطار عن محمد بن احمد عن سهل بن زياد عن محمد بن سليمان عن رجل عن ابى عبد الله (ع)
واضح طور سے اس کی سند میں ارسال ہے کہ راوی جس نے امام صادق ع سے روایت نقل کی وہ غیر موسوم ہے۔ دیگر اس روایت کی سند میں سھل بن زیاد اور محمد بن سلیمان پر کلام ہے۔ علی کل حال اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
دوسری: امام علی ع سے منقول روایت کہ کالا لباس فرعون کا لباس ہے (لا تلبسوا السواد فانه لباس فرعون. )
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ اور اس کی سند یوں ہے:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن محمد بن عيسى اليقطينى عن القاسم ابن يحيى عن جده الحسن بن راشد عن ابى بصير عبد الله (ع) قال: حدثنى ابى، عن جدى، عن ابيه عن أمير المؤمنين (ع) قال
اس کی سند میں تامل ہے کیونکہ اس میں حسن بن راشد ہے جو مختلف فیہ راوی ہے اور محمد بن عیسی الیقطینی بھی مختلف فیہ راوی ہے۔ البتہ ہمارا کلام حسن بن راشد کے لئے ہے اور ہمارے نزدیک جو مبنی زیادہ محکم ہے اس کے تحت راوی مجہول الحال ہے۔
تیسری: امام صادق ع کی روایت کہ رسول ص تین موارد کے علاوہ کالے کپڑے کو مکروہ جانتے تھے ( كان رسول الله صلى الله عليه وآله يكره السواد إلا في ثلاثة العمامة والخف والكساء.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے، الکافی جلد ٣ ص ٤٠٣۔ البتہ علل الشرائع جلد ٢ ص ٢٤٧ میں سند کے ساتھ نقل کی ہے۔
الکافی کی سند: عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد رفعه، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال
علل الشرائع: وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد باسناده يرفعه إلى ابى عبد الله (ع) قال:
اس سند میں واضح طور پر ارسال موجود ہے۔۔ راوی اور امام صادق ع کے درمیان واسطہ موجود نہیں
چوتھی: حذیفہ بن منصور کی روایت جس میں امام صادق ع کو جب عباسی خلیفہ کی طرف سے بلایا جاتا ہے تو آپ کالے لباس کو اہل نار کا لباس کہتے ہیں۔
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥٢ میں نقل کیا ہے اور مسندا علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ میں نقل کیا ہے بایں سند:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن الحسن بن الحسين اللؤلؤي عن محمد بن سنان، عن حذيفة بن منصور قال: كنت عند ابى عبد الله
سند میں محمد بن سنان مشہور ضعیف راوی موجود ہے۔۔ اگرچہ اس روایت کو مان بھی لیا جائیں تو ہمارے لئے مسئلہ نہیں کیونکہ اس روایت میں چونکہ عباسیوں نے کالے لباس کو اپنا شعار بنایا تھا تو اس معھود عنوان سے کالے لباس کو جہنمیوں (عباسیوں) کا گردانا گیا ہے۔ یہ روایت تو ہماری موید ہے نہ کہ مخالف۔
چنانچہ چیدہ عنوان سے یہی روایات نقل کیں جاتیں ہیں اور ہم نے ان کا جواب دے دیا ہے، آئے اب ہم دو بزرگ مراجعین کرام کے فتاوی نقل کئے دیتے ہیں جو کالے لباس پر ہیں
آیت اللہ جواد تبریزی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہے:
لم يثبت كراهية لبس السواد لا في الصلاة ولا في غيرها. نعم، ورد في بعض الروايات ما يستفاد منها كراهية لبس السواد، ولكنها ضعيفة السند، ومع الإغماض عن ضعفها فالكراهة في الصلاة بمعنى كونها أقل ثواباً، ولبس السواد في عزاء الحسين والأئمة (عليهم السلام) لأجل إظهار الحزن وإقامة شعائر المذهب مستحب نفسي، وثوابه أكثر من نقص الثواب في الصلاة، واللّه العالم.
کالے کپڑے کی پہننے کی کراہیت چاہے نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ وہ ثابت نہیں۔ ہاں البتہ کچھ روایات سے اس کپڑے کا پہننے کی مکروہیت کا اسخراج کیا جاسکتا ہے لیکن وہ تمام ضعیف سند پر مشتمل ہیں۔ اور اگر اس ضعف سند سے چشم پوشی بھی کی جائے تو نماز میں کراہیت سے مراد نماز میں ثواب کا کم ہونا ہے (یاد رہے عبادات میں کسی چیز کا مکروہ ہونا اس عبادت کا عدم تقرب نہیں بلکہ قلت ثواب ہے از خیر طلب) اور ایام عزائے حسینی ع و آئمہ علیھم السلام میں کالے کپڑے کا پہننا اظہار غم اور شعائر مذھب کو قائم کرنے کے عنوان سے ہوتا ہے جو خود اپنے عمل کے عنوان سے مستحب ہے اور اس کے پہننے کا ثواب نماز میں ثواب کم ہوجانے سے زیادہ ہے، واللہ اعلم۔
آیت اللہ سیستانی فرماتے ہے:
لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام .
کالے کپڑے کے پہننا کا ایام عزا کے علاوہ بھی مکروہ ہونا ثابت نہیں ہے۔
کنز الفتاوی، باب السلوك الفردي سوال و جواب نمب ٥٥
چنانچہ فقہی مسئلہ کی حد تک ایام عزا کے علاوہ قاعدہ تسامح کے تحت بعض علماء کے نزدیک کالے لباس کا نماز میں پہننا مکروہ ہے اور بعض کے ہاں اس مکروہیت کا محل موجودہ زمانہ نہیں رہا کیونکہ محتمل بات یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام کے زمانہ میں یہ ظالم حکمران اور ان کے چاہنے والوں کا شعار ہو جب اب نہیں رہا اور بعض کے ہاں مطلقا اس کی کراہیت ثابت نہیں ہے۔
اب ایک سوال کیا جاسکتا ہے کہ کس دلیل کے تحت اس کالے کپڑے کو صرف اس زمانہ میں برا مانا گیا ہے اور اب کیوں نہیں تو دیکھیں خود امام اہلسنت احمد بن حنبل کے ہاں بھی کالے کپڑے پہننا اس وقت مکروہ ہے جب وہ ظالم حکمران اور اس کی فوج کا شعار ہو۔ چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہے:
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے کالے کپڑے کو مکروہ جانا ہے اس وقت جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
حوالہ: شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص ٣٨٥
لہذا اگر آپ روایات کو لیجئے جن میں اہلبیت ع نے منع کیا ہے تو اس میں بعض جگہ وجہ بھی بتائے گئی ہے۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائي.
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہیں کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان جیسے مختص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہ کہی وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں
حوالہ: علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٨
اس روایت کا مفاد پتا چلا کہ چونکہ عباسیوں کے زمانہ میں ان کا شعار تھا تو اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ اس وقت اس کے تحت منع کیا جاتا ہو
ان حوالوں سے ہم نے مختلف اشکالات کے جوابات دئیں ہیں۔ ائے ہمارے علاقہ برصغیر میں اکثریت رہنے والے احناف کی رائے سے استفادہ کرتے ہیں:
شیخ علاء الدین الحنفی فرماتے ہے:
وَلَوْ اجْتَمَعَ الْمَوْتَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ يُنْظَرُ إنْ كَانَ بِالْمُسْلِمِينَ عَلَامَةٌ يُمْكِنُ الْفَصْلُ بِهَا يُفْصَلُ، وَعَلَامَةُ الْمُسْلِمِينَ أَرْبَعَةُ أَشْيَاءَ: الْخِتَانُ وَالْخِضَابُ، وَلُبْسُ السَّوَادِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ
اگر مسلمان او کافروں کے مردے ایک جگہ ہوں (اور ان میں تشخص کرنا مقصود ہو) تو مسلمانوں کی عموما کچھ علامات ہوتیں ہیں جن سے ان دو کے فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور وہ مسلمانوں کی علامات چار ہیں ١، ختنہ شدہ ہونا ٢، خضاب کا استعمال ٣، کالا لباس پہننا ٤، شرمگاہ کے بالوں کی تحلیق کرنا۔
حوالہ: بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد ١ ص ٣٠٣
علامہ سرخسی حنفی نے تو سیدھی بات کہی کہ کالے کپڑے پہننا علامات مسلمان ہیں اور کفار کالے نہیں پہنتے۔۔ عبارت کا ترجمہ نہیں کرتا بلکہ فقط عربی عبارت عرض ہے:
وَأَمَّا السَّوَادُ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُسْلِمِينَ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ» وَقَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إذَا لَبِسَتْ أُمَّتِي السَّوَادَ فَابْغُوا الْإِسْلَامَ» وَمِنْهُمْ مِنْ رَوَى فَانْعَوْا وَالْأَوَّلُ أَوْجَهُ فَقَدْ صَحَّ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَشَّرَ الْعَبَّاسَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِانْتِقَالِ الْخِلَافَةِ إلَى أَوْلَادِهِ بَعْدَهُ وَقَالَ: مِنْ عَلَامَاتِهِمْ لُبْسُ السَّوَادِ»، وَالْكُفَّارُ لَا يَلْبَسُونَ السَّوَادَ
حوالہ: المبسوط للسرخسی، جلد ١٠ ص ١٩٩-٢٠٠
چنانچہ ان عبارات سے واشگاف پتہ چلا کہ کالے لباس کو پہننا علامات مومن ہیں۔
اب آتے ہیں کہ کالے کپڑے پہننے پر کہ چونکہ کالے کپڑے کے پہننے کی نہی کراہیت پر روایت بھی نقل کیں گئیں ہیں مصادر امامیہ سے تو ان ہی مصادر میں وہ روایات بھی ہیں جن میں سید الشہداء ع کے غم میں اہلبیت ع اور محبین نے کالے کپڑے پہننے۔ اور فقہاء امامیہ میں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ عزائے سید الشہداء ع میں کالے کپڑے پہننا شعار حسینی ع کے عنوان سے بہترین عمل ہے اور اگر جہاں منع لبس السواد موجود ہے (جن کے نزدیک کراہیت ثابت ہے) تو سید الشہداء ع کا غم اس سے مستثنی ہے۔
شیخ یوسف البحرانی کا قول عموما علمائے امامیہ نقل کرتے ہیں تو ان علماء کی تاسی میں نقل کئے دیتا ہوں:
لا يبعد استثناء لبس السواد في مأتم الحسين (عليه السلام) من هذه الأخبار لما استفاضت به الأخبار من الأمر باظهار شعائر الأحزان
اور کالے لباس کا امام حسین ع کی عزا میں پہننے کا عمومی کراہیت سے استثنی ہونا بعید نہیں کیونکہ مستفیض روایات میں غم کے اظہار کے شعار پر موجود ہیں (جن میں کالا لباس پہننا بھی ہے)
حوالہ: الحدائق الناضرة جلد ٧ ص ١١٨
یوں علمائے امامیہ کے ہاں سید الشہداء ع کی عزاداری میں کالا لباس پہننا شعار حسینی ع ہے جو بلاشک و شبہ مستحب ہے۔ اور ان کے پاس اس پر دلیل ہے، اس پر روایت ہے
المحاسن للبرقی جلد ٢ ص ٤٢٠ میں روایت منقول ہے:
عنه، عن الحسن بن طريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمر بن على بن الحسين، قال: لما قتل الحسين بن على (ع) لبسن نساء بنى هاشم السواد والمسوح وكن لا يتشتكين من حر ولا برد وكان على بن الحسين (ع) يعمل لهن الطعام للمأتم
جب سید الشہداء ع شہید ہوئے تو بنی ہاشم کی خواتین نے کالے کپڑے پہنتیں اور وہ چادر مغطیہ پہنتیں اور وہ گرمی اور سردی کی شکایت نہیں کرتیں جب کہ امام زین العابدین ع ان کے کھانے کا انتظام کرتے تاکہ ان کے ماتم و غم چلتا رہے۔
اس کے علاوہ ایک عمومی دلیل اس عنوان سے ہے کہ اظہار حزن و غم کا طریقہ جو عرب اور دیگر جگاہوں پر عموما چلا آرہا ہے وہ کالے لباس کا پہننا ہے اور سید الشہداء ع کے غم کا اظہار کرنے پر روایات آئمہ ع ہیں چنانچہ اس عنوان سے یہ کالا لباس استثنی ہے۔
باقی جہاں تک اہلسنت ہیں ان کے ہاں مسلم ہیں کہ کالا لباس رسول اللہ پہنتے تھے اور خود اہلبیت ع بھی پہنا کرتے تھے۔
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ حِينَ اشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ
عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ص جب شدید درد و الم سے دوچار تھے تو آپ نے کالا لباس اوڑھا ہوا تھا۔
حوالہ: مسند احمد، جلد ٤٣ ص ٢٧٠
ذھبی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے:
عاصم بن بهدلة، عن أبي رزين، قال: خطبنا الحسن بن علي وعليه ثياب سود وعمامة سوداء.
ابو رزین فرماتے ہے کہ امام حسن ع نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جب کہ وہ کالا لباس اور کالا عمامہ پہنے ہوئے تھے
حوالہ:سير أعلام النبلاء جلد ٣ ص ٢٧٢
خلاصہ: کالا لباس عزائے سید الشہداء ع میں پہننا بالکل جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
طالب دعا،
خیر طلب
جو روایات نقل کیں جاتیں ہیں لبس السواد کی مکروہیت پر (یعنی کالے لباس کے پہننے پر) تو آئے ان کو نقل کرتے ہے اور ان کی علمی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے
پہلی: امام صادق ع سے منقول روایت کہ یہ دوزخیوں کا لباس ہے (لا تصل فيها فانها لباس أهل النار.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٦ اور اس کی سند یوں ہے:
- أبى رحمه الله قال: حدثنا محمد بن يحيى العطار عن محمد بن احمد عن سهل بن زياد عن محمد بن سليمان عن رجل عن ابى عبد الله (ع)
واضح طور سے اس کی سند میں ارسال ہے کہ راوی جس نے امام صادق ع سے روایت نقل کی وہ غیر موسوم ہے۔ دیگر اس روایت کی سند میں سھل بن زیاد اور محمد بن سلیمان پر کلام ہے۔ علی کل حال اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
دوسری: امام علی ع سے منقول روایت کہ کالا لباس فرعون کا لباس ہے (لا تلبسوا السواد فانه لباس فرعون. )
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے اور علل الشرائع میں مسند طریق سے نقل کی ملاحظہ ہو علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ اور اس کی سند یوں ہے:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن محمد بن عيسى اليقطينى عن القاسم ابن يحيى عن جده الحسن بن راشد عن ابى بصير عبد الله (ع) قال: حدثنى ابى، عن جدى، عن ابيه عن أمير المؤمنين (ع) قال
اس کی سند میں تامل ہے کیونکہ اس میں حسن بن راشد ہے جو مختلف فیہ راوی ہے اور محمد بن عیسی الیقطینی بھی مختلف فیہ راوی ہے۔ البتہ ہمارا کلام حسن بن راشد کے لئے ہے اور ہمارے نزدیک جو مبنی زیادہ محکم ہے اس کے تحت راوی مجہول الحال ہے۔
تیسری: امام صادق ع کی روایت کہ رسول ص تین موارد کے علاوہ کالے کپڑے کو مکروہ جانتے تھے ( كان رسول الله صلى الله عليه وآله يكره السواد إلا في ثلاثة العمامة والخف والكساء.)
جواب: یہ روایت شیخ صدوق نے مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥١ میں نقل کی ہے، الکافی جلد ٣ ص ٤٠٣۔ البتہ علل الشرائع جلد ٢ ص ٢٤٧ میں سند کے ساتھ نقل کی ہے۔
الکافی کی سند: عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد رفعه، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال
علل الشرائع: وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد باسناده يرفعه إلى ابى عبد الله (ع) قال:
اس سند میں واضح طور پر ارسال موجود ہے۔۔ راوی اور امام صادق ع کے درمیان واسطہ موجود نہیں
چوتھی: حذیفہ بن منصور کی روایت جس میں امام صادق ع کو جب عباسی خلیفہ کی طرف سے بلایا جاتا ہے تو آپ کالے لباس کو اہل نار کا لباس کہتے ہیں۔
جواب: اس روایت کو شیخ صدوق مرسلا من لايحضره الفقيه جلد ١ ص ٢٥٢ میں نقل کیا ہے اور مسندا علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٧ میں نقل کیا ہے بایں سند:
وبهذا الاسناد عن محمد بن احمد عن الحسن بن الحسين اللؤلؤي عن محمد بن سنان، عن حذيفة بن منصور قال: كنت عند ابى عبد الله
سند میں محمد بن سنان مشہور ضعیف راوی موجود ہے۔۔ اگرچہ اس روایت کو مان بھی لیا جائیں تو ہمارے لئے مسئلہ نہیں کیونکہ اس روایت میں چونکہ عباسیوں نے کالے لباس کو اپنا شعار بنایا تھا تو اس معھود عنوان سے کالے لباس کو جہنمیوں (عباسیوں) کا گردانا گیا ہے۔ یہ روایت تو ہماری موید ہے نہ کہ مخالف۔
چنانچہ چیدہ عنوان سے یہی روایات نقل کیں جاتیں ہیں اور ہم نے ان کا جواب دے دیا ہے، آئے اب ہم دو بزرگ مراجعین کرام کے فتاوی نقل کئے دیتے ہیں جو کالے لباس پر ہیں
آیت اللہ جواد تبریزی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہے:
لم يثبت كراهية لبس السواد لا في الصلاة ولا في غيرها. نعم، ورد في بعض الروايات ما يستفاد منها كراهية لبس السواد، ولكنها ضعيفة السند، ومع الإغماض عن ضعفها فالكراهة في الصلاة بمعنى كونها أقل ثواباً، ولبس السواد في عزاء الحسين والأئمة (عليهم السلام) لأجل إظهار الحزن وإقامة شعائر المذهب مستحب نفسي، وثوابه أكثر من نقص الثواب في الصلاة، واللّه العالم.
کالے کپڑے کی پہننے کی کراہیت چاہے نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ وہ ثابت نہیں۔ ہاں البتہ کچھ روایات سے اس کپڑے کا پہننے کی مکروہیت کا اسخراج کیا جاسکتا ہے لیکن وہ تمام ضعیف سند پر مشتمل ہیں۔ اور اگر اس ضعف سند سے چشم پوشی بھی کی جائے تو نماز میں کراہیت سے مراد نماز میں ثواب کا کم ہونا ہے (یاد رہے عبادات میں کسی چیز کا مکروہ ہونا اس عبادت کا عدم تقرب نہیں بلکہ قلت ثواب ہے از خیر طلب) اور ایام عزائے حسینی ع و آئمہ علیھم السلام میں کالے کپڑے کا پہننا اظہار غم اور شعائر مذھب کو قائم کرنے کے عنوان سے ہوتا ہے جو خود اپنے عمل کے عنوان سے مستحب ہے اور اس کے پہننے کا ثواب نماز میں ثواب کم ہوجانے سے زیادہ ہے، واللہ اعلم۔
آیت اللہ سیستانی فرماتے ہے:
لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام .
کالے کپڑے کے پہننا کا ایام عزا کے علاوہ بھی مکروہ ہونا ثابت نہیں ہے۔
کنز الفتاوی، باب السلوك الفردي سوال و جواب نمب ٥٥
چنانچہ فقہی مسئلہ کی حد تک ایام عزا کے علاوہ قاعدہ تسامح کے تحت بعض علماء کے نزدیک کالے لباس کا نماز میں پہننا مکروہ ہے اور بعض کے ہاں اس مکروہیت کا محل موجودہ زمانہ نہیں رہا کیونکہ محتمل بات یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام کے زمانہ میں یہ ظالم حکمران اور ان کے چاہنے والوں کا شعار ہو جب اب نہیں رہا اور بعض کے ہاں مطلقا اس کی کراہیت ثابت نہیں ہے۔
اب ایک سوال کیا جاسکتا ہے کہ کس دلیل کے تحت اس کالے کپڑے کو صرف اس زمانہ میں برا مانا گیا ہے اور اب کیوں نہیں تو دیکھیں خود امام اہلسنت احمد بن حنبل کے ہاں بھی کالے کپڑے پہننا اس وقت مکروہ ہے جب وہ ظالم حکمران اور اس کی فوج کا شعار ہو۔ چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہے:
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے کالے کپڑے کو مکروہ جانا ہے اس وقت جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
حوالہ: شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص ٣٨٥
لہذا اگر آپ روایات کو لیجئے جن میں اہلبیت ع نے منع کیا ہے تو اس میں بعض جگہ وجہ بھی بتائے گئی ہے۔
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائي.
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہیں کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان جیسے مختص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہ کہی وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں
حوالہ: علل الشرائع جلد ٢ ص ٣٤٨
اس روایت کا مفاد پتا چلا کہ چونکہ عباسیوں کے زمانہ میں ان کا شعار تھا تو اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ اس وقت اس کے تحت منع کیا جاتا ہو
ان حوالوں سے ہم نے مختلف اشکالات کے جوابات دئیں ہیں۔ ائے ہمارے علاقہ برصغیر میں اکثریت رہنے والے احناف کی رائے سے استفادہ کرتے ہیں:
شیخ علاء الدین الحنفی فرماتے ہے:
وَلَوْ اجْتَمَعَ الْمَوْتَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ يُنْظَرُ إنْ كَانَ بِالْمُسْلِمِينَ عَلَامَةٌ يُمْكِنُ الْفَصْلُ بِهَا يُفْصَلُ، وَعَلَامَةُ الْمُسْلِمِينَ أَرْبَعَةُ أَشْيَاءَ: الْخِتَانُ وَالْخِضَابُ، وَلُبْسُ السَّوَادِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ
اگر مسلمان او کافروں کے مردے ایک جگہ ہوں (اور ان میں تشخص کرنا مقصود ہو) تو مسلمانوں کی عموما کچھ علامات ہوتیں ہیں جن سے ان دو کے فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور وہ مسلمانوں کی علامات چار ہیں ١، ختنہ شدہ ہونا ٢، خضاب کا استعمال ٣، کالا لباس پہننا ٤، شرمگاہ کے بالوں کی تحلیق کرنا۔
حوالہ: بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد ١ ص ٣٠٣
علامہ سرخسی حنفی نے تو سیدھی بات کہی کہ کالے کپڑے پہننا علامات مسلمان ہیں اور کفار کالے نہیں پہنتے۔۔ عبارت کا ترجمہ نہیں کرتا بلکہ فقط عربی عبارت عرض ہے:
وَأَمَّا السَّوَادُ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُسْلِمِينَ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ» وَقَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إذَا لَبِسَتْ أُمَّتِي السَّوَادَ فَابْغُوا الْإِسْلَامَ» وَمِنْهُمْ مِنْ رَوَى فَانْعَوْا وَالْأَوَّلُ أَوْجَهُ فَقَدْ صَحَّ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَشَّرَ الْعَبَّاسَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِانْتِقَالِ الْخِلَافَةِ إلَى أَوْلَادِهِ بَعْدَهُ وَقَالَ: مِنْ عَلَامَاتِهِمْ لُبْسُ السَّوَادِ»، وَالْكُفَّارُ لَا يَلْبَسُونَ السَّوَادَ
حوالہ: المبسوط للسرخسی، جلد ١٠ ص ١٩٩-٢٠٠
چنانچہ ان عبارات سے واشگاف پتہ چلا کہ کالے لباس کو پہننا علامات مومن ہیں۔
اب آتے ہیں کہ کالے کپڑے پہننے پر کہ چونکہ کالے کپڑے کے پہننے کی نہی کراہیت پر روایت بھی نقل کیں گئیں ہیں مصادر امامیہ سے تو ان ہی مصادر میں وہ روایات بھی ہیں جن میں سید الشہداء ع کے غم میں اہلبیت ع اور محبین نے کالے کپڑے پہننے۔ اور فقہاء امامیہ میں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ عزائے سید الشہداء ع میں کالے کپڑے پہننا شعار حسینی ع کے عنوان سے بہترین عمل ہے اور اگر جہاں منع لبس السواد موجود ہے (جن کے نزدیک کراہیت ثابت ہے) تو سید الشہداء ع کا غم اس سے مستثنی ہے۔
شیخ یوسف البحرانی کا قول عموما علمائے امامیہ نقل کرتے ہیں تو ان علماء کی تاسی میں نقل کئے دیتا ہوں:
لا يبعد استثناء لبس السواد في مأتم الحسين (عليه السلام) من هذه الأخبار لما استفاضت به الأخبار من الأمر باظهار شعائر الأحزان
اور کالے لباس کا امام حسین ع کی عزا میں پہننے کا عمومی کراہیت سے استثنی ہونا بعید نہیں کیونکہ مستفیض روایات میں غم کے اظہار کے شعار پر موجود ہیں (جن میں کالا لباس پہننا بھی ہے)
حوالہ: الحدائق الناضرة جلد ٧ ص ١١٨
یوں علمائے امامیہ کے ہاں سید الشہداء ع کی عزاداری میں کالا لباس پہننا شعار حسینی ع ہے جو بلاشک و شبہ مستحب ہے۔ اور ان کے پاس اس پر دلیل ہے، اس پر روایت ہے
المحاسن للبرقی جلد ٢ ص ٤٢٠ میں روایت منقول ہے:
عنه، عن الحسن بن طريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمر بن على بن الحسين، قال: لما قتل الحسين بن على (ع) لبسن نساء بنى هاشم السواد والمسوح وكن لا يتشتكين من حر ولا برد وكان على بن الحسين (ع) يعمل لهن الطعام للمأتم
جب سید الشہداء ع شہید ہوئے تو بنی ہاشم کی خواتین نے کالے کپڑے پہنتیں اور وہ چادر مغطیہ پہنتیں اور وہ گرمی اور سردی کی شکایت نہیں کرتیں جب کہ امام زین العابدین ع ان کے کھانے کا انتظام کرتے تاکہ ان کے ماتم و غم چلتا رہے۔
اس کے علاوہ ایک عمومی دلیل اس عنوان سے ہے کہ اظہار حزن و غم کا طریقہ جو عرب اور دیگر جگاہوں پر عموما چلا آرہا ہے وہ کالے لباس کا پہننا ہے اور سید الشہداء ع کے غم کا اظہار کرنے پر روایات آئمہ ع ہیں چنانچہ اس عنوان سے یہ کالا لباس استثنی ہے۔
باقی جہاں تک اہلسنت ہیں ان کے ہاں مسلم ہیں کہ کالا لباس رسول اللہ پہنتے تھے اور خود اہلبیت ع بھی پہنا کرتے تھے۔
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ حِينَ اشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ
عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ص جب شدید درد و الم سے دوچار تھے تو آپ نے کالا لباس اوڑھا ہوا تھا۔
حوالہ: مسند احمد، جلد ٤٣ ص ٢٧٠
ذھبی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہے:
عاصم بن بهدلة، عن أبي رزين، قال: خطبنا الحسن بن علي وعليه ثياب سود وعمامة سوداء.
ابو رزین فرماتے ہے کہ امام حسن ع نے ہمارے سامنے خطبہ دیا جب کہ وہ کالا لباس اور کالا عمامہ پہنے ہوئے تھے
حوالہ:سير أعلام النبلاء جلد ٣ ص ٢٧٢
خلاصہ: کالا لباس عزائے سید الشہداء ع میں پہننا بالکل جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔
طالب دعا،
خیر طلب
احمد بن حنبل نقل فرماتے ہے:
جواب دیںحذف کریںحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ حِينَ اشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ
عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ص جب شدید درد و الم سے دوچار تھے تو آپ نے کالا لباس اوڑھا ہوا تھا۔
حوالہ: مسند احمد، جلد ٤٣ ص ٢٧٠
اسکا اسکین پیج فراہم کردیں؟؟؟
اصل میں صفحہ نمبر 370 ہے۔
حذف کریںسکین پیج
https://3.bp.blogspot.com/-RUJ2KUpMqvM/WdcbnulnA5I/AAAAAAAAH8w/zEPgVNK4UBcy-UStz5zBV_dw9aD3InB4ACLcBGAs/s1600/mh43-370.jpg