معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا


معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

بنی امیہ کے حامی ناصبی حضرات کہتے ہیں کسی صحابی کے غلط کاموں کو بیان کرنا کفر، اور ان پر تنقید کرنا کفر ہے اور اسی لیے شیعہ کافر۔ اگر کفر کا معیار واقعی کسی صحابی پر تنقید کرنا ہی ہے تو پھر سب سے بڑے کافر بنی امیہ ہوئے جو عرصہ دراز تک صحابی علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مگر ناصبی حضرات اپنی منافقانہ روش دیکھیں کہ بجائے بنی امیہ پر کفر کے فتوے لگانے کے انہوں نے بنی امیہ کو خلفاء معاویہ و یزید و مروان بن حکم وغیرہ کو “رضی اللہ عنہ” اور “امیر المومنین” بنا رکھا ہے۔ آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ذیل میں بنی امیہ کے کفر کےثبوت۔

ثبوت نمبر 1 :

صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو:
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبیه، قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالھن له رسول اللہ صلى اللہ علیه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منھن ۔۔۔
جب معاویہ نے سعد کو گورنر بنایا تو سعد کو حکم دیا اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو ۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

بعض نواصب نہ اپنے ملک کی معتبر ترین کتاب میں موجود اس روایت سے بےحد پریشان ہوئے ہیں کیونکہ ان کے خود ساختہ عقیدہ کے مطابق صحابہ کو برا بھلا کہنا کفر ہے لیکن اس روایت میں نواصب کا پیشوا خود ایسے شخص کو گالیاں دیے کا حکم دے رہا ہے جو نواصب کے مذہب کا چہیتا خلیفہ راشد ہے۔ اس پریشانی سے نکلنے کی غرض سے ایک عجیب بہانہ تلاش کیا گیا۔ یعنی اس روایت سے خلاف حقیقت مطلب اخذ کرنا۔ معاویہ خیل قبیلے والوں کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ، سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے کا حکم نہیں دے رہا بلکہ وہ تو بس سعد سے سوال کرہا ہے
اور دریافت کرہا ہے کہ سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ تو ایسے احمق نواصب کے لئے عرض ہے کہ آخر معاویہ کو سعد سے اس بات کا سبب دریافت کرنے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئی؟ ظاہر ہے سعد بن ابی وقاص نے معاویہ کے حکم کو مانتے ہوئے علی بن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جیسا کہ معاویہ کے دیگر گورنر اس حکم کی تعمیل کیا کرتے تھے پس اسی وجہ سے معاویہ کو اپنا تجسس دور کرنے کے لئے سعد سے سوال کرنا پڑا اور سعد نے اس کی وجہ بیان بھی کی۔ نواصب کے لئے یہ بھی عرض ہے کہ روایت میں معاویہ کا سعد کو ‘حکم’ دینا بیان کیا
گیا ہے جو کہ نواصب کی اس کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے کہ معاویہ تو سعد سے محض سوال کررہا تھا۔ اور پھر نواصب کو یہ بھی یاد دلا دیا جائے کہ یہ واقعہ اور بھی طریقوں سے بیان ہوا ہے جس کو پڑھنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاویہ تو سعد کو علی بن ابی طالب پر سب و شتم کرنے کو حکم دے رہا تھا جس سے سعد نے انکار کیا۔

ثبوت نمبر: 2


حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:
وعند أبي یعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب علیا ما سببته أبدا
اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔
فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 8 ص 424
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی، کراچی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ “سباب المومن فسوق و قتالہ کفر” یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔” اور جب قتال اور حکم قتال کا صادر ہونا یقینی ہے اس سے کوئی چارہ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ انکو مرتکب کبیرہ [گناہ] کا جاننا چاہیے۔ لیکن زبان طعن و لعن بند رکھنا چاہیے۔ اسی طور سے کہنا چاہیے جیسا صحابہ رضوان اللہ علیھم سے اُن کی شان میں کہا جاتا ہے جن سے زنا اور شرب خمر سرزد ہوا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ہر جگہ خطاء اجتہادی کو دخل دینا بیباکی سے خالی نہیں۔

 ثبوت نمبر : 3


چونکہ صحیح مسلم کی روایت میں موجود معاویہ کا سعد سے کہا جانے والا جملہ سوالیہ انداز میں تھا لہٰذا نووی جیسے لوگوں کو موقع مل گیا کہ اپنے چہیتے صحابی معاویہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی جائے اور معاویہ کے الفاظ کی تشریح یوں کی جائے کہ وہ تو بس سعد سے علی بن ابی طالب کو گالیاں نہ دینے کی وجہ پوچھ رہا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا، یہ واقع کئی اور طریقوں سے نقل ہوا ہے۔ جیسا کہ علامہ محب طبری نے اپنی کتاب ‘ریاض النضیرہ فی مناقب عشرہ مبشرہ’ ج 1 ص 262 میں اسی واقع کو یوں نقل کیا ہے :
 عن سعید قال أمر معاویة سعدا أن یسب أبا تراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالھن رسول اللہ صلى اللہ علیه وسلم ۔۔۔
سعید سے روایت ہے کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ تو ابو تراب پر سب کرے جس پر سعد نے کہا کہ میں نے رسول اللہ )ص( سے تین باتیں سنی ہیں ۔۔۔ امام اہل سنت ملا علی قاری نے اپنی کتاب ‘مرقات شرح مشکات’ ج 17 ص 493 میں
کتاب ‘ریاض النضیرہ’ کی اسی روایت پر انحصار کیا ہے اور نقل کیا ہے۔

ثبوت نمبر: 4


ابن کثیر الدمشقی اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں :
 وقال أبو زرعة الدمشقي : ثنا أحمد بن خالد الذھبي أبو سعید، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد اللہ بن أبي نجیح، عن أبیه قال : لما حج معاویة أخذ بید سعد بن أبي وقاص . فقال : یا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا ھذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك . قال : فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سریرہ، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فیه . فقال : أدخلتني دارك وأجلستني على سریرك، ثم وقعت في علي تشتمه ؟ واللہ لأن یكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس، ولأن یكون لي ما قال حین غزا تبوكاً ) ) إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة ھارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ؟ ( ( أحب إلي مما طلعت علیه الشمس، ولأن یكون لي ما قال له یوم خیبر : ) ) لأعطین الرایة رجلاً یحب 377  ( أحب إليّ / اللہ ورسوله ویحبه اللہ ورسوله یفتح اللہ على یدیه، لیس بفرار ( ( ) ج/ص : 7مما طلعت علیه الشمس، ولأن أكون صھرہ على ابنته ولي منھا الولد ماله أحب إليّ من أن یكون لي ما طلعت علیه الشمس، لا أدخل علیك داراً بعد ھذا الیوم، ثم نفض رداءہ ثم خرج .
 ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: “آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا، پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔ خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:”کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ “میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں ]غیر فرار[۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور)ص( کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔
البدایہ و النہایہ، جلد 7، صفحہ 565 ، باب فضائل علی ابن ابی طالب

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

یہ ایک مستند و متعبر روایت ہے لیکن انٹرنیٹ پر موجود چند نواصب نے پھر بھی اس میں شک ڈالنے کے لیے ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اہل سنت کی کتابوں کے مطابق یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہے اور اس کو ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق آئمہ رجال کےاقوال :
  1. الذھبی نے ان کے متعلق کہا ہے : امام، محدث، ثقہ ( سیر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ539 )۔  
  2. امام یحیی ابن معین : ثقہ ( تھذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301 )۔
    احمد بن خالد

    احمد بن خالد

    احمد بن خالد

    احمد بن خالد
     
  3. امام ابن حبان نے اس راوی کو اپنی کتاب ‘الثقات’ میں شامل کیا ہے جس میں امام بن حبان نے صرف انہی راویوں کو شامل کیا ہے جو ثقہ ہیں (جلد 8، صفحہ 6)
    راوی احمد بن خالد

    راوی احمد بن خالد
    ۔ 
  4. امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور وہابیوں کے سعودی شیخ ناصرالدین البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے (سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188 ) ۔ 
  5. امام ابن خزیمہ نے احمد بن خالد سے اپنی کتاب میں روایات نقل کی ہیں جبکہ امام ابن خزیمہ نے کتاب کے شروع میں ہی واضح کیا ہے کہ وہ صرف وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن کی سند میں ثقہ راوی ہوں۔ 


ثبوت نمبر : 5

 

اہل سنت کی احادیث کی چھ معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی سنن ابن ماجہ، جلد اول :
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاویة حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وھو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاویة في بعض حجاته فدخل علیه سعد فذكروا علیا فنال منه فغضب سعد وقال تقول ھذا لرجل سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیه و سلم یقول من كنت مولاہ فعلي مولاہ وسمعته یقول أنت مني بمنزلة ھارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته یقول لأعطین الرایة الیوم رجلا یحب اللہ ورسوله
حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضب ناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا
ہے۔ یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصرالدین البانی نے اسے کتاب ‘سلسلہ الاحادیث الصحیحہ’ ج 1 ص 58 میں ذکر کیا ہے اور صحیح قرار دیا
ہے۔

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا


ثبوت نمبر : 6


علامہ عبد ربہ اندلسی اپنی کتاب العقد الفرید میں معاویہ اور سعد ابن ابی وقاص کے درمیان ہونے والے مکالمہ کو ایک اور انداز سے نقل کیا ہے :
 فکتبت ام سلمۃ زوج النبی الی معاویۃ: انکم تلعنون اللہ و رسولہ علی منابرکم، و ذلک انکم تلعنون علی بن ابی طالب و من احبہ، و انا اشھد ان اللہ احبہ و رسولہ، فلم یلتفت الی کلامھا۔
جب حسن بن علی کی وفات ہوئی تو معاویہ حج کے لئے گئے اور مدینہ میں داخل ہوئے اور منبر رسول سے علی پر لعنت کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں کے لوگوں نے ان سے کہا: ‘سعد بن ابی وقاص یہیں موجود ہیں اور وہ آپ کے اس فعل کو قبول نہیں کرینگے، آپ کو ان سے پہلے پوچھ لینا چاہئے’۔ لہٰذا معاویہ نے سعد سے رابطہ کیا اور اس متعلق دریافت کیا جس پر سعد نے کہا : ‘ اگر تم نے یہ کیا تو میں اس مسجد سے چلا جاؤنگا اور پھر کبھی یہاں واپس نہیں آؤنگا’۔ لہٰذا معاویہ نے اپنے آپ کو اس فعل سے روکے رکھا جب تک کہ سعد کا انتقال نہ ہوگیا پھر اس کے بعد معاویہ نے منبر رسول سے علی پر لعنت کرنا شروع کردیا اور اپنے گورنروں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی منروں سے علی پر لعنت کریں لہٰذا گورنروں نے ایسا ہی کیا۔
العقد الفرید، ج 3 ص 300

ثبوت نمبر: 7


ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دینے پربھرپور احتجاج کیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا ذکر علامہ ابن ابی ربہ نے اپنی کتاب ‘العقد الفرید’ میں یوں کیا ہے : معاویہ نے منبر رسول سے علی پر لعنت کرنا شروع کردیا اور اپنے گورنروں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی منروں سے علی پر لعنت کریں لہٰذا گورنروں نے ایسا ہی کیا۔ پھر زوجہ رسول ام سلمہ نے معاویہ کو خط تحریر کیا جس میں لکھا: ‘تم اپنے منبروں سے علی بن ابی طالب اور ان کے محبان پر لعنت کرنے کے نتیجے میں دراصل خدا اور اس کے رسول پر لعنت کرتے ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول ان سے محبت کرتے’۔ لیکن معاویہ نے امہ سلمہ کی بات پر دہان نہ دیا۔
العقد الفرید، ج 3 ص 300
ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی یہ روایت کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں بھی نقل کی ہے جسے کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والی شیخ شعیب الارناووط نے صحیح قرار دیا ہے :
 حدثنا عبد اللہ حدثني أبى ثنا یحیى بن أبى بكیر قال ثنا إسرائیل عن أبى إسحاق عن عبد اللہ الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقالت لي : أیسب رسول اللہ صلى اللہ علیه و سلم فیكم قلت معاذ اللہ أو سبحان اللہ أو كلمة نحوھا قالت سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیه و سلم یقول من سب علیا فقد سبني
یحیی بن ابی بکیر نے ہم سے بیان کیا کہ اسرائیل نے ابو اسحاق سے بحوالہ ابو عبداللہ البجلی ہم سے بیان کیا کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا تم میں رسول اللہ (ص) کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا ۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔  
مسند احمد بن حنبل، ج 18 ص 314 حدیث 26627


امام اہل سنت ابو یعلیٰ نے کتاب مسند ابی یعلیٰ، ج 12 ص 444-445 میں اسی روایت کو دوسرے طریقے سے نقل کیا ہے جس پر کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ حسین سالم اسد نے کہا ہے کہ روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

حدثنا أبو خیثمة حدثنا عبید اللہ بن موسى حدثنا عیسى بن عبد الرحمن البجلي عن السدي عن أبي عبد اللہ الجدلي قال : قالت أم سلمة : أیسب رسول اللہ صلى اللہ علیه و سلم علىالمنابر ؟ قلت : وأنى ذلك ؟ قالت : ألیس یسب علي ومن یحبه ؟ فأشھد أن رسول اللہ صلى – اللہ علیه و سلم كان یحبه
ابی عبداللہ البجلی روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے فرمایا : ‘منبر پر سے رسول اللہ پر سب کیسے ہوسکتا ہے؟’ البجلی نے پوچھا: ‘کیسے؟’۔ حضرت ام سلمہ نے جواب دیا: ‘کیا علی اور ان سے محبت کرنے والوں پر سب نہیں کیا رہا؟۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ ان سے محبت کیا کرتے تھے’۔
اور ابن کثیر الدمشقی نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں حضرت ام سلمہ کے الفاظ کو کئی اور طریوقوں سے نقل کیا ہے : البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 463 {اردو ایڈیشن، نفیس اکیڈمی، ترجمہ اختر فتح پوری صاحب }



ثبوت نمبر: 8


علامہ ابن اثیر نے اپنی کتاب 'تاریخ الکامل' میں امام حسن اور معاویہ کے درمیاں صلح کی شرائط نقل کیں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی تھے کہ معاویہ، جس نے علی بن ابی طالب پر مساجد کے منبروں سے سب و شتم کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا، اسے بند کیا جائے۔ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں :
 وكان الذي طلب الحسن من معاویة أن یعطیه ما في بیت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا یشتم علیاً، فلم یجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا یشتم وھو یسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم یف له به أیضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أھل البصرة منعوہ منه وقالوا: ھو فیئنا لا نعطیه أحداً، وكان منعھم بأمر معاویة أیضاً .
حسن نے معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دارلابجرد کا خراج انہیں دیا جائے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اس پر حسن نے پھر طلب کیا کہ ان کو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں جب حسن اس کو سن سکتے ہوں۔ اس بات کو معاویہ نے قبول کیا لیکن بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔ باقی رہا دار الابجرد کا خراج تو اسے اہل بصرہ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ ہمارے مال غنیمت میں سے ہے اور وہ ہم کسی کو نہ دینگے۔
انہوں نے اس میں بھی معاویہ کے حکم سے ہی رکاوٹ ڈالی۔
تاریخ الکامل (عربی)، ج 3 ص 272
تاریخ الکامل (اردو)، ج 2 ص 3 2 (عثمانیہ اکیڈمی، حیدراباد، انڈیا)

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

اسی تاریخی حقیقت کو کئی سنی علماء نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔ جیسے امام الذھبی اپنی کتاب 'العبر في خبر من غبر' میں صلح کی شرائط نقل کرتے ہیں :
 ثم كتب إلى معاویة على أن یسلم إلیه بیت المال وأن لا یسب علیًا بحضرته وأن یحمل إلیه خراج فسا ودارابجرد كل سنة
پھر حسن نے معاویہ کو لکھا کہ )کوفہ کا( بیت المال ان کے حوالے کیا جائَے اور علی پر سب نہ کیا جائے اور دارالبجرد کا ٹیکس ہر سال انہیں دیا جائے . العبر في خبر من غبر، ج 1 ص 18 ، باب: 37 ھجری
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی 'تاریخ ابوالفداء' جلد 1، ص 648 پر لکھتے ہیں :
 وكان الذي طلبه الحسن أن یعطیه ما في بیت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا یسب علیاً فلم یجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا یشتم علیاً وھو یسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم یف له به
الحسن کی شرائط یہ تھیں: کوفہ کے بیت المال ان کے حوالے کیا جائے، دارالبجرد کا اخراج انہیں دیا جائے اور علی کو گالیاں نہیں دی جائیں۔ معاویہ نے علی کو گالیاں دینے کی شرط ماننے سے انکار کیا جس پر الحسن نے کہا کہ علی کو اس وقت گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں جس کو معاویہ نے مان لیا لیکن اس شرط کو پورا نہ کیا۔
تاریخ ابوالفداء، جلد 1، ص 648
اہل سنت کے نامور امام جن کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یعنی امام ابن کثیر اپنی کتاب 'البدایہ و النہایہ' میں لکھتے ہیں : 
فاشترط أن یأخذ من بیت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درھم، وأن یكون خراج دار أبجرد له، وأن لا یسب علي وھو یسمع
[الحسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب نہ کیا جائے جبکہ حسن اسے سن سکتے ہوں۔
البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 17
اہل سنت کے ایک اور پیشوا علامہ ابن خلدون جن کے ناصبیت سے قربت کا اعتراف
دیوبند مذہب کے مفتی نظام الدین شامزئی نے بھی کیا ہے، اپنی کتاب ‘تاریخ ابن خلدون’ میں تحریر کرتے ہیں :
 فكتب إلى معاویة یذكر له النزول عن الأمر على أن یعطیه ما في بیت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و یعطیه خراج دار ابجرد من فارس و ألا یشتم علیا و ھو یسمع
یعنی حسن نے معاویہ کو منصب خلافت سے اترنے کے عوض شرائط یوں تحریر کیں
کہ کوفہ کے بیت المال جس کی مالیت پچاس لاکھ تھی ان کے حوالے کیا جائے، دارالبجرد کی ٹیکس کی آ مدنی سے ان کو حصہ دیا جائے اور علی کو گالیاں نہیں دی جائیں جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
تاریخ ابن خلدون، ج 2 ص 648
امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں :
 وقد كان صالح الحسن معاویة على أن جعل له ما في بیت ماله وخرج دارا بجرد على ألا یشتم علي وھو یسمع فأخذ ما في بیت ماله
الحسن نے معاویہ سے ان شرائط پر صلح کرلی تھی کہ بیت المال میں جو کچھ بھی ہے وہ حسن کے حوالے کیا جائے اور دار البجرد کا اخراج بھی اور علی کو اس وقت گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں
تاریخ طبری
امام طبری نے یہ روایت عوانہ بن الحکم الکبی (متوفی 147 ھ) سے لی ہے۔ عوانہ نے معاویہ ابن ابی سفیان اور بنی امیہ پر دو تاریخی کتابیں لکھی تھیں۔ عوانہ کے متعلق امام ، ذھبی کہتے ہیں کہ عوانہ روایات بیان کرنے میں صدوق ہیں (سیر اعلام النبلاء جلد 7 صفحہ 201 )۔ امام عجلی نے عوانہ کو اپنی کتاب ‘معارفت الثقات’ جلد 2، صفحہ 196 میں شامل کیا ہے۔ علامہ یاقوت حموی (متوفی 626 ھ) اپنی کتاب ’معجم الادباء‘ جلد 2 صفحہ 232 میں کہتے ہیں کہ ‘ كان عالماً بالأخبار والآثار ثقة ’ یعنی عوانہ تاریخ اور روایات کے عالم ہیں اور ثقہ ہیں۔ مزید عبداللہ بن جعفر کا قول نقل کرتے ہیں کہ عوانہ بن الحکم کوفہ میں تاریخ اور فتوحات کے علماء میں سے ہیں اور شاعری و فصاحت میں کافی علم رکھتے ہیں، ان کا ایک بھائی تھا، انہوں نے ظرافت بھری روایات بیان کی ہیں،
وہ موثق تھے۔ قاضی ابو بکر العربی (متوفی 468 ھ) کی مشہور کتاب ’العواصم من القواصم‘ صفحہ 189 کے حاشیہ میں علامہ محب الدین خطیب (متوفی 1389 ھ) عوانہ کے متعلق لکھتے ہیں : ‘ أكبر شیوخ المدائني ’ یعنی المدائن کے بلند پایا شیوخ میں سے تھے۔ صفدی (متوفی 764 ھ) نے عوانہ کو صدوق قرار دیا ہے۔
ابن عساکر نے ‘تاریخ الدمشق’ میں امام حسن اور معاویہ کے درمیاں صلح کی شرائط مندرجہ ذیل سند سے نقل کرتے ہیں :
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسین بن محمد بن سعد أنا أبو عبید عن مجالد عن الشعبي وعن یونس بن أبي إسحاق عن أبیه وعن أبي السفر وغیرھم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا یسب علي وھو یسمع وان یحمل إلیه خراج فسا ) 3 ( ودار ابجرد ) 4 ( من ارض فارس كل عام
ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے شعبی سے اور یونس بن ابی اسحاق سے انہوں نے اپنے والد سے اور ابی السفر وغیرہ سے کہ۔۔۔ علی کو گالیاں نہ دی جائیں جب وہ اسے سن سکتے ہوں اور فارس کے دارالبجرد اور فسا کا ہے سال کا اخراج۔۔۔۔۔
یہاں ہم ابن عساکر کی بیان کردہ سند پر کچھ بحث کرلیں۔ علم الرجال سے واقف لوگ جان سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا سند میں بعض جگہ ‘اور’ کا لفظ استعمال ہوا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اس سند کی دراصل تین طریق ہیں، یعنی : 
1 ۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے شعبی سے۔
2 ۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید یونس بن ابی اسحاق سے انہوں نے اپنے والد سے۔
3 ۔ ابو بکر بن محمد بن عبدالباقی نے روایت کی الحسن بن علی انہوں نے محمد بن العباس سے انہوں نے احمد بن معروف سے انہوں نے حسین بن محدم انہوں نے محمد بن سعد سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے ابی السفر وغیرہ سے۔
مندرجہ بالا تین طریقوں میں سے دوسری طریق نہایت معتبر ہے :
1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی نے کہا ’ثقہ‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 36 ص 392 ) جبکہ امام ذھبی نے کہا ’عادل‘(سیر اعلام النبلاء، ج 20 ص 23 )۔
2 ۔ حسن بن علی الجواھری: بغدادی نے کہا ’ثقہ‘ )تاریخ بغداد، 7 ص 404 ( جبکہ ذھبی نے کہا ’صدوق‘ (سیر اعلام النبلاء، ج 18 ص 68 )
3 ۔ محمد بن العباس الخزاز: البغدادی ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 3 ص 337 ( اور ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ )سیر اعلام النبلاء، ج 16 ص 409 )
4 ۔ احمد بن معروف بن بشر: بغدادی ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 5 ص 368 ) جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ (تاریخ اسلام، ج 24 ص 103 )
5 ) ۔ الحسین بن محمد بن عبدالرحمان: البغدادی نے کہا ’ثقہ‘ (تاریخ بغداد، 8 ص 91 الذھبی ذھبی نے کہا ’بڑے حافظ‘ (تذکرہ الحفاظ، ج 2 ص 680 ) اور یہ بھی کہا کہ وہ روایت کرنے میں بہت سخت یعنی محتاط تھے (تاریخ اسلام، ج 21 ص 164 )
6 ۔ محمد بن سعد (مصنف الطبقات الکبیر(: بغدادی نے کہا کہ ہمارے نزدیک وہ عادل لوگوں میں سے ہیں اور روایت کرنے میں سچے ہیں۔ )تاریخ بغداد، 2 ص 366 ( جبکہ امام ذھبی نے کہا ’حافظ، علامہ، حجت‘ )سیر اعلام النبلاء، ج 10 ص 664 (۔
7 ۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’ثقہ‘ )تقریب التھذیب، 2 ص 110 ( جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’ثقہ‘ )تذکرہ الحفاظ، ج 1 ص 333 (۔
8 ۔ یونس بن ابی اسحاق: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’صدوق‘ )تقریب التھذیب، 2 ص 348 ( جبکہ ذھبی نے بھی کہا ’صدوق‘ )الکاشف، ج 2 ص 348 (۔
9 ۔ ) ابی اسحاق الشعبی: ابن حجر العسقلانی نے کہا ’ثقہ‘ )تقریب التھذیب، 1 ص 739 جبکہ ذھبی نے کہا ’ثقہ حجت‘ )سیر اعلام النبلاء، ج 5 ص 394 (۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ دانستہ ہے کہ غیردانستہ لیکن تاریخ ابن عساکر کی جس کاپی پر ہم نے انحصار کیا ہے اس کی سند میں دو روایوں کے نام آپس میں مل گئے ہیں یعنی ‘الحسن بن محمد بن سعد’ جبکہ دراصل یہ دو مختلف لوگ ہیں یعنی الحسن بن محمد اور پھر محد بن سعد جو کہ اہل سنت کے امام اور مشہور کتاب ‘الطبقات الکبیر’ کے مصنف بھی ہیں۔
امام ذھبی نے کتاب ‘سیراعلام النبلاء’ ج 3 ص 263 جبکہ امام جمال الدین المزی نے اپنی کتاب ‘تھذیب الکمال’ ج 6 ص 246 ترجمہ نمبر 1248 میں یہی روایت محمد بن سعد سے مختلف طریق سے نقل کی ہیں۔
تحریف کیس :
ان تینوں علماء ابن عساکر، الذھبی اور جمال الدین مزی اور ان کی اسناد کا ذکر اس لیے ہے کہ ان تینوں نے یہ روایات اپنے سے پہلے آنے والے مشہور عالم امام محمد بن سعد سے نقل کی ہیں لیکن آج چھپنے والی محمد بن سعد کی کتاب ‘الطبقات الکبیر’ میں ہمیں یہ روایات نظر نہیں آتی ہیں اور تعصب میں مبتلا لوگوں نے ان علماء کی کتب میں منمانی تحریف شروع کر رکھی ہے اور یہ سنت بنی اسرائیل میں مبتلا ہیں کہ جب انہوں نے اپنی کتابوں سے اُن تمام چیزوں کی تحریف کر دی جو ان کی خواہشات اور خود ساختہ عقائد کے خلاف تھیں۔
صلح الحسن کی شرائط اسی طرح اور علماء نے بھی لکھی ہیں جیسے شیخ زین الدین عمر بن الوردی نے تاریخ ابن الوردی، ج 1 ص 201 اور علامہ صلاح الدین خلیل نے الوافی بالوافیات، ج 12 ص 68 میں۔


معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا


ثبوت نمبر: 9 


 علامہ اسماعیل بن ابو الفدا نقل کرتے ہیں :
 وكان معاویة وعماله یدعون لعثمان في الخطبة یوم الجمعة ویسبون علیاً ویقعون فیه
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔
تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120
سلفی / وہابی / اہل حدیث حضرات کے ٹاپ کے امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتے ہیں :
 وقد كان من شیعة عثمان من یسب علیا ویجھر بذلك على المنابر
عثمان کے شیعہ ]طرفدار[ کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی کو گالیاں دیتے تھے۔


ثبوت نمبر 10 : مروان بن حکم کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا


مروان بن الحکم نے معاویہ کے حکم سے عید کی نماز میں بدعت جاری کر کے خطبے میں علی بن ابی طالب کو برا کہنا شروع کر دیا۔
صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو

186 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَیْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، كِلاَھُمَا عَنْ قَیْسِ بْنِ مُ سْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، – وَھَذَا حَدِیثُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ یَوْمَ الْعِیدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ فَقَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ – فَقَالَ الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ . فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا ھُنَالِكَ . فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ أَمَّا ھَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَیْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللََِّّ صلى اللَّ علیه وسلم یَقُولُ ” مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ ” .
طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہ مروان بن الحکم تها جس نے سب سے پہلے خطبے کو عید کی نماز پر مقدم کرنے کی بدعت جاری کی۔ ایک آدمی کهڑا ہوا اور کہنے لگا: ‘نماز خطبے سے پہلے ہونی چاہیے’۔ اس پر مروان نے کہا: ‘یہ چیز ترک ہو چکی ہے’۔ اس پر ابو سعید نے فرمایا: ‘اس شخص [مروان] نے وہی کچه کیا ہے جو فرض اس کے ذمے لگایا گیا تها۔۔۔۔
صحیح مسلم، کتاب الایمان

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

نوٹ: اس وقت معاویہ ابن ابی سفیان خلیفہ تھا اور اُس نے مروان بن الحکم کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور یہ مکروہ بدعت و ضلالت معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے مروان نے شروع کی تھی۔
ہم صحیح بخاری میں پڑھتے ہیں : ابو سعید خدری کہتے ہیں : ۔۔۔۔ جب عید کی نماز کا وقت ہوا تو مروان نے چاہا کہ وہ منبر پر چڑھ کر نماز سے قبل خطبہ دے۔ اس پر میں نے اُسے کپڑوں سے پکڑ لیا، لیکن اُس نے اپنے کپڑے جھٹکے سے چھڑا لیے اور منبر پر چڑھ کر اس نے خطبہ دیا۔ میں نے مروان سے کہا: ‘اللہ کی قسم تم نے رسول (ص) کی سنت تبدیل کر دی ہے’۔ اس پر مروان نے جواب دیا: ‘وہ دن گئے جن کا تم ذکر کر رہے ہو’۔ اس پر میں نے کہا کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ اس پر مروان نے جواب دیا: ‘لوگ عید کی نماز کے بعد خطبہ سننے کے لیے نہیں بیٹھتے لہذا میں خطبہ عید کی نماز سے پہلے ادا کر لیتا ہوں’۔ صحیح بخاری(انگریزی)، کتاب 15 ، حدیث76

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا


معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی کہ صحابہ و تابعین عید کی نماز کے بعد خطبے کے لیے نہیں بیٹھتے تھے؟ کیا وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت بھول گئے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ و تابعین اس لیے مروان کے خطبے میں نہیں بیٹھتے تھے کیونکہ خطبے میں علی ابن ابی طالب اور اہلبیت علیہم السلام پر سب و شتم کیا جاتا تھا۔
دیوبند کے امام محمد انور شاہ کشمیری صحیح بخاری کی شرح ‘فیض الباری شرح صحیح بخاری’ میں لکھتے ہیں :

 ثم إن من السُّنة تقدیمَ الصلاةِ على الخُطبة. وإنما قَدَّمھا مراونُ على الصلاةِ لأنه كان یَسُبُّ علیًا رضي اللہ عنه
سنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، لیکن مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی (رض) کو برا بھلا کہتے تھے۔
فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 722 ، روایت: 954 ، کتاب العیدین
امام شافعی اپنی کتاب ’الام‘ ج ا ص 392 میں لکھتے ہیں : امام شافعی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن یزید الخطمی کا قول ہے کہ رسول اللہ (ص)، ابو بکر، عمر اور عثمان خطبہ سے قبل نماز ادا کرتے تھے حتی کہ معاویہ آئے اور انہوں نے خطبہ کو نماز سے قبل کردیا
ابن کثیر کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں : 
ومروان كان أكبر الأسباب في حصار عثمان لأنه زور على لسانه كتاباً إلى مصر بقتل أولئك الوفد، ولما كان متولیاً على المدینة لمعاویة كان یسب علیاً كل جمعة على المنبر . وقال له الحسن بن علي : لقد لعن اللہ أباك الحكم وأنت في صلبه على لسان نبیه فقال : لعن اللہ الحكم وما ولد واللہ أعلم .
جب مروان مدینے کا گورنر تھا تو وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعے کی نماز کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر مبارک پر چڑھ کر سب (برا کہنا، گالیاں دینا)کیا کرتا تھا۔
البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 285
حافظ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء، صفحہ 199 پر اسی چیز کا ذکر عمیر ابن اسحق سے کیا ہے کہ : عمیر ابن اسحق سے مروی ہے کہ مروان ہم پر امیر تھا اور وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعہ کی نماز کے بعد منبر رسول (ص) سے سب کرتا تھا جبکہ حسن اسے سن رہے ہوتے تھے لیکن کوئی جواب نہ دیتے تھے۔ اور امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں : مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابی طالب پر سب کیا کرتا تھا . اور مروان کی اس سنت کو اسکے خاندان والوں نے جاری رکھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں 
 6382 حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ، حَ دَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ، یَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ – – سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِینَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ فَدَعَا سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَہُ – – أَنْ یَشْتِمَ عَلِیًّا قَالَ فَأَبَى سَھْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَیْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللہَُّ أَبَا التُّرَابِ . فَقَالَ سَھْلٌ مَا كَانَ – – لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَیَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِھَا . فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم بَیْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ یَجِدْ عَلِیًّا فِي الْبَیْتِ فَقَالَ ” أَیْنَ ابْنُ عَمِّكِ ” . فَقَالَتْ كَانَ بَیْنِي وَبَیْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ یَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم لإِنْسَانٍ ” انْظُرْ أَیْنَ ھُوَ ” . فَجَاءَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللہَِّ ھُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ . فَجَاءَہُ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم وَھُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُہُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَا بَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہَِّ صلى اللہ علیه وسلم یَمْسَحُهُ عَنْهُ وَیَقُولُ ” قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ”
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَہ أَنْ یَشْتِمَ عَلِیًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر وہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
علامہ ابن حجر مکی الھیثمی نے اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب ‘السوائق المحرقہ’ میں یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں : بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔ اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔ پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ حضرت حسن کو اس بات کا علم تھا لیکن آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت ہی داخل ہوتے تھے لیکن مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان لفویات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ ‘تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔’ حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ کم نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے یہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان (ص) کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔ ایلچی نکلا تو جناب حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بھی اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ: ‘اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا سروکار، تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ (ص) نے لعنت کی ہے’۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری: ‘جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔’۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: ‘تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ )ص( نے تیرے والد پر لعنت کی تھی’۔
نوٹ: مروان کی بدزبانی کا یہ پورا واقعہ علاوہ دیگر مورخین کے امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بھی نقل کیا ہے اور متعدد دوسرے علماء نے اس کو بیان کا ہے۔

سوال: مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابہ علی ابن ابی طالب، حسن و حسین کو گالیاں دیتا تھا؟

معاویہ و بنی امیہ کے حامی نواصب اب یہ بتائیں کہ کیا علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حسن و حسین علیہم السلام صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدة نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم )لعین ابن لعین( اس طرح گالیاں دے؟
آپ کو ان نواصب کا مکروہ چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھئے مولانا ظفر احمد عثمانی کی کتاب ‘برات عثمان’ صفحہ 44 42 )مکتبہ صدیقیہ، اٹک، پاکتسان( جو کہ سپاہ صحابہ - کی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے ،جس میں یہ مروان بن حکم کو کافر کہنے کے بجائے ‘رضی اللہ عنہ’ اور ‘فقیہ مدینہ’ کہہ رہے ہیں اور اس سے مروی روایات انکی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔ تو بجائے مروان کو کافر بنانے کے انہوں نے اسے نہ صرف ‘رضی اللہ عنہ’ بنا لیا بلکہ اپنا خلیفہ اور ‘امیر المومنین’ بنا دیا۔ یہاں قارئین کی معلومات کے لئے سوال ہے کہ کیا آپ کو علم ہے کہ صحابی طلحہ کو کس نے قتل کیا تھا؟ آپ کو حیرت ہو گی کہ طلحہ کو تیر مار کر ہلاک کرنے والا کوئی اور شخص نہیں بلکہ یہی مروان بن حکم ہے ۔ یقین نہیں آتا ہے کہ پھر بھی یہ لوگ اسے ‘امیر المومنین’ بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ اللہ کی ان پر لعنت ہے جو یہ اپنے ہی کبار صحابہ کے قاتلوں کو ‘رضی اللہ عنہ’ اور اپنا خلیفہ و امیر المومنین بنائے بیٹھے ہیں۔ اہل سنت کی معتبر کتب میں یحیی ابن سعید سے روایت ہے : جب طلحہ نے میدان جنگ سے پسپا ہونا شروع کیا تو اس وقت طلحہ کے لشکر کی صفوں میں مروان بن حکم بھی موجود تھا۔ مروان بن حکم اور بنی امیہ، طلحہ کو عثمان کا قاتل سمجھتے تھے۔ مروان نے طلحہ پر ایک تیر کھینچ کر چلایا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے ابان )جو عثمان کا بیٹا تھا( سے کہا: ‘میں نے تمہیں تمہارے باپ کے ایک قاتل سے نجات دلا دی ہے۔’ طلحہ کو بصرہ میں ایک اجڑے ہوۓ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔
سنی حوالے :
 1. طبقات ابن سعد، ج 3، ص 159
2. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج 3، ص 532
3. تاریخ ابن اثیر، ج 3، ص 244
4. اسد الغابہ، ج 3، ص 87
5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج 2،ص 766

ثبوت نمبر 11 : مغیرہ بن شعبہ کا علی ابن ابنی طالب پر سب و شتم


مغیرہ بن شعبہ، جو معاویہ ابن ابی سفیان کا ایک اور گورنر تھا، وہ بھی علی ابن ابی طالب کو معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے گالیاں دیا کرتا تھا اور لعنت بھیجتا تھا۔
تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 234 : معاویہ ابن ابی سفیان نے مغیرہ کو بطور گورنر نامزد کیا اور کہا: ‘میں نے تمہاری نامزدگی اپنی عقل کے مطابق کی ہے، تو اب تم مجھے ان شرائط پر بیعت دو کہ تم اس روایت کو جاری رکھو گے کہ تم علی کی بے عزتی اور لعن کرو گے اور حضرت عثمان کی تعریف کرو گے’۔ مغیرہ کچھ عرصے کوفہ کا گورنر رہا اور اس دوران وہ علی ابن ابی طالب کی بدگوئی کرتا تھا اور ان پر لعنت کرتا تھا۔ اور

 ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد 8، صفحہ 50 پر لکھتے ہیں :
 قال : قال سلمان لحجر : یا ابن أم حجر لو تقطعت أعضاؤك ما بلغت الإیمان، وكان إذ كان المغیرة بن شعبة على الكوفة إذا ذكر علیاً في خطبته یتنقصه بعد مدح عثمان وشیعته فیغضب حجر ھذا ویظھر الإنكار علیه .
جب مغیرہ بن شعبہ کوفہ کا والی تھا تو وہ خطبے میں عثمان اور انکے ساتھیوں کی مدح کے بعد علی ابن ابی طالب کی تنقیض کرتا تھا۔ اس پر حضرت حجر غضب ناک ہو کر احتجاج کرتے تھے۔
البدایہ و النہایہ جلد 8، صفحہ 50
مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485 ، اول مسند الکوفین، حدیث زید بن ارقم : حدثنا محمد بن بشر حدثنا مسعر عن الحجاج مولى بني ثعلبة عن قطبة بن مالك عم زیاد بن علاقة قال نال المغیرة بن شعبة من علي فقال زید بن أرقم قد علمت أن رسول اللہ صلى اللہ علیه وسلم كان ینھى عن سب الموتى فلم تسب علیا وقد مات 
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن الشعبہ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیں تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: ‘تمہیں علم ہے کہ رسول )ص( نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟’۔
مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485
یہ صحیح روایت ہے اور اسے حاکم اور پھر الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور شیخ شعیب الارنؤوط نے مسند احمد کے حاشیہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔حتی کہ شیخ البانی نے بھی اسے ‘سلسلہ احادیث صحیحیہ’ ج 5 ص 520 حدیث 2397 میں صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح روایت ہے۔


ثبوت نمبر 12 : بسر بن ارطات کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم


امام ابن جریر طبری علی ابن محمد سے نقل کرتے ہیں : بسر بن ارطات نے بصرہ کے منبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: ‘میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے’۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا کہ بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔ اس پر بسر بن ارطات نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔ اور یہی واقعہ امام ابن اثیر نے تاریخ الکامل جسے تاریخ ابن اثیر کہا جاتا ہے میں یوں نقل کیا ہے :
 وكان السبب في ذلك أن الحسن لما صالح معاویة أول سنة إحدى وأربعین وثب حمران بن أبان على البصرة فأخذھا وغلب علیھا، فبعث إلیه معاویة بسر ابن أبي أرطأة وأمرہ بقتل بني زیاد بن أبیه، وكان زیاد على فارس قد أرسله إلیھا علي بن أبي طالب، فلما قدم بسر البصرة خطب على منبرھا وشتم علیا ثم قال: نشدت اللہ رجلا یعلم أني صادق إلا صدقني أو كاذب إلا كذبني. فقال أبو بكرة: اللھم إنا لا نعلمك إلا كاذبا. قال: فأمر به فخنق \.
جب حضرت حسن نے سن 41 میں معاویہ ابن ابی سفیان سے صلح کی تو حمران ابن ابان نے بصرہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے بسر بن ارطات کو وہاں روانہ کیا اور حکم دیا کہ زید بن ابیہ اور اس کی اولاد کو قتل کر دے اور زیاد اس وقت فارس میں تھا کیونکہ علی ابن ابی طالب نے انکو وہاں روانہ کیا تھا۔ بسر بن ارطات نے بصرہ کے منبر پر کھڑے ہو کر علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔ پھر اُس نے کہا: ‘میں خدا کے نام پر پوچھتا ہوں کہ جو جانتا ہے کہ میں سچا ہوں وہ اسکی گواہی دے اور اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو وہ بھی اسکی گواہی دے۔ اس پر ابو بکرہ نے کہا بخدا ہم سب جانتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو’۔ اس پر بسر بن ارطات نے حکم دیا کہ ابو بکرہ کو قتل کر دیا جائے۔
تاریخ الکامل، ج 2 ص 111


ثبوت نمبر 13 : زیاد اور کثیر ابن شہاب کا علی ابن ابی طالب پر سب و شتم


امام ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں : پھر معاویہ کا قاصد زیاد کے پاس یہ حکم لے کر پہنچا کہ ان میں سے چھ افراد کو چھوڑ دیا جائے اور آٹھ کو یہ بتاتے ہوئے قتل کر دیا جائے کہ ہمیں حکم ہے کہ تمہارے سامنے علی سے بیزاری اختیار کرنے اور اُن پر لعن کرنے کی شرط رکھی جائے۔ اگر تم اسے قبول کر لو تو ہم تمہیں رہا کر دیں گے اور اگر تم انکار کرتے ہو تو پھر ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ اور کثیر ابن شہاب بھی شہر الری میں منبر سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتا تھا۔ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل میں نقل کرتے ہیں :
 ولما ولی المغیرة الکوفۃ استعمل کثیر بن شھاب علی الری، و کان بکثر سب علی علی منبر الری و بقی علیھا الی ان ولی زیاد الکوفہ فاقرہ علیہا۔۔۔۔۔
یعنی جب مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر بنایا گیا تو کثیر بن شہاب کو شہر الری کا ولی مقرر کیا گیا۔ اور یہ کثیر ابن شہاب علی ابن ابی طالب کو شہر الری کے مسجد کے منبر سے گالیاں دیتا تھا ۔۔۔ اور زیاد جب بصرہ آیا تو وہ منبر پر کھڑا ہوا اور اس نے خطبہ دیا جس میں علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کہا۔


ثبوت نمبر 14 : علماء اہل سنت کی گواہیاں


اب تک ہم نے تاریخ و حدیث کی کتابوں سے حقائق نقل کئے۔ اب پیش خدمت ہیں علماء اہل سنت کی گواہیآں جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ معاویہ و دیگر بنی امیہ کے حکم پر علی بن ابی طالب اور ان کے دیگر گھر والوں کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ 

شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب تاریخ مذاہب اسلامی سے اقتباس


‘ تاریخ مذاہب الاسلام ‘ مشہور محقق شیخ ابو زہرہ مصری کی کتاب ہے جسکا اردو ترجمہ ‘تاریخ مذاہب اسلامی’ کی نام سے ہو چکا ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے : اموی دور حکومت میں حضرت علی کے اعزاز و احترام میں مزید اضافہ کا موجب ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد خلافت میں ایک بدترین سنت کو ایجاد کیا جو ان کے بیٹے اور ان کے بعد آنے والے خلفاء میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ علیہ کے زمانہ تک جاری رہی۔ وہ سنت قبیحہ یہ تھی کہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت علی پر لعنت بھیجی جاتی تھی جو صحابہ اُس وقت بقید حیات تھے انہوں نے
اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور حضرت معاویہ اور اموی خلفاء کو اس سے منع کیا۔ ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر مشتمل ایک خط لکھا : ‘جب تم منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ و رسول کو ملعون قرار دیتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی کو چاہتے تھے’۔


مصری عالم دین احمد زکی صفوت کی تحقیق


 سب علی پر احمد زکی صفوت مصر کے مشہور عالم دین ہیں جن کی کتاب کا اردو ترجمہ عبدالصمد 55 پر ہم – الاظہری نے کتاب ‘عمر ابن عبدالعزیز’ کے نام سے کیا ہے۔ اس کے ص 54 پڑھتے ہیں : حضرت علی پر تبرا بازی جناب عمر [ابن عبدالعزیز] نے منبروں پر حضرت علی پر تبرا کہنا ممنوع قرار دیا، امیر معاویہ کی خلافت کے بعد سے تبرا ہوتا چلا آ رہا تھا۔ مورخین نے بیان کیا ہے کہ امیر معاویہ نے سن 41 ہجری میں اپنے گورنروں کو لکھا کہ میں اس شخص سے بری الذمہ ہوں جس نے علی یا ان کے گھرانے کے بارے میں کسی قسم کے فضائل بیان کیے۔ لہذا ہر گاوں اور ہر منبر پر خطیب حضرت علی کو لعن طعن کرنے لگے، ان سے برات کا اظہار کرنے لگے اور انکے اور انکے گھرانے کے  بارے میں زبان درازی کرنے لگے۔
امیر معاویہ نے تمام اطراف مملکت میں لکھ بھیجا تھا کہ شیعان علی میں سے اور انکے خاندانوں میں سے کسی شخص کی گواہی کو نہ مانا جائے۔ پھر اسکے بعد ایک اور چٹھی میں لکھا:”دیکھو جس کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ علی اور انکے اہلبیت سے محبت کرتا ہے اسکا نام دفتر سے خارج کر دو اور اسکا وظیفہ بند کر دو، ایک دوسری چٹھی میں لکھا جس کسی کو ان لوگوں کا دوست پاو اسکو سخت سزائیں دو اور اسکا گھر ڈھا دو۔
حضرت امیر معاویہ حج کے لیے گئے تو مدینہ بھی گئے۔ انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ کے منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی کے بارے میں اپنی اختلافی رائے بیان کریں تو اُن سے لوگوں نے کہا، یہاں سعدب بن ابی وقاص ہیں، وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکیں گے، پہلے انکے پاس کسی کو بھیج کر انکی رائے دریافت کیجئے۔ معاویہ نے انکے پاس قاصد بھیجا اور اس امر کا تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے فرمایا، اگر آپ نے ایسا کیا تو میں مسجد سے نکل جائوں گا اور دوبارہ مسجد میں قدم نہیں رکھوں گا۔ لہذا معاویہ اس سے باز رہے حتی کہ سن 55 ہجری میں سعد بن ابی وقاص کا انتقال ہو گیا۔ جب انکا انتقال ہو گیا تو معاویہ نے حضرت علی کی منبر ]رسول[ پر چڑھ کے مذمت کی اور اپنے تمام عمال کو لکھا کہ وہ منبروں پر انکی مذمت کریں۔ چنانچہ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت ام سلمہ نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ تم اللہ اور رسول کو منبروں پر لعن طعن کرتے ہو کیونکہ تم علی ابن ابی طالب اور انکے دوستوں پر طعن کرتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کا رسول ان سے محبت کرتا تھا۔ امیر معاویہ نے انکی بات کی طرف کچھ بھی دھیان نہ دیا۔


علامہ عبد العزیز سید الاھل سنت


انہوں نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز پر ایک کتاب ‘خلیفہ الزاہد’ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا راغب رحمانی نے کیا ہے اور نفیس اکیڈمی کراچی نے اس کو شائع کیا ہے جس کے صفحہ 249 پر ہم پڑھتے ہیں : بدعت معاویہ : اسلامی شہروں میں قابل افسوس و رسوا کن اور حیا سوز ایک بدعت سرایت کر رہی تھی۔ جس نے شہروں کی ناک کاٹ کر رکھ دی تھی۔ پھر یہ بدعت بڑھتے بڑھتے تمام منبروں پر چھا گئی تھی۔ اور تمام کانوں میں بھِی گونجنے لگی تھی۔ اور مسجد نبوی میں بھی گھس گئی تھی۔ اور آپ ]صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم[ کے منبر پر بھی چڑھ گئی تھی۔ اوران کا اپنے حکام کو حکم تھا کہ اس بدعت کو جمہ کے خطبوں میں منبروں پر دہرایا جائے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ جب یہ بات لگاتار لوگوں کے کان کھٹکاتی رہے گی اور ان لوگوں کے دلوں میں ٹھونسی جاتی رہے گی تو لوگ ضرور اس سے متاثر ہوں گے اور ان کے دل ہماری طرف جھک جائیں گے۔


امام عبدالرحمان العمرو الاوزاعی


جو لوگ اسلامی تاریخ کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں وہ جانتے ہونگے کہ امام اوزاعی )متوفی 157 ھ( کا مقام مذہب اہل سنت میں کیا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کا شمار امام ابوحنیفہ جیسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ امام ذہبی اپنی کتاب ‘سیر اعلام النبلاء’ ج 7 ص 130 میں امام زاعی کی گواہی درج کی ہے کہ 

 سمعت الأوزاعي یقول :  ما أخذنا العطاء حتى شھدنا على علي بالنفاق وتبرأنا منه  
صدقہ بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے الاوزاعی کو کہتے سنا: ‘ہمیں تحفے تحائف اس وقت تک نہ ملتے جب تک ہم علی کو منافق نہ کہتے اور ان پر تبراء نہ کرتے ’ یہ حال تھا بنی امیہ کے حکمرانوں کا کہ علی بن ابی طالب پر لعن طعن ایک سرکاری فعل بنا دیا گیا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت کے مندرجہ بالا امام موصوف بحالت تقیہ صحابی رسول اور خلیفہ راشد علی بن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے یا پھر وہ بھی بے غیرتوں کے ساتھ بیغیرت بن گئے تھے۔ تحفے حاصل کرنے کا ذکر کرکے انہوں نے دوسرے امکان کو روشن کردیا ہے۔ اور سنی امام اگر علی بن ابی طالب کو گالیاں دے تو پھر بھی امام لیکن اگر شیعہ اس شخص کو لعنت کریں جس نے اہل سنت کے چہتے خلیفہ راشد کو گالیاں دیں یعنی معاویہ، تو شیعہ کافر۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سپاہ صحابہ کے نواصب کی خون میں شرافت کا کتنا عنصر ہے۔


امام محمد بن عبدالہادی السندی


امام محمد بن عبدالہادی السندی )متوفی 1138 ھ( نے سنن ابن ماجہ کی شرح تحریر کی ہے۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں :
 نال معاویة من علي ووقع فیه وسبه بل أمر سعدا بالسب كما قیل في مسلم والترمذي
معاویہ نے علی کی بےعزتی کی اور گالیاں دیں بلکہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا کہ وہ علی کو گالیاں دیں، جیسا کہ مسلم اور ترمذی میں درج ہے . 


شیخ حسن سقاف


آج کے دور کے سنی عالم دین شیخ حسن سقاف اپنی کتاب ‘مسالہ الرویہ’ ص 11 میں تحریر کرتے ہیں :
 دولة تتبنى وتعتنق لعن سیدنا علي وشتمه وذمه
اموی حکومت نے سیدنا علی پر لعنت کرنا اور ان کو گالیاں دینا اور بےعزتی کرنا منظور کیا . اسی جملہ کے حاشیہ میں وہ لکھتے ہیں : 
ویكابر بعض الجھلة المتعصبین وینكر ذلك مع كونه ثابتا عن معاویة
بعض جاہل اور متعصب لوگ اس بات کے انکاری ہیں حالانکہ معاویہ کے متعلق یہ ثابت ہے .


مولانا مفتی محمد عبدالحئی لکھنوی


شائد ہی کوئی اہل سنت خاص طور پر حنفی ہو جو مفتی محمد عبدالحئی لکھنوی کے نام سے واقف نہ ہو۔ برصغیر پاک و ھند میں حنفی مسلک میں یہ ایک نمایاں نام رہا ہے۔ ان کی کتاب ‘نفع المفتی واسائل مجمع متفرقات المسائل’ جسکا اردو ترجمہ مولانا محمد علی لطفی نے کیا ہے، اس کے صفحہ 280 میں ہم پڑھتے ہیں : سوال 268 : دوسرے خطبہ میں عام طور پر مروج ہے کہ خطبا کلام اللی کی آیت ’ان اللہ بامرکم بالعدل والاحسان‘ کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی اصل کیا ہے؟
جواب: بنی امیہ کی سلاطین دوسرے خطبے میں خلیفہ چہارم پر تعن و تشنیع کرتے تھے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے، وہ ایک دیندار، عابد، زاہد اور متقی امیر تھے، تو انہوں نے اس مروج طریقہ تعن کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ دوسرے خطبہ میں اس آیت کا پڑھنا مقرر فرمایا۔
المفتی واسائل مجمع متفرقات المسائل، ص 280


امام ابن حزم


امام الحافظ ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’جوامع السیرہ‘ میں لکھتے ہیں : اس کے بعد خلافت بنی عباس کو منتقل ہوئی۔۔۔لیکن پھر وہ بھی پہلے کی طرح بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ البتہ اس مرتبہ انہوں نے کسی صحابی پر ’سب‘ نہ کیا برعکس بنی امویہ کے کہ جنہوں نے ان لوگوں کی حمایت کی جو علی بن ابی طالب )رض(، ان پر اور زاہرہ کے پاک فرزندوں پر لعنت کرتے تھے۔
جوامع السیرہ


مختلف ادوار کے اکابر وعلمائے دیوبند


دنیا میں بلعموم اور برصغیر میں بالخصوص، کون ایسا شخص ہوگا جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے واقف نہ ہو۔ وہ دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی مشہور ترین کتاب ‘خلافت و ملوکیت’ میں وہ فرماتے ہیں : ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے دور میں شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسر منبر حضرت علی )رض( پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے حتیٰ کہ مسجد نبوی میں منبر رسول پر عین روضہ نبی کے سامنے حضور )ص( کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتیں تھیں اور حضرت علی کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے گالیاں سنتے تھے۔
الطبری، ج 4 ص 188
ابن الاثیر، ج 3 ص 234 ، ج 4 ص 154
البدایہ، ج 8 ص 259 ، ج 9 ص 80
خلافت و ملوکیت، ص 174 (ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

مودودی کے ان کلمات پر ناصبی انتہا پسند طبقوں میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور انہیں  گوارا نہ تھا کہ کبھی تاریخی حقائق ملت اسلامی کے سامنے پیش ہوں۔ حالانکہ مولانا مودودی نے اپنی ذاتی رائے پیش نہیں کی بلکہ اہل سنت کی معتبر تاریخ کی کتابوں کا حوالہ کو بنیاد بنایا ہے۔ پھر بھی خلافت و ملوکیت کے جواب میں ایسے نواصب کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں دیوبند مذہب کے مفتی اعلیٰ مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب سب سے زیادہ مشہور ہوئی کیونکہ انہوں نے بہت چالاکی سے مواد کو یوں پیش کیا کہ جس سے تاریخی حقائق مٹنے لگے۔
 اس لیے جواب میں جماعت اسلامی کے ریٹائرڈ جسٹس ملک غلام علی صاحب کو جواب دے کر تاریخی حقائق پھر سے واضح کرنے پڑے اور انہی جوابات کو بعد میں کتابی شکل میں پیش کیا گیا اور اس کا نام ‘خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ’ رکھا گیا۔ اسی طرح مولانا مودودی کے دفاع میں ایک کتاب ‘ خلافت و ملوکیت اور علمائے اہل سنت ‘جناب ابو خالد محمد اسلم نے بھی تحریر کی ۔ اس میں وہ نامور اکابرین دیوبند کے بیانات نقل کرتے ہیں :
 شاہ اسماعیل شہید )رح(۔
مولانا اشرف علی تھانوی )رح(۔
مولانا اشرف علی تھانوی، حکایات الاولیاء میں شاہ اسماعیل شہید )رح( کے لکھنؤ میں کئے گئے ایک وعظ کیا ذکر کرتے ہیں جس میں ان کا ایک مکالمہ ایک شیعہ سبحان خان سے ہوا : “ شاہ شہید )رح( نے سبحان خان سے پوچھا : “کیا حضرت علی کے دربار میں حضرت معاویہ پر تبرا ہوتا تھا؟ اُس نے کہا” نہیں، حضرت علی کا دربار ہجوگوئی سے پاک تھا”۔ پھر پوچھا کے حضرت معاویہ کے یہاں حضرت علی پر تبرا ہوتا تھا؟ کہا کہ بیشک ہوتا تھا۔ اس پر مولانا شہید نے فرمایا ، اہل سنت الحمداللہ حضرت علی کے مقلد ہیں اور روافض حضرت معاویہ کے”۔ (حکایات الاولیاء، ص 164 )
اس مکالمہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شاہ اسماعیل شہید (رح) اور مولانا اشرف علی تھانوی اس امر واقعہ سے متفق ہیں کہ حضرت معاویہ کے دربار میں حضرت علی )رض(کے خلاف تبرا بازی ہوتی تھی۔ اب اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کا ثبوت دے اور سب علی )رض( کا امر واقعہ کا سرے سے انکار کردے اور اس سلسلے میں وارد روایات ، اقوال اور تحریروں کو خرافات اور بکواس قرار دینے سے بھی اجتناب نہ کرے تو اس کا علاج “جواب جاہلاں باشد خاموشی” کے سوا کیا ہوسکتا ہے لیکن اسے نوٹ کرلینا چاہئے کہ اس بدزبانی اور گالیوں کی زد میں کون کون سے بزرگ ہستیاں آرہی ہیں۔


قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی


قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی تاریخ ملت میں لکھتے ہیں : “ عمر بن عبد العزیز کی اصلاحات کے سلسلے میں سب سے بڑی اصلاح جو ان کے نامہ اعمال میں سنہری حروف سے ثبت ہے ، حضرت علی(رض) کی شان میں بدگوئی کا انسداد ہے۔ عرصہ سے یہ دستور چلا آرہا تھا کہ خلفا ء بنی امیہ اور ان کے عُمال خطبوں میں حضرت علی )رض(پر لعن طعن کیا کرتے تھے۔ ۔۔مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے عمال کے نام حکم جاری فرمایا کہ خطبوں سے حضرت علی(رض) پر لعن طعن کو خارج کردیا جائے اور اس کی بجائے یہ آیت کریمہ پڑھی جائے۔۔۔” (تاریخ ملت، حصہ سوم ، ص 264 )


مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی


مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ” تاریخ الاسلام” میں تحریر فرماتے ہیں : 
یک متش و بس رپ (ضر)یلع ترضح ربنمِ رس رب ںیم ےنامز ےنپا ےن ہیواعم ریما 
مزموم رسم جاری کی تھی۔ اور ان کے تمام عُمال اس رسم کو ادا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مزموم بدعت سے نہ بچ سکے۔
( تاریخ الاسلام، حصہ اول و دوم ، ص 13 اور 14 )
 عباسی و بخاری صاحبان فرمائیں کہ گزشتہ صفحات میں جن اکابر علماء کی آراء سب علی)رض( کے سلسلہ میں پیش ہوئی ہیں وہ علمائے اہل سنت ہیں یا کہ نہیں ؟ اگر یہ سب حضرات مسلمہ علمائے اہل سنت ہیں تو ان کے خلاف رائے رکھنے والے کو کیا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل سنت میں شمار کرے۔ اس کے لئے مناسب راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے طبعی رجحان کے مطابق یزیدیت اور ناصبیت کا علم سنبھال لے اور لوگوں کو اپنی جدت فکر سے محظوظ کرے۔ خلافت و ملوکیت اور علمائے اہل سنت، ص 122 120 (مکتبہ اہل سنت، گجرانوالہ)
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا

معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا


Download Post

تبصرے

نام

ابن ابی حدید,2,ابنِ تیمیہ,8,ابن جریر طبری شیعہ,1,ابن حجر مکی,2,ابن خلدون,1,ابن ملجم لعین,1,ابو یوسف,1,ابوسفیان,1,ابومخنف,1,اجماع,2,احمد بن محمد عبدربہ,1,اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی,7,افطاری کا وقت,1,اللہ,4,ام المومنین ام سلمہ سلام علیھا,2,امام ابن جوزی,1,امام ابو زید المروزی,1,امام ابوجعفر الوارق الطحاوی,2,امام ابوحنیفہ,17,امام احمد بن حنبل,1,امام الزھبی,2,امام بخاری,1,امام جعفر صادق علیہ السلام,3,امام حسن علیہ السلام,11,امام حسین علیہ السلام,21,امام شافعی,5,امام علی رضا علیہ السلام,1,امام غزالی,3,امام مالک,3,امام محمد,1,امام مہدی عج,5,امامت,4,امداد اللہ مکی,1,اہل بیت علیھم السلام,2,اہل حدیث,16,اہل قبلہ,1,آذان,2,آن لائن کتابوں کا مطالعہ,23,آیت تطہیر,1,بریلوی,29,بریلوی اور اولیاء اللہ کے حالات,2,بنو امیہ,3,تبرا,8,تحریف قرآن,6,تراویح,2,تقابل ادیان و مسالک,34,تقيہ,2,تکفیر,3,جنازہ رسول اللہ,1,جنگ جمل,4,جنگ صفین,1,حافظ مبشر حسین لاہوری,1,حدیث ثقلین,5,حدیث طیر,1,حدیث غدیر,7,حدیث قرطاس,1,حضرت ابن عباس رض,3,حضرت ابو طالب علیہ السلام,5,حضرت ابوبکر,20,حضرت ابوزر غفاری رض,1,حضرت ام اکلثوم سلام علیھا,2,حضرت خدیجہ سلام علھیا,1,حضرت عائشہ بنت ابوبکر,14,حضرت عثمان بن عفان,7,حضرت علی علیہ السلام,64,حضرت عمار بن یاسر رض,3,حضرت عمر بن خطاب,23,حضرت عیسیٰ علیہ السلام,4,حضرت فاطمہ سلام علیھا,16,حضرت مریم سلام علیھا,1,حضرت موسیٰ علیہ السلام,2,حفصہ بنت عمر,1,حلالہ,1,خارجی,2,خالد بن ولید,1,خلافت,10,دورود,1,دیوبند,55,رافضی,3,رجال,5,رشید احمد گنگوہی,1,روزہ,3,زبیر علی زئی,7,زنا,1,زیاد,1,زیارات قبور,1,زيارت,1,سب و شتم,2,سجدہ گاہ,3,سرور کونین حضرت محمد ﷺ,14,سلیمان بن خوجہ ابراہیم حنفی نقشبندی,1,سلیمان بن عبد الوہاب,1,سنی کتابوں سے سکین پیجز,284,سنی کتب,6,سولات / جوابات,7,سیرت معصومین علیھم السلام,2,شاعر مشرق محمد اقبال,2,شاعری کتب,2,شجرہ خبیثہ,1,شرک,8,شفاعت,1,شمر ابن ذی الجوشن لعین,2,شیخ احمد دیوبندی,3,شیخ عبدالقادرجیلانی,1,شیخ مفید رح,1,شیعہ,8,شیعہ تحریریں,8,شیعہ عقائد,1,شیعہ کتب,18,شیعہ مسلمان ہیں,5,صحابہ,18,صحابہ پر سب و شتم,1,صحیح بخاری,5,صحیح مسلم,1,ضعیف روایات,7,طلحہ,1,عبادات,3,عبدالحق محدث دہلوی,1,عبداللہ ابن سبا,1,عبدالوہاب نجدی,2,عرفان شاہ بریلوی,1,عزاداری,4,علامہ بدرالدین عینی حنفی,1,علمی تحریریں,76,علیہ السلام لگانا,1,عمامہ,1,عمر بن سعد بن ابی وقاص,1,عمران بن حطان خارجی,2,عمرو بن العاص,3,غزوہ احد,1,غم منانا,12,فتویٰ,4,فدک,3,فقہی مسائل,17,فیض عالم صدیقی ناصبی,1,قاتلان امام حسینؑ کا مذہب,6,قاتلان عثمان بن عفان,1,قادیانی,3,قادیانی مذہب کی حقیقت,32,قرآن,5,کالا علم,1,کتابوں میں تحریف,5,کلمہ,2,لفظ شیعہ,2,ماتم,3,مباہلہ,1,متعہ,4,مرزا بشیر احمد قادیانی,2,مرزا حیرت دہلوی,2,مرزا غلام احمد قادیانی,28,مرزا محمود احمد,2,مسئلہ تفضیل,3,معاویہ بن سفیان,25,مغیرہ,1,منافق,1,مولانا عامر عثمانی,1,مولانا وحید الزماں,3,ناصبی,22,ناصر الدین البانی,1,نبوت,1,نماز,5,نماز جنازہ,2,نواصب کے اعتراضات کے جواب,72,واقعہ حرا,1,وسلیہ و تبرک,2,وصی رسول اللہ,1,وضو,3,وہابی,2,یزید لعنتی,14,یوسف کنجی,1,Requests,1,
rtl
item
شیعہ اہل حق ہیں: معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا
معاویہ کا مولا علی (ع) کو گالیاں دینا علماء اہل سنت کی گواہیاں علامہ عبد العزیز سید الاھل سنت مختلف ادوار کے اکابر وعلمائے دیوبند
http://1.bp.blogspot.com/-xIbLh4X9FbQ/U4j2GZ_VRAI/AAAAAAAAB2w/uac1xZOAgHQ/s1600/samup_0000.jpg
http://1.bp.blogspot.com/-xIbLh4X9FbQ/U4j2GZ_VRAI/AAAAAAAAB2w/uac1xZOAgHQ/s72-c/samup_0000.jpg
شیعہ اہل حق ہیں
https://www.shiatiger.com/2014/05/mawiya-ka-maula-ali-ko-galiyan-dena.html
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/2014/05/mawiya-ka-maula-ali-ko-galiyan-dena.html
true
7953004830004174332
UTF-8
تمام تحریرں دیکھیں کسی تحریر میں موجود نہیں تمام دیکھیں مزید مطالعہ کریں تبصرہ لکھیں تبصرہ حذف کریں ڈیلیٹ By مرکزی صفحہ صفحات تحریریں تمام دیکھیں چند مزید تحریرں عنوان ARCHIVE تلاش کریں تمام تحریرں ایسی تحریر موجود نہیں ہے واپس مرکزی صفحہ پر جائیں Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content