شمربن ذالجوشن شیعہ یا سنی ؟
اس کم ظرف لعنتی شخص نے نواسہ ِرسول کے پاک گلے پر خنجر چلایا تھا۔ لیکن پھر ہم جب سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دیکھتے ہیں جو شمر بن ذالجوشن کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم نے چاہا کہ اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا جائے
ناصبیوں کا اعتراض:
"" جس شخص نے سیدنا حسین کو قتل کیا اس کا نام شمر بن ذالجوشن تھا اور وہ شیعہ تھا جیسا کہ سنی و شیعہ کتابوں میں لکھا ہے۔ شمر شیعہ کا حصہ تھا لیکن پھر اس نے سیدنا حسین کو چھوڑدیا اور یزید کے آدمیوں سے جا ملا۔ اس امر کا پختہ ثبوت دینے کے لئے (کہ شمر شیعہ تھا)، ہم حوالہ دیتے ہیں مستند اور مایا ناز شیعہ عالم دین قمی کا۔ قمی جو کہ مشہور کتاب 'مفاتح الجنان' کے مصنف ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
'میں کہتا ہوں کہ شمر صفین کے روز امیر المومنین کی فوج میں تھا'۔ (القمی، صفینۃ النجات، ج 4 ص 492 ) """
'میں کہتا ہوں کہ شمر صفین کے روز امیر المومنین کی فوج میں تھا'۔ (القمی، صفینۃ النجات، ج 4 ص 492 ) """
جواب نمبر 1:
37 ھجری میں ہر وہ شخص جو حضرت علی کو جائز خلیفہ تسلیم کرتا اور ان کے دشمنوں سے لڑا وہ 'شیعہ' ہی کہلایا جاتا
اگر ناصبی مصنف کا مضمون کچھ بتاتا ہے تو وہ یہ کہ ناصبیت اور عقل کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے مخالفین کا عقیدہ ہے کہ جناب عمار یاسر جیسے صحابہ شیعہ نہیں تھے۔ اگر ناصبی مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ شمر اس وجہ سے شیعہ ہوا کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھا تو کیا نواصب یہ ماننے پر راضی ہوجائنگے کہ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ دیگر لوگ جن میں عمار یاسر جیسے صحابہ شامل میں وہ بھی شیعہ تھے؟ شیعہ ہونا صرف شمر کے لئے ہی کیوں ہو عمار یاسر جیسے صحابی کے لئے کیوں نہیں؟
در ِحقیقت جنگ صفین میں دو واضح گروہ تھے۔ ایک شیعان ِعلی اور دوسرا شیعان ِعثمان اور 'اہل ِسنت' نام کا وجود نہ تھا۔ لقب 'شیعہ' اس وقت ہر اس شخص کے لئے استعمال ہوتا تھا جو کہ حضرت علی کے خلافت کے زمانے میں ان کا حامی ہو اور ایسے لوگوں میں شامل تھے تمام وہ لوگ:
1۔ جو کہ اس کو شرعی فرض سمجھتے تھے کہ مولا علی کی نصرت و حمائت کریں کیونکہ وہ رسول اللہ کے بلافصل جانشیں تھے۔ جیسا کہ اس آرٹیکل کے ابتدائی حصہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ ایسا گروہ تعداد میں نہایت کم تھا جس کو آج آپ شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ یا رافضی کہتے ہیں۔
2۔ جنہیں آج "اہلِ سنت" کہا جاتا ہے ، جو کہ حضرت علی کی حمائت اس نظریہ کے تحت کرتے تھے کہ وہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتےتھے اس لئے ان کے دشمنوں سے لڑے ۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں
1۔ جو کہ اس کو شرعی فرض سمجھتے تھے کہ مولا علی کی نصرت و حمائت کریں کیونکہ وہ رسول اللہ کے بلافصل جانشیں تھے۔ جیسا کہ اس آرٹیکل کے ابتدائی حصہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ ایسا گروہ تعداد میں نہایت کم تھا جس کو آج آپ شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ یا رافضی کہتے ہیں۔
2۔ جنہیں آج "اہلِ سنت" کہا جاتا ہے ، جو کہ حضرت علی کی حمائت اس نظریہ کے تحت کرتے تھے کہ وہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتےتھے اس لئے ان کے دشمنوں سے لڑے ۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں
سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی
تحفہ اثناء عشری (اردو) ، صفحہ 27 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی
اب چونکہ شمر کو شیعہ ثابت کرنے کا درد نواصب کے پیٹ میں جاگا ہے، اس لئے یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی نواصب پر ہی عائد ہوتی ہے کہ شمر شیعہ کے اس گروہ میں سے تھا جو کہ حضرت علی کو رسول اللہ کا بلافصل جانشین تسلیم کرتا تھا، جسے آج رافضی یا امامی شیعہ کہتے ہیں تاکہ اس گروہ میں سے جو کہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتا تھا جسے آج اہل سنت کہتے ہیں (جہاں تک ہمارا سوال ہے، ہم ثابت کردینگے کہ وہ اس دوسرے شیعہ گروہ میں سے تھا)
تبصرے