افسانہ شادی ام کلثوم بنت علی ع [ 9 زاویے مکمل ایک تحقیقی آرٹیکل ]
پہلا زاویہ : ام کلثوم کےنام سے امام علی علیہ السلام کی کوئی بیٹی نہیں تھی
شیعہ سنی میں سے ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے امیر [ع] کی زینب کے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی اور در حقیقت ام کلثوم وہی جناب زینب ہیں اور وہ افراد جنھوں نے جناب امیر کی جناب سیدہ سے 5 اولاد ذکر کی ہیں یعنی امام حسن و حسین و محسن زینب و ام کلثوم در حقیقت انھوں نے اس روایت کی مطلب کو بیان کیا جس میں کبھی زینب کا نام ہے تو کبھی ام کلثوم کا نام ہے اور اس بات کی طرف توجہ نہیں کی ہے ام کلثوم اور زینب ایک ہی ہیں اور ام کلثوم جناب زینب کی کنیت ہے چنانچہ یہ بات متعدد کتب میں ذکر ہوئی ہے ۔
شیعہ علماء کی اس نظریہ کی تائید:
رضى الدين حلى 8 صدی کے شیعہ عالم ہیں وہ امام علی علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں کہتے ہیں:
كان له ( عليه السلام ) سبعة وعشرون ذكرا وأنثى: الحسن، والحسين، وزينب الكبرى المكناة بأم كلثوم ۔۔۔۔
امام علی کی 17 اولاد تھیں حسن حسین زینب کبری کہ انکی کنیت ام کلثوم ہے ۔۔۔۔۔
الحلي، رضى الدين على بن يوسف المطهر، (متوفاي705هـ)، العدد القوية لدفع المخاوف اليومية، ص242، تحقيق: السيد مهدى الرجائى، ناشر: مكتبة آية الله المرعشى ـ قم، الطبعة الأولى، 1408 هـ.
اور آيت الله مرعشى نے شرح احقاق الحق ، فضل بن روزبهان 10 صدی کے عالم سے نقل کیا ہے
ومنهم العلامة فضل الله روزبهان الخنجي الأصفهاني المتوفى سنة 927 في " وسيلة الخادم إلى المخدوم " در شرح صلوات چهارده معصوم عليهم السلام ( ص 103 ط كتابخانه عمومى آية الله العظمى نجفى بقم ) قال:...
اور حضرت امير المؤمنين على کی 17 اولاد تھیں اور ایک دوسری روایت کے اعتبار سے 20 اولاد تھیں حسن و حسین و محسن ۔۔۔ ام کلثوم[سلام اللہ علیہم] یہ چار جناب سیدہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] سے ہیں
المرعشي النجفي، آية الله السيد شهاب الدين (متوفاي 1369ش)، شرح إحقاق الحق وإزهاق الباطل، ج 30 ص 172، ناشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي ـ قم.
باقر شريف القرشى، اس زمانے کے محقق لکھتے ہیں:
ليس لصديقة الطاهرة بنت غير السيدة زينب. و أنها تكنّا بأُمّ كلثوم. كما ذكرنا اليه بعض المحققين. و علي ايّ حال فإنّي اذهب بغير تردد اذا ان الصديقة الطاهرة الزهراء ليس عندها بنت تسمّي بأُم كلثوم.
صديقه طاهره،کی زینب کے علاوہ کوئی دختر نہیں تھی زنیب وہی ہیں جن کی کنیت ام کلثوم ہے جیسا کہ بعض محقق حضرات کی یہی رائے ہے لیکن میں بغیر کسی شک اس بات کا قائل ہوں کہ جناب سیدہ [س] کی زینب کے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی جس کا نام ام کلثوم ہو۔
القرشي، باقر شريف (معاصر)، حياة سيدة النساء فاطمة الزهرا سلام الله عليها، ص 219.
علماء اهل سنت اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں :
بعض اہل سنت کے عالم جناب سیدہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کی صرف چار اولاد یا تین اولاد بیان کرتے ہیں جس میں ام کلثوم کا نام نہیں ہے
صالحى شامى نےسبل الهدى و الرشاد میں لکھا ہے :
الثاني: في ولده - رضي الله تعالى عنهم - له من الولد الحسن والحسين ومحسن وزينب الكبرى من فاطمة - رضي الله تعالى عنهم - وله أولاد من غيرها كثيرون.
اولاد علي رضى الله عنه ،فاطمه زهرا سے ؛ حسن، حسين، محسن و زينب كبرى تھیں اور انکی مزید اولاد دوسری ازواج سے تھیں،
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 11، ص 288، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.
اسی طرح شهاب الدين قليوبى (متوفي1069هـ) نے شرح جلال الدين محلى جو منهاج الطالبين کی شرح ہے اسکے حاشیہ پر لکھا ہے علی[علیہ السلام ] کی جناب سیدہ [سلام اللہ علیہا]سے تین اولاد تھی اور یہی بات جلال الدين سيوطى سے نقل کی ہے:
وہ مزید لکھتے ہیں:
قوله: ( والاعتبار بالأب ) أي إلا في حقه (ص) فإن أولاد بنته فاطمة وهم الحسن والحسين وأولادهما من الذكور ينتسبون إليه، وهم الأشراف في عرف مصر وإن كان الشرف أصالة لقبا لكل من أهل البيت، وأما أولاد زينب بنت فاطمة، وكذا أولاد بنات الحسن والحسين وأولادهما من غيرهم، فإنهم ينتسبون إلى آبائهم وإن كان يقال للجميع أولاده (ص) وذريته.
فائدة: قال الجلال السيوطي رحمه الله لم يعقب من أولاده (ص) إلا فاطمة الزهراء فإنها ولدت من علي رضي الله عنه الحسن والحسين وزينب، وتزوجت زينب هذه بابن عمها عبد الله فولد له منها علي وعون الأكبر وعباس ومحمد وأم كلثوم، وكل ذرية فاطمة يقال لهم أولاده (ص) وذريته لكن لا ينسب إليه منهم إلا الذكور من أولاد الحسن والحسين خاصة لنصه على ذلك ا ه.
یہ بات صحیح ہے اولاد کو باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے سوائے رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کا معاملہ کو چھوڑ کر اس لئے کہ انکی بیٹی فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کی اولاد حسن وحسین[علیہا السلام] اور انکی اولادِ ذکور وہ آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہیں جسے مصر کے عرف میں اشراف کہا جاتا ہے اگرچہ شرف اصل میں اہل بیت کے ہرنفر کا لقب ہے۔
جہاں تک تعلق زینب [س ]کی اولاد کا ہےاور اسی طرح حسن وحسین[سلام اللہ علیہما] کی بیٹیوں کی اولاد کا تعلق ہے ۔۔۔ یہ سب اپنے آباء کی طرف منسوب ہیں اگر انکے لئے ذریت رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] یا اولاد رسول[صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جائے
جلال الدين سيوطى نے کہا ہے : رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کے اولاد میں سےصرف جناب فاطمہ [سلام اللہ علیہا ]سے آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نسل چلی ہے اس لئے سیدہ کی امیر المومنین علی علیہ السلام سے سے حسن حسین اور زینب اولاد تھی زینب نے اپنے چچا زاد عبد للہ بن جعفر سے شادی کی جس سے علی ، عون اکبر ۔عباس ، محمد اور ام کلثوم پیدا ہوئے ہر ذریت فاطمہ[سلام اللہ علیہا ] کو اولاد رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جاتا ہے لیکن ذریت رسول اکرم[صلی اللہ علیہ و آلہ] آپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں فقط حسن و حسین کی ذکور اولاد آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہے کیوں کہ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے اسکے بارے میں نص خاص آئی ہے.
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشية قليوبي على شرح جلال الدين المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر، بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
اور شيخ محمد خضرى اہلسنت کے مصری عالم نے اولاد فاطمہ[سلام اللہ علیہا] کی تعداد صرف 3 بتائی ہے:
زواج علي بفاطمة عليهما السلام. وفي هذه السنة تزوج علي بن أبي طالب وعمره إحدى وعشرون سنة بفاطمة بنت رسول الله، وسنها خمس عشرة سنة، وكان منها عقب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنوه: الحسن والحسين وزينب.
فاطمہ [سلام اللہ علیہا ]سے آپ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے کی نسل چلی جو حسن وحسین اور زینب[سلام اللہ علیہم اجمعین] تھے
الخضري، الشيخ محمد (متوفاي1298هـ)، نور اليقين في سيرة سيد المرسلين، ج 1، ص 111، تحقيق: أحمد محمود خطاب، ناشر: مكتبة الإيمان - المنصورة / مصر، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1999م.
----------------------------------------------------------
اس نظریہ کے صحیح ہونے پرقرائن :
اس نظریہ کے صحیح ہونے پر کافی قرائن ہیں جس میں سے بعض کیا ذکر کرتے ہیں:
1. کسی بھی صحیح السند روایت میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے :
کسی بھی صحیح السند روایت شیعہ میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے یا نام زینب آیا ہے یا نام ام کلثوم آیا ہے اسی طرح کسی بھی صحیح السند میں نہیں آیا ہے خلیفہ دوم نے جناب سیدہ کی بیٹی سے شادی کی تھی بلکہ تمام روایت یہ کہتی ہے کہ ام کلثوم کے بارے میں بتایا جو امام علی کے گھر میں تھی
فقط اس بات کا استدلال بعض علماء کے کلام اور اجتہادات سے کیا گیا ہے جو دوسروں کے لئے جحت نہیں رکھتا ہے
2. عبد الله بن جعفرنے کس سے شادی کی ؟:
اهل سنت نےسند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر نے علی [ع] کی ایک زوجہ اور علی [ع] کی ایک بیٹی سے شادی کی
شادی کے ساتھ ہوئی ہے بعض میں اس دختر کا نام زینب اور بعض میں ام کلثوم ذکر ہوا ہے
محمد بن اسماعيل بخارى لکھتے ہیں:
وَجَمَعَ عبد اللَّهِ بن جَعْفَرٍ بين ابْنَةِ عَلِيٍّ وَامْرَأَةِ عَلِيٍّ.
عبد الله بن جعفر نے علی [ع] کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ ازدواج میں رکھا.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 1963، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ما يَحِلُّ من النِّسَاءِ وما يَحْرُمُ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
اس روایت کی شرح میں علماء اہل سنت نے لکھا ہے کہ اس دختر سے مراد جناب زینب[سلام اللہ علیہا] ہیں :
وجمع عبد الله بن جعفر بين بنت علي وامرأته أما امرأة علي فهي ليلى بنت مسعود وأما بنته فهي زينب.
عبد الله بن جعفر نے علی [ع] کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ ازدواج میں رکھا . زوجہ علی [ع]سے مراد لیلی بن مسعود اور بیٹی سے مراد زینب[س] ہیں
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 1، ص 321، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1379هـ.
اور بعض نے اس بیٹی سے مراد ام کلثوم لی ہے :
حَدَّثَنَا سعيد حَدَّثَنَا جَرِير بن عَبد الحميد عَن قثم مولى آل العباس قال جمع عَبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مَسعود النهشلية وكانت امرأة على وبين أم كلثوم بنت على لفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانتا امرأتيه.
عبد الله بن جعفر نے ليلى بنت مسعود نهشلى جو کسی زمانہ میں زوجہ علی تھیں اسے اور علی [ع] کی بیٹی کو ایک وقت میں بعنوان زوجہ رکھا۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 286، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
اسکی سند مکمل طور پر صحیح ہے ابن حجر اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وقال بن سيرين لا بأس به وصله سعيد بن منصور عنه بسند صحيح
ابن سیرین نے کہا ہے کہ اس روایت میں کوِئی مسئلہ نہیں ہے اس لئَے کہ سعید بن مسعود نے اسے سند صحیح سے نقل کیا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 155، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
احمد بن حنبل کے فرزند نے بھی اس دختر کو ام کلثوم کہا ہے :
كانت عند عبد الله بن جعفر أم كلثوم بنت علي وليلى بنت مسعود وامرأة علي النهشلية.
عبد الله بن أحمد بن حنبل (متوفاي290 هـ)، مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله ج 1، ص 349، تحقيق: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1401هـ ـ 1981م .
و بيهقى نےبھی اپنی دو کتاب میں دو كتاب عبد اللہ بن جعفر کی زوجہ کا نام ام کلثوم لکھا ہے :
جمع عبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مسعود والنهشلية وكانت امرأة علي وبين أم كلثوم بنت عليلفاطمة فكانتا امرأتيه.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، معرفة السنن والآثار عن الامام أبي عبد الله محمد بن أدريس الشافعي، ج 5، ص 294، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 167، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 - 1994.
اس تضاد کا اہلسنت جواب دیتے ہیں!:
علماء اہل سنت ان دو روایت کو حل کرنے کے لئے چونکہ جانتے ہیں کہ زینب اور ام کلثوم کو ایک ہی شخصیت قرار دیں تو مشکل ساز ہوجائے گی اس لئے ایک توجیہ غیر معقول کرتے ہیں ۔
--------------------
ان دو بہنوں نے ایک کے بعد ایک عبد اللہ سے شادی کی ہے:
ابن حجر عسقلانى لکھتے ہیں:
ولا تعارض بين الروايتين في زينب وأم كلثوم لأنه تزوجهما واحدة بعد أخرى مع بقاء ليلى في عصمته.
ان روایت میں کوئی تضاد نہیں ہے ایک میں زینب نام آیا ہے اور دوسری میں ام کلثوم اس لئے کہ عبد اللہ نے ایک کے بعد ایک بہن سے شادی کی تھی
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 155، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
ابن حجر کا قول دو احتمال سے خالی نہیں ہو سکتا ہے یا پہلے زینب سے شادی کی تھی بعد میں ام کلثوم سے یا پہلے ام کلثوم سے پھر زینب سے شادی کی؟
پہلا احتمال اگر ہو تو اسکا جواب بعد میں بیان ہوگا ہے لیکن اگر دوسرا احتمال لیا جائے تو علماء اہل سنت کی صراحت کے خلاف ہونے کے ساتھ دوسرےبھی اشکالات بھی رکھتا ہے۔
اہل سنت کی مشہور رائے یہ ہے ام کلثوم زمانہ امام حسن [ع]میں فوت ہوگئ تھی اور اس زمانہ تک عبد اللہ بن جعفر کی بیوی شمار ہوتی تھی اس بناء پر زینب کی شادی زمانہ امام علی[ع] میں ممکن نہیں ہےاس لئے جمع اختین{دو بہن کا ایک وقت میں کسی کی بیوی ہونا} ہوجائے گا لیکن روایات اہل سنت کے مطابق عبد اللہ امام علی[ع] کی زندگی میں زینب کے شوہر تھے۔
ابوبكر آجرى ابن ملجم کے قتل کیئے جانے کے بارے میں نقل کیا ہے
فعجل عليه عبد الله بن جعفر وكانت زينب بنت علي تحته
زینب کے شوہر ، عبد الله بن جعفر ، نے ابن ملجم کے قتل کے لئے اقدام کیا
الآجري، أبي بكر محمد بن الحسين (متوفاي360هـ، الشريعة، ج 4، ص 2108، تحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، ناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية، الطبعة: الثانية، 1420 هـ - 1999 م.
ابن حجر کا یہ قول دوسرے علماء اہل سنت کے خلاف ہے جو کہتے ہیں کہ عبد اللہ نے زینب کو طلاق یا وفات کے بعد ام کلثوم سے شادی کی تھی
بالکل خلاف ہے
زينب کو طلاق دیکر ام کلثوم سے شادی کی !!!
بعض لوگوں نے یہ ادعا کیا ہے کہ عبد الله بن جعفر، نے حضرت زينب سلام الله عليها کو طلاق دیکر امّ*كلثوم سے شادی کی ۔
ابن حزم ظاهرى نے کہا ہے کہ :
وتزوج أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب، بنت بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عمر بن الخطاب، فولدت له زيداً لم يعقب، ورقية؛ ثم خلف عليها بعد عمر - رضي الله عنه - عون بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده محمد بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده عبد الله بن جعفر ابن أبي طالب، بعد طلاقه لأختها زينب.
عمر نے امّ*كلثوم دختر رسول خدا (ص) سے شادی کی جس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے عمر کے بعد عون بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی اور انکے بعد عبد اللہ بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی انکی بہن [زینب] کو طلاق دیکر۔
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ ـ 2003م
جبکہ شیعہ سنی روایات کے مطابق عبد اللہ بن جعفر نے امام علی علیہ السلام کی زندگی میں زینب [س]سے شادی کی تھی اور زینب [ع] تا حیات انکی بیوی رہیں یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت [سال 61ہجری] کے بعد تک
البتہ یہ ہو سکتا ہے ام کلثوم دوبارہ زندہ ہوئی ہوں اور عبد اللہ سے شادی کی ہو !!!.
بيهقى نے وفات حضرت زينب سلام الله عليها کے بارے میں لکھا ہے :
فأما زينب فتزوجها عبد الله بن جعفر فماتت عنده
زينب، سے عبد الله بن جعفر نے شادی کی اور جب تک زینب [س] زندہ تھیں عبد اللہ کی بیوی رہیں.
البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفاي458هـ)، دلائل النبوة، ج 7، ص 283، طبق برنامه الجامع الكبير؛
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 70، الرقم 13201، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 – 1994؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله، (متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 69، ص 176، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
اس بناء پر یہ ادعا کرنا کہ عبد اللہ نے زینب[س] کو طلاق دیکر ام کلثوم سے شادی کی ،صحیح نہیں ہے۔
کیا وفات زينب[س] کے بعد ام كلثوم سے شادی کی !!!
عينى نے عمدة القاري، میں اس معمّہ کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے :
أن ابن جعفر تزوج زينب بنت علي وتزوج معها امرأته ليلى بنت مسعود، وقال ابن سعد: فلما توفيت زينب تزوج بعدها أم كلثوم بنت علي بنت فاطمة، رضي الله تعالى عنهم.
عبد الله بن جعفر نے زينب دختر علي[ع] اور ليلى سے شادی کی ابن سعد کہتا ہے: جب زینب [س]دنیا سے چلی گئی تو ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سے شادی کی ۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 101، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
جبکہ اہل سنت کی روایات ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہونے کے نظریہ کہ جس کے مطابق ام کلثوم نے عمر سے شادی کی اور زینب [س]کی وفات سے پہلے اور امام حسین علیہ السلام کے مدینہ میں ہوتے ہوئے ام کلثوم اپنے بیٹے زید کے ساتھ فوت کر جاتی ہیں اور امام حسین اورامام حسن [ع]ان پر نماز پڑھتے ہیں ؟کیسے صحیح کر سکتے ہیں ؟۔
محمد بن حبيب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاريخ مدينة دمشق میں اور صفدى نے الوافى فى الوفيات میں لکھا ہے :
وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة الله عليهم وكانت تحت عبد الله بن جعفر بن أبي طالب عليه مرضاً جميعاً وثقلاً ونزل بهما وأن رجالاً مشوا بينهما لينظروا أيهما يموت قبل صاحبه فيرث منه الآخر وأنهما قبضا في ساعة واحدة ولم يدر أيهما قبض قبل صاحبه فلم يتوارثا.
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ انکی [زید] کی والدہ ام کلثوم بنت علی تھیں اوروہ اس زمانہ میں عبد اللہ بن جعفر کی بیوی تھیں یہ دونوں مریض ہوگئے اور ایک کی وقت دنیا سے گزر گئے بعض لوگ انکے گھر آئے تاکہ دیکھے کون پہلے مرتا ہے تاکہ دوسرا وارث بن سکے لیکن دونوں ایک ساتھ انتقال کر جاتے ہیں اور لوگوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ کون پہلے مرا ہے اسی وجہ سے ارث ان دونوں میں تقسیم نہیں ہوئی۔
محمد بن سعد نے الطبقات الكبرى، میں اس موضوع پر تین روایت نقل کی ہیں:
عن عامر عن بن عمر أنه صلى على أم كلثوم بنت علي وابنها زيد وجعله مما يليه وكبر عليهما أربعا أخبرنا وكيع بن الجراح عن زيد بن حبيب عن الشعبي بمثله وزاد فيه وخلفه الحسن والحسين ابنا علي ومحمد بن الحنفية وعبد الله بن عباس وعبد الله بن جعفر.
أخبرنا عبيد الله بن موسى أخبرنا إسرائيل عن جابر عن عامر عن عبد الله بن عمر أنه كبر على زيد بن عمر بن الخطاب أربعا وخلفه الحسن والحسين.
عبد الله بن عمر نے امّ*كلثوم دختر علي[ع] اور انکے بیٹے زيد پر چار تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھائی اور دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ امام حسن و حسین[ع] ، محمد بن حنفیہ ، ابن عباس عبد اللہ بن جعفر نےعبد اللہ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی۔
أخبرنا عبيد الله بن موسى أخبرنا إسرائيل عن السدي عن عبد الله البهي قال شهدت بن عمر صلى على أم كلثوم وزيد بن عمر بن الخطاب فجعل زيدا فيما يلي الإمام وشهد ذلك حسن وحسين.
عبد الله الهبى کہتا ہے: میں نے عبد الله بن عمر کو امّ*كلثوم اور انکے بیٹے زيد پر نماز پڑھتا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ حسن و حسین[ع] اس نماز میں حاضر تھے۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر - بيروت.
ذهبى نے تاريخ الإسلام میں لکھا ہے کہ سعيد بن عاص نے جو اس زمانہ میں امیر مدینہ تھا ام کلثوم پر نماز پڑھائی۔
وقال حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، إن أم كلثوم وزيد بن عمر ماتا فكفنا، وصلى عليهما سعيد بن العاص، يعني إذ كان أمير المدينة.
حماد بن سلمه نے عمار بن ابى عمار سے روايت کی ہے کہ ام کلثوم اور انکے بیٹے زید بن عمر مر گئے اور کفن دیئے گئے اور ان پر سعید بن عاص نے نماز پڑھائی جب وہ مدینہ کے امیر تھے
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
جبکہ سعيد بن عاص زمانہ معاويه میں امير مدينه تھے سال 59هـ میں فوت کرگئے.
ذهبى نےاس سال کے واقعے میں لکھا ہے
حوادث سنة تسع وخمسين. فيها توفي: سعيد بن العاص الأموي، على الصحيح.
صحيح نقل کی بناء پر ،* سعيد بن عاص اموى سال 59هـ میں فوت کر گئے.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
اس بناء پر ام کلثوم کی شادی زینب [س]کے بعد جو کربلا میں بھی موجود تھیں فقط ایک صورت میں ہو سکتی ہےوہ یہ ہے ام کلثوم کربلا کے واقعے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئی ہوں !!!
3. ایک خطبه دو انسانوں کے نام پر :
حضرت زینب کا شام اور کوفہ میں خطبہ دینا تاریخی کتب میں دو عنوان
ا خطبة ام کلثوم بنت علي اور خطبة زينب بنت علي سے ذکر ہوا ہے يعنى وہی خطبہ جس زینب[س] کے نام سے نقل ہوا ہے وہی بہ عینیہ ام کلثوم کے نام سے ذکر ہوا ہے
4 صدی کے عالم ابن طيفور نے:
كتاب بلاغات النساء میں ، ابوسعد الآبى نے نثر الدرر میں، اور ابن حمدون نے التذكرة الحمدونية،میں خطبه امّ*كلثوم کوفہ میں دیا جانے والے کو اس طرح نقل کیا ہے :
ورأيت أم كلثوم عليها السلامولم أر خفرة والله أنطق منها كأنما تنطق وتفرغ على لسان أمير المؤمنين عليه السلام وقد أومأت إلى الناس أن اسكتوا فلما سكنت الأنفاس وهدأت الأجراس قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة يا أهل الختر والخذل إلا فلا رفأت العبرة ولا هدأت الرنة إنما مثلكم كمثل التي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثاً.
أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاى380 هـ )، بلاغات النساء، ص 24، ناشر: منشورات مكتبة بصيرتي ـ قم و ص 11 طبق برنامه الجامع الكبير.
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 19، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 6، ص 265، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.
صفوت، أحمد زكي، جمهرة خطب العرب، ج 2، ص 134، ناشر: المكتبة العلمية - بيروت.
جبکہ شیخ مفید اور دوسرے افراد نے اسی خطبہ کو زبان حضرت زينب سلام الله عليها سے نقل کیاہے
ورأيت زينب بنت علي عليهما السلام ولم أر خفرة قط أنطق منها كأنها تفرغ عن لسان أمير المؤمنين عليه السلام. قال: وقد أومأت إلى الناس أن اسكتوا، فارتدت الأنفاس وسكتت الأصوات فقالت: الحمد لله والصلاة على أبي رسول الله، أما بعد يا أهل الكوفة، ويا أهل الختل والخذل، فلا رقأت العبرة، ولا هدأت الرنة، فما مثلكم إلا " كالتي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا، تتخذون أيمانكم دخلا بينكم.
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الأمالي، ص 322، تحقيق الحسين أستاد ولي - علي أكبر الغفاري، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.
اسی طرح اہل بیت کے بچوں کو کوفیوں کے صدقہ کھانے سے روکنا ، بعض نے ام کلثوم کی جانب سے منع کرنا اور بعض نے زینب[س] کی طرف سے منع کرنا نقل کیا ہے ۔
وقد اشتهر حكاية منع سيدتنا زينب أو أم كلثوم عليهما السلام للسبايا عن أخذ صدقات أهل الكوفة معللتين بكونها صدقة.
اور سیدہ زینب [س]یا ام کلثوم کا اسیروں کو اہل کوفہ کے صدقات سے منع کرنی کی حکایت مشہور ہے ۔
الأنصاري*، الشيخ مرتضي (متوفاي1281 هـ) كتاب الزكاة، ص353، تحقيق: تحقيق: لجنة تحقيق تراث الشيخ الأعظم، ناشر: المؤتمر العالمي بمناسبة الذكرى المئوية الثانية لميلاد الشيخ الأنصاري ـ قم، الطبعة: الأولى، 1415 هـ.
4. ام كلثوم کی حضرت زهرا سلام الله عليها کے لئے عزادری اور نوحہ خوانی :
فتال نيشابورى نے روضة الواعظين میں لکھا ہے :
ثم توفيت صلوات الله عليها وعلى أبيها، وبعلها وبنيها فصاحت أهل المدينة صيحة واحدة واجتمعت نساء بني هاشم في دارها، فصرخن صرخة واحدة كادت المدينة ان تزعزع من صراخهن وهن يقلن: يا سيدتاه يا بنت رسول، واقبل الناس مثل عرف الفرس إلى علي " عليه السلام " وهو جالس، والحسن والحسين عليهما السلام بين يديه يبكيان فبكى الناس لبكائهما، وخرجت أم كلثوم وعليها برقعة وتجر ذيلها، متجللة برداء عليها تسحبها وهي تقول: يا أبتاه يا رسول الله، الآن حقا فقدناك فقدا لالقاء بعده ابدا واجتمع الناس فجلسوا، وهم يرجون وينظرون ان تخرج الجنازة، فيصلون عليها وخرج أبو ذر فقال: انصرفوا فإن ابنة رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) قد أخر اخراجها في هذه العشية فقام الناس وانصرفوا.
جب بی بی فاطمہ[س] وفات کر گئیں ۔۔۔ تو اہل مدینہ نے نالہ وشیون پرپا کردیا اور بنی پاشم کی مخدرات انکے گھر میں جمع ہوگئیں اور ایسا نالہ وشیون کیا کہ جس سے مدینہ لرز اٹھا اور وہ مخدرات کہتی تھیں اے ہماری بی بی و سیدہ اے رسول کی بیٹی ۔لوگ جوک در جوک علی [علیہ السلام ] کے پاس آئے جبکہ حسن و حسین [علیہما السلام ] آپ کے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور گریہ کر رہے تھے اور لوگ انکے بکا سے بکا کر رہے تھےاتنے میں ام کلثوم جبکہ انکے چہرے پر نقاب اور سر پرعربی چادر تھی جو زمین پر لگ رہی تھی گھر سے باہر آئیں اور فریاد کی اے میرے جد رسول اللہ [ص]در حقیقت آج میں آپ کے سائے سے محروم ہوگئی ہوں جو کبھی نصیب نہیں ہوگا لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے اور جنازہ کے لئے منتظر تھے تاکہ اس پر نماز پڑھیں لیکن ابو ذر گھر سے نکلے اور کہا سب چلے جائیں اس رات میں جنازہ نکلنا موخر ہوگیا تب لوگ چلے گئے ۔
النيسابوري، محمد بن الفتال (متوفاي508هـ)، روضة الواعظين، ص 152، تحقيق: تقديم: السيد محمد مهدي السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي قم – إيران
1 اس روایت میں فقط حسن[ع] و حسین [ع]اور ام کلثوم حضرت زہرا[س] کے عزادار بتائے گئے ہیں اور زینب [س]کا کوئی تذکرہ نہیں کہ اس بات پرسب کا اتفاق ہے زینب ام کلثوم سے بڑی تھیں :
2 شهادت حضرت زهرا سلام الله عليها، کے وقت ام کلثوم کے وجود کے مدعی افراد کے اعتبار سےوہ رسول کے آخری ایام حیات میں دنیا میں آئیں جس کا محتاط اندازہ دو سال ہے پس اس بناء پر نوحہ سرائی اور نقاب وغیرہ اس عمر میں وغیرہ کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس بناء پر لازم ہے کہ اس روایت میں موجود ام کلثوم سے مراد جناب زینب[س] لیں ۔
5. امير المؤمنین شب ضربت کس کے مہمان تھے ؟
متعدد روایات میں موجود ہے کہ علی [ع] رمضان کی ہر رات اپنے اولاد میں سے کسی نہ کسی کے مہمان بنتے تھے کبھی امام حسن [ع]کبھی امام حسین[ع] اور کبھی عبد اللہ بن جعفر کے مہمان ہوتے ۔ تمام نقل کے اتفاق کے ساتھ شب ضربت، امام علی[ع] ام کلثوم کے مہمان تھے ۔ اب ام کلثوم ان افراد میں سے کس کی زوجہ تھیں ؟
شيخ مفيد نے كتاب شريف الإرشاد میں لکھا ہے :
لما دخل شهر رمضان، كان أمير المؤمنين عليه السلام يتعشى ليلة عند الحسن وليلة عند الحسين وليلة عند عبد الله بن جعفر، وكان لا يزيد على ثلاث لقم، فقيل له في ليلة من تلك الليالي في ذلك، فقال: " يأتيني أمر الله وأنا خميص، إنما هي ليلة أو ليلتان " فأصيب عليه السلام في آخر الليل.
جب ماه مبارك رمضان آ پہنچا تو، امير مؤمنین عليه السلام ایک رات امام حسن[ع] ایک رات امام حسين [ع]اور ایک رات عبد الله بن جعفر (شوهر ِحضرت زينب سلام الله عليها) کے پاس گزارتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے رمضان کی کسی رات آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنا کم کیوں تناول کرتے ہیں تو فرمایا: مجھے پسند ہے کہ خالی پیٹ خدا سے ملاقات کروں۔ ایک یا دو رات بعد رات کے آخری حصہ میں آپ[ع] پر شمشیر چلی۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 1، ص 14، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.
اور قطب الدين راوندى نے لکھا ہے :
وكان يفطر في هذا الشهر ليلة عند الحسن، وليله عند الحسين، وليلة عند عبد الله ابن جعفر زوج زينب بنته لأجلها، لا يزيد على ثلاث لقم، فقيل له في ذلك، فقال: يأتيني أمر الله وأنا خميص، إنما هي ليلة أو ليلتان، فأصيب من الليل. وقد توجه إلى المسجد في الليلة التي ضربه الشقي في آخرها، فصاح الإوز في وجهه، فطردهن الناس، فقال: دعوهن فإنهن نوائح.
اس ماہ رمضان میں آپ علیہ السلام ایک رات امام حسن ایک رات امام حسین اور ایک رات عبد اللہ بن جعفر کے پاس جوزینب کے شوہر انکی وجہ سے افطار کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ اس رات کے آخری حصہ میں آپ مسجد گئے جس میں شقی نے آپ پر ضرب لگائی تھی مرغابیوں نے آپ کے سامنے شور مچایا تو لوگوں نے مرغابیوں کو دور کیا لیکن امام علی [ع]نے کہا چھوڑ دو یہ مجھ پر نوحہ کر رہی ہیں۔
الراوندي، قطب الدين (متوفاي573هـ)، الخرائج والجرائح، ج 1 ص 201، تحقيق ونشر مؤسسة الإمام المهدي عليه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
اهل سنت کے علماء نے بھی اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے :
كان علي لما دخل رمضان يتعشى ليلة عند الحسن وليلة عند الحسين وليلة عند أبي جعفر لا يزيد علي ثلاث لقم يقول أحب أن يأتيني أمر الله وأنا خميص.
ماہ رمضان میں علی [علیہ السلام] ایک رات امام حسن ایک رات امام حسین اور ایک رات عبد اللہ بن جعفر کے پاس افطار کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ ۔
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 4، ص 128، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 3، ص 254، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 249؛
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 3، ص 312، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
اور دوسری جانب بعض لوگوں نے روایت کی ہے امام علی علیہ السلام اس رات ام کلثوم کے مہمان تھے :
قالت أم كلثوم بنت أمير المؤمنين صلوات الله عليه: لما كانت ليلة تسع عشرة من شهر رمضان قدمت إليه عند إفطاره طبقا فيه قرصان من خبز الشعير وقصعة فيها لبن وملح جريش.
ام کلثوم کہتی ہیں جب ۱۹ رمضان آئی تو میں نے دستر خوان بچھایا جس پر دو جو کی روٹیاں اور اور ایک برتن میں دودھ اور کچھ نمک تھا ،
المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 42 ص 276، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983 م.
اب کس طرح ان روایت کو جمع کریں ؟ کیا امام علی علیہ السلام کا معمول یہ تھا ایک رات امام حسن ،ایک رات ،امام حسین ، ایک رات جناب زینب ،اور ایک رات ام کلثوم کے پاس گزرتے ؟ کیا یہ نص کے برخلاف نہیں ہے یا ام کلثوم کےگھر کو ان تین گھر میں سے کسی ایک کو کہا جائے یعنی عبد اللہ کے گھر کو اور زینب سے مراد خود ام کلثوم ہی ہیں اگر ام کلثوم الگ سے تھیں تو کیوں انکے لئے ایک رات کو مخصوص نہیں کیا گیا ؟
6. ام کلثوم امير مؤمنین علی عليه السلام کی بہترین بیٹی:
قاضى نعمان مغربى، نے ایک روایت کے ضمن میں ام کلثوم کو بہترین بیٹی قرار دیا ہے :
قالت: قال علي عليه السلام يوما لابنته أم كلثوم ـ وكانت خير بناته ـ: يا بنية ما أراني إلا أقل ما أصحبك.....
علي عليہ السلام نے ایک دن اپنی بیٹی ام کلثوم سے جو انکی بہترین بیٹی تھیں ، کہا میری اور تمہاری ملاقات کے دن بہت کم رہ گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج 2 ص 452، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ.
جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے زینب عقلیہ عرب [س] امام علی [ع]کی سب سے بہترین بیٹی تھیں .
7. معاويه، نے کس کی بیٹی سے خوستگاری کی ؟
اهل سنت، کی روایت کے مطابق ، معاويہ بن ابوسفيان، نے عبد الله بن جعفر کی بیٹی سے یزید کے لئے خوستگاری کی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مداخلت سے معاویہ کی سازش ناکام ہوئی اور امام حسین[ع] نے قاسم بن محمد بن جعفر سے اس کا نکاح کردیا ۔
یہ لڑکی کس کی تھی دو طرح سے نقل ہوا ہے 1۔ ام کلثوم بنت زینب بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا 2۔ زینب بنت ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔
بلاذرى اور حموى کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جناب زینب[س] اور عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی تھیں
كتب معاوية إلى مروان وهو على المدينة أن يخطب أم كلثوم بنت عبد الله بن جعفر، وأمها زينب بنت علي. وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، على ابنه يزيد.
معاويہ، نے مروان جو اسکی طرف سے والی مدینہ تھا ،کو خط لکھا اس میں لکھا کہ ام کلثوم بنت عبد اللہ کہ جن کی ماں زینب بنت علی اور بنت فاطمہ بنت رسول [ص]ہیں اس کے لئے میرے بیٹے یزید کی خوستگاری کرو
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 2، ص 127.
اور حموى نے لکھا :
وتحدث الزبيريون أن معاوية كتب إلى مروان بن الحكم وهو والي المدينة أما بعد فإن أمير المؤمنين قد أحب أن يرد الألفة ويسل السخيمة ويصل الرحم فإذا وصل إليك كتابي فاخطب إلى عبد الله بن جعفر ابنته أم كلثوم على يزيد ابن أمير المؤمنين.
زبيریوں نے نقل کیا ہے کہ ہے معاویہ نے حاکم مدینہ مروان کو خط لکھا کہ : میں چاہتا ہوں کہ کینہ ختم ہوجائے اور صلہ رحم بڑے پس اس خط کو پڑھنے کے بعد عبد اللہ بن جعفر کے پاس جاو اور انکی لڑکی ام کلثوم سے میرے بیٹے یزید کی خوستگاری کرو۔
الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله (متوفاي626هـ)، معجم البلدان، ج 1، ص 469، ناشر: دار الفكر – بيروت.
لیکن بعض اهل سنت کے علماء نے اس لڑکی کو بنت ام کلثوم اور بنت عبد اللہ بن جعفر لکھا ہے
أبو الفرج نهروانى 4 صدی کے عالم نے لکھا ہے :
عن أم بكر بنت المسور بن مخرمة قالت سمعت أبي يقول كتب معاوية إلى مروان وهو على المدينة أن يزوج ابنه يزيد بن معاوية زينب بنت عبد الله بن جعفر وأمها أم كلثوم بنت علي وأم أم كلثوم فاطمة بنت رسول الله.
بنت مسور نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے والی مدینہ کو مروان کو خط لکھاتاکہ وہ عبد اللہ بن جعفر اور ام کلثوم کی بیٹی سے یزید کی خواستگاری کرے ۔
النهرواني، أبو الفرج المعافى بن زكريا (متوفي390هـ) الجليس الصالح والأنيس الناصح، ج 1، ص 66.
ابن عساكر دمشقى نے بھی اسی مطلب کو لکھا ہے :
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 57، ص 245، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
8. شام میں کون دفن ہے :
رحلة ابن بطوطة (متوفي779هـ) میں بجائے زیارت زینب بنت علی [ع] کہتا ہے قبر ام کلثوم بنت علی دمشق کے نزدیک ۔۔۔
وبقرية قبلي البلد وعلى فرصخ منها مشهد أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب من فاطمة عليهم السلام ويقال أن اسمها زينب وكناها النبي صلى الله عليه وسلم أم كلثوم لشبهها بخالتها أم كلثوم بنت الرسول....
اس شہر کے نزدیک اور ایک فرسخ کے فاصلہ پر ، بارگاه امّ*كلثوم بنت علي بن أبى طالب و فاطمه عليهم السلام ہے بعض نے کہا ہے انکا نام زینب لیکن نبی[ص] نے انکی کنیت ام کلثوم رکھی اپنی خالہ سے شباہت رکھنے کی وجہ سے ۔
ابن بطوطة، محمد بن عبد الله بن محمد اللواتي أبو عبد الله (متوفاي779 هـ)، تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار (مشهور به رحلة ابن بطوطة )، ج 1، ص 113، تحقيق: د. علي المنتصر الكتاني، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.
ابن بطوطہ کے اس کلام سے نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ مدفن ام کلثوم کا ہے جو وہی جناب زینب [س]ہیں اور یہ مدفون ام کلثوم نہیں ہو سکتا ہے اس لئے جو لوگ قائل ہیں کہ ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہیں انکا مدفن مدینہ میں ہیں نہ کہ شام میں
حموى نے معجم البلدان نے بھی اس مزار کو امّ*كلثوم کا قرار دیا ہے :
راوية بكسر الواو وياء مثناة من تحت مفتوحة بلفظ راوية الماء قرية من غوطة دمشق بها قبر أم كلثوم.
قبر امّ*كلثوم راويه دمشق میں ہے .
الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله (متوفاي626هـ)، معجم البلدان، ج 3، ص 20، ناشر: دار الفكر – بيروت.
ابن جبير اندلسى نے اپنے سفرنامه میں ، اس مدفن کو ام کلثوم کا قرار دیا ہے :
ومن مشاهد أهل البيت رضى الله عنهم مشهد أم كلثوم ابنة علي بن أبي طالب رضى الله عنهما ويقال لها زينب الصغرى وأم كلثوم كنية اوقعها عليها النبي صلى الله عليه وسلم لشبهها بابنته أم كلثوم رضى الله عنها والله اعلم بذلك ومشهدها الكريم بقرية قبلي البلد تعرف براوية على مقدار فرسخ وعليه مسجدكبير وخارجة مساكن وله اوقاف وأهل هذه الجهات يعرفونه بقبر الست أم كلثوم مشينا اليه وبتنا به وتبركنا برؤيته نفعنا الله بذلك.
اور اہل بیت کے مزارات میں سے ایک مزار مدفن ام کلثوم بنت علی[ع] کا ہے جس کو زینب صغرا بھی کہتے ہیں اور ام کلثوم کنیت ہے جسے آپ ص نے عنایت کی ۔۔اور یہ دمشق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الكناني الأندلسي، أبي الحسين محمد بن أحمد بن جبير (متوفاي614هـ)، رحلة ابن جبير، ج 1، ص 196، تحقيق: تقديم / الدكتور محمد مصطفى زيادة، ناشر: دار الكتاب اللبناني / دار الكتاب المصري - بيروت / القاهرة.
اور عبد الرزاق بيطار، 14 صدی کے عالم نے واضح کہا ہے ام کلثوم وہی زینب[س] ہیں اور یہ مدفن انکا ہے ،:
راوية، وهي قرية من جهة الشرق إلى القبلة من الشام، بينها وبين الشام نحو ثلاثة أميال، وقد دفن في هذه القرية السيدة زينب أم كلثوم بنت الإمام علي بن أبي طالب، أمها فاطمة الزهراء بنت رسول الله.
روايه، شام کےمشرقی حصہ میں واقع ایک گاوں کا نام ہے جو شام سے تین میل کے فاصلہ پر ہے اس گاوں میں زینب بنت علی[ع] و فاطمہ[س] جن کی کنیت ام کلثوم تھی دفن ہوئی ہیں
البيطار، عبد الرزاق بن حسن بن إبراهيم (متوفاي1335هـ)، حلية البشر في تاريخ القرن الثالث عشر، ج 2، ص 50.
تاريخ مدينه دمشق میں بھی اسے ام کلثوم بتایا گیا ہے اور ام کلثوم جس کا یہ لوگ کہتے ہیں وہ مدینہ میں فوت ہوکر دفن ہوئی ہیں۔
مسجد راوية مستجد على قبر أم كلثوم وأم كلثوم هذه ليست بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم التي كانت عند عثمان لأن تلك ماتت في حياة النبي صلى الله عليه وسلم ودفنت بالمدينة ولا هي أم كلثوم بنت علي من فاطمة التي تزوجها عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه لأنها ماتت هي وابنها زيد بن عمر بالمدينة في يوم واحد ودفنا بالبقيع....
مسجد راويه، وہ مسجد ہے جس کو قبر ام کلثوم پر بنایا گیا اور یہ ام کلثوم بنت رسول[ص] نہیں ہے اسی طرح عمر کی زوجہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے فرزند زید کے ساتھ مدینہ [بقیع ] میں دفن ہیں۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 2، ص 309، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
پس تمام باتوں کا بہرین حل یہی ہے کہ ام کلثوم وہی زینب[س] ہیں
9. کون کون اہل بیت میں سے کربلا سے اسیر ہوا ؟:
قاضى نعمان مغربى نے شرح الأخبار، میں تمام اسیران کربلا کے نام لکھے ہیں لیکن ان مین بی بی زینب [س]کا نام نہیں ہے :
والذين أسروا منهم بعد من قتل منهم يومئذ: علي بن الحسين عليه السلام وكان عليلا دنفا... ومن النساء أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب. وأم الحسن بنت علي بن أبي طالب. وفاطمة. وسكينة ابنتا الحسين بن علي.
جو روز عاشور اسیر بنائے گئے ان میں علی بن حسین علیہ السلام جو بیمار تھے ۔۔ عورتوں میں سے ام کلثوم بنت علی ام الحسن بنت علی فاطمہ بنت حسین ، اور سکینہ بنت حسین[ع]
التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج 3 ص 198، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ .
ام کلثوم زینب کی کنیت کو ذھن میں رکھ کر یہ احتمال قوی ہے کہ مراد ام کلثوم سے زینت [س]ہے اس لئے کہ سب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ زینب [س]کربلا کے اسیروں میں تھیں اور ایک اور ام کلثوم کا ہونا ثابت نہیں ہے
10. میراث فاطمہ فقط ام کلثوم کو ملی :
علامه مجلسى رضوان الله عليه نے مصباح الأنوار سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
عن أبي عبد الله، عن آبائه قال: إن فاطمة عليها السلام لما احتضرت أوصت عليا عليه السلام فقالت: إذا أنت مت فتول أنت غسلي، وجهزني وصل على وأنزلني قبري، وألحدني وسو التراب على واجلس عند رأسي قبالة وجهي فأكثر من تلاوة القرآن والدعاء، فإنها ساعة يحتاج الميت فيها إلى انس الاحياء وأنا أستودعك الله تعالى وأوصيك في ولدي خيرا ثم ضمت إليها أم كلثوم فقالت له: إذا بلغت فلها ما في المنزل ثم الله لها.
فاطمہ سلام الله عليہا نے احتضار کے عالم میں علی علیہ السلام سے کہا جب میں اس دنیا سے چلی جاوں تو آپ خود مجھے غسل دینا کفن دینا اور مجھ پر خود ہی نماز پڑھنا اور دفن کرنا ۔۔۔۔ پھر بی بی فاطمہ [س]نےام کلثوم کو گلے لگایا اور کہا جب یہ بالغ ہوجائے تو جو کچھ گھر میں اسکا ہےاللہ اسکا نگبان ہے۔
المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 79 ص 27، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983م.
11. عمر کی شادی حضرت زينب (س) کے ساتھ !!!
بعض اهل سنت نے عجیب دعوی کیا ہے کہ خليفه دوم نے حضرت زينب سلام الله عليها سے شادی کی تھی!!!.
عبد الحى كتانى لکھتا ہے :
ذكر الشيخ المختار الكنتي في الاجوبة المهمة نقلا عن الحافظ الدميري اعظم صداق بلغنا خبره صداق عمر لما تزوج زينب بنت علي فانه أصدقها اربعين الف دينار فقيل له في ذلك فقال والله ما في رغبة إلى النساء ولاكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كل سبب ونسب ينقطع يوم القيامة الا سببي ونسبي فأردت تاكيد النسب بيني وبينه صلى الله عليه وسلم فأردت أن أتزوج ابنته كما تزوج ابنتي وأعطيت هذا المال العريض اكراما لمصاهرتي اياه صلى الله عليه وسلم. منها هذا مع كون عمر نهى عن المغالات في المهر.
مختار كنتى نے دميرى سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: سب سے زیاد مہر جو آج تک سنا ہے وہ عمر کا مہر تھا جب انھوں نے زینب بنت علی [ع]سے شادی کی تھی اور وہ مہرتھا 40 ہزار دینار تھا ۔ جب ان سے مہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا مجھے عورتوں میں دلچسپی نہیں ہے چونکہ حضرت رسول [ص]نے فرمایا تھا تمام نسب اور سبب قیامت میں ختم ہوجائیں گے سوا ئے میرا نسب اور سبب کے اسلئے خواہش تھی کہ میرے اور رسول [ص]کے درمیان سبب اور پختہ ہوجائے میں نےآپ ص کی بیٹی سے شادی کی جس طرح انھوں نے میری بیٹی سے شادی کی تھی اور اس مہر کی خطیر رقم رسول[ص] کی دامادی کا عوض ہے۔
الكتاني، الشيخ عبد الحي (متوفاي1382هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمى التراتيب الإدراية، ج 2، ص 405، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت.
یہ بھی بتا رہا ہے ام کلثوم اور زینب[س] ایک ہی تھیں اور اس کو لحاظ کرتے ہوئے جناب زینب [س]نے خلیفہ دوم سے شادی نہیں کی تھیں ،واضح ہوجاتا ہے کہ خلیفہ دوم نے حضرت علی علیہ السلام کی کسی بھِی بیٹی سے شادی نہیں کی تھی بلکہ یہ داستان ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
12. ام كلثوم کربلا میں موجود تھیں :
جو لوگ کہتے ہیں کہ ام کلثوم اور زینب [س] دو الگ بیٹاں تھیں انکا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم امام حسن علیہ السلام کے زمانہ میں فوت کر گئیں اور بقیع میں دفن ہوئی ہیں لیکن بعض کتب اہل سنت کے مطابق ام کلثوم کربلا میں بھی موجود تھیں
جیسا کہ خطبہ بلاغت النساء میں بیان ہوا ہے کہ :
قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة...
اس طرح کہا : اللہ کی حمد اور میرے جد پر درود و سلام اے اہل کوفہ ۔۔۔
أبي الفضل بن أبي طاهر ال�
شیعہ سنی میں سے ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے امیر [ع] کی زینب کے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی اور در حقیقت ام کلثوم وہی جناب زینب ہیں اور وہ افراد جنھوں نے جناب امیر کی جناب سیدہ سے 5 اولاد ذکر کی ہیں یعنی امام حسن و حسین و محسن زینب و ام کلثوم در حقیقت انھوں نے اس روایت کی مطلب کو بیان کیا جس میں کبھی زینب کا نام ہے تو کبھی ام کلثوم کا نام ہے اور اس بات کی طرف توجہ نہیں کی ہے ام کلثوم اور زینب ایک ہی ہیں اور ام کلثوم جناب زینب کی کنیت ہے چنانچہ یہ بات متعدد کتب میں ذکر ہوئی ہے ۔
شیعہ علماء کی اس نظریہ کی تائید:
رضى الدين حلى 8 صدی کے شیعہ عالم ہیں وہ امام علی علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں کہتے ہیں:
كان له ( عليه السلام ) سبعة وعشرون ذكرا وأنثى: الحسن، والحسين، وزينب الكبرى المكناة بأم كلثوم ۔۔۔۔
امام علی کی 17 اولاد تھیں حسن حسین زینب کبری کہ انکی کنیت ام کلثوم ہے ۔۔۔۔۔
الحلي، رضى الدين على بن يوسف المطهر، (متوفاي705هـ)، العدد القوية لدفع المخاوف اليومية، ص242، تحقيق: السيد مهدى الرجائى، ناشر: مكتبة آية الله المرعشى ـ قم، الطبعة الأولى، 1408 هـ.
اور آيت الله مرعشى نے شرح احقاق الحق ، فضل بن روزبهان 10 صدی کے عالم سے نقل کیا ہے
ومنهم العلامة فضل الله روزبهان الخنجي الأصفهاني المتوفى سنة 927 في " وسيلة الخادم إلى المخدوم " در شرح صلوات چهارده معصوم عليهم السلام ( ص 103 ط كتابخانه عمومى آية الله العظمى نجفى بقم ) قال:...
اور حضرت امير المؤمنين على کی 17 اولاد تھیں اور ایک دوسری روایت کے اعتبار سے 20 اولاد تھیں حسن و حسین و محسن ۔۔۔ ام کلثوم[سلام اللہ علیہم] یہ چار جناب سیدہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] سے ہیں
المرعشي النجفي، آية الله السيد شهاب الدين (متوفاي 1369ش)، شرح إحقاق الحق وإزهاق الباطل، ج 30 ص 172، ناشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي ـ قم.
باقر شريف القرشى، اس زمانے کے محقق لکھتے ہیں:
ليس لصديقة الطاهرة بنت غير السيدة زينب. و أنها تكنّا بأُمّ كلثوم. كما ذكرنا اليه بعض المحققين. و علي ايّ حال فإنّي اذهب بغير تردد اذا ان الصديقة الطاهرة الزهراء ليس عندها بنت تسمّي بأُم كلثوم.
صديقه طاهره،کی زینب کے علاوہ کوئی دختر نہیں تھی زنیب وہی ہیں جن کی کنیت ام کلثوم ہے جیسا کہ بعض محقق حضرات کی یہی رائے ہے لیکن میں بغیر کسی شک اس بات کا قائل ہوں کہ جناب سیدہ [س] کی زینب کے علاوہ کوئی اور دختر نہیں تھی جس کا نام ام کلثوم ہو۔
القرشي، باقر شريف (معاصر)، حياة سيدة النساء فاطمة الزهرا سلام الله عليها، ص 219.
علماء اهل سنت اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں :
بعض اہل سنت کے عالم جناب سیدہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کی صرف چار اولاد یا تین اولاد بیان کرتے ہیں جس میں ام کلثوم کا نام نہیں ہے
صالحى شامى نےسبل الهدى و الرشاد میں لکھا ہے :
الثاني: في ولده - رضي الله تعالى عنهم - له من الولد الحسن والحسين ومحسن وزينب الكبرى من فاطمة - رضي الله تعالى عنهم - وله أولاد من غيرها كثيرون.
اولاد علي رضى الله عنه ،فاطمه زهرا سے ؛ حسن، حسين، محسن و زينب كبرى تھیں اور انکی مزید اولاد دوسری ازواج سے تھیں،
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 11، ص 288، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.
اسی طرح شهاب الدين قليوبى (متوفي1069هـ) نے شرح جلال الدين محلى جو منهاج الطالبين کی شرح ہے اسکے حاشیہ پر لکھا ہے علی[علیہ السلام ] کی جناب سیدہ [سلام اللہ علیہا]سے تین اولاد تھی اور یہی بات جلال الدين سيوطى سے نقل کی ہے:
وہ مزید لکھتے ہیں:
قوله: ( والاعتبار بالأب ) أي إلا في حقه (ص) فإن أولاد بنته فاطمة وهم الحسن والحسين وأولادهما من الذكور ينتسبون إليه، وهم الأشراف في عرف مصر وإن كان الشرف أصالة لقبا لكل من أهل البيت، وأما أولاد زينب بنت فاطمة، وكذا أولاد بنات الحسن والحسين وأولادهما من غيرهم، فإنهم ينتسبون إلى آبائهم وإن كان يقال للجميع أولاده (ص) وذريته.
فائدة: قال الجلال السيوطي رحمه الله لم يعقب من أولاده (ص) إلا فاطمة الزهراء فإنها ولدت من علي رضي الله عنه الحسن والحسين وزينب، وتزوجت زينب هذه بابن عمها عبد الله فولد له منها علي وعون الأكبر وعباس ومحمد وأم كلثوم، وكل ذرية فاطمة يقال لهم أولاده (ص) وذريته لكن لا ينسب إليه منهم إلا الذكور من أولاد الحسن والحسين خاصة لنصه على ذلك ا ه.
یہ بات صحیح ہے اولاد کو باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے سوائے رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کا معاملہ کو چھوڑ کر اس لئے کہ انکی بیٹی فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کی اولاد حسن وحسین[علیہا السلام] اور انکی اولادِ ذکور وہ آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہیں جسے مصر کے عرف میں اشراف کہا جاتا ہے اگرچہ شرف اصل میں اہل بیت کے ہرنفر کا لقب ہے۔
جہاں تک تعلق زینب [س ]کی اولاد کا ہےاور اسی طرح حسن وحسین[سلام اللہ علیہما] کی بیٹیوں کی اولاد کا تعلق ہے ۔۔۔ یہ سب اپنے آباء کی طرف منسوب ہیں اگر انکے لئے ذریت رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] یا اولاد رسول[صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جائے
جلال الدين سيوطى نے کہا ہے : رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کے اولاد میں سےصرف جناب فاطمہ [سلام اللہ علیہا ]سے آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نسل چلی ہے اس لئے سیدہ کی امیر المومنین علی علیہ السلام سے سے حسن حسین اور زینب اولاد تھی زینب نے اپنے چچا زاد عبد للہ بن جعفر سے شادی کی جس سے علی ، عون اکبر ۔عباس ، محمد اور ام کلثوم پیدا ہوئے ہر ذریت فاطمہ[سلام اللہ علیہا ] کو اولاد رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کہا جاتا ہے لیکن ذریت رسول اکرم[صلی اللہ علیہ و آلہ] آپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی ہیں فقط حسن و حسین کی ذکور اولاد آپ [صلی اللہ علیہ و آلہ] سے منسوب ہے کیوں کہ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے اسکے بارے میں نص خاص آئی ہے.
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشية قليوبي على شرح جلال الدين المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر، بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
اور شيخ محمد خضرى اہلسنت کے مصری عالم نے اولاد فاطمہ[سلام اللہ علیہا] کی تعداد صرف 3 بتائی ہے:
زواج علي بفاطمة عليهما السلام. وفي هذه السنة تزوج علي بن أبي طالب وعمره إحدى وعشرون سنة بفاطمة بنت رسول الله، وسنها خمس عشرة سنة، وكان منها عقب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنوه: الحسن والحسين وزينب.
فاطمہ [سلام اللہ علیہا ]سے آپ رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی طرف سے کی نسل چلی جو حسن وحسین اور زینب[سلام اللہ علیہم اجمعین] تھے
الخضري، الشيخ محمد (متوفاي1298هـ)، نور اليقين في سيرة سيد المرسلين، ج 1، ص 111، تحقيق: أحمد محمود خطاب، ناشر: مكتبة الإيمان - المنصورة / مصر، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1999م.
----------------------------------------------------------
اس نظریہ کے صحیح ہونے پرقرائن :
اس نظریہ کے صحیح ہونے پر کافی قرائن ہیں جس میں سے بعض کیا ذکر کرتے ہیں:
1. کسی بھی صحیح السند روایت میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے :
کسی بھی صحیح السند روایت شیعہ میں زینب اور ام کلثوم کا نام ایک ساتھ نہیں آیا ہے یا نام زینب آیا ہے یا نام ام کلثوم آیا ہے اسی طرح کسی بھی صحیح السند میں نہیں آیا ہے خلیفہ دوم نے جناب سیدہ کی بیٹی سے شادی کی تھی بلکہ تمام روایت یہ کہتی ہے کہ ام کلثوم کے بارے میں بتایا جو امام علی کے گھر میں تھی
فقط اس بات کا استدلال بعض علماء کے کلام اور اجتہادات سے کیا گیا ہے جو دوسروں کے لئے جحت نہیں رکھتا ہے
2. عبد الله بن جعفرنے کس سے شادی کی ؟:
اهل سنت نےسند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر نے علی [ع] کی ایک زوجہ اور علی [ع] کی ایک بیٹی سے شادی کی
شادی کے ساتھ ہوئی ہے بعض میں اس دختر کا نام زینب اور بعض میں ام کلثوم ذکر ہوا ہے
محمد بن اسماعيل بخارى لکھتے ہیں:
وَجَمَعَ عبد اللَّهِ بن جَعْفَرٍ بين ابْنَةِ عَلِيٍّ وَامْرَأَةِ عَلِيٍّ.
عبد الله بن جعفر نے علی [ع] کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ ازدواج میں رکھا.
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 1963، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ما يَحِلُّ من النِّسَاءِ وما يَحْرُمُ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
اس روایت کی شرح میں علماء اہل سنت نے لکھا ہے کہ اس دختر سے مراد جناب زینب[سلام اللہ علیہا] ہیں :
وجمع عبد الله بن جعفر بين بنت علي وامرأته أما امرأة علي فهي ليلى بنت مسعود وأما بنته فهي زينب.
عبد الله بن جعفر نے علی [ع] کی بیٹی اور ایک زوجہ کو ایک ہی وقت میں رشتہ ازدواج میں رکھا . زوجہ علی [ع]سے مراد لیلی بن مسعود اور بیٹی سے مراد زینب[س] ہیں
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 1، ص 321، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1379هـ.
اور بعض نے اس بیٹی سے مراد ام کلثوم لی ہے :
حَدَّثَنَا سعيد حَدَّثَنَا جَرِير بن عَبد الحميد عَن قثم مولى آل العباس قال جمع عَبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مَسعود النهشلية وكانت امرأة على وبين أم كلثوم بنت على لفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانتا امرأتيه.
عبد الله بن جعفر نے ليلى بنت مسعود نهشلى جو کسی زمانہ میں زوجہ علی تھیں اسے اور علی [ع] کی بیٹی کو ایک وقت میں بعنوان زوجہ رکھا۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 286، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
اسکی سند مکمل طور پر صحیح ہے ابن حجر اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وقال بن سيرين لا بأس به وصله سعيد بن منصور عنه بسند صحيح
ابن سیرین نے کہا ہے کہ اس روایت میں کوِئی مسئلہ نہیں ہے اس لئَے کہ سعید بن مسعود نے اسے سند صحیح سے نقل کیا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 155، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
احمد بن حنبل کے فرزند نے بھی اس دختر کو ام کلثوم کہا ہے :
كانت عند عبد الله بن جعفر أم كلثوم بنت علي وليلى بنت مسعود وامرأة علي النهشلية.
عبد الله بن أحمد بن حنبل (متوفاي290 هـ)، مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله ج 1، ص 349، تحقيق: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1401هـ ـ 1981م .
و بيهقى نےبھی اپنی دو کتاب میں دو كتاب عبد اللہ بن جعفر کی زوجہ کا نام ام کلثوم لکھا ہے :
جمع عبد الله بن جعفر بين ليلى بنت مسعود والنهشلية وكانت امرأة علي وبين أم كلثوم بنت عليلفاطمة فكانتا امرأتيه.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، معرفة السنن والآثار عن الامام أبي عبد الله محمد بن أدريس الشافعي، ج 5، ص 294، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 167، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 - 1994.
اس تضاد کا اہلسنت جواب دیتے ہیں!:
علماء اہل سنت ان دو روایت کو حل کرنے کے لئے چونکہ جانتے ہیں کہ زینب اور ام کلثوم کو ایک ہی شخصیت قرار دیں تو مشکل ساز ہوجائے گی اس لئے ایک توجیہ غیر معقول کرتے ہیں ۔
--------------------
ان دو بہنوں نے ایک کے بعد ایک عبد اللہ سے شادی کی ہے:
ابن حجر عسقلانى لکھتے ہیں:
ولا تعارض بين الروايتين في زينب وأم كلثوم لأنه تزوجهما واحدة بعد أخرى مع بقاء ليلى في عصمته.
ان روایت میں کوئی تضاد نہیں ہے ایک میں زینب نام آیا ہے اور دوسری میں ام کلثوم اس لئے کہ عبد اللہ نے ایک کے بعد ایک بہن سے شادی کی تھی
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 155، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
ابن حجر کا قول دو احتمال سے خالی نہیں ہو سکتا ہے یا پہلے زینب سے شادی کی تھی بعد میں ام کلثوم سے یا پہلے ام کلثوم سے پھر زینب سے شادی کی؟
پہلا احتمال اگر ہو تو اسکا جواب بعد میں بیان ہوگا ہے لیکن اگر دوسرا احتمال لیا جائے تو علماء اہل سنت کی صراحت کے خلاف ہونے کے ساتھ دوسرےبھی اشکالات بھی رکھتا ہے۔
اہل سنت کی مشہور رائے یہ ہے ام کلثوم زمانہ امام حسن [ع]میں فوت ہوگئ تھی اور اس زمانہ تک عبد اللہ بن جعفر کی بیوی شمار ہوتی تھی اس بناء پر زینب کی شادی زمانہ امام علی[ع] میں ممکن نہیں ہےاس لئے جمع اختین{دو بہن کا ایک وقت میں کسی کی بیوی ہونا} ہوجائے گا لیکن روایات اہل سنت کے مطابق عبد اللہ امام علی[ع] کی زندگی میں زینب کے شوہر تھے۔
ابوبكر آجرى ابن ملجم کے قتل کیئے جانے کے بارے میں نقل کیا ہے
فعجل عليه عبد الله بن جعفر وكانت زينب بنت علي تحته
زینب کے شوہر ، عبد الله بن جعفر ، نے ابن ملجم کے قتل کے لئے اقدام کیا
الآجري، أبي بكر محمد بن الحسين (متوفاي360هـ، الشريعة، ج 4، ص 2108، تحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، ناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية، الطبعة: الثانية، 1420 هـ - 1999 م.
ابن حجر کا یہ قول دوسرے علماء اہل سنت کے خلاف ہے جو کہتے ہیں کہ عبد اللہ نے زینب کو طلاق یا وفات کے بعد ام کلثوم سے شادی کی تھی
بالکل خلاف ہے
زينب کو طلاق دیکر ام کلثوم سے شادی کی !!!
بعض لوگوں نے یہ ادعا کیا ہے کہ عبد الله بن جعفر، نے حضرت زينب سلام الله عليها کو طلاق دیکر امّ*كلثوم سے شادی کی ۔
ابن حزم ظاهرى نے کہا ہے کہ :
وتزوج أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب، بنت بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عمر بن الخطاب، فولدت له زيداً لم يعقب، ورقية؛ ثم خلف عليها بعد عمر - رضي الله عنه - عون بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده محمد بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده عبد الله بن جعفر ابن أبي طالب، بعد طلاقه لأختها زينب.
عمر نے امّ*كلثوم دختر رسول خدا (ص) سے شادی کی جس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے عمر کے بعد عون بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی اور انکے بعد عبد اللہ بن جعفر بن ابوطالب نے شادی کی انکی بہن [زینب] کو طلاق دیکر۔
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ ـ 2003م
جبکہ شیعہ سنی روایات کے مطابق عبد اللہ بن جعفر نے امام علی علیہ السلام کی زندگی میں زینب [س]سے شادی کی تھی اور زینب [ع] تا حیات انکی بیوی رہیں یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت [سال 61ہجری] کے بعد تک
البتہ یہ ہو سکتا ہے ام کلثوم دوبارہ زندہ ہوئی ہوں اور عبد اللہ سے شادی کی ہو !!!.
بيهقى نے وفات حضرت زينب سلام الله عليها کے بارے میں لکھا ہے :
فأما زينب فتزوجها عبد الله بن جعفر فماتت عنده
زينب، سے عبد الله بن جعفر نے شادی کی اور جب تک زینب [س] زندہ تھیں عبد اللہ کی بیوی رہیں.
البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفاي458هـ)، دلائل النبوة، ج 7، ص 283، طبق برنامه الجامع الكبير؛
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 70، الرقم 13201، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 – 1994؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله، (متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 69، ص 176، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
اس بناء پر یہ ادعا کرنا کہ عبد اللہ نے زینب[س] کو طلاق دیکر ام کلثوم سے شادی کی ،صحیح نہیں ہے۔
کیا وفات زينب[س] کے بعد ام كلثوم سے شادی کی !!!
عينى نے عمدة القاري، میں اس معمّہ کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے :
أن ابن جعفر تزوج زينب بنت علي وتزوج معها امرأته ليلى بنت مسعود، وقال ابن سعد: فلما توفيت زينب تزوج بعدها أم كلثوم بنت علي بنت فاطمة، رضي الله تعالى عنهم.
عبد الله بن جعفر نے زينب دختر علي[ع] اور ليلى سے شادی کی ابن سعد کہتا ہے: جب زینب [س]دنیا سے چلی گئی تو ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سے شادی کی ۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 101، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
جبکہ اہل سنت کی روایات ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہونے کے نظریہ کہ جس کے مطابق ام کلثوم نے عمر سے شادی کی اور زینب [س]کی وفات سے پہلے اور امام حسین علیہ السلام کے مدینہ میں ہوتے ہوئے ام کلثوم اپنے بیٹے زید کے ساتھ فوت کر جاتی ہیں اور امام حسین اورامام حسن [ع]ان پر نماز پڑھتے ہیں ؟کیسے صحیح کر سکتے ہیں ؟۔
محمد بن حبيب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاريخ مدينة دمشق میں اور صفدى نے الوافى فى الوفيات میں لکھا ہے :
وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة الله عليهم وكانت تحت عبد الله بن جعفر بن أبي طالب عليه مرضاً جميعاً وثقلاً ونزل بهما وأن رجالاً مشوا بينهما لينظروا أيهما يموت قبل صاحبه فيرث منه الآخر وأنهما قبضا في ساعة واحدة ولم يدر أيهما قبض قبل صاحبه فلم يتوارثا.
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ انکی [زید] کی والدہ ام کلثوم بنت علی تھیں اوروہ اس زمانہ میں عبد اللہ بن جعفر کی بیوی تھیں یہ دونوں مریض ہوگئے اور ایک کی وقت دنیا سے گزر گئے بعض لوگ انکے گھر آئے تاکہ دیکھے کون پہلے مرتا ہے تاکہ دوسرا وارث بن سکے لیکن دونوں ایک ساتھ انتقال کر جاتے ہیں اور لوگوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ کون پہلے مرا ہے اسی وجہ سے ارث ان دونوں میں تقسیم نہیں ہوئی۔
محمد بن سعد نے الطبقات الكبرى، میں اس موضوع پر تین روایت نقل کی ہیں:
عن عامر عن بن عمر أنه صلى على أم كلثوم بنت علي وابنها زيد وجعله مما يليه وكبر عليهما أربعا أخبرنا وكيع بن الجراح عن زيد بن حبيب عن الشعبي بمثله وزاد فيه وخلفه الحسن والحسين ابنا علي ومحمد بن الحنفية وعبد الله بن عباس وعبد الله بن جعفر.
أخبرنا عبيد الله بن موسى أخبرنا إسرائيل عن جابر عن عامر عن عبد الله بن عمر أنه كبر على زيد بن عمر بن الخطاب أربعا وخلفه الحسن والحسين.
عبد الله بن عمر نے امّ*كلثوم دختر علي[ع] اور انکے بیٹے زيد پر چار تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھائی اور دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ امام حسن و حسین[ع] ، محمد بن حنفیہ ، ابن عباس عبد اللہ بن جعفر نےعبد اللہ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی۔
أخبرنا عبيد الله بن موسى أخبرنا إسرائيل عن السدي عن عبد الله البهي قال شهدت بن عمر صلى على أم كلثوم وزيد بن عمر بن الخطاب فجعل زيدا فيما يلي الإمام وشهد ذلك حسن وحسين.
عبد الله الهبى کہتا ہے: میں نے عبد الله بن عمر کو امّ*كلثوم اور انکے بیٹے زيد پر نماز پڑھتا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ حسن و حسین[ع] اس نماز میں حاضر تھے۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر - بيروت.
ذهبى نے تاريخ الإسلام میں لکھا ہے کہ سعيد بن عاص نے جو اس زمانہ میں امیر مدینہ تھا ام کلثوم پر نماز پڑھائی۔
وقال حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، إن أم كلثوم وزيد بن عمر ماتا فكفنا، وصلى عليهما سعيد بن العاص، يعني إذ كان أمير المدينة.
حماد بن سلمه نے عمار بن ابى عمار سے روايت کی ہے کہ ام کلثوم اور انکے بیٹے زید بن عمر مر گئے اور کفن دیئے گئے اور ان پر سعید بن عاص نے نماز پڑھائی جب وہ مدینہ کے امیر تھے
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
جبکہ سعيد بن عاص زمانہ معاويه میں امير مدينه تھے سال 59هـ میں فوت کرگئے.
ذهبى نےاس سال کے واقعے میں لکھا ہے
حوادث سنة تسع وخمسين. فيها توفي: سعيد بن العاص الأموي، على الصحيح.
صحيح نقل کی بناء پر ،* سعيد بن عاص اموى سال 59هـ میں فوت کر گئے.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
اس بناء پر ام کلثوم کی شادی زینب [س]کے بعد جو کربلا میں بھی موجود تھیں فقط ایک صورت میں ہو سکتی ہےوہ یہ ہے ام کلثوم کربلا کے واقعے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئی ہوں !!!
3. ایک خطبه دو انسانوں کے نام پر :
حضرت زینب کا شام اور کوفہ میں خطبہ دینا تاریخی کتب میں دو عنوان
ا خطبة ام کلثوم بنت علي اور خطبة زينب بنت علي سے ذکر ہوا ہے يعنى وہی خطبہ جس زینب[س] کے نام سے نقل ہوا ہے وہی بہ عینیہ ام کلثوم کے نام سے ذکر ہوا ہے
4 صدی کے عالم ابن طيفور نے:
كتاب بلاغات النساء میں ، ابوسعد الآبى نے نثر الدرر میں، اور ابن حمدون نے التذكرة الحمدونية،میں خطبه امّ*كلثوم کوفہ میں دیا جانے والے کو اس طرح نقل کیا ہے :
ورأيت أم كلثوم عليها السلامولم أر خفرة والله أنطق منها كأنما تنطق وتفرغ على لسان أمير المؤمنين عليه السلام وقد أومأت إلى الناس أن اسكتوا فلما سكنت الأنفاس وهدأت الأجراس قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة يا أهل الختر والخذل إلا فلا رفأت العبرة ولا هدأت الرنة إنما مثلكم كمثل التي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثاً.
أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاى380 هـ )، بلاغات النساء، ص 24، ناشر: منشورات مكتبة بصيرتي ـ قم و ص 11 طبق برنامه الجامع الكبير.
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 19، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 6، ص 265، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.
صفوت، أحمد زكي، جمهرة خطب العرب، ج 2، ص 134، ناشر: المكتبة العلمية - بيروت.
جبکہ شیخ مفید اور دوسرے افراد نے اسی خطبہ کو زبان حضرت زينب سلام الله عليها سے نقل کیاہے
ورأيت زينب بنت علي عليهما السلام ولم أر خفرة قط أنطق منها كأنها تفرغ عن لسان أمير المؤمنين عليه السلام. قال: وقد أومأت إلى الناس أن اسكتوا، فارتدت الأنفاس وسكتت الأصوات فقالت: الحمد لله والصلاة على أبي رسول الله، أما بعد يا أهل الكوفة، ويا أهل الختل والخذل، فلا رقأت العبرة، ولا هدأت الرنة، فما مثلكم إلا " كالتي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا، تتخذون أيمانكم دخلا بينكم.
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الأمالي، ص 322، تحقيق الحسين أستاد ولي - علي أكبر الغفاري، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.
اسی طرح اہل بیت کے بچوں کو کوفیوں کے صدقہ کھانے سے روکنا ، بعض نے ام کلثوم کی جانب سے منع کرنا اور بعض نے زینب[س] کی طرف سے منع کرنا نقل کیا ہے ۔
وقد اشتهر حكاية منع سيدتنا زينب أو أم كلثوم عليهما السلام للسبايا عن أخذ صدقات أهل الكوفة معللتين بكونها صدقة.
اور سیدہ زینب [س]یا ام کلثوم کا اسیروں کو اہل کوفہ کے صدقات سے منع کرنی کی حکایت مشہور ہے ۔
الأنصاري*، الشيخ مرتضي (متوفاي1281 هـ) كتاب الزكاة، ص353، تحقيق: تحقيق: لجنة تحقيق تراث الشيخ الأعظم، ناشر: المؤتمر العالمي بمناسبة الذكرى المئوية الثانية لميلاد الشيخ الأنصاري ـ قم، الطبعة: الأولى، 1415 هـ.
4. ام كلثوم کی حضرت زهرا سلام الله عليها کے لئے عزادری اور نوحہ خوانی :
فتال نيشابورى نے روضة الواعظين میں لکھا ہے :
ثم توفيت صلوات الله عليها وعلى أبيها، وبعلها وبنيها فصاحت أهل المدينة صيحة واحدة واجتمعت نساء بني هاشم في دارها، فصرخن صرخة واحدة كادت المدينة ان تزعزع من صراخهن وهن يقلن: يا سيدتاه يا بنت رسول، واقبل الناس مثل عرف الفرس إلى علي " عليه السلام " وهو جالس، والحسن والحسين عليهما السلام بين يديه يبكيان فبكى الناس لبكائهما، وخرجت أم كلثوم وعليها برقعة وتجر ذيلها، متجللة برداء عليها تسحبها وهي تقول: يا أبتاه يا رسول الله، الآن حقا فقدناك فقدا لالقاء بعده ابدا واجتمع الناس فجلسوا، وهم يرجون وينظرون ان تخرج الجنازة، فيصلون عليها وخرج أبو ذر فقال: انصرفوا فإن ابنة رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) قد أخر اخراجها في هذه العشية فقام الناس وانصرفوا.
جب بی بی فاطمہ[س] وفات کر گئیں ۔۔۔ تو اہل مدینہ نے نالہ وشیون پرپا کردیا اور بنی پاشم کی مخدرات انکے گھر میں جمع ہوگئیں اور ایسا نالہ وشیون کیا کہ جس سے مدینہ لرز اٹھا اور وہ مخدرات کہتی تھیں اے ہماری بی بی و سیدہ اے رسول کی بیٹی ۔لوگ جوک در جوک علی [علیہ السلام ] کے پاس آئے جبکہ حسن و حسین [علیہما السلام ] آپ کے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور گریہ کر رہے تھے اور لوگ انکے بکا سے بکا کر رہے تھےاتنے میں ام کلثوم جبکہ انکے چہرے پر نقاب اور سر پرعربی چادر تھی جو زمین پر لگ رہی تھی گھر سے باہر آئیں اور فریاد کی اے میرے جد رسول اللہ [ص]در حقیقت آج میں آپ کے سائے سے محروم ہوگئی ہوں جو کبھی نصیب نہیں ہوگا لوگ جمع ہو کر بیٹھ گئے اور جنازہ کے لئے منتظر تھے تاکہ اس پر نماز پڑھیں لیکن ابو ذر گھر سے نکلے اور کہا سب چلے جائیں اس رات میں جنازہ نکلنا موخر ہوگیا تب لوگ چلے گئے ۔
النيسابوري، محمد بن الفتال (متوفاي508هـ)، روضة الواعظين، ص 152، تحقيق: تقديم: السيد محمد مهدي السيد حسن الخرسان، ناشر: منشورات الرضي قم – إيران
1 اس روایت میں فقط حسن[ع] و حسین [ع]اور ام کلثوم حضرت زہرا[س] کے عزادار بتائے گئے ہیں اور زینب [س]کا کوئی تذکرہ نہیں کہ اس بات پرسب کا اتفاق ہے زینب ام کلثوم سے بڑی تھیں :
2 شهادت حضرت زهرا سلام الله عليها، کے وقت ام کلثوم کے وجود کے مدعی افراد کے اعتبار سےوہ رسول کے آخری ایام حیات میں دنیا میں آئیں جس کا محتاط اندازہ دو سال ہے پس اس بناء پر نوحہ سرائی اور نقاب وغیرہ اس عمر میں وغیرہ کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس بناء پر لازم ہے کہ اس روایت میں موجود ام کلثوم سے مراد جناب زینب[س] لیں ۔
5. امير المؤمنین شب ضربت کس کے مہمان تھے ؟
متعدد روایات میں موجود ہے کہ علی [ع] رمضان کی ہر رات اپنے اولاد میں سے کسی نہ کسی کے مہمان بنتے تھے کبھی امام حسن [ع]کبھی امام حسین[ع] اور کبھی عبد اللہ بن جعفر کے مہمان ہوتے ۔ تمام نقل کے اتفاق کے ساتھ شب ضربت، امام علی[ع] ام کلثوم کے مہمان تھے ۔ اب ام کلثوم ان افراد میں سے کس کی زوجہ تھیں ؟
شيخ مفيد نے كتاب شريف الإرشاد میں لکھا ہے :
لما دخل شهر رمضان، كان أمير المؤمنين عليه السلام يتعشى ليلة عند الحسن وليلة عند الحسين وليلة عند عبد الله بن جعفر، وكان لا يزيد على ثلاث لقم، فقيل له في ليلة من تلك الليالي في ذلك، فقال: " يأتيني أمر الله وأنا خميص، إنما هي ليلة أو ليلتان " فأصيب عليه السلام في آخر الليل.
جب ماه مبارك رمضان آ پہنچا تو، امير مؤمنین عليه السلام ایک رات امام حسن[ع] ایک رات امام حسين [ع]اور ایک رات عبد الله بن جعفر (شوهر ِحضرت زينب سلام الله عليها) کے پاس گزارتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے رمضان کی کسی رات آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنا کم کیوں تناول کرتے ہیں تو فرمایا: مجھے پسند ہے کہ خالی پیٹ خدا سے ملاقات کروں۔ ایک یا دو رات بعد رات کے آخری حصہ میں آپ[ع] پر شمشیر چلی۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 1، ص 14، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.
اور قطب الدين راوندى نے لکھا ہے :
وكان يفطر في هذا الشهر ليلة عند الحسن، وليله عند الحسين، وليلة عند عبد الله ابن جعفر زوج زينب بنته لأجلها، لا يزيد على ثلاث لقم، فقيل له في ذلك، فقال: يأتيني أمر الله وأنا خميص، إنما هي ليلة أو ليلتان، فأصيب من الليل. وقد توجه إلى المسجد في الليلة التي ضربه الشقي في آخرها، فصاح الإوز في وجهه، فطردهن الناس، فقال: دعوهن فإنهن نوائح.
اس ماہ رمضان میں آپ علیہ السلام ایک رات امام حسن ایک رات امام حسین اور ایک رات عبد اللہ بن جعفر کے پاس جوزینب کے شوہر انکی وجہ سے افطار کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ اس رات کے آخری حصہ میں آپ مسجد گئے جس میں شقی نے آپ پر ضرب لگائی تھی مرغابیوں نے آپ کے سامنے شور مچایا تو لوگوں نے مرغابیوں کو دور کیا لیکن امام علی [ع]نے کہا چھوڑ دو یہ مجھ پر نوحہ کر رہی ہیں۔
الراوندي، قطب الدين (متوفاي573هـ)، الخرائج والجرائح، ج 1 ص 201، تحقيق ونشر مؤسسة الإمام المهدي عليه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
اهل سنت کے علماء نے بھی اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے :
كان علي لما دخل رمضان يتعشى ليلة عند الحسن وليلة عند الحسين وليلة عند أبي جعفر لا يزيد علي ثلاث لقم يقول أحب أن يأتيني أمر الله وأنا خميص.
ماہ رمضان میں علی [علیہ السلام] ایک رات امام حسن ایک رات امام حسین اور ایک رات عبد اللہ بن جعفر کے پاس افطار کرتے تھے اور تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ ۔
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 4، ص 128، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 3، ص 254، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 249؛
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 3، ص 312، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
اور دوسری جانب بعض لوگوں نے روایت کی ہے امام علی علیہ السلام اس رات ام کلثوم کے مہمان تھے :
قالت أم كلثوم بنت أمير المؤمنين صلوات الله عليه: لما كانت ليلة تسع عشرة من شهر رمضان قدمت إليه عند إفطاره طبقا فيه قرصان من خبز الشعير وقصعة فيها لبن وملح جريش.
ام کلثوم کہتی ہیں جب ۱۹ رمضان آئی تو میں نے دستر خوان بچھایا جس پر دو جو کی روٹیاں اور اور ایک برتن میں دودھ اور کچھ نمک تھا ،
المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 42 ص 276، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983 م.
اب کس طرح ان روایت کو جمع کریں ؟ کیا امام علی علیہ السلام کا معمول یہ تھا ایک رات امام حسن ،ایک رات ،امام حسین ، ایک رات جناب زینب ،اور ایک رات ام کلثوم کے پاس گزرتے ؟ کیا یہ نص کے برخلاف نہیں ہے یا ام کلثوم کےگھر کو ان تین گھر میں سے کسی ایک کو کہا جائے یعنی عبد اللہ کے گھر کو اور زینب سے مراد خود ام کلثوم ہی ہیں اگر ام کلثوم الگ سے تھیں تو کیوں انکے لئے ایک رات کو مخصوص نہیں کیا گیا ؟
6. ام کلثوم امير مؤمنین علی عليه السلام کی بہترین بیٹی:
قاضى نعمان مغربى، نے ایک روایت کے ضمن میں ام کلثوم کو بہترین بیٹی قرار دیا ہے :
قالت: قال علي عليه السلام يوما لابنته أم كلثوم ـ وكانت خير بناته ـ: يا بنية ما أراني إلا أقل ما أصحبك.....
علي عليہ السلام نے ایک دن اپنی بیٹی ام کلثوم سے جو انکی بہترین بیٹی تھیں ، کہا میری اور تمہاری ملاقات کے دن بہت کم رہ گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج 2 ص 452، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ.
جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے زینب عقلیہ عرب [س] امام علی [ع]کی سب سے بہترین بیٹی تھیں .
7. معاويه، نے کس کی بیٹی سے خوستگاری کی ؟
اهل سنت، کی روایت کے مطابق ، معاويہ بن ابوسفيان، نے عبد الله بن جعفر کی بیٹی سے یزید کے لئے خوستگاری کی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مداخلت سے معاویہ کی سازش ناکام ہوئی اور امام حسین[ع] نے قاسم بن محمد بن جعفر سے اس کا نکاح کردیا ۔
یہ لڑکی کس کی تھی دو طرح سے نقل ہوا ہے 1۔ ام کلثوم بنت زینب بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا 2۔ زینب بنت ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔
بلاذرى اور حموى کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جناب زینب[س] اور عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی تھیں
كتب معاوية إلى مروان وهو على المدينة أن يخطب أم كلثوم بنت عبد الله بن جعفر، وأمها زينب بنت علي. وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، على ابنه يزيد.
معاويہ، نے مروان جو اسکی طرف سے والی مدینہ تھا ،کو خط لکھا اس میں لکھا کہ ام کلثوم بنت عبد اللہ کہ جن کی ماں زینب بنت علی اور بنت فاطمہ بنت رسول [ص]ہیں اس کے لئے میرے بیٹے یزید کی خوستگاری کرو
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 2، ص 127.
اور حموى نے لکھا :
وتحدث الزبيريون أن معاوية كتب إلى مروان بن الحكم وهو والي المدينة أما بعد فإن أمير المؤمنين قد أحب أن يرد الألفة ويسل السخيمة ويصل الرحم فإذا وصل إليك كتابي فاخطب إلى عبد الله بن جعفر ابنته أم كلثوم على يزيد ابن أمير المؤمنين.
زبيریوں نے نقل کیا ہے کہ ہے معاویہ نے حاکم مدینہ مروان کو خط لکھا کہ : میں چاہتا ہوں کہ کینہ ختم ہوجائے اور صلہ رحم بڑے پس اس خط کو پڑھنے کے بعد عبد اللہ بن جعفر کے پاس جاو اور انکی لڑکی ام کلثوم سے میرے بیٹے یزید کی خوستگاری کرو۔
الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله (متوفاي626هـ)، معجم البلدان، ج 1، ص 469، ناشر: دار الفكر – بيروت.
لیکن بعض اهل سنت کے علماء نے اس لڑکی کو بنت ام کلثوم اور بنت عبد اللہ بن جعفر لکھا ہے
أبو الفرج نهروانى 4 صدی کے عالم نے لکھا ہے :
عن أم بكر بنت المسور بن مخرمة قالت سمعت أبي يقول كتب معاوية إلى مروان وهو على المدينة أن يزوج ابنه يزيد بن معاوية زينب بنت عبد الله بن جعفر وأمها أم كلثوم بنت علي وأم أم كلثوم فاطمة بنت رسول الله.
بنت مسور نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے والی مدینہ کو مروان کو خط لکھاتاکہ وہ عبد اللہ بن جعفر اور ام کلثوم کی بیٹی سے یزید کی خواستگاری کرے ۔
النهرواني، أبو الفرج المعافى بن زكريا (متوفي390هـ) الجليس الصالح والأنيس الناصح، ج 1، ص 66.
ابن عساكر دمشقى نے بھی اسی مطلب کو لکھا ہے :
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 57، ص 245، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
8. شام میں کون دفن ہے :
رحلة ابن بطوطة (متوفي779هـ) میں بجائے زیارت زینب بنت علی [ع] کہتا ہے قبر ام کلثوم بنت علی دمشق کے نزدیک ۔۔۔
وبقرية قبلي البلد وعلى فرصخ منها مشهد أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب من فاطمة عليهم السلام ويقال أن اسمها زينب وكناها النبي صلى الله عليه وسلم أم كلثوم لشبهها بخالتها أم كلثوم بنت الرسول....
اس شہر کے نزدیک اور ایک فرسخ کے فاصلہ پر ، بارگاه امّ*كلثوم بنت علي بن أبى طالب و فاطمه عليهم السلام ہے بعض نے کہا ہے انکا نام زینب لیکن نبی[ص] نے انکی کنیت ام کلثوم رکھی اپنی خالہ سے شباہت رکھنے کی وجہ سے ۔
ابن بطوطة، محمد بن عبد الله بن محمد اللواتي أبو عبد الله (متوفاي779 هـ)، تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار (مشهور به رحلة ابن بطوطة )، ج 1، ص 113، تحقيق: د. علي المنتصر الكتاني، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.
ابن بطوطہ کے اس کلام سے نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ مدفن ام کلثوم کا ہے جو وہی جناب زینب [س]ہیں اور یہ مدفون ام کلثوم نہیں ہو سکتا ہے اس لئے جو لوگ قائل ہیں کہ ام کلثوم اور زینب الگ الگ ہیں انکا مدفن مدینہ میں ہیں نہ کہ شام میں
حموى نے معجم البلدان نے بھی اس مزار کو امّ*كلثوم کا قرار دیا ہے :
راوية بكسر الواو وياء مثناة من تحت مفتوحة بلفظ راوية الماء قرية من غوطة دمشق بها قبر أم كلثوم.
قبر امّ*كلثوم راويه دمشق میں ہے .
الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله (متوفاي626هـ)، معجم البلدان، ج 3، ص 20، ناشر: دار الفكر – بيروت.
ابن جبير اندلسى نے اپنے سفرنامه میں ، اس مدفن کو ام کلثوم کا قرار دیا ہے :
ومن مشاهد أهل البيت رضى الله عنهم مشهد أم كلثوم ابنة علي بن أبي طالب رضى الله عنهما ويقال لها زينب الصغرى وأم كلثوم كنية اوقعها عليها النبي صلى الله عليه وسلم لشبهها بابنته أم كلثوم رضى الله عنها والله اعلم بذلك ومشهدها الكريم بقرية قبلي البلد تعرف براوية على مقدار فرسخ وعليه مسجدكبير وخارجة مساكن وله اوقاف وأهل هذه الجهات يعرفونه بقبر الست أم كلثوم مشينا اليه وبتنا به وتبركنا برؤيته نفعنا الله بذلك.
اور اہل بیت کے مزارات میں سے ایک مزار مدفن ام کلثوم بنت علی[ع] کا ہے جس کو زینب صغرا بھی کہتے ہیں اور ام کلثوم کنیت ہے جسے آپ ص نے عنایت کی ۔۔اور یہ دمشق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الكناني الأندلسي، أبي الحسين محمد بن أحمد بن جبير (متوفاي614هـ)، رحلة ابن جبير، ج 1، ص 196، تحقيق: تقديم / الدكتور محمد مصطفى زيادة، ناشر: دار الكتاب اللبناني / دار الكتاب المصري - بيروت / القاهرة.
اور عبد الرزاق بيطار، 14 صدی کے عالم نے واضح کہا ہے ام کلثوم وہی زینب[س] ہیں اور یہ مدفن انکا ہے ،:
راوية، وهي قرية من جهة الشرق إلى القبلة من الشام، بينها وبين الشام نحو ثلاثة أميال، وقد دفن في هذه القرية السيدة زينب أم كلثوم بنت الإمام علي بن أبي طالب، أمها فاطمة الزهراء بنت رسول الله.
روايه، شام کےمشرقی حصہ میں واقع ایک گاوں کا نام ہے جو شام سے تین میل کے فاصلہ پر ہے اس گاوں میں زینب بنت علی[ع] و فاطمہ[س] جن کی کنیت ام کلثوم تھی دفن ہوئی ہیں
البيطار، عبد الرزاق بن حسن بن إبراهيم (متوفاي1335هـ)، حلية البشر في تاريخ القرن الثالث عشر، ج 2، ص 50.
تاريخ مدينه دمشق میں بھی اسے ام کلثوم بتایا گیا ہے اور ام کلثوم جس کا یہ لوگ کہتے ہیں وہ مدینہ میں فوت ہوکر دفن ہوئی ہیں۔
مسجد راوية مستجد على قبر أم كلثوم وأم كلثوم هذه ليست بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم التي كانت عند عثمان لأن تلك ماتت في حياة النبي صلى الله عليه وسلم ودفنت بالمدينة ولا هي أم كلثوم بنت علي من فاطمة التي تزوجها عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه لأنها ماتت هي وابنها زيد بن عمر بالمدينة في يوم واحد ودفنا بالبقيع....
مسجد راويه، وہ مسجد ہے جس کو قبر ام کلثوم پر بنایا گیا اور یہ ام کلثوم بنت رسول[ص] نہیں ہے اسی طرح عمر کی زوجہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے فرزند زید کے ساتھ مدینہ [بقیع ] میں دفن ہیں۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 2، ص 309، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
پس تمام باتوں کا بہرین حل یہی ہے کہ ام کلثوم وہی زینب[س] ہیں
9. کون کون اہل بیت میں سے کربلا سے اسیر ہوا ؟:
قاضى نعمان مغربى نے شرح الأخبار، میں تمام اسیران کربلا کے نام لکھے ہیں لیکن ان مین بی بی زینب [س]کا نام نہیں ہے :
والذين أسروا منهم بعد من قتل منهم يومئذ: علي بن الحسين عليه السلام وكان عليلا دنفا... ومن النساء أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب. وأم الحسن بنت علي بن أبي طالب. وفاطمة. وسكينة ابنتا الحسين بن علي.
جو روز عاشور اسیر بنائے گئے ان میں علی بن حسین علیہ السلام جو بیمار تھے ۔۔ عورتوں میں سے ام کلثوم بنت علی ام الحسن بنت علی فاطمہ بنت حسین ، اور سکینہ بنت حسین[ع]
التميمي المغربي، أبي حنيفة النعمان بن محمد (متوفاي363 هـ)، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، ج 3 ص 198، تحقيق: السيد محمد الحسيني الجلالي، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1414 هـ .
ام کلثوم زینب کی کنیت کو ذھن میں رکھ کر یہ احتمال قوی ہے کہ مراد ام کلثوم سے زینت [س]ہے اس لئے کہ سب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ زینب [س]کربلا کے اسیروں میں تھیں اور ایک اور ام کلثوم کا ہونا ثابت نہیں ہے
10. میراث فاطمہ فقط ام کلثوم کو ملی :
علامه مجلسى رضوان الله عليه نے مصباح الأنوار سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
عن أبي عبد الله، عن آبائه قال: إن فاطمة عليها السلام لما احتضرت أوصت عليا عليه السلام فقالت: إذا أنت مت فتول أنت غسلي، وجهزني وصل على وأنزلني قبري، وألحدني وسو التراب على واجلس عند رأسي قبالة وجهي فأكثر من تلاوة القرآن والدعاء، فإنها ساعة يحتاج الميت فيها إلى انس الاحياء وأنا أستودعك الله تعالى وأوصيك في ولدي خيرا ثم ضمت إليها أم كلثوم فقالت له: إذا بلغت فلها ما في المنزل ثم الله لها.
فاطمہ سلام الله عليہا نے احتضار کے عالم میں علی علیہ السلام سے کہا جب میں اس دنیا سے چلی جاوں تو آپ خود مجھے غسل دینا کفن دینا اور مجھ پر خود ہی نماز پڑھنا اور دفن کرنا ۔۔۔۔ پھر بی بی فاطمہ [س]نےام کلثوم کو گلے لگایا اور کہا جب یہ بالغ ہوجائے تو جو کچھ گھر میں اسکا ہےاللہ اسکا نگبان ہے۔
المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 79 ص 27، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 - 1983م.
11. عمر کی شادی حضرت زينب (س) کے ساتھ !!!
بعض اهل سنت نے عجیب دعوی کیا ہے کہ خليفه دوم نے حضرت زينب سلام الله عليها سے شادی کی تھی!!!.
عبد الحى كتانى لکھتا ہے :
ذكر الشيخ المختار الكنتي في الاجوبة المهمة نقلا عن الحافظ الدميري اعظم صداق بلغنا خبره صداق عمر لما تزوج زينب بنت علي فانه أصدقها اربعين الف دينار فقيل له في ذلك فقال والله ما في رغبة إلى النساء ولاكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كل سبب ونسب ينقطع يوم القيامة الا سببي ونسبي فأردت تاكيد النسب بيني وبينه صلى الله عليه وسلم فأردت أن أتزوج ابنته كما تزوج ابنتي وأعطيت هذا المال العريض اكراما لمصاهرتي اياه صلى الله عليه وسلم. منها هذا مع كون عمر نهى عن المغالات في المهر.
مختار كنتى نے دميرى سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: سب سے زیاد مہر جو آج تک سنا ہے وہ عمر کا مہر تھا جب انھوں نے زینب بنت علی [ع]سے شادی کی تھی اور وہ مہرتھا 40 ہزار دینار تھا ۔ جب ان سے مہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا مجھے عورتوں میں دلچسپی نہیں ہے چونکہ حضرت رسول [ص]نے فرمایا تھا تمام نسب اور سبب قیامت میں ختم ہوجائیں گے سوا ئے میرا نسب اور سبب کے اسلئے خواہش تھی کہ میرے اور رسول [ص]کے درمیان سبب اور پختہ ہوجائے میں نےآپ ص کی بیٹی سے شادی کی جس طرح انھوں نے میری بیٹی سے شادی کی تھی اور اس مہر کی خطیر رقم رسول[ص] کی دامادی کا عوض ہے۔
الكتاني، الشيخ عبد الحي (متوفاي1382هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمى التراتيب الإدراية، ج 2، ص 405، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت.
یہ بھی بتا رہا ہے ام کلثوم اور زینب[س] ایک ہی تھیں اور اس کو لحاظ کرتے ہوئے جناب زینب [س]نے خلیفہ دوم سے شادی نہیں کی تھیں ،واضح ہوجاتا ہے کہ خلیفہ دوم نے حضرت علی علیہ السلام کی کسی بھِی بیٹی سے شادی نہیں کی تھی بلکہ یہ داستان ایک افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
12. ام كلثوم کربلا میں موجود تھیں :
جو لوگ کہتے ہیں کہ ام کلثوم اور زینب [س] دو الگ بیٹاں تھیں انکا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم امام حسن علیہ السلام کے زمانہ میں فوت کر گئیں اور بقیع میں دفن ہوئی ہیں لیکن بعض کتب اہل سنت کے مطابق ام کلثوم کربلا میں بھی موجود تھیں
جیسا کہ خطبہ بلاغت النساء میں بیان ہوا ہے کہ :
قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة...
اس طرح کہا : اللہ کی حمد اور میرے جد پر درود و سلام اے اہل کوفہ ۔۔۔
أبي الفضل بن أبي طاهر ال�
دوسرا زاویہ : ام كلثوم بنت ابوبكر، يا ام كلثوم بنت امير المؤمنین علی عليه السلام؟
اہل سنت کا نظریہ ہےکہ ام کلثوم علی[ع] اور فاطمہ[س] کی بیٹی تھیں اس کےبرخلاف شیعہ کی کوئی بھی روایت اس مطلب کو بیان نہیں کرتی ہے کہ وہ لڑکی امام علی[ع] اور فاطمہ [س]کی بیٹی تھی بلکہ صرف اتنا ہے وہ ام کلثوم جو علی [ع]کے گھر میں تھی اور عمر بن خطاب کی اس سے [وہ بھی زبردستی] شادی ہوئی ہے اور اسکے بعد علی[ع] نے اسے دوبارہ اپنے گھر لے کر آئے ہیں ۔
اس بناء پر ممکن ہے کوئی کہے کہ وہ لڑکی امام علی [ع]سے ہی تھی لیکن جناب سیدہ فاطمہ [س] کےعلاوہ کسی اور بیوی سے تھی ۔لیکن اس توجیہ سےبھی جناب سیدہ[س] کی بھی بیٹی ہو نا ثابت نہیں ہوتا ہے ۔
احتمال قوی اور علماء اہل سنت کے اعتراف کے اعتبار سے وہ لڑکی امام علی علیہ السلام کی ربیبہ تھی اور ابوبکر کی بیٹی تھی۔
1. شارح صحيح مسلم کا اھم اعتراف کہ : عمر ابوبکر کے داماد تھے
بعض علماء اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ جس ام کلثوم کا نکاح عمر سے ہوا تھا وہ ابوبکر کی بیٹی تھی
محى الدين نووى، شارح صحيح مسلم نے کتاب تهذيب الاسماء میں کہا ہے کہ عمر نے ابوبکرکی بیٹی سے شادی کی تھی !!!
أختا عائشة: اللتان أرادهما أبو بكر الصديق، رضى الله عنه، بقوله لعائشة: إنما هما أخواك وأختاك، قالت: هذان أخواى، فمن أختاى؟ فقال: ذو بطن بنت خارجة، فإنى أظنها جارية. ذكر هذه القصة فى باب الهبة من المهذب، وقد تقدم بيانهما فى أسماء الرجال فى النوع الرابع فى الأخوة، وهاتان الأختان هما أسماء بنت أبى بكر، وأم كلثوم، وهى التى كانت حملاً، وقد تقدم هناك إيضاح القصة، وأم كلثوم هذه تزوجها عمر بن الخطاب، رضى الله عنه.
عائشہ کی دو بہنیں وہی جو ابوبکر کی حضرت عائشہ سے گفتگو میں مراد تھیں " یہ دو بھائی اور دو بہن [جو مجھ سے میراث پائیں گے] عائشہ سوال کیا میرے تو دو بھائی ہیں لیکن دو بہن کیسی [میری تو ایک بہن ہے] ابوبکر نے جواب دیا وہ بہن جو خارجہ کے شکم میں ہے میرے گمان میں وہ ایک لڑکی ہے ۔ اس قصہ کو کتاب الھبہ من المھذب میں بیان کیا گیا ہے اور ابوبکر کی دو بیٹوں کا بیان "ذکر اسماء رجال " میں گزر گیا ہے یہ دونوں ابوبکر کی بیٹیاں وہ ہی اسماء بنت ابو بکر اور ام کلثوم ہے جو اببکر کی موت کے وقت شکم مادر میں تھی اور اسی بحث میں کامل قصہ گزر گیا ہے اور یہ وہی ام کلثوم ہےجس سے عمر بن خطاب کی شادی ہوئی
النووي، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف بن مري (متوفاي676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 2، ص630، رقم: 1224، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.
اس اعتراف کے بعد امیر المومنین کی بیٹی کے ساتھ عمر کی شادی ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے
اور یہ شادی تاریخی حقائق کے ساتھ سازگار بھی ہے اس لئے خلیفہ اول اور دوم ایک دوسرے کے دہرینہ دوست تھے اور ابو بکر کی موت کے بعد یہ فطری بات تھی کہ عمر اس پر سوچتے کہ ابوبکر کی اولاد کی کفالت کا بند و بست کیا جائے اور ابوبکر کی بیٹی سے شادی کرنا اس کا بہترین طریقہ ہے ۔
روایت کہ "عائشہ نےعمر کی ابوبکر کی خواستگاری کو رد کردیا تھا " کی تحقیق :
البته بعض افراد نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ عمر نے فقط خواستگاری کی تھی لیکن شادی نہیں ہوئی تھی اور خواستگاری کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جس کو نہ اہل سنت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی شیعہ قبول کر سکتے ہیں۔
اهل سنت کے علماء نے نقل کیا ہے کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے خواستگاری کی تو عائشہ اور ام کلثوم نے عمر کی بد اخلاقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے مخالفت کی اور عائشہ نے عمرو عاص کو جو اہل بیت خصوصا امام علی علیہ السلام کی دشمنی میں پیش پیش تھا اسے واسطہ قرار دیا اور اس نے عمر کو ام کلثوم بنت علی سےشادی کا کہا ۔
وخطب أم كلثوم بنت أبي بكر وهي صغيرة وأرسل فيها إلى عائشة فقالت الأمر إليك فقالت أم كلثوم لا حاجة لي فيه فقالت لها عائشة ترغبين عن أمير المؤمنين قالت نعم إنه خشن العيش شديد على النساء.
فأرسلت عائشة إلى عمرو بن العاص فأخبرته فقال أكفيك فأتى عمر فقال يا أمير المؤمنين بلغني خبر أعيذك بالله منه قال وما هو قال خطبت أم كلثوم بنت أبي بكر قال نعم أفرغبت بي عنها أم رغبت بها عني قال لا واحدة ولكنها حدثة نشأت تحت كنف أم المؤمنين في لين ورفق وفيك غلظة ونحن نهابك وما نقدر أن نردك عن خلق من أخلاقك فكيف بها إن خالفتك في شيء فسطوت بها كنت قد خلفت أبا بكر في ولده بغير ما يحق عليك قال فكيف بعائشة وقد كلمتها قال أنا لك بهاوأدلك على خير منها أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب.
عمر بن خطاب نے پہلے امّ*كلثوم بنت ابوبكر سے خواستگارى کی تو عائشہ نے اپنی بہن کو اس رشتہ کی بارے میں بتایا تو اس نے کہا مجھے عمر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،عائشہ نے کہا کیا امیر المومنین نہیں چاہئے ؟ام کلثوم نے کہا :نہیں وہ شدت پسند اور سخت مزاج ہے اور عورتوں پر تند مزاجی رکھتا ہے ۔عائشہ نے کسی کو عمرو عاص کے پاس بھیجا اور تمام ماجری بیان کر دیا۔ عمرو عاص نے کہا میں مسئلہ کو حل کردونگا ۔عمرو عاص عمر کے پاس جاکر کہتا اے امیر المومنین ایک خبر سنی ہے کہ اللہ کرے صحیح نہ ہو ۔ عمر نے کہا کیا سنا ہے تم نے؟ عمرو عاص نے کہا سنا ہے آپ نے ابوبکر کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے ؟ عمر نے کہا ایسا ہی ہے کیا مجھ اس کی لائق نہیں جانتے ہو یا اسے میرے لائق نہیں سمجھتے ؟ عمرو عاص نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے لیکن وہ چھوٹی ہے اور ام المومنین کے ناز و نعم میں پلی ہے جبکہ تم تلخ مزاج اور ہم بھی تم سے ڈرتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی قادر نہیں ہے تمہارے اخلاق کو صحیح کر سکے ۔۔۔۔۔لہذا میں تم کو ابوبکر کی بیٹی سے بہتر ام کلثوم بنت علی کا مشورہ دیتا ہوں ۔
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 99، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرتے ہیں عمر کی ابوبکر کی خواستگاری اتنی خوفناک تھی کہ عمرو عاص اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے اور یہی شخص مشورہ دیتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرلیجئے یعنی ابوبکر کا احترام واجب اور اس کی بیٹی کو نہ ستایا جائے لیکن حضرت زہرا [س]کا کوئی احترام نہیں ہے اور انکی بیٹی کو ستانے میں مسئلہ نہیں ہے !!!
کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرے ہیں کہ روح ابوبکر کو اذیت دینا روح حضرت زهرا سلام الله عليها کو اذیت دینے سے زیادہ اھمیت رکھتا ہے ؟ جبکہ اہل سنت کی صحیح السند روایت میں ہے جناب سیدہ فاطمہ[س] کو ستانا رسو ل اللہ[ص] کو ستانے کے برابر ہے جبکہ ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کیا۔
کیا اہل سنت عمر سے نقل نہیں کرتے ہیں کہ رسول [ص]کے رشتہ دار میرے لئے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اھمیت رکھتے ہیں ؟
کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرینگے کہ عمر ابوبکر کے گھر والوں کی تو رعایت کرے لیکن رسول [ص]کے گھر والوں کی رعایت نہیں کرتے ہیں ؟ اپنی ذاتی بد اخلاقی کی وجہ سے ابوبکر کی بیٹی سے تو امتناع لیکن نا موس رسول[ص] سے شادی پر اصرار !!!
اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو بیان شدہ اعتراضات اہل سنت پر لگائے جائیں گے اور اگر اس روایت کو جعلی قبول کر لیا جائے [کہ ایسا ہی ہے ]
اور اس کو گھڑ نے کی وجہ بھِی معلوم ہے کہ اس کو گھڑ نے کے زمانہ میں مشہور تھا کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے شادی کی ہے نہ کہ امام علی [ع]کی بیٹی سے ان لوگوں نے چاہا کہ کہیں وہ صرف ایک خواستگاری کی گئِ تھی اس کے بعد حضرت علی [ع]کی بیٹی کے لئے اقدام کیا گیا ، ۔۔۔
شیعہ نسب شناس علماء بھی نووی کے کلام کو قبول کرتے ہیں اور ام کلثوم زوجہ عمر کو نسلِ امام علی علیہ السلام سے نہیں جانتے ہیں
آية الله مرعشى کہ جن کے پاس تمام اہل بیت کے شجرہ نامہ موجود ہیں وہ حاشيه شرح احقاق الحق پر اسی نظریہ کو لکھتے ہیں اور اسے محققین کا قول جانتے ہیں
هاجرت مع زوجها إلى الحبشة، ثم إلى المدينة المنورة، تزوجها بعد جعفر أبو بكر، فتولدت له منها عدة أولاد منهم أم كلثوم وهي التي رباها أمير المؤمنين عليه السلام وتزوجها الثاني، فكانت ربيته عليه السلام وبمنزلة إحدى بناته، وكان عليه السلام يخاطب محمد بابني وأم كلثوم هذه بنتي، فمن ثم سرى الوهم إلى عدة من المحدثين والمؤرخين فكم لهذه الشبهة من نظير، ومنشأ الأكثر الاشتراك في الاسم أو الوصف، ثم بعد موت أبي بكر تزوجها مولانا علي عليه السلام.
وہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے مدینہ لوٹیں اور جعفر کے بعد ان سے ابوبکر نے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی جن میں سے ام کلثوم بھی تھی اور حضرت علی[ع] نے اسے بڑا کیا اور خلیفہ دوم نے اس سے شادی کی وہ امام علی [ع]کی منہ بولی بیٹی اور امام کی بیٹیوں کی طرح تھی امام علی[ع] ، محمد بن ابوبکر کو اپنا بیٹا اور اسی ام کلثوم کو اپنی بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے تھے اسی سبب سے بعض محدثین اور مروخین اس وھم میں مبتلاء ہو گئے اور ایسی غلطیاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں جس کا سبب کسی نام میں یا کسی صفت میں مشترک ہونا بنتا ہے ابوبکر کی موت کے بعد امام علی علیہ السلام نے انکی بیوی سے شادی کی ۔
المرعشي النجفي، آية الله السيد شهاب الدين (متوفاي 1369ش)، شرح إحقاق الحق وإزهاق الباطل، ج 30 ص 315 اشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي ـ قم.
سوال یہ ہوتا ہے یہ لڑکی کیسے امام علی [ع]کے گھر میں آئی ؟ ظاہر ہے جب ابوبکر اس دنیا سے چلے گئے اور ابوبکر کی بعض بیویوں نے امام علی[ع] سے شادی کی تو اسی سبب سے ابوبکر کے بعض بچوں نے امام علی علیہ السلام کے گھر میں نشاء و نما پائی۔اور محمد بن ابى بکر؛ اور امّ*كلثوم بھی انھیں بچوں میں سے ہیں ۔
البتہ کوئی اعتراض کرے کہ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ لڑکی امیر المومنین کی ربیبہ نہیں ہو سکتی ہے اس لئے کہ اہل سنت کے نقل کے اعتبار سے وہ حبیبہ بنت خارجہ کی بیٹی تھی اور بنت خارجہ نے ابوبکر کے مرنے کے بعد خبیب بن اسیاف سے شادی کی تھی ناکہ امیر المومنین سے ؟
اسکے جواب میں ہم کہیں گے کہ ام کلثوم کی والدہ کی شادی خبیب بن اسیاف سے اسی جھوٹے قصہ کی ایک لڑی ہے تاکہ حقیقت تک رسائی کے تمام راستہ بند کر دیئے جائیں جب اس جھوٹ سے پردہ ہٹایا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے اس لئے کہ اہل سنت کے قدیمی تاریخ کے منابع کہتے ہیں کہ خبیب بن اسیاف جنگ یمامہ میں اور ابوبکر کی زندگی میں قتل ہوگیا تھا ۔
محمد بن حبيب بغدادى نے المحبّر میں لکھا ہے :
خبيب بن اساف قتل يوم اليمامة.
خبيب بن اساف روز يمامه (جنگ با مسيلمه كذاب) میں قتل ہوگیا تھا.
البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبيب بن أمية (متوفاي245هـ)، المحبر، ج 1، ص 403، طبق برنامه الجامع الكبير.
2. يك روايت دو ام كلثوم سے :
اہل سنت کے ماخذ کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں ایک ہی روایت دو طریقہ سے نقل ہے یعنی کبھی ام کلثوم بنت ابوبکر اور کبھی وہی روایت ام کلثوم بنت امام علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے یہ وہی ام کلثوم بنت علی ہے جو در حقیقت ابوبکر کی بیٹی ہے ۔
ابن أبى شيبه، ذیل کی روایت کو امّ*كلثوم بنت ابوبكر سے نقل کرتے ہیں :
حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا جبر بن حبيب عن أم كلثوم بنت أبي بكر عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمها هذا الدعاء اللهم إني أسألك من الخير كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله ما علمت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألك من خير ما سألك عبدك ونبيك وأعوذ بك من شر ما عاذ به عبدك ونبيك اللهم إني أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل وأسألك أن تجعل كل قضاء تقضيه لي خيرا.
عفان نے ہمارے لئے روایت کی ہے کہ حماد بن سلمہ / جبر بن حبیب نے روایت کی ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر نے عائشہ سے روایت کی ہے ۔ ۔ ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 44، ح29345، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ؛
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6، ص 133، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، الأدب المفرد، ج 1، ص 222، تحقيق: محمد فؤاد عبدالباقي، ناشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1409 – 1989م.
جبکہ اسحق بن راھویہ نے اسی روایت کو ام کلثوم بنت علی [ع]کے نام سے ذکر کیا ہے عائشہ سے نقل کرتے ہوئے ۔
أخبرنا النضر نا شعبة نا جبر بن حبيب قال سمعت أم كلثوم بنت علي تحدث عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ليكلمه في حاجة وعائشة تصلي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا عائشة عليك بالجوامع والكوامل قولي اللهم إني أسألك من الخير كله عاجله وآجله ما عملت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله ما عملت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل اللهم إني أسألك مما سألك منه محمد وأعوذ بك مما استعاذ منه محمد صلى الله عليه وسلم اللهم ما قضيت لي من قضاء فاجعل عاقبته لي رشدا
الحنظلي، إسحاق بن إبراهيم بن مخلد بن راهويه (متوفاي238هـ)، مسند إسحاق بن راهويه، ج 2، ص 590، ح1165، تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي، ناشر: مكتبة الإيمان - المدينة المنورة، الطبعة: الأولى، 1412هـ – 1991م.
تیسرا زاویہ : اس قضیہ کے نقل میں تعارض:
اس شادی کے جھوٹ اور افسانہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل اس ماجری میں پائے جانے والا شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف اور تناقض اتنا زیادہ ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے انسان اسشادی کے صحیح ہونے میں شک کرتا ہے اور اسے اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ صرف ایک افسانہ ہے۔
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه اس تناقض اور اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:
والحديث بنفسه مختلف، فتارة يروى: أن أمير المؤمنين عليه السلام تولى العقد له على ابنته. وتارة يروى أن العباس تولى ذلك عنه. وتارة يروى: أنه لم يقع العقد إلا بعد وعيد من عمر وتهديد لبني هاشم. وتارة يروى أنه كان عن اختيار وإيثار.
ثم إن بعض الرواة يذكر أن عمر أولدها ولدا أسماه زيدا. وبعضهم يقول: إنه قتل قبل دخوله بها. وبعضهم يقول: إن لزيد بن عمر عقبا. ومنهم من يقول: إنه قتل ولا عقب له. ومنهم من يقول: إنه وأمه قتلا. ومنهم من يقول: إن أمه بقيت بعده. ومنهم من يقول: إن عمر أمهر أم كلثوم أربعين ألف درهم. ومنهم من يقول: مهرها أربعة آلاف درهم. ومنهم من يقول: كان مهرها خمسمائة درهم.
وبدو هذا الاختلاف فيه يبطل الحديث، فلا يكون له تأثير على حال.
خود اس روایت میں کافی اختلاف موجود ہے کبھی روایت کہتی ہے اس عقد ام کلثوم کی خود امام علی[ع] نےسرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے کہ عباس نے سرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے یہ عقد اس وقت تک نہیں ہوا جب تک عمر نے دھمکیاں نہ دی اور بنی ہاشم کو جب تک ڈرایا اور دھمکایا نہ گیا اور بعض روایت میں ہے کہ یہ عقد اختیار اور میل باطنی سے ہوا ۔
بعض راوی کہتے ہیں کہ اس ام کلثوم سے عمر کی زید نامی اولاد ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر ام کلثوم سے شب زفاف سے پہلے ہی قتل کردیا گئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زید بن عمر کی بھی اولاد ہوئی او ر بعض کہتے ہیں زید کی اولاد نہ ہوئی بعض کہتے ہیں کہ زید بن عمر اور انکی ماں ام کلثوم ایک ساتھ مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ زید کی ماں اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہی بعض کہتے ہیں عمر نے ام کلثوم کا مہر چالیس ہزار درھم معین کیا اور بعض کہتے ہیں چار ہزار درھم اور بعض کہتے ہیں پانچ سو درھم مہر تھا اسی اختلاف حدیث کی وجہ سے یہ حدیث باطل ہوجاتی ہے اور اس روایت کا کوئی اثرو تاثیر باقی نہیں رہتی ہے۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 90، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.
چونکہ اختلاف بہت زیادہ ہے اور یہ مقالہ اس کی گنجائش نہیں رکھتا ہے فقط چند موارد کو اہل سنت کی دلیل سے بیان کرینگے ۔
1. ام كلثوم نے عمر کے بعد کس سے شادی کی ؟
اپل سنت یہ جانتے تھے کہ ام کلثوم عمر کے بعد زندہ رہی ہیں لہذا انکے لئے کافی شوہر گھڑے گئے ہیں ۔
اہل سنت میں سب سے پہلےجس نے اس افسانہ کو لکھا ہے وہ
محمد بن سعد زهرى ( متوفى 230هـ) ہے اس نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے اسکے دوسرے علماء اہل سنت کی طرح بغیر تناقض کو دیکھے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔
محمد بن سعد لکھتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي وأمها فاطمة بنت رسول الله وأمها خديجة بنت خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ فلم تزل عنده إلى أن قتل وولدت له زيد بن عمر ورقية بنت عمر ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب.
امّ*كلثوم، بنت علي بن أبى طالب[ع]... کہ انکی والدہ فاطمه بنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم تھی ...ان سے نابالغ سن میں عمر بن خطاب نے شادی کی اور وہ عمر کے قتل تک انکے پاس تھی اور ان سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر پیدا ہوئی عمر کے بعد عون بن جعفر سے پھر محمد بن جعفر سے ام کلثوم نے شادی کی اور جب محمد بن جعفر بھی فوت کر گئے تو انکے بھائی عبد اللہ بن جفعر نے ام کلثوم کی بہن زینب کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ۔ ۔ ۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 178.
اس روایت میں آیا ہے کہ ام کلثوم نے عمر کے قتل کے بعد اپنے چچا زاد عون بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی محمد بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن راوی نے روایت کرتے وقت یہ فراموش کردیا ہے کہ عون بن جعفر اور محمد بن جعفر دونوں جنگ شوشتر سال 16 یا 17 ہجری میں شہید ہوگئے تھے اور وہ عمر کے قتل سے پہلے خلیفہ دوم کی زندگی میں ہی شہید ہوگئے تھے یعنی دوسرا اور تیسرا شوہر پہلے شوہر سے قبل مر گئے !
ابن حجر نے الاصابه کہتے ہیں:
استشهد عون بن جعفر في تستر وذلك في خلافة عمر وما له عقب.
عون بن جعفر جنگ شوشتر میں زمان خلافت عمر میں شہید ہوئے اور انکی کوئی اولاد نہ تھی .
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 744، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حجر عسقلانی اسی کتاب کے دوسرے مقام پر محمد بن جعفر کے احوال میں لکھتے ہیں :
محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب... أنه كان يكنى أبا القاسم وأنه تزوج أم كلثوم بنت علي بعد عمر قال واستشهد بتستر.
محمد بن جعفر بن ابى طالب بن عبد المطلب...انکی كنيت او ابوالقاسم تھی انھوں نے عمر کے بعد ام کلثوم سے شادی کی اور وہ جنگ تستر میں شہید ہوئے!
العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 6، ص 7768، رقم: 7769، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
بڑوں سے یہ کہاوت چلی آئی ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ہے اگر محمد بن جعفر اور عون بن جعفر جنگ تستر میں شہید ہوئے تو انھوں نے کیسے عمر کے بعد زندہ ہوکر ام کلثوم سے شادی کی ؟!
اس کے علاوہ ام کلثوم کی جناب زینب [س]کے شوہر عبد اللہ بن جعفر سے شادی ممکن نہیں ہے اور روایت کا مضمون دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا بنتا ہے اس لئے کہ حضرت زینب[س] واقعہ کربلا کے بعد تک زندہ اور عبد اللہ کی بیوی تھِیں ۔
اور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ عبد اللہ نے زینب[س] کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ہو اس لئے کہ ام کلثوم اہل سنت کے مطابق زمانہ امام حسن[س] میں مدینہ فوت ہوگئی تھیں اور اسکی دلیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ۔
بعض علماء اہل سنت اس جھوٹ کی طرف متوجہ ہوئے کہ ام کلثوم نے عون و محمد بن جعفر سے شادی ہونا تاریخ سے سازگار نہیں ہے لہذا ادعا کیا کہ ام کلثوم نے عمر کے بعد عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی ہے
ثم هلك عمر عن أم كلثوم فتزوجها عبد الله بن جعفر فلم تلد منه.
عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
الزبير بن بكار بن عبد الله بن مصعب الزبيري أبو عبد الله (متوفي256هـ)، المنتخب من كتاب أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، ج 1، ص 31، تحقيق: سكينة الشهابي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ.
جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے اس لئے اہل سنت اور شیعہ کا اتفاق ہے کہ
حضرت زينب سلام الله عليها نے زمانہ امير مؤمنین عليه السلام میں عبد الله بن جعفر سے شادی کی اور تا حیات انکی بیوی رہی ۔
.
2. عقد کے وقت ام کلثوم کا سن ۔
شادی کے وقت امّ*كلثوم کی عمر کے بارے میں اہل سنت کے علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے اور خلیفہ دو م کی آبرو رکھنے کے لئے ام کلثوم کو اتنا چھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے بوسہ دینا ، گلے لگانا اور حتی کہ پیر ننگے کرنا بھی انکے لئے حرام نہ رہے ۔
ابھی تک اس حد تک نہ پہنچی تھی کہ شہوت انگیز ہو:
ابن حجر هيثمى ، الصواعق المحرقه میں کہتے ہیں :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
بوسہ لینا اور گلے لگانا تکریم کی خاطر تھا اس لئے کہ وہ اس عمر کی نہیں ہوئی تھی کہ شہوت انگیز ہو حتی کہ عمر کے لئے ایسا کرنا حرام ہو !!!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
چھوٹی اور نابالغ جو دوسری لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
عبد الرزاق صنعانى اسے ایسی چھوٹی بچی کہا ہے جو دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري....
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
محمد بن سعد زهرى، نے بھی نابالغ بچی لکھا ہے :
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
اور دوسری روایت میں تو صبیہ یعنی بہت چھوٹی بچی لکھا ہے :
لما خطب عمر بن الخطاب إلى علي ابنته أم كلثوم قال يا أمير المؤمنين إنها صبية.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : اے امیر المومنین وہ تو بہت چھوٹی ہے [صبیہ ] ہے
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر بيروت.
ابن عساكر اور ابن جوزى نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے .
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 485، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
بلاذرى، ابن عبد البر، زمخشرى اور... نے کہا ہے کہ وہ عمر سے شادی کے وقت"صغیرہ" تھی
خطب عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي - رضي الله تعالى عنهم - فقال: إنها صغيرة.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : وہ بہت چھوٹی ہے۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 296؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1954، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 468.
ابن جوزى نے کہا، یہ شادی 17 ہجری میں ہوئی اور عمر نے اس وقت شادی کہ جب وہ نابالغ تھیں :
وفي هذه السنة (17هـ) تزوج عمر رضي الله عنه أم كلثوم بنت علي رضي الله عنه... فزوجها إياه ولم تكن قد بلغت فدخل بها في ذي القعدة ثم ولدت له زيدا.
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
10 سال یا اس سے زیادہ :
اور جب ام کلثوم کے لئے اولاد ثابت کرنا ہوتو انکی عمر اسی کے مطابق بتاتے ہیں اور انھیں 10 سال یا اس سے زیادہ کا بتاتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية أمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولدت في أواخر عهد النبي صلى الله عليه وسلم وتزوجها عمر بن الخطاب ولها عشر سنين أو أكثر فولدت له زيدا وماتت هي وابنها زيد في يوم واحد
ام کلثوم بنت علی [ع]اور بنت فاطمہ بنت رسول خدا [ص] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے آخری ایام زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے شادی کی شادی کے وقت انکی عمر 10سال یا اس سے زیادہ تھِی عمر کا ان سے بیٹا زید ہوا اور ماں بیٹا ایک ہی دن میں دنیا سے چلے گئے۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 211، 328، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
ذهبى اپنی ایک کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ام کلثوم سال 6 هجرى میں پیدا ہوئی :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمية شقيقة الحسن والحسين ولدت في حدود سنة ست من الهجرة ورأت النبي صلى الله عليه وسلم ولم ترو عنه شيئا. خطبها عمر بن الخطاب وهي صغيرة.
امّ*كلثوم بنت علي بن ابوطالب[ع]، خواهر حسن[ع] و حسين[ع]،* ۶ہجری میں پیدا ہوئیں انھوں نے رسول [ص]کو درک کیا لیکن آپ [ص] سے کوئی روایت نقل نہیں کی ہے عمر نے ان سے کمسنی میں خواستگاری کی ۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 500، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
اگر ہم یا تو شادی کو اہل سنت کے نظریہ کے مطابق 17 یا 18 ہجری میں مانے یا پھر وہ گیارہ یا بارہ سال کی تھی مانے !!!
جب کہ ذھبی دوسرا مقام پر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے جب شادی کی تو بہت چھوٹی اور صغیرہ تھیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية. ولدت في حياة جدها صلى الله عليه وسلم، وتزوجها عمر وهي صغيرة.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 137، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
اور ابن سعد کے مطابق جو گزر گیا کہ ام کلثوم یا صبیہ تھی یا نابالغ تھیں پس کیسے قبول کر سکتے ہیں سال 8 ہجری میں پیدا ہو ئی ہوں !!.
3. ام كلثوم کے مہر کی مقدار:
ام کلثوم کے مہر میں بھی اختلاف ہے بعض نے 10 ھزار دینار اور اکثرعلماء اہل سنت نے اس کی مقدار 40 ہزار درھم کہی ہے ۔
الف: دس هزار دينار:
يعقوبى تاریخ میں لکھا ہے :
فتزوجها وأمهرها عشرة آلاف دينار.
انکا مہر دس ہزار دینار تھا.
اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفاي292هـ، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص150، ناشر: دار صادر بيروت.
ب: 40 هزار دينار:
لما تزوج زينب بنت علي فانه أصدقها اربعين الف دينار.
الكتاني، الشيخ عبد الحي (متوفاي1382هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمى التراتيب الإدراية، ج 2، ص 405، ناشر: دار الكتاب العربي بيروت.
ج: 40 هزار درهم:
اکثر علماء اہل سنت نے 40 ہزار درھم کہا ہے :
أن عمر تزوج أم كلثوم على أربعين ألف درهم
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 3، ص 494، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ؛
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
مہر کی مقدار میں اختلاف کےعلاوہ اس میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ اہل سنت کی صحیح السند روایت کے مطابق خود عمر نے زیادہ اور گراں مہر رکھنے سے منع کیا ہے
ابن ماجه قزوينى نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ ثنا يَزِيدُ بن هَارُونَ عن بن عَوْنٍ ح وحدثنا نَصْرُ بن عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ثنا يَزِيدُ بن زُرَيْعٍ ثنا بن عَوْنٍ عن مُحَمَّدِ بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ كان أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بها مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُثَقِّلُ صَدَقَةَ امْرَأَتِهِ حتى يَكُونَ لها عَدَاوَةٌ في نَفْسِهِ وَيَقُولُ قد كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أو عَرَقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ رَجُلًا عَرَبِيًّا مَوْلِدًا ما أَدْرِي ما عَلَقُ الْقِرْبَةِ أو عَرَقُ الْقِرْبَةِ.
عمر بن الخطاب کہتےہیں کہ عورتوں کے مہر گراں نہ رکھو اس لئے کہ اگر یہ دنیاوی یا خدا کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو تم سب میں اس کے حقدار محمد [ص]تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے اور اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا مہر بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا اور مرد اپنی بیوی کا مہر زیادہ رکھتا ہے پھر اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ (بیوی مطالبہ کرتی ہے اور یہ ادا نہیں کرسکتا) اور کہتا ہے میں نے تیرے لئے مشقت برداشت کی یہاں تک مشکیزہ کی رسی بھی اٹھانی پڑی یا مشک کے پانی کی طرح مجھے پسینہ آیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ میں اصل عرب نہ تھا بلکہ بائیں طور پر دوسرے علاقہ کا تھا اس لئے علق القربہ یا عرق القربہ کا مطلب نہیں سمجھا۔
!!!
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 607، ح1887، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.
البانى نے اس روایت کو صحيح ابن ماجه شماره 1532 میں تصحيح کی ہے .
اور ابوداوود نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا محمد بن عُبَيْدٍ ثنا حَمَّادُ بن زَيْدٍ عن أَيُّوبَ عن مُحَمَّدٍ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ الله فقال ألا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها النبي صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً
عمر نے کہا خبردار عورتوں کے بھاری بھر کم مہر مت ٹھہراؤ کیونکہ اگر یہ چیز دینا میں بزرگی اور اللہ کے نزدیک پرہیز گاری کا سبب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زائد مہر نہ اپنی کسی بیوی کا باندھا اور نہ کسی بیٹی کا۔
السجستاني الأزدي، سليمان بن الأشعث أبو داود (متوفاي275هـ)، سنن أبي داود، ج 2، ص 235، ح2106، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.
البانى اس روايت کو صحيح ابى داوود شماره 1852 میں صحیح قرار دیا ہے .
اور ترمذى نے بھِی اس روایت کو نقل کرکے صحیح قرار دیا ہے :
حدثنا بن أبي عُمَرَ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ ألا لَا تُغَالُوا صَدُقَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ما عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَكَحَ شيئا من نِسَائِهِ ولا أَنْكَحَ شيئا من بَنَاتِهِ على أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً.
قال أبو عِيسَى هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وأبو الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ هَرِمٌ وَالْأُوقِيَّةُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا وَثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً أربعمائة وَثَمَانُونَ دِرْهَمًا
الترمذي السلمي، محمد بن عيسى أبو عيسى (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج 3، ص 422، ح1114، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
اور سيوطى نے جامع الأحاديث میں لکھا ہے :
عن مسروقٍ قَالَ: رَكِبَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ المِنْبَرَ ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ مَا إِكْثَارُكُمْ في صِدَاقِ النسَاءِ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ وَإِنَّمَا الصدَاقُ فِيمَا بَيْنَهُمْ أَرْبَعُمَائَةُ دِرْهَمٍ فَمَا دُونَ ذالِكَ، فَلَوْ كَانَ الإِكْثَارُ في ذالِكَ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ أَوْ مَكْرُمَةً لَمْ تَسْبِقُوهُمْ إِلَيْهَا ) ( ص، ع ).
مسروق سے روايت ہے کہ عمر نےمنبر رسول [ص]سے کہا اے لوگوں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی عورتوں کا مہر بھاری بھرکم رکھتے ہو جبکہ رسول[ص] اور انکے اصحاب چار سو درھم یا اس سے کم مہر رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 271، ح3318.
اس بناء پر اول تو مہر ام کلثوم سنت رسول [ص]کے برخلاف ہے کیوں گذشتہ تمام روایات میں بیان ہوا کہ حضرت رسول [ص]کسی بھی عورت اور بیٹی کا زیادہ مہر نہیں رکھتے تھے
ثانياً: یہ مہر خود مخالف سیرت و سنت عمر ہے۔ کیا اہل سنت ایسی نسبت عمر کی طرف دے سکتے ہیں جس سے انکا یہ فعل اس آیت کا مصداق قرار پائے گا:
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ. كَبرَُ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لَا تَفْعَلُون. الصف / 2 و 3.
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتےاللہ کے نزدیک یہ طریقہ بڑا ہی ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو کہ خود نہ کرو۔
4. کیا ام کلثوم سے عمر کی اولاد ہوئی؟
اس شادی کے افسانہ ہونے کی دلیل ام کلثوم کی اولاد کی کہانی بھی ہے بعض کہتے ہیں کہ ام کلثوم کوئی اولاد نہیں ہوئی بعض کہتے ہیں صرف ایک زید نامی بیٹا ہوا اور بعض کہتے ہیں زید اور رقیہ اور بعض کہتے ہیں زید ، رقیہ ، فاطمہ کو ام کلثوم نےجنم دیا۔
کوئی بھی اولاد نہیں تھی :
مسعودى شافعى نے عمر کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
أولاد عمر. وكان له من الولد: عبد اللّه، وحفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وعاصم، وعبيد اللّه، وزيد، من أًم، وعبد الرحمن، وفاطمة، وبنات آخر، وعبد الرحمن الأصغر - وهو المحدود في الشراب، وهو المعروف بأبي شحمة - من ام.
عمر کی اولاد: عمر کی مندرجہ اولاد ہیں
عبد الله ، حفصه زوجہ پيامبر (ص)* و عاصم و عبيد الله و زيد ایک ماں سے ؛ اور عبد الرحمن و فاطمه اور دوسری بیٹیاں اور عبد الرحمن اصغر یہ وہی ہے جو شراب نوشی کی بناء پر سزا یافتہ ہے جو ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہے ، ایک دوسری ماں سے ۔
المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على (متوفاى346هـ)، مروج الذهب، ج 1، ص 299
اس نقل کی بناء پر عمر کا زید ایک بیٹا تھا اور اس کے بھائی عاصم اور عبد اللہ تھے ایک ماں اور ان تینوں کی ماں ام کلثوم بنت جرول تھی اور عمر کی کوئی بھی اولاد ام کلثوم سے ہوئی ہو ، نقل نہیں ہوئی ہے ۔
صرف ایک بیٹا تھا:
اہل سنت کے کافی علماء نے ام کلثوم سے صرف ایک فرزند ذکر کیا ہے :
بيهقى نے سنن كبراى میں کہا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيد بن عمر ضرب ليالي قتال بن مطيع ضربا لم يزل ينهم له حتى توفي ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر فلم تلد له شيئا حتى مات.
امّ*كلثوم، نے عمر سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا پھر رات کی لڑائی میں ابن مطیع نے ایسی ضرب لگائی کہ مرتے دم تک اس درد میں رہا پھر ام کلثوم نے عمر کے بعد عون بن جعفر سے شادی کی اور اس سے انکی کوئی اولاد نہ ہوئی یہاں تک دنیا سے چلے گئیں۔
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 70، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 - 1994.
اور نويرى نے نهاية الأرب میں لکھا ہے :
وتزوج أم كلثوم عمر بن الخطاب فولدت له زيد بن عمر، ثم خلف عليها بعده عون بن جعفر فلم تلد له حتى مات.
امّ*كلثوم نے عمر بن خطاب سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اس کے بعد ام کلثوم نے عون بن جعفر سے شادی کی اور ان سے بچہ نہیں ہوا یہاں تک وہ مر گئیں
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 18، ص 142، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
اور صفدى نے، بھی ام کلثوم کے لئے فقط ايك فرزند ذکر کیا ہے :
وأم كلثوم تزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيدا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 1، ص 79، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
اور ابن كثير دمشقى سلفى نے بھی لکھا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها أمير المؤمنين عمر بن الخطاب فولدت له زيدا ومات عنها فتزوجت بعده ببني عمها جعفر واحدا بعد واحد....
امّ*كلثوم، نے عمر کے ساتھ شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اور عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے اپنے چچا جعفر کے لڑکوں سے شادی کی ایک کے بعد ایک ۔۔۔۔
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 5، ص 293، ناشر: مكتبة المعارف بيروت.
دو اولاد تھی:
اكثر علماء اہل سنت نے کہا ہے کہ دو اولا تھی ، :
وزيد الأكبر لا بقية له ورقية وأمهما أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم وأمها فاطمة بنت رسول الله.
اور زيد اكبر، کہ جس کی اولاد نہ تھی اور رقيه؛ ان دونوں کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب بن عبد المطلب بن هاشم اور بنت فاطمه بنت رسول خدا (ص)* تھیں .
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي 236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 450، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
تین اولاد تھی :
بلاذرى نے انساب الأشراف میں ام کلثوم کی زید کے علاوہ دوبہنوں کا ذکر کیا :
عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب: كانت تحته فاطمة بنت عمر، وأمها أم كلثوم، بنت علي بن أبي طالب، وجدتها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم،وأخوها لأبيها وأمها زيد بن عمر بن الخطاب، فولدت لعبد الرحمن: عبدَ الله وابنةً. وإبراهيم بن نعيم النحام بن عبد الله بن أسيد بن عبد بن عوف بن عبيد بن عويج بن عدي بن كعب، كانت عنده رقية بنت عمر، أخت حفصة لأبيها، وأمها: أم كلثوم بنت علي.
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 189.
زيد عمر کا بھائی یا عمر کا بیٹا؟
ابن عساكر دمشقى، نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام کلثوم خطاب کی بیوی تھی نا کہ عمر بن خطاب کی
وحدثني عمر بن أبي بكر المؤملي حدثني سعيد بن عبد الكبير عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وكان سبب ذلك أن حربا وقعت فيما بين عدي بن كعب.
... عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن خطاب كه جن کی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] تھی روایت کی ہے ...
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
زيد اصغر، زيد اكبر سے بڑے !!!
اس سے بھی اھم ترین بات وہ ہے جس کی طرف اہل سنت کے علماء نے اشارہ کیا ہے : کہ اہل سنت کے علماء نے عمر کے دو بیٹوں کا نام زید بتایا ہے ایک ام کلثوم بنت جردل سے اور دوسرا ام کلثوم بنت علی [ع]سے ام کلثوم بنت جردل زمانہ جاہلیت میں عمر کی بیوی تھی اور عمر اسلام لانے کے بعد اس سے الگ ہوگئے اور اس عورت نے کسی اور سے شادی کر لی ۔
وأمُّ عبيد الله أم كلثوم: واسمها مليكة بنت جرول الخزاعية، وكانت على شركها حين نزلت ولا تمسكوا بعصم الكوافر فطلقها عمر فتزوجها أبو فهم بن حذيفة صاحب الخميصة، وقد تقدم ذكره في أول الكتاب.
عبید اللہ کی ماں ام کلثوم سے مشہور ہے جس کا اصل نام ملیکہ بنت جردل خزاعی ہے اور جب یہ آیتولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو وہ کافر ہی رہی تو عمر نے اسے طلاق دیدی تو اس سے ابن حذیفہ نے شادی کی ۔۔۔ ۔
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 258.
اور ابن حجر عسقلانى نے کہا:
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي شقيق عبد الله بن عمر المصغر أمهما أم كلثوم بنت جرول كانت تحت عمر ففرق بينهما الإسلام لما نزلت ولاتمسكوا بعصم الكوافر فتزوجها أبو الجهم بن حذيفة وكان زوجها قبله عمر ذكر ذلك الزبير وغيره فهذا يدل على أن زيدا ولد في عهد النبي.
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، برادر عبد الله بن عمر اصغر؛ ان دونوں کی ماں ام کلثوم بنت جرودل ہے اور یہ عمر کی بیوی تھی جب یہ آیت ولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو اسلام نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی پھر اس سے ابو جھم نے شادی کی اور اس سے پہلے وہ عمر کی بیوی تھی اس بات کو زبیر اور دیگران نے ذکر کیا ہے اور یہ بات یہ بتاتی ہے کہ زید [اصغر] رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 2، ص 628، رقم: 2961، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
نکتہ یہاں پر ہے کہ وہ زید ام کلثوم بنت جرول کا بیٹا جو زمانہ رسول[ص] میں پیدا ہوا ہے ان لوگوں نے اسے " زید اصغر " قرار دیا ہے اور ام کلثوم بنت علی[ع] کے بیٹے کو ان لوگوں نے زید اکبر قرار دیا ہے اوریہ مطلب ام کلثوم کے بیٹے زید کے سرے سے ہونے کو مخدوش کرتا ہے کیسے ہوسکتا ہے چھوٹے بیٹے کو اکبر اور بڑے کو اصغر بنادیا جائے۔
علماء اہل سنت نے اس مشکل کو سمجھے بغیر نقل کیا ہے کہ :
وزيد الأكبر ورقية وأمهم أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وزيد الأصغر وعبيدالله وأمهما أم كلثوم بنت جرول. وفرق الإسلام بين عمر وبين أم كلثوم بنت جرول
زيد اكبر و رقيه، کہ ان دو کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب و فاطمه بنت رسول خدا (ص)* ہیں و زيد اصغر و عبيد الله انکی ماں ام کلثوم بنت جردل ہے اسلام نے عمر اور بنت جردل کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 131، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
اس بناءپر ، کلام اہل سنت سے ثابت ہوا ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر تھی اور زید بن عمر ام کلثوم بنت جرول سے تھا نہ کہ ام کلثوم بنت امام علی[ع] سے البتہ اہل سنت کے علماءنے اس کے علاوہ ایک اور ام کلثوم کو عمر کی بیوی قرار دیا ہے عاصمی مکی عمر کی زوجات کی تعداد بتاتے ہوا لکھتا ہے :
والرابع عاصم أمه أم كلثوم جميلة بنت عاصم بن ثابت بن أبى الأفلح حمى الدبر.
عمر، کا بیٹا عاصم ہے اسکی ماں ؛ امّ*كلثوم جميله بنت عاصم بن ثابت بن ابى افلح ہے .
العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 2، ص 508، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.
يعنى خليفه دوم کی امّ*كلثومنام کے سے چار بیویاں تھیں : 1. امّ*كلثوم بنت جرول؛ 2. امّ*كلثوم بنت ابوبكر؛ 3. امّ*كلثوم بنت عاصم بن ثابت؛ 4. امّ*كلثوم بنت امير المؤمنین.!!!.
گویا اہل سنت کے علماء نے تشابہ اسمی کی و جہ سے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ۔
عمر نے، اپنی بیٹی رقيه کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی :
اس قصہ کے جھوٹے ہونے کی ایک اور تائید اہل سنت کے علماء کا یہ دعوی ہے کہ عمر نے خود اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ۔
ابن قتيبه دينورى لکھتا ہے:
ويقال إن اسم بنت أم كلثوم من عمر رقية وأن عمر زوجها إبراهيم بن نعيم النحام فماتت عنده ولم تترك ولدا.
اور کہا گیا ہے کہ عمر نے اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی اور وہ رقیہ ابراہیم کی زوجیت میں فوت کر گئی اور کوئی اولاد نہ ہوئی۔
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 185، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة .
اور ابن اثير جزرى نے بھی لکھا:
وقد ذكر الزبير بن أبي بكر أن عمر بن الخطاب زوج ابنته رقية من إبراهيم بن نعيم بن عبد الله النحام
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی.
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 1، ص 71، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.
ابن حجر عسقلانى اس بارے میں لکھا :
وقال الزبير زوج عمر بن الخطاب إبراهيم هذا ابنته قلت وعند البلاذري أنه كانت عنده رقية بنت عمر من أم كلثوم بنت علي.
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اس بیٹی کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ؛ بلاذرى نے بھی کہا ابراہیم کی بیوی رقیہ بنت عمر و ام کلثوم بنت علی[ع] تھی۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 1، ص 178، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ دوم کی شادی ام کلثوم سے ۱۷ یا ۱۸ ہجری میں ہونا کہتے ہیں اور عمر کی وفات ۲۳ ہجری میں ہوئی یعنی عمر نے ام کلثوم کے ساتھ ۶ سال گزارے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہوئے زید ام کلثوم !!! کا بیٹا رقیہ سے بڑا تھا اور زید خود اپنے پاپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیدا ہوا پس کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ رقیہ اس چھوٹی سی عمر یعنی ایک سال یا دو سال میں بیاہ دی گئی ہو ؟
ابن حجر نے زید کی تاریخ ولادت کے بارے میں کہا ہے
وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين.
زید کی ولادت اپنے باپ کے آخری ایام ِزندگی ۲۳ ہجری میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
شاید عمر نے ام کلثوم سے بہت چھوٹی عمر میں شادی کی تھی اسی لئے خواہش ہو کہ اپنی دودھ پیتی بیٹی کو دلہن بنا دے !!!.
5. ام كلثوم و زيد کی تاريخ وفات:
تاريخ وفات امّ*كلثوم اور زيد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے کہا امام حسن[ع] کے زمانہ میں فوت کر گئے اور بعض نے کہا عبد الملک بن مروان نے انھیں زہر دیا۔
زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں موت (73 ـ 86هـ):
عبد الرزاق صنعانى،نے ان دونوں کی موت کو زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں ذکر کی ہے اور سال 86 هجرى میں وفات کی ہے یعنی ام کلثوم اور زید حد اقل ۷۸ ہجری تک زندہ ہونگے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.
عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
سعيد بن العاص کی امارت مین وفات پائی (48 ھـ 54هـ):
روايات مشهور اهل سنت یہ ثات کرتی ہیں کہ یہ دونوں زمانہ سعيد بن العاص كه سال 48هـ سے 54هـ تک امير مدينه میں فوت کر گئے ۔
صفدى نے الوافى بالوفيات میں لکھا ہے :
وتوفي زيد رحمه الله شابا في حدود الخمسين للهجرة.
زيد رحمه الله جوانى میں تقریبا سال 50 هجرى میں دنیا سے چلے گیا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
اور ابن حجر عسقلانى کہتے ہیں :
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب مات مع أمه في يوم واحد وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين ومات وهو شاب في خلافة معاوية في ولاية سعيد بن العاص على المدينة
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، انکی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] ہے یہ دونوں ایک ہی دن میں وفات کر گئے
زید کی ولادت اپنے باپ کی حیات سال 23 میں ہوئی اور زید کی وفات خلافت معاويه اور زمانہ امیر مدینہ سعيد بن عاص میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
اس دو نقل میں 20 سال کا فرق ہے !!!.
واقعه كربلا کے بعد وفات :
خطبہ ام کلثوم کوفہ میں جسے ابن طیفور نے نقل کیا ہے بتاتا ہے کہ کربلا کے واقعے کے بعد تک ام کلثوم زندہ تھی۔
قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة...
أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاى380 هـ )، بلاغات النساء، ص 24، ناشر: منشورات مكتبة بصيرتي ـ قم و ص 11، طبق برنامه الجامع الكبير.
6. ام كلثوم و زيد کی وفات کا سبب :
وفات امّ*كلثوم و زيد کے سبب میں بھی اختلاف ہے بعض کہتے ہیں مریضی کی وجہ اور اسی مریضی میں فوت کر گئے،۔
مريضي کی وجہ سے وفات :
محمد بن حبيب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاريخ مدينة دمشق میں اور صفدى نے الوافى فى الوفيات میں لکھا ہے :
وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة الله عليهم وكانت تحت عبد الله بن جعفر بن أبي طالب عليه مرضاً جميعاً وثقلاً ونزل بهما وأن رجالاً مشوا بينهما لينظروا أيهما يموت قبل صاحبه فيرث منه الآخر وأنهما قبضا في ساعة واحدة ولم يدر أيهما قبض قبل صاحبه فلم يتوارثا.
بعض اهل علم نے کہا ہے کہ زید اور انکی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب (رحمة الله عليهم) نے جب وہ عبد اللہ بن جعفر کی بیوی تھی دونوں مریض ہوئے اور ایک ہی وقت میں وفات کی ہم لوگ انکے پاس آنا جانا رکھتے تھے تاکہ دیکھیں کون پہلے مرتا ہے اور کون وارث بنتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی وقت اور لمحہ میں مر گئے اور معلوم نہیں ہو سکا کہ پہلے کون مرا ہےاسی وجہ سے ارث دونوں میں تقسیم نہ ہو سکی ۔
البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبيب بن أمية (متوفاي245هـ)، المنمق في أخبار قريش، ج 1، ص 312، تحقيق: خورشيد أحمد فارق، ناشر: عالم الكتب - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ ـ 1985م؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487 تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
پتھر لگنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی:
بعض نے کہا زید پتھر لگنے کی وجہ سے مر گئے .
ابن حبان نے لکھا:
فأما أم كلثوم فزوجها على من عمر فولدت لعمر زيدا ورقية وأما زيد فأتاه حجر فقتله.
امّ*كلثوم کی علي[ع] نے عمر سے شادی کروائی جس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئی اور زید کو پتھر لگا جس نے جان لے لی!۔
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م.
ابن قتيبه دينورى کا یہ اعتقاد ہے کہ زید ، بنى عويج و بنى رزاح کے درمیان ہونے والی جنگ میں قتل ہوا۔
وأما زيد بن عمر بن الخطاب فرمى بحجر في حرب كانت بين بني عويج وبين بني رزاح فمات ولا عقب له ويقال أنه مات هو وأم كلثوم أمه في ساعة واحدة فلم يرث واحد منهما من صاحبه...
اور زيد بن عمر، عويج اور بنى رزاح کی جنگ میں پتھر لگنے کی وجہ سے وفات کر جاتے ہیں اور انکی کوئی اولاد نہ تھی۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ انکی والدہ بھی اسی گھڑی میں انکے ساتھ وفات کر گئ اسی وجہ سے ایک دوسرے سے ارث نہیں لےسکے ...
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 188، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة.
اور بعض علماء اهل سنت نے کہا قبلیہ بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارا گیا:
وتوفيت أم كلثوم وابنها زيد في وقت واحد وقد كان زيد أصيب في حرب كانت بين بني عدي ليلا كان قد خرج ليصلح بينهم فضربه رجل منهم في الظلمة فشجه وصرعه فعاش أياما ثم مات وهو وأمه في وقت واحد وصلى عليهما ابن عمر...
امّ*كلثوم اور انکے بیٹے زيد نے ایک ہی گھڑی میں وفات پائی ، زید رات کے وقت بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں صلح کے لئے گئے تھے تاریکی میں اسے سر پر کسی نے ضرب لگائی اور وہ زخمی ہوگئے زید اس کے بعد چند روز زندہ رہا اور اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی وقت میں وفات کر گیا اور ابن عمر نے ان پر نماز پڑھائی ....
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1956، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م
تیر لگنے کی وجہ سے وفات :
فولدت له زيد بن عمر وهو زيد الأكبر ورقية بنت عمر وكانت وفاتها ووفاة ابنها في ساعة واحدة وكان سبب موته سهما أصابه ليلا في ثائرة وقعت بين عدي وبني حذيفة
امّ*كلثوم، کا عمر سے زید نامی لڑکا ہو اور یہی زید اکبر ہے اسی طرح رقیہ اور زید اور ام کلثوم ایک ہی وقت میں مر گئے زید کی موت کا سبب بنی عدی اور بنی حذیفہ میں ہونے والی جنگ میں تیر کا لگنا تھا ۔
السهيلي، عبد الرحمن بن عبد الله أبو القاسم (متوفاي581هـ)، الفرائض وشرح آيات الوصية، ج 1، ص 138، تحقيق: د. محمد إبراهيم البنا، ناشر: المكتبة الفيصلية - مكة المكرمة، الطبعة: الثانية، 1405هـ.
موت کا سبب زہر کھانا :
عبد الرزاق صنعانى، بخاری کے استاد نے لکھا ہے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.
عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی[ع] اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه اس تناقض اور اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:
والحديث بنفسه مختلف، فتارة يروى: أن أمير المؤمنين عليه السلام تولى العقد له على ابنته. وتارة يروى أن العباس تولى ذلك عنه. وتارة يروى: أنه لم يقع العقد إلا بعد وعيد من عمر وتهديد لبني هاشم. وتارة يروى أنه كان عن اختيار وإيثار.
ثم إن بعض الرواة يذكر أن عمر أولدها ولدا أسماه زيدا. وبعضهم يقول: إنه قتل قبل دخوله بها. وبعضهم يقول: إن لزيد بن عمر عقبا. ومنهم من يقول: إنه قتل ولا عقب له. ومنهم من يقول: إنه وأمه قتلا. ومنهم من يقول: إن أمه بقيت بعده. ومنهم من يقول: إن عمر أمهر أم كلثوم أربعين ألف درهم. ومنهم من يقول: مهرها أربعة آلاف درهم. ومنهم من يقول: كان مهرها خمسمائة درهم.
وبدو هذا الاختلاف فيه يبطل الحديث، فلا يكون له تأثير على حال.
خود اس روایت میں کافی اختلاف موجود ہے کبھی روایت کہتی ہے اس عقد ام کلثوم کی خود امام علی[ع] نےسرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے کہ عباس نے سرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے یہ عقد اس وقت تک نہیں ہوا جب تک عمر نے دھمکیاں نہ دی اور بنی ہاشم کو جب تک ڈرایا اور دھمکایا نہ گیا اور بعض روایت میں ہے کہ یہ عقد اختیار اور میل باطنی سے ہوا ۔
بعض راوی کہتے ہیں کہ اس ام کلثوم سے عمر کی زید نامی اولاد ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر ام کلثوم سے شب زفاف سے پہلے ہی قتل کردیا گئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زید بن عمر کی بھی اولاد ہوئی او ر بعض کہتے ہیں زید کی اولاد نہ ہوئی بعض کہتے ہیں کہ زید بن عمر اور انکی ماں ام کلثوم ایک ساتھ مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ زید کی ماں اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہی بعض کہتے ہیں عمر نے ام کلثوم کا مہر چالیس ہزار درھم معین کیا اور بعض کہتے ہیں چار ہزار درھم اور بعض کہتے ہیں پانچ سو درھم مہر تھا اسی اختلاف حدیث کی وجہ سے یہ حدیث باطل ہوجاتی ہے اور اس روایت کا کوئی اثرو تاثیر باقی نہیں رہتی ہے۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 90، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.
چونکہ اختلاف بہت زیادہ ہے اور یہ مقالہ اس کی گنجائش نہیں رکھتا ہے فقط چند موارد کو اہل سنت کی دلیل سے بیان کرینگے ۔
1. ام كلثوم نے عمر کے بعد کس سے شادی کی ؟
اپل سنت یہ جانتے تھے کہ ام کلثوم عمر کے بعد زندہ رہی ہیں لہذا انکے لئے کافی شوہر گھڑے گئے ہیں ۔
اہل سنت میں سب سے پہلےجس نے اس افسانہ کو لکھا ہے وہ
محمد بن سعد زهرى ( متوفى 230هـ) ہے اس نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے اسکے دوسرے علماء اہل سنت کی طرح بغیر تناقض کو دیکھے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔
محمد بن سعد لکھتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي وأمها فاطمة بنت رسول الله وأمها خديجة بنت خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ فلم تزل عنده إلى أن قتل وولدت له زيد بن عمر ورقية بنت عمر ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب.
امّ*كلثوم، بنت علي بن أبى طالب[ع]... کہ انکی والدہ فاطمه بنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم تھی ...ان سے نابالغ سن میں عمر بن خطاب نے شادی کی اور وہ عمر کے قتل تک انکے پاس تھی اور ان سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر پیدا ہوئی عمر کے بعد عون بن جعفر سے پھر محمد بن جعفر سے ام کلثوم نے شادی کی اور جب محمد بن جعفر بھی فوت کر گئے تو انکے بھائی عبد اللہ بن جفعر نے ام کلثوم کی بہن زینب کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ۔ ۔ ۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 178.
اس روایت میں آیا ہے کہ ام کلثوم نے عمر کے قتل کے بعد اپنے چچا زاد عون بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی محمد بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن راوی نے روایت کرتے وقت یہ فراموش کردیا ہے کہ عون بن جعفر اور محمد بن جعفر دونوں جنگ شوشتر سال 16 یا 17 ہجری میں شہید ہوگئے تھے اور وہ عمر کے قتل سے پہلے خلیفہ دوم کی زندگی میں ہی شہید ہوگئے تھے یعنی دوسرا اور تیسرا شوہر پہلے شوہر سے قبل مر گئے !
ابن حجر نے الاصابه کہتے ہیں:
استشهد عون بن جعفر في تستر وذلك في خلافة عمر وما له عقب.
عون بن جعفر جنگ شوشتر میں زمان خلافت عمر میں شہید ہوئے اور انکی کوئی اولاد نہ تھی .
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 744، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حجر عسقلانی اسی کتاب کے دوسرے مقام پر محمد بن جعفر کے احوال میں لکھتے ہیں :
محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب... أنه كان يكنى أبا القاسم وأنه تزوج أم كلثوم بنت علي بعد عمر قال واستشهد بتستر.
محمد بن جعفر بن ابى طالب بن عبد المطلب...انکی كنيت او ابوالقاسم تھی انھوں نے عمر کے بعد ام کلثوم سے شادی کی اور وہ جنگ تستر میں شہید ہوئے!
العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 6، ص 7768، رقم: 7769، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
بڑوں سے یہ کہاوت چلی آئی ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ہے اگر محمد بن جعفر اور عون بن جعفر جنگ تستر میں شہید ہوئے تو انھوں نے کیسے عمر کے بعد زندہ ہوکر ام کلثوم سے شادی کی ؟!
اس کے علاوہ ام کلثوم کی جناب زینب [س]کے شوہر عبد اللہ بن جعفر سے شادی ممکن نہیں ہے اور روایت کا مضمون دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا بنتا ہے اس لئے کہ حضرت زینب[س] واقعہ کربلا کے بعد تک زندہ اور عبد اللہ کی بیوی تھِیں ۔
اور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ عبد اللہ نے زینب[س] کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ہو اس لئے کہ ام کلثوم اہل سنت کے مطابق زمانہ امام حسن[س] میں مدینہ فوت ہوگئی تھیں اور اسکی دلیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ۔
بعض علماء اہل سنت اس جھوٹ کی طرف متوجہ ہوئے کہ ام کلثوم نے عون و محمد بن جعفر سے شادی ہونا تاریخ سے سازگار نہیں ہے لہذا ادعا کیا کہ ام کلثوم نے عمر کے بعد عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی ہے
ثم هلك عمر عن أم كلثوم فتزوجها عبد الله بن جعفر فلم تلد منه.
عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
الزبير بن بكار بن عبد الله بن مصعب الزبيري أبو عبد الله (متوفي256هـ)، المنتخب من كتاب أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، ج 1، ص 31، تحقيق: سكينة الشهابي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ.
جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے اس لئے اہل سنت اور شیعہ کا اتفاق ہے کہ
حضرت زينب سلام الله عليها نے زمانہ امير مؤمنین عليه السلام میں عبد الله بن جعفر سے شادی کی اور تا حیات انکی بیوی رہی ۔
.
2. عقد کے وقت ام کلثوم کا سن ۔
شادی کے وقت امّ*كلثوم کی عمر کے بارے میں اہل سنت کے علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے اور خلیفہ دو م کی آبرو رکھنے کے لئے ام کلثوم کو اتنا چھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے بوسہ دینا ، گلے لگانا اور حتی کہ پیر ننگے کرنا بھی انکے لئے حرام نہ رہے ۔
ابھی تک اس حد تک نہ پہنچی تھی کہ شہوت انگیز ہو:
ابن حجر هيثمى ، الصواعق المحرقه میں کہتے ہیں :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
بوسہ لینا اور گلے لگانا تکریم کی خاطر تھا اس لئے کہ وہ اس عمر کی نہیں ہوئی تھی کہ شہوت انگیز ہو حتی کہ عمر کے لئے ایسا کرنا حرام ہو !!!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
چھوٹی اور نابالغ جو دوسری لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
عبد الرزاق صنعانى اسے ایسی چھوٹی بچی کہا ہے جو دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري....
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
محمد بن سعد زهرى، نے بھی نابالغ بچی لکھا ہے :
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
اور دوسری روایت میں تو صبیہ یعنی بہت چھوٹی بچی لکھا ہے :
لما خطب عمر بن الخطاب إلى علي ابنته أم كلثوم قال يا أمير المؤمنين إنها صبية.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : اے امیر المومنین وہ تو بہت چھوٹی ہے [صبیہ ] ہے
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر بيروت.
ابن عساكر اور ابن جوزى نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے .
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 485، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
بلاذرى، ابن عبد البر، زمخشرى اور... نے کہا ہے کہ وہ عمر سے شادی کے وقت"صغیرہ" تھی
خطب عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي - رضي الله تعالى عنهم - فقال: إنها صغيرة.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : وہ بہت چھوٹی ہے۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 296؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1954، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 468.
ابن جوزى نے کہا، یہ شادی 17 ہجری میں ہوئی اور عمر نے اس وقت شادی کہ جب وہ نابالغ تھیں :
وفي هذه السنة (17هـ) تزوج عمر رضي الله عنه أم كلثوم بنت علي رضي الله عنه... فزوجها إياه ولم تكن قد بلغت فدخل بها في ذي القعدة ثم ولدت له زيدا.
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
10 سال یا اس سے زیادہ :
اور جب ام کلثوم کے لئے اولاد ثابت کرنا ہوتو انکی عمر اسی کے مطابق بتاتے ہیں اور انھیں 10 سال یا اس سے زیادہ کا بتاتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية أمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولدت في أواخر عهد النبي صلى الله عليه وسلم وتزوجها عمر بن الخطاب ولها عشر سنين أو أكثر فولدت له زيدا وماتت هي وابنها زيد في يوم واحد
ام کلثوم بنت علی [ع]اور بنت فاطمہ بنت رسول خدا [ص] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے آخری ایام زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے شادی کی شادی کے وقت انکی عمر 10سال یا اس سے زیادہ تھِی عمر کا ان سے بیٹا زید ہوا اور ماں بیٹا ایک ہی دن میں دنیا سے چلے گئے۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 211، 328، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
ذهبى اپنی ایک کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ام کلثوم سال 6 هجرى میں پیدا ہوئی :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمية شقيقة الحسن والحسين ولدت في حدود سنة ست من الهجرة ورأت النبي صلى الله عليه وسلم ولم ترو عنه شيئا. خطبها عمر بن الخطاب وهي صغيرة.
امّ*كلثوم بنت علي بن ابوطالب[ع]، خواهر حسن[ع] و حسين[ع]،* ۶ہجری میں پیدا ہوئیں انھوں نے رسول [ص]کو درک کیا لیکن آپ [ص] سے کوئی روایت نقل نہیں کی ہے عمر نے ان سے کمسنی میں خواستگاری کی ۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 500، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
اگر ہم یا تو شادی کو اہل سنت کے نظریہ کے مطابق 17 یا 18 ہجری میں مانے یا پھر وہ گیارہ یا بارہ سال کی تھی مانے !!!
جب کہ ذھبی دوسرا مقام پر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے جب شادی کی تو بہت چھوٹی اور صغیرہ تھیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية. ولدت في حياة جدها صلى الله عليه وسلم، وتزوجها عمر وهي صغيرة.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 137، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
اور ابن سعد کے مطابق جو گزر گیا کہ ام کلثوم یا صبیہ تھی یا نابالغ تھیں پس کیسے قبول کر سکتے ہیں سال 8 ہجری میں پیدا ہو ئی ہوں !!.
3. ام كلثوم کے مہر کی مقدار:
ام کلثوم کے مہر میں بھی اختلاف ہے بعض نے 10 ھزار دینار اور اکثرعلماء اہل سنت نے اس کی مقدار 40 ہزار درھم کہی ہے ۔
الف: دس هزار دينار:
يعقوبى تاریخ میں لکھا ہے :
فتزوجها وأمهرها عشرة آلاف دينار.
انکا مہر دس ہزار دینار تھا.
اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفاي292هـ، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص150، ناشر: دار صادر بيروت.
ب: 40 هزار دينار:
لما تزوج زينب بنت علي فانه أصدقها اربعين الف دينار.
الكتاني، الشيخ عبد الحي (متوفاي1382هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمى التراتيب الإدراية، ج 2، ص 405، ناشر: دار الكتاب العربي بيروت.
ج: 40 هزار درهم:
اکثر علماء اہل سنت نے 40 ہزار درھم کہا ہے :
أن عمر تزوج أم كلثوم على أربعين ألف درهم
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 3، ص 494، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ؛
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
مہر کی مقدار میں اختلاف کےعلاوہ اس میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ اہل سنت کی صحیح السند روایت کے مطابق خود عمر نے زیادہ اور گراں مہر رکھنے سے منع کیا ہے
ابن ماجه قزوينى نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ ثنا يَزِيدُ بن هَارُونَ عن بن عَوْنٍ ح وحدثنا نَصْرُ بن عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ثنا يَزِيدُ بن زُرَيْعٍ ثنا بن عَوْنٍ عن مُحَمَّدِ بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ كان أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بها مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُثَقِّلُ صَدَقَةَ امْرَأَتِهِ حتى يَكُونَ لها عَدَاوَةٌ في نَفْسِهِ وَيَقُولُ قد كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أو عَرَقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ رَجُلًا عَرَبِيًّا مَوْلِدًا ما أَدْرِي ما عَلَقُ الْقِرْبَةِ أو عَرَقُ الْقِرْبَةِ.
عمر بن الخطاب کہتےہیں کہ عورتوں کے مہر گراں نہ رکھو اس لئے کہ اگر یہ دنیاوی یا خدا کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو تم سب میں اس کے حقدار محمد [ص]تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے اور اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا مہر بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا اور مرد اپنی بیوی کا مہر زیادہ رکھتا ہے پھر اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ (بیوی مطالبہ کرتی ہے اور یہ ادا نہیں کرسکتا) اور کہتا ہے میں نے تیرے لئے مشقت برداشت کی یہاں تک مشکیزہ کی رسی بھی اٹھانی پڑی یا مشک کے پانی کی طرح مجھے پسینہ آیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ میں اصل عرب نہ تھا بلکہ بائیں طور پر دوسرے علاقہ کا تھا اس لئے علق القربہ یا عرق القربہ کا مطلب نہیں سمجھا۔
!!!
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 607، ح1887، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.
البانى نے اس روایت کو صحيح ابن ماجه شماره 1532 میں تصحيح کی ہے .
اور ابوداوود نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا محمد بن عُبَيْدٍ ثنا حَمَّادُ بن زَيْدٍ عن أَيُّوبَ عن مُحَمَّدٍ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ الله فقال ألا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها النبي صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً
عمر نے کہا خبردار عورتوں کے بھاری بھر کم مہر مت ٹھہراؤ کیونکہ اگر یہ چیز دینا میں بزرگی اور اللہ کے نزدیک پرہیز گاری کا سبب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زائد مہر نہ اپنی کسی بیوی کا باندھا اور نہ کسی بیٹی کا۔
السجستاني الأزدي، سليمان بن الأشعث أبو داود (متوفاي275هـ)، سنن أبي داود، ج 2، ص 235، ح2106، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.
البانى اس روايت کو صحيح ابى داوود شماره 1852 میں صحیح قرار دیا ہے .
اور ترمذى نے بھِی اس روایت کو نقل کرکے صحیح قرار دیا ہے :
حدثنا بن أبي عُمَرَ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ ألا لَا تُغَالُوا صَدُقَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ما عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَكَحَ شيئا من نِسَائِهِ ولا أَنْكَحَ شيئا من بَنَاتِهِ على أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً.
قال أبو عِيسَى هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وأبو الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ هَرِمٌ وَالْأُوقِيَّةُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا وَثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً أربعمائة وَثَمَانُونَ دِرْهَمًا
الترمذي السلمي، محمد بن عيسى أبو عيسى (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج 3، ص 422، ح1114، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
اور سيوطى نے جامع الأحاديث میں لکھا ہے :
عن مسروقٍ قَالَ: رَكِبَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ المِنْبَرَ ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ مَا إِكْثَارُكُمْ في صِدَاقِ النسَاءِ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ وَإِنَّمَا الصدَاقُ فِيمَا بَيْنَهُمْ أَرْبَعُمَائَةُ دِرْهَمٍ فَمَا دُونَ ذالِكَ، فَلَوْ كَانَ الإِكْثَارُ في ذالِكَ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ أَوْ مَكْرُمَةً لَمْ تَسْبِقُوهُمْ إِلَيْهَا ) ( ص، ع ).
مسروق سے روايت ہے کہ عمر نےمنبر رسول [ص]سے کہا اے لوگوں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی عورتوں کا مہر بھاری بھرکم رکھتے ہو جبکہ رسول[ص] اور انکے اصحاب چار سو درھم یا اس سے کم مہر رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 271، ح3318.
اس بناء پر اول تو مہر ام کلثوم سنت رسول [ص]کے برخلاف ہے کیوں گذشتہ تمام روایات میں بیان ہوا کہ حضرت رسول [ص]کسی بھی عورت اور بیٹی کا زیادہ مہر نہیں رکھتے تھے
ثانياً: یہ مہر خود مخالف سیرت و سنت عمر ہے۔ کیا اہل سنت ایسی نسبت عمر کی طرف دے سکتے ہیں جس سے انکا یہ فعل اس آیت کا مصداق قرار پائے گا:
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ. كَبرَُ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لَا تَفْعَلُون. الصف / 2 و 3.
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتےاللہ کے نزدیک یہ طریقہ بڑا ہی ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو کہ خود نہ کرو۔
4. کیا ام کلثوم سے عمر کی اولاد ہوئی؟
اس شادی کے افسانہ ہونے کی دلیل ام کلثوم کی اولاد کی کہانی بھی ہے بعض کہتے ہیں کہ ام کلثوم کوئی اولاد نہیں ہوئی بعض کہتے ہیں صرف ایک زید نامی بیٹا ہوا اور بعض کہتے ہیں زید اور رقیہ اور بعض کہتے ہیں زید ، رقیہ ، فاطمہ کو ام کلثوم نےجنم دیا۔
کوئی بھی اولاد نہیں تھی :
مسعودى شافعى نے عمر کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
أولاد عمر. وكان له من الولد: عبد اللّه، وحفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وعاصم، وعبيد اللّه، وزيد، من أًم، وعبد الرحمن، وفاطمة، وبنات آخر، وعبد الرحمن الأصغر - وهو المحدود في الشراب، وهو المعروف بأبي شحمة - من ام.
عمر کی اولاد: عمر کی مندرجہ اولاد ہیں
عبد الله ، حفصه زوجہ پيامبر (ص)* و عاصم و عبيد الله و زيد ایک ماں سے ؛ اور عبد الرحمن و فاطمه اور دوسری بیٹیاں اور عبد الرحمن اصغر یہ وہی ہے جو شراب نوشی کی بناء پر سزا یافتہ ہے جو ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہے ، ایک دوسری ماں سے ۔
المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على (متوفاى346هـ)، مروج الذهب، ج 1، ص 299
اس نقل کی بناء پر عمر کا زید ایک بیٹا تھا اور اس کے بھائی عاصم اور عبد اللہ تھے ایک ماں اور ان تینوں کی ماں ام کلثوم بنت جرول تھی اور عمر کی کوئی بھی اولاد ام کلثوم سے ہوئی ہو ، نقل نہیں ہوئی ہے ۔
صرف ایک بیٹا تھا:
اہل سنت کے کافی علماء نے ام کلثوم سے صرف ایک فرزند ذکر کیا ہے :
بيهقى نے سنن كبراى میں کہا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيد بن عمر ضرب ليالي قتال بن مطيع ضربا لم يزل ينهم له حتى توفي ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر فلم تلد له شيئا حتى مات.
امّ*كلثوم، نے عمر سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا پھر رات کی لڑائی میں ابن مطیع نے ایسی ضرب لگائی کہ مرتے دم تک اس درد میں رہا پھر ام کلثوم نے عمر کے بعد عون بن جعفر سے شادی کی اور اس سے انکی کوئی اولاد نہ ہوئی یہاں تک دنیا سے چلے گئیں۔
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 70، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 - 1994.
اور نويرى نے نهاية الأرب میں لکھا ہے :
وتزوج أم كلثوم عمر بن الخطاب فولدت له زيد بن عمر، ثم خلف عليها بعده عون بن جعفر فلم تلد له حتى مات.
امّ*كلثوم نے عمر بن خطاب سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اس کے بعد ام کلثوم نے عون بن جعفر سے شادی کی اور ان سے بچہ نہیں ہوا یہاں تک وہ مر گئیں
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 18، ص 142، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
اور صفدى نے، بھی ام کلثوم کے لئے فقط ايك فرزند ذکر کیا ہے :
وأم كلثوم تزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيدا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 1، ص 79، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
اور ابن كثير دمشقى سلفى نے بھی لکھا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها أمير المؤمنين عمر بن الخطاب فولدت له زيدا ومات عنها فتزوجت بعده ببني عمها جعفر واحدا بعد واحد....
امّ*كلثوم، نے عمر کے ساتھ شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اور عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے اپنے چچا جعفر کے لڑکوں سے شادی کی ایک کے بعد ایک ۔۔۔۔
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 5، ص 293، ناشر: مكتبة المعارف بيروت.
دو اولاد تھی:
اكثر علماء اہل سنت نے کہا ہے کہ دو اولا تھی ، :
وزيد الأكبر لا بقية له ورقية وأمهما أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم وأمها فاطمة بنت رسول الله.
اور زيد اكبر، کہ جس کی اولاد نہ تھی اور رقيه؛ ان دونوں کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب بن عبد المطلب بن هاشم اور بنت فاطمه بنت رسول خدا (ص)* تھیں .
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي 236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 450، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
تین اولاد تھی :
بلاذرى نے انساب الأشراف میں ام کلثوم کی زید کے علاوہ دوبہنوں کا ذکر کیا :
عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب: كانت تحته فاطمة بنت عمر، وأمها أم كلثوم، بنت علي بن أبي طالب، وجدتها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم،وأخوها لأبيها وأمها زيد بن عمر بن الخطاب، فولدت لعبد الرحمن: عبدَ الله وابنةً. وإبراهيم بن نعيم النحام بن عبد الله بن أسيد بن عبد بن عوف بن عبيد بن عويج بن عدي بن كعب، كانت عنده رقية بنت عمر، أخت حفصة لأبيها، وأمها: أم كلثوم بنت علي.
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 189.
زيد عمر کا بھائی یا عمر کا بیٹا؟
ابن عساكر دمشقى، نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام کلثوم خطاب کی بیوی تھی نا کہ عمر بن خطاب کی
وحدثني عمر بن أبي بكر المؤملي حدثني سعيد بن عبد الكبير عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وكان سبب ذلك أن حربا وقعت فيما بين عدي بن كعب.
... عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن خطاب كه جن کی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] تھی روایت کی ہے ...
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
زيد اصغر، زيد اكبر سے بڑے !!!
اس سے بھی اھم ترین بات وہ ہے جس کی طرف اہل سنت کے علماء نے اشارہ کیا ہے : کہ اہل سنت کے علماء نے عمر کے دو بیٹوں کا نام زید بتایا ہے ایک ام کلثوم بنت جردل سے اور دوسرا ام کلثوم بنت علی [ع]سے ام کلثوم بنت جردل زمانہ جاہلیت میں عمر کی بیوی تھی اور عمر اسلام لانے کے بعد اس سے الگ ہوگئے اور اس عورت نے کسی اور سے شادی کر لی ۔
وأمُّ عبيد الله أم كلثوم: واسمها مليكة بنت جرول الخزاعية، وكانت على شركها حين نزلت ولا تمسكوا بعصم الكوافر فطلقها عمر فتزوجها أبو فهم بن حذيفة صاحب الخميصة، وقد تقدم ذكره في أول الكتاب.
عبید اللہ کی ماں ام کلثوم سے مشہور ہے جس کا اصل نام ملیکہ بنت جردل خزاعی ہے اور جب یہ آیتولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو وہ کافر ہی رہی تو عمر نے اسے طلاق دیدی تو اس سے ابن حذیفہ نے شادی کی ۔۔۔ ۔
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 258.
اور ابن حجر عسقلانى نے کہا:
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي شقيق عبد الله بن عمر المصغر أمهما أم كلثوم بنت جرول كانت تحت عمر ففرق بينهما الإسلام لما نزلت ولاتمسكوا بعصم الكوافر فتزوجها أبو الجهم بن حذيفة وكان زوجها قبله عمر ذكر ذلك الزبير وغيره فهذا يدل على أن زيدا ولد في عهد النبي.
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، برادر عبد الله بن عمر اصغر؛ ان دونوں کی ماں ام کلثوم بنت جرودل ہے اور یہ عمر کی بیوی تھی جب یہ آیت ولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو اسلام نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی پھر اس سے ابو جھم نے شادی کی اور اس سے پہلے وہ عمر کی بیوی تھی اس بات کو زبیر اور دیگران نے ذکر کیا ہے اور یہ بات یہ بتاتی ہے کہ زید [اصغر] رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 2، ص 628، رقم: 2961، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
نکتہ یہاں پر ہے کہ وہ زید ام کلثوم بنت جرول کا بیٹا جو زمانہ رسول[ص] میں پیدا ہوا ہے ان لوگوں نے اسے " زید اصغر " قرار دیا ہے اور ام کلثوم بنت علی[ع] کے بیٹے کو ان لوگوں نے زید اکبر قرار دیا ہے اوریہ مطلب ام کلثوم کے بیٹے زید کے سرے سے ہونے کو مخدوش کرتا ہے کیسے ہوسکتا ہے چھوٹے بیٹے کو اکبر اور بڑے کو اصغر بنادیا جائے۔
علماء اہل سنت نے اس مشکل کو سمجھے بغیر نقل کیا ہے کہ :
وزيد الأكبر ورقية وأمهم أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وزيد الأصغر وعبيدالله وأمهما أم كلثوم بنت جرول. وفرق الإسلام بين عمر وبين أم كلثوم بنت جرول
زيد اكبر و رقيه، کہ ان دو کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب و فاطمه بنت رسول خدا (ص)* ہیں و زيد اصغر و عبيد الله انکی ماں ام کلثوم بنت جردل ہے اسلام نے عمر اور بنت جردل کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 131، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
اس بناءپر ، کلام اہل سنت سے ثابت ہوا ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر تھی اور زید بن عمر ام کلثوم بنت جرول سے تھا نہ کہ ام کلثوم بنت امام علی[ع] سے البتہ اہل سنت کے علماءنے اس کے علاوہ ایک اور ام کلثوم کو عمر کی بیوی قرار دیا ہے عاصمی مکی عمر کی زوجات کی تعداد بتاتے ہوا لکھتا ہے :
والرابع عاصم أمه أم كلثوم جميلة بنت عاصم بن ثابت بن أبى الأفلح حمى الدبر.
عمر، کا بیٹا عاصم ہے اسکی ماں ؛ امّ*كلثوم جميله بنت عاصم بن ثابت بن ابى افلح ہے .
العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 2، ص 508، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.
يعنى خليفه دوم کی امّ*كلثومنام کے سے چار بیویاں تھیں : 1. امّ*كلثوم بنت جرول؛ 2. امّ*كلثوم بنت ابوبكر؛ 3. امّ*كلثوم بنت عاصم بن ثابت؛ 4. امّ*كلثوم بنت امير المؤمنین.!!!.
گویا اہل سنت کے علماء نے تشابہ اسمی کی و جہ سے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ۔
عمر نے، اپنی بیٹی رقيه کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی :
اس قصہ کے جھوٹے ہونے کی ایک اور تائید اہل سنت کے علماء کا یہ دعوی ہے کہ عمر نے خود اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ۔
ابن قتيبه دينورى لکھتا ہے:
ويقال إن اسم بنت أم كلثوم من عمر رقية وأن عمر زوجها إبراهيم بن نعيم النحام فماتت عنده ولم تترك ولدا.
اور کہا گیا ہے کہ عمر نے اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی اور وہ رقیہ ابراہیم کی زوجیت میں فوت کر گئی اور کوئی اولاد نہ ہوئی۔
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 185، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة .
اور ابن اثير جزرى نے بھی لکھا:
وقد ذكر الزبير بن أبي بكر أن عمر بن الخطاب زوج ابنته رقية من إبراهيم بن نعيم بن عبد الله النحام
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی.
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 1، ص 71، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.
ابن حجر عسقلانى اس بارے میں لکھا :
وقال الزبير زوج عمر بن الخطاب إبراهيم هذا ابنته قلت وعند البلاذري أنه كانت عنده رقية بنت عمر من أم كلثوم بنت علي.
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اس بیٹی کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ؛ بلاذرى نے بھی کہا ابراہیم کی بیوی رقیہ بنت عمر و ام کلثوم بنت علی[ع] تھی۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 1، ص 178، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ دوم کی شادی ام کلثوم سے ۱۷ یا ۱۸ ہجری میں ہونا کہتے ہیں اور عمر کی وفات ۲۳ ہجری میں ہوئی یعنی عمر نے ام کلثوم کے ساتھ ۶ سال گزارے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہوئے زید ام کلثوم !!! کا بیٹا رقیہ سے بڑا تھا اور زید خود اپنے پاپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیدا ہوا پس کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ رقیہ اس چھوٹی سی عمر یعنی ایک سال یا دو سال میں بیاہ دی گئی ہو ؟
ابن حجر نے زید کی تاریخ ولادت کے بارے میں کہا ہے
وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين.
زید کی ولادت اپنے باپ کے آخری ایام ِزندگی ۲۳ ہجری میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
شاید عمر نے ام کلثوم سے بہت چھوٹی عمر میں شادی کی تھی اسی لئے خواہش ہو کہ اپنی دودھ پیتی بیٹی کو دلہن بنا دے !!!.
5. ام كلثوم و زيد کی تاريخ وفات:
تاريخ وفات امّ*كلثوم اور زيد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے کہا امام حسن[ع] کے زمانہ میں فوت کر گئے اور بعض نے کہا عبد الملک بن مروان نے انھیں زہر دیا۔
زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں موت (73 ـ 86هـ):
عبد الرزاق صنعانى،نے ان دونوں کی موت کو زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں ذکر کی ہے اور سال 86 هجرى میں وفات کی ہے یعنی ام کلثوم اور زید حد اقل ۷۸ ہجری تک زندہ ہونگے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.
عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
سعيد بن العاص کی امارت مین وفات پائی (48 ھـ 54هـ):
روايات مشهور اهل سنت یہ ثات کرتی ہیں کہ یہ دونوں زمانہ سعيد بن العاص كه سال 48هـ سے 54هـ تک امير مدينه میں فوت کر گئے ۔
صفدى نے الوافى بالوفيات میں لکھا ہے :
وتوفي زيد رحمه الله شابا في حدود الخمسين للهجرة.
زيد رحمه الله جوانى میں تقریبا سال 50 هجرى میں دنیا سے چلے گیا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
اور ابن حجر عسقلانى کہتے ہیں :
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب مات مع أمه في يوم واحد وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين ومات وهو شاب في خلافة معاوية في ولاية سعيد بن العاص على المدينة
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، انکی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] ہے یہ دونوں ایک ہی دن میں وفات کر گئے
زید کی ولادت اپنے باپ کی حیات سال 23 میں ہوئی اور زید کی وفات خلافت معاويه اور زمانہ امیر مدینہ سعيد بن عاص میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
اس دو نقل میں 20 سال کا فرق ہے !!!.
واقعه كربلا کے بعد وفات :
خطبہ ام کلثوم کوفہ میں جسے ابن طیفور نے نقل کیا ہے بتاتا ہے کہ کربلا کے واقعے کے بعد تک ام کلثوم زندہ تھی۔
قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة...
أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاى380 هـ )، بلاغات النساء، ص 24، ناشر: منشورات مكتبة بصيرتي ـ قم و ص 11، طبق برنامه الجامع الكبير.
6. ام كلثوم و زيد کی وفات کا سبب :
وفات امّ*كلثوم و زيد کے سبب میں بھی اختلاف ہے بعض کہتے ہیں مریضی کی وجہ اور اسی مریضی میں فوت کر گئے،۔
مريضي کی وجہ سے وفات :
محمد بن حبيب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاريخ مدينة دمشق میں اور صفدى نے الوافى فى الوفيات میں لکھا ہے :
وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة الله عليهم وكانت تحت عبد الله بن جعفر بن أبي طالب عليه مرضاً جميعاً وثقلاً ونزل بهما وأن رجالاً مشوا بينهما لينظروا أيهما يموت قبل صاحبه فيرث منه الآخر وأنهما قبضا في ساعة واحدة ولم يدر أيهما قبض قبل صاحبه فلم يتوارثا.
بعض اهل علم نے کہا ہے کہ زید اور انکی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب (رحمة الله عليهم) نے جب وہ عبد اللہ بن جعفر کی بیوی تھی دونوں مریض ہوئے اور ایک ہی وقت میں وفات کی ہم لوگ انکے پاس آنا جانا رکھتے تھے تاکہ دیکھیں کون پہلے مرتا ہے اور کون وارث بنتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی وقت اور لمحہ میں مر گئے اور معلوم نہیں ہو سکا کہ پہلے کون مرا ہےاسی وجہ سے ارث دونوں میں تقسیم نہ ہو سکی ۔
البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبيب بن أمية (متوفاي245هـ)، المنمق في أخبار قريش، ج 1، ص 312، تحقيق: خورشيد أحمد فارق، ناشر: عالم الكتب - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ ـ 1985م؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487 تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
پتھر لگنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی:
بعض نے کہا زید پتھر لگنے کی وجہ سے مر گئے .
ابن حبان نے لکھا:
فأما أم كلثوم فزوجها على من عمر فولدت لعمر زيدا ورقية وأما زيد فأتاه حجر فقتله.
امّ*كلثوم کی علي[ع] نے عمر سے شادی کروائی جس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئی اور زید کو پتھر لگا جس نے جان لے لی!۔
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م.
ابن قتيبه دينورى کا یہ اعتقاد ہے کہ زید ، بنى عويج و بنى رزاح کے درمیان ہونے والی جنگ میں قتل ہوا۔
وأما زيد بن عمر بن الخطاب فرمى بحجر في حرب كانت بين بني عويج وبين بني رزاح فمات ولا عقب له ويقال أنه مات هو وأم كلثوم أمه في ساعة واحدة فلم يرث واحد منهما من صاحبه...
اور زيد بن عمر، عويج اور بنى رزاح کی جنگ میں پتھر لگنے کی وجہ سے وفات کر جاتے ہیں اور انکی کوئی اولاد نہ تھی۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ انکی والدہ بھی اسی گھڑی میں انکے ساتھ وفات کر گئ اسی وجہ سے ایک دوسرے سے ارث نہیں لےسکے ...
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 188، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة.
اور بعض علماء اهل سنت نے کہا قبلیہ بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارا گیا:
وتوفيت أم كلثوم وابنها زيد في وقت واحد وقد كان زيد أصيب في حرب كانت بين بني عدي ليلا كان قد خرج ليصلح بينهم فضربه رجل منهم في الظلمة فشجه وصرعه فعاش أياما ثم مات وهو وأمه في وقت واحد وصلى عليهما ابن عمر...
امّ*كلثوم اور انکے بیٹے زيد نے ایک ہی گھڑی میں وفات پائی ، زید رات کے وقت بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں صلح کے لئے گئے تھے تاریکی میں اسے سر پر کسی نے ضرب لگائی اور وہ زخمی ہوگئے زید اس کے بعد چند روز زندہ رہا اور اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی وقت میں وفات کر گیا اور ابن عمر نے ان پر نماز پڑھائی ....
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1956، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م
تیر لگنے کی وجہ سے وفات :
فولدت له زيد بن عمر وهو زيد الأكبر ورقية بنت عمر وكانت وفاتها ووفاة ابنها في ساعة واحدة وكان سبب موته سهما أصابه ليلا في ثائرة وقعت بين عدي وبني حذيفة
امّ*كلثوم، کا عمر سے زید نامی لڑکا ہو اور یہی زید اکبر ہے اسی طرح رقیہ اور زید اور ام کلثوم ایک ہی وقت میں مر گئے زید کی موت کا سبب بنی عدی اور بنی حذیفہ میں ہونے والی جنگ میں تیر کا لگنا تھا ۔
السهيلي، عبد الرحمن بن عبد الله أبو القاسم (متوفاي581هـ)، الفرائض وشرح آيات الوصية، ج 1، ص 138، تحقيق: د. محمد إبراهيم البنا، ناشر: المكتبة الفيصلية - مكة المكرمة، الطبعة: الثانية، 1405هـ.
موت کا سبب زہر کھانا :
عبد الرزاق صنعانى، بخاری کے استاد نے لکھا ہے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.
عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی[ع] اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن
چوتھا زاویہ: ناموس رسول اللہ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی توہین
اهل سنت نے عمر اور ام کلثوم کی شادی کو ثابت کرنے کے سلسلے میں متعدد ایسی جعلی روایات کو گھڑا ہے کہ جس کےپڑھنے اور سننے سے ہر مسلمان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے.
ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ۔، علی [ع] نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی [ع] نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی ! ۔۔۔ ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي ( عليه السلام ) سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی [ع] نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی[ع] انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی[ع] کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
ام کلثوم کو سجا ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما !
اسی طرح خطيب بغدادى نے كتاب تاريخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے :
فقام على فأمر بابنته من فاطمة فزينت ثم بعث بها إلى أمير المؤمنين عمر فلما رآها قام إليها فأخذ بساقها وقال قولي لأبيك قد رضيت قد رضيت قد رضيت فلما جاءت الجارية إلى أبيها قال لها ما قال لك أمير المؤمنين قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال قولي لأبيك قد رضيت فأنكحها إياه.
علي (عليه السلام) نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا ، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے سوال کیا :عمر نے کیا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 6، ص 182، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا:
چونکہ خلفاء ثلاثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى الله عليه وآله جانتے تھے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى الله عليه وآله کے تمام اختیارات اور مرتبہ کے بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے ،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔
خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى الله عليه وآله نے نماز و رکعت کی تعداد اور کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف حى علي خير العمل اذان سے اور الصلاة خير من النوم کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج ، زکات اور ۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی 25 سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔
جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى الله عليه وآله کی طرح معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے لئے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں ۔
وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔
روايات اهل سنت، کے مطابق عبد الله، خليفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں
عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے :
13200 عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر ومعمر عن أيوب عن نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن يشتري جارية فراضاهم على ثمن وضع يده على عجزها وينظر إلى ساقيها وقبلها يعني بطنها.
ابن عمر سے روايت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور اسکی ساق اور پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج[ شرمگاہ]پر نگاہ کرو اور یہاں فرج[شرمگاہ] سے مراد اس کا پیٹ ہے !!!
قُبُل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ابن عمر کی بلا تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ پیروی کرنےوالوں کی سرش میں تلاش کیا جائے ۔
اور دوسری روايت میں ہے :
13202 عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دينار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم يبتاعون جارية فلما رأوه وهم يقلبونها أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن ساقها ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرني بن أبي نجيح عن مجاهد قال وضع بن عمر يده بين ثدييها ثم هزها.
ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلیاں برہنہ کی پھر اسکے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہلایا !!
اور اس کے آگے لکھتے ہیں :
13205 عبد الرزاق عن بن جريج عن نافع أن بن عمر كان يكشف عن ظهرها وبطنها وساقها ويضع يده على عجزها.
ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے !!
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 7، ص 286، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا لازمی ہو بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں کے ساتھ دھرایا ۔
ابن عبد البر نے كتاب الإستيعاب میں لکھا ہے :
عن أبي ارباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضى الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضا.
وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانمت أعظم ساقا اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم ارسل معاوية بسر بن ارطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق.
ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ اپنی طولانی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اللہ سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس بات کی اللہ سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے اللہ سے رزو بلاء اور روز عورت [ستر ، شرمگاہ ] سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بلاء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک دوسرے کو قتل کرینگے اور روز عورت وہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے لیکن شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے مسلمانوں عورتوں کو کنیز بنا کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔!
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 1، ص 161، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى الله عليه وآله سے نقل کرینگے کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى الله عليه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد اللہ بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع !!!.
سعدى کے بقول :
اگر ز باغ رعيت ملك خورد سيبي
برآورند غلامان او درخت از بيخ
[یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غلام اس درخت کو جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔
محمد بن اسماعيل صنعانى نے سبل السلام میں لکھا ہے:
دلت الأحاديث على أنه يندب تقديم النظر إلى من يريد نكاحها وهو قول جماهير العلماء والنظر إلى الوجه والكفين لأنه يستدل بالوجه على الجمال أو ضده والكفين على خصوبة البدن أو عدمها.
وقال الأوزاعي ينظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ينظر إلى جميع بدنها. والحديث مطلق فينظر إلى ما يحصل له المقصود بالنظر إليه ويدل عليه فهم الصحابة لذلك ما رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي.
۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے بدن کو دیکھا جا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر صحابہ کا فہم دلالت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی[ع] کی پنڈلی کو برہنہ کرنا !۔
الصنعاني الأمير، محمد بن إسماعيل (متوفاي852هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج 3، ص 113، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379هـ.
علماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ کرتے ہیں :
بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خليفه کا ناموس رسول خدا صلى الله عليه وآله، پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں
ابن حجر ھیثمی نے لکھا ہے :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام [ عمر کے لئے ] حرام ہوجائے!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس سے دست درازی حرام نہ ہو ؟
اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج تک کسی کو دیکھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا چاہتا ہو ؟
البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین بچوں کی ماں بن جائے ! ! !
ان روایات کی تحقیق منصف حضرات کی نظر میں :
اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں
سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے :
ذكر جدي في كتاب منتظم ان علياً بعثها لينظرها و ان عمر كشف ساقها و لمسها بيده، هذا قبيح والله. لو كانت امة لما فعل بها هذا. ثم باجماع المسلمين لايجوز لمس الاجنبيه.
میرے جد [ یعنی ابن جوزی ] نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي (عليه السلام) نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، اللہ کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز بھی ہوتی تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے علاوہ اجماع مسلمین ہے کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص288 ـ 289، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
اس فعل سے متعلق علماء شيعه کا نظریہ :
شهيد قاضى نور الله تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وإني لأقسم بالله على أن ألف ضربة على جسده عليه السلام وأضعافه على جسد أولاده أهون عليه من أن يرسل ابنته الكريمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إياه ليريها فيأخذها ذلك الرجل ويضمها إليه ويقبلها ويكشف عن ساقها وهل يرضى بذلك من له أدنى غيرة من آحاد المسلمين.
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کے بدن پر ہزار وار اور اس سے زیادہ آپ کی اولاد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا ہے ؟
الصوارم المهرقة - الشهيد نور الله التستري - ص 200
اور سيد ناصر حسين الهندى اس بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حيائه قد افترى أن سياقه المنكر أن عمر بن الخطاب معاذ الله قد كشف ساق سيدتنا أم كلثوم (ع) وهذا كذب عظيم، وبهتان جسيم، تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري الكذاب قد فاق في الفرية والفضيحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السياق السابق الذي أورده ابن عبد البر، أولا بغير سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سياق المذكور وضع اليد على الساق....
ومن البين أن وضع اليد على الساق وإن كان منكرا قبيحا جدا، ولكن هذا الخبيث الذي يقول: فكشف عن ساقها، يظهر خبثه صراحة... ومما يضحك الثكلى أن وضاع هذا السياق السائق إلى الجحيم قد نسب إلى سيدتنا أم كلثوم سلام الله عليها أنها لما أحست بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت بالله وهددته بلطم عين إمامه.
انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب نے معاذ اللہ ام کلثوم [س] کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا بہتان ہے کہ جس [کے سننے ] سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب اور بہتان باندھنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہاتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔
اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے جاعل اور جہنم کی طرف بلانے والے کہی ہے کہ ام کلثوم [س] نےجب یہ محسوس کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دھمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔!!!
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف ایسی بات کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک ملاقات کے لئے بھیجے؟
ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت کے بڑے علماء مثل ذھبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے :
ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ اسے درک نہ کر سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟
کیا خلیفہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟
ام كلثوم، عمر کو امير المؤمنين کہتی ہیں !!!
حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندھا کردے لیکن اسی عالم میں اسے امیر المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟
سيد ناصر حسين الهندى نے كتاب إفحام الأعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
ومما يدل على قلة حياء هؤلاء الكذابين أنهم ينسبون إلى سيدتنا أم كلثوم ( ع ) أنها وصفت عمر بن الخطاب بأمير المؤمنين ولا يشعرون أن السيدة التي ولدت في بيت النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كيف تخاطب رجلا وضع يداه على ساقها، أو كشف ساقاها، واستحق عنده أن يكسر أنفه أو يلطم عينيه بهذا الخطاب الجليل.
ولعمري أن الواضع للسياق الأول أحق بالتعسير والتنديد، حيث أورد في سياقه بعد ذكر التشوير والتهديد، أنها لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شيخ سوء، أفيكون هذا الشيخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنين؟ حاشا وكلا إن هذا لاختلاق واضح والله لا يهدي كيد الخائنين.
وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر دلالت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام کلثوم [ع] کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا!!! لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى الله عليه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے نزدیک اندھے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا مستحق ہو اور وہ اسطرح مودّبانہ طریقہ سے مخاطب کرے!!!
اللہ کی قسم پہلی روایت گھڑنے والا زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ آنے کے بعد تمام ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے [کس] پلید بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔!
آیا جس بڈھے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے ؟
یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور اللہ خائن افراد کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
مغيره ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر بے جان :
اهل سنت ادّعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا :
ابن خلكان نے وفيات الأعيان میں لکھا ہے :
ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.
ام جميل (یہ وہ عورت ہے کہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی ]یہ عمر کے ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال کیا : کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے!
عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے خلاف جھوٹ بولا ہو [اور تمہارے خلاف جھوٹی شہادت زنا دی ہو] میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.
اور ابوالفرج اصفهانى نے لکھا :
حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بن شعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء
ام جميل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغیرہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر - لبنان.
مغيره کا امّ*جميل، سے زنا مشهور و معروف تھا اسی طرح امّ*جميل زانیہ ہونے میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی غیرت اس توہین کے خلاف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر چکی تھی ۔
ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ۔، علی [ع] نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی [ع] نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی ! ۔۔۔ ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي ( عليه السلام ) سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی [ع] نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی[ع] انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی[ع] کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
ام کلثوم کو سجا ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما !
اسی طرح خطيب بغدادى نے كتاب تاريخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے :
فقام على فأمر بابنته من فاطمة فزينت ثم بعث بها إلى أمير المؤمنين عمر فلما رآها قام إليها فأخذ بساقها وقال قولي لأبيك قد رضيت قد رضيت قد رضيت فلما جاءت الجارية إلى أبيها قال لها ما قال لك أمير المؤمنين قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال قولي لأبيك قد رضيت فأنكحها إياه.
علي (عليه السلام) نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا ، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے سوال کیا :عمر نے کیا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 6، ص 182، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا:
چونکہ خلفاء ثلاثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى الله عليه وآله جانتے تھے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى الله عليه وآله کے تمام اختیارات اور مرتبہ کے بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے ،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔
خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى الله عليه وآله نے نماز و رکعت کی تعداد اور کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف حى علي خير العمل اذان سے اور الصلاة خير من النوم کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج ، زکات اور ۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی 25 سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔
جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى الله عليه وآله کی طرح معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے لئے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں ۔
وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔
روايات اهل سنت، کے مطابق عبد الله، خليفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں
عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے :
13200 عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر ومعمر عن أيوب عن نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن يشتري جارية فراضاهم على ثمن وضع يده على عجزها وينظر إلى ساقيها وقبلها يعني بطنها.
ابن عمر سے روايت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور اسکی ساق اور پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج[ شرمگاہ]پر نگاہ کرو اور یہاں فرج[شرمگاہ] سے مراد اس کا پیٹ ہے !!!
قُبُل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ابن عمر کی بلا تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ پیروی کرنےوالوں کی سرش میں تلاش کیا جائے ۔
اور دوسری روايت میں ہے :
13202 عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دينار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم يبتاعون جارية فلما رأوه وهم يقلبونها أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن ساقها ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرني بن أبي نجيح عن مجاهد قال وضع بن عمر يده بين ثدييها ثم هزها.
ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلیاں برہنہ کی پھر اسکے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہلایا !!
اور اس کے آگے لکھتے ہیں :
13205 عبد الرزاق عن بن جريج عن نافع أن بن عمر كان يكشف عن ظهرها وبطنها وساقها ويضع يده على عجزها.
ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے !!
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 7، ص 286، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا لازمی ہو بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں کے ساتھ دھرایا ۔
ابن عبد البر نے كتاب الإستيعاب میں لکھا ہے :
عن أبي ارباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضى الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضا.
وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانمت أعظم ساقا اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم ارسل معاوية بسر بن ارطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق.
ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ اپنی طولانی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اللہ سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس بات کی اللہ سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے اللہ سے رزو بلاء اور روز عورت [ستر ، شرمگاہ ] سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بلاء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک دوسرے کو قتل کرینگے اور روز عورت وہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے لیکن شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے مسلمانوں عورتوں کو کنیز بنا کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔!
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 1، ص 161، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى الله عليه وآله سے نقل کرینگے کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى الله عليه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد اللہ بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع !!!.
سعدى کے بقول :
اگر ز باغ رعيت ملك خورد سيبي
برآورند غلامان او درخت از بيخ
[یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غلام اس درخت کو جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔
محمد بن اسماعيل صنعانى نے سبل السلام میں لکھا ہے:
دلت الأحاديث على أنه يندب تقديم النظر إلى من يريد نكاحها وهو قول جماهير العلماء والنظر إلى الوجه والكفين لأنه يستدل بالوجه على الجمال أو ضده والكفين على خصوبة البدن أو عدمها.
وقال الأوزاعي ينظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ينظر إلى جميع بدنها. والحديث مطلق فينظر إلى ما يحصل له المقصود بالنظر إليه ويدل عليه فهم الصحابة لذلك ما رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي.
۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے بدن کو دیکھا جا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر صحابہ کا فہم دلالت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی[ع] کی پنڈلی کو برہنہ کرنا !۔
الصنعاني الأمير، محمد بن إسماعيل (متوفاي852هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج 3، ص 113، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379هـ.
علماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ کرتے ہیں :
بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خليفه کا ناموس رسول خدا صلى الله عليه وآله، پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں
ابن حجر ھیثمی نے لکھا ہے :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام [ عمر کے لئے ] حرام ہوجائے!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس سے دست درازی حرام نہ ہو ؟
اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج تک کسی کو دیکھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا چاہتا ہو ؟
البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین بچوں کی ماں بن جائے ! ! !
ان روایات کی تحقیق منصف حضرات کی نظر میں :
اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں
سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے :
ذكر جدي في كتاب منتظم ان علياً بعثها لينظرها و ان عمر كشف ساقها و لمسها بيده، هذا قبيح والله. لو كانت امة لما فعل بها هذا. ثم باجماع المسلمين لايجوز لمس الاجنبيه.
میرے جد [ یعنی ابن جوزی ] نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي (عليه السلام) نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، اللہ کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز بھی ہوتی تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے علاوہ اجماع مسلمین ہے کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص288 ـ 289، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
اس فعل سے متعلق علماء شيعه کا نظریہ :
شهيد قاضى نور الله تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وإني لأقسم بالله على أن ألف ضربة على جسده عليه السلام وأضعافه على جسد أولاده أهون عليه من أن يرسل ابنته الكريمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إياه ليريها فيأخذها ذلك الرجل ويضمها إليه ويقبلها ويكشف عن ساقها وهل يرضى بذلك من له أدنى غيرة من آحاد المسلمين.
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کے بدن پر ہزار وار اور اس سے زیادہ آپ کی اولاد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا ہے ؟
الصوارم المهرقة - الشهيد نور الله التستري - ص 200
اور سيد ناصر حسين الهندى اس بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حيائه قد افترى أن سياقه المنكر أن عمر بن الخطاب معاذ الله قد كشف ساق سيدتنا أم كلثوم (ع) وهذا كذب عظيم، وبهتان جسيم، تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري الكذاب قد فاق في الفرية والفضيحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السياق السابق الذي أورده ابن عبد البر، أولا بغير سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سياق المذكور وضع اليد على الساق....
ومن البين أن وضع اليد على الساق وإن كان منكرا قبيحا جدا، ولكن هذا الخبيث الذي يقول: فكشف عن ساقها، يظهر خبثه صراحة... ومما يضحك الثكلى أن وضاع هذا السياق السائق إلى الجحيم قد نسب إلى سيدتنا أم كلثوم سلام الله عليها أنها لما أحست بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت بالله وهددته بلطم عين إمامه.
انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب نے معاذ اللہ ام کلثوم [س] کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا بہتان ہے کہ جس [کے سننے ] سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب اور بہتان باندھنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہاتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔
اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے جاعل اور جہنم کی طرف بلانے والے کہی ہے کہ ام کلثوم [س] نےجب یہ محسوس کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دھمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔!!!
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف ایسی بات کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک ملاقات کے لئے بھیجے؟
ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت کے بڑے علماء مثل ذھبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے :
ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ اسے درک نہ کر سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟
کیا خلیفہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟
ام كلثوم، عمر کو امير المؤمنين کہتی ہیں !!!
حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندھا کردے لیکن اسی عالم میں اسے امیر المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟
سيد ناصر حسين الهندى نے كتاب إفحام الأعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
ومما يدل على قلة حياء هؤلاء الكذابين أنهم ينسبون إلى سيدتنا أم كلثوم ( ع ) أنها وصفت عمر بن الخطاب بأمير المؤمنين ولا يشعرون أن السيدة التي ولدت في بيت النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كيف تخاطب رجلا وضع يداه على ساقها، أو كشف ساقاها، واستحق عنده أن يكسر أنفه أو يلطم عينيه بهذا الخطاب الجليل.
ولعمري أن الواضع للسياق الأول أحق بالتعسير والتنديد، حيث أورد في سياقه بعد ذكر التشوير والتهديد، أنها لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شيخ سوء، أفيكون هذا الشيخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنين؟ حاشا وكلا إن هذا لاختلاق واضح والله لا يهدي كيد الخائنين.
وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر دلالت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام کلثوم [ع] کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا!!! لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى الله عليه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے نزدیک اندھے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا مستحق ہو اور وہ اسطرح مودّبانہ طریقہ سے مخاطب کرے!!!
اللہ کی قسم پہلی روایت گھڑنے والا زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ آنے کے بعد تمام ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے [کس] پلید بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔!
آیا جس بڈھے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے ؟
یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور اللہ خائن افراد کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
مغيره ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر بے جان :
اهل سنت ادّعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا :
ابن خلكان نے وفيات الأعيان میں لکھا ہے :
ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.
ام جميل (یہ وہ عورت ہے کہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی ]یہ عمر کے ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال کیا : کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے!
عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے خلاف جھوٹ بولا ہو [اور تمہارے خلاف جھوٹی شہادت زنا دی ہو] میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.
اور ابوالفرج اصفهانى نے لکھا :
حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بن شعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء
ام جميل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغیرہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر - لبنان.
مغيره کا امّ*جميل، سے زنا مشهور و معروف تھا اسی طرح امّ*جميل زانیہ ہونے میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی غیرت اس توہین کے خلاف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر چکی تھی ۔
پانچواں زاویہ : تجزیہ اور تحقیق عمر کے شادی کے بہانے کی
اهل سنت،کے ادعا کے مطابق خلیفہ دوم نےام کلثوم کی خوستگاری کی تو امام علی علیہ السلام نے اس کے چھوٹے ہونے کا عذر بتاتے ہوئے منع کیا لیکن عمر کے اصرار اور عمر کی بیان کردہ دلیل کی بناء پر قبول کر لیا !!!.
عبد الرزاق صنعانى لکھتے ہیں:
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري فجاء إلى أصحابه فدعوا له بالبركة فقال إني لم أتزوج من نشاط بي ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة إلا سببي ونسبي فأحببت أن يكون بيني وبين نبي الله صلي الله عليه وسلم سبب ونسب
عمر بن خطاب نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] سے شادی کی . امّ*كلثوم بہت چھوٹی بچی تھی اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی پس عمر اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور انھوں نے عمر کے لئے برکت کی دعا کی ۔ پھر عمر نے کہا میں نے شادی جوانی کےشوق کی وجہ سے نہیں کی ہے ! بلکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے تو میں نے چاہا کہ میرے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے درمیان نسب اور سبب قائم ہو ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جبکہ شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ ، رسول خدا صلى الله عليه و آلہ نے عمر کی بیٹی حفصہ سے سبب قائم کیا ہوا تھا پس کیا احتیاج ہےکہ ام کلثوم سے شادی کرے۔
فرق نہیں پڑتا ہے انسان کسی کا داماد ہو یا وہ کسی کا سسر ہو سبب تو قائم ہوحاتا ہے اور رشتہ داری بن جاتی ہے اگر قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری قیامت میں کسی کو کام آئے سکے تو عمر کو حفصہ کی شادی کی وجہ سے کام آئے گی اس بناء پر ام کلثوم کے ذریعہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری بنانے کا ڈھونگ جھوٹ ہے اور یہ سبب بنتا ہے شادی بذات خود جھوٹ نظر آئے ۔
سيد ناصر حسين لكھنوى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وأما ما وقع في هذا الخبر المكذوب أن عمر قال للأصحاب: إن رسول الله ( ص ) قال: كل نسب وسبب منقطع يوم القيامة إلا نسبي وسببي، وكنت قد صحبته فأحببت أن يكون هذا أيضا.
فمردود لأن اتصال السبب من رسول الله ( ص ) لعمر بعد الصحبة كان حاصلا بلا شبهة عند أهل السنة من جهة أبنته حفصة: فإنها كانت من أزواج رسول الله ( ص )، وهذا الاتصال يكفي له أن كان عمر بن الخطاب مؤمنا مصدقا لقوله، وإن لم يكن مؤمنا مصدقا للرسول ( ص ) فما يزيده هذا الاتصال الذي طلبه من علي ( ع ) وهو محرم عليه بوجوه عديدة غير تقصير وتخسير كما لا يخفى على من له حظ من الإيمان، ونصيب.
وہ بات جو اس جھوٹی روایت میں آئی ہے کہ عمر نے اپنے یاروں سے کہا : رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے میں ایک صحابی تھا دل چاہتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے میری بھی یہی نسبت ہو! ۔
یقینا یہ بات بالکل باطل اور غلط ہے اسلئے کہ اہل سنت کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ عمر ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابی بننے کے بعد رشتہ دار بھی بن گئے تھے اور یہ رشتہ داری عمر کی بیٹی حفصہ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اور حفصہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ و آلہ میں شمار ہوتی تھیں اور یہی رشتہ اور اتصال ، عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بات پر ایمان رکھنے کی صورت میں کافی تھا اور اس سے، رشتہ بن گیا تھا ۔
اور اگر عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے قول ہر ایمان نہیں تھا تو دوسری بار رشتہ اور اتصال ام کلثوم کے ذریعہ سے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ یہ رشتہ متعدد وجوہ کی وجہ سے عمر پر حرام تھا اور یہ بات صاحبان ایمان پر آشکار ہے [اسکی تفصیل بعد میں آئے گی ]
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 140، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
عبد الرزاق صنعانى لکھتے ہیں:
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري فجاء إلى أصحابه فدعوا له بالبركة فقال إني لم أتزوج من نشاط بي ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة إلا سببي ونسبي فأحببت أن يكون بيني وبين نبي الله صلي الله عليه وسلم سبب ونسب
عمر بن خطاب نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] سے شادی کی . امّ*كلثوم بہت چھوٹی بچی تھی اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی پس عمر اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور انھوں نے عمر کے لئے برکت کی دعا کی ۔ پھر عمر نے کہا میں نے شادی جوانی کےشوق کی وجہ سے نہیں کی ہے ! بلکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے تو میں نے چاہا کہ میرے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے درمیان نسب اور سبب قائم ہو ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جبکہ شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ ، رسول خدا صلى الله عليه و آلہ نے عمر کی بیٹی حفصہ سے سبب قائم کیا ہوا تھا پس کیا احتیاج ہےکہ ام کلثوم سے شادی کرے۔
فرق نہیں پڑتا ہے انسان کسی کا داماد ہو یا وہ کسی کا سسر ہو سبب تو قائم ہوحاتا ہے اور رشتہ داری بن جاتی ہے اگر قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری قیامت میں کسی کو کام آئے سکے تو عمر کو حفصہ کی شادی کی وجہ سے کام آئے گی اس بناء پر ام کلثوم کے ذریعہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری بنانے کا ڈھونگ جھوٹ ہے اور یہ سبب بنتا ہے شادی بذات خود جھوٹ نظر آئے ۔
سيد ناصر حسين لكھنوى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وأما ما وقع في هذا الخبر المكذوب أن عمر قال للأصحاب: إن رسول الله ( ص ) قال: كل نسب وسبب منقطع يوم القيامة إلا نسبي وسببي، وكنت قد صحبته فأحببت أن يكون هذا أيضا.
فمردود لأن اتصال السبب من رسول الله ( ص ) لعمر بعد الصحبة كان حاصلا بلا شبهة عند أهل السنة من جهة أبنته حفصة: فإنها كانت من أزواج رسول الله ( ص )، وهذا الاتصال يكفي له أن كان عمر بن الخطاب مؤمنا مصدقا لقوله، وإن لم يكن مؤمنا مصدقا للرسول ( ص ) فما يزيده هذا الاتصال الذي طلبه من علي ( ع ) وهو محرم عليه بوجوه عديدة غير تقصير وتخسير كما لا يخفى على من له حظ من الإيمان، ونصيب.
وہ بات جو اس جھوٹی روایت میں آئی ہے کہ عمر نے اپنے یاروں سے کہا : رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے میں ایک صحابی تھا دل چاہتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے میری بھی یہی نسبت ہو! ۔
یقینا یہ بات بالکل باطل اور غلط ہے اسلئے کہ اہل سنت کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ عمر ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابی بننے کے بعد رشتہ دار بھی بن گئے تھے اور یہ رشتہ داری عمر کی بیٹی حفصہ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اور حفصہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ و آلہ میں شمار ہوتی تھیں اور یہی رشتہ اور اتصال ، عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بات پر ایمان رکھنے کی صورت میں کافی تھا اور اس سے، رشتہ بن گیا تھا ۔
اور اگر عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے قول ہر ایمان نہیں تھا تو دوسری بار رشتہ اور اتصال ام کلثوم کے ذریعہ سے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ یہ رشتہ متعدد وجوہ کی وجہ سے عمر پر حرام تھا اور یہ بات صاحبان ایمان پر آشکار ہے [اسکی تفصیل بعد میں آئے گی ]
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 140، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
چھٹا زاویہ : سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت:
خداوند نے قرآن كريم میں تمام مومنین کو مخاطب کر کے کہا :
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كاَنَ يَرْجُواْ اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الاَْخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا. الأحزاب / 21.
اس آیت میں اللہ نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ کی عبارت بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر دلالت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور آپ ہر زمانہ میں آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں:
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حضرت زهرا سلام الله عليها کی خوستگاری کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جوابِِ انکار دیا اور ان سے منہ موڑ لیا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لائق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ اخلاق اور دیگر صفات میں ۔۔۔
ابن حجر هيثمى نے شیعہ کے خلاف کتاب باب 11 صواعق محرقه میں لکھا ہے :
وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبها فأعرض عنه صلى الله عليه وسلم ثم عمر فأعرض عنه فأتيا عليا فنبهاه إلى خطبتها فجاء فخطبها.
ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے کہ ابو بکر نے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 471، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
ابن حبان نے صحيح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کیخواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی [ع] نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
.
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص 399، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م؛
الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج 1، ص 549، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، النكت الظراف على الأطراف (تحفة الأشراف)، ج 2، ص 83، تحقيق: عبد الصمد شرف الدين، زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1403 هـ - 1983 م؛
ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 259، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .
حاكم نيشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا :
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
یہ حديث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔
النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 181، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.
اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یہ ہے کہ اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔
عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں :
عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے30 سال اورخلافت کے متعدد سال؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھلا نہ سکے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع کیا تھا ۔
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے امّ*كلثوم کی امام علي (عليه السلام) سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں موجود مهاجرين اور انصار سے کہا:
رفئوني فرفؤوه وقالوا بمن يا أمير المؤمنين قال بابنة علي بن أبي طالب.
مجھے مبارکباد دو [رفئوني فرفؤوه ]انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ کہا علی [ع] کی بیٹی سے شادی کی۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 259؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 23، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 294، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
رفئوني یا بالرفاء والبنين کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهليت میں مرسوم تھی لیکن جب رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے :
وكانت ترفئة الجاهلية أن يقال ( بالرفاء والبنين ) ثم نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها.
جاهليت میں رفئوني اور بالرفاء والبنين کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی پھر نبی کریم [صلى الله عليه وآله وسلم] نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 16، ص 205، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
اور عينى، شارح صحيح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے :
قوله: ( بارك الله لك ) وهذه اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنين، لأنه من أقوال الجاهلية، والنبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ذلك لموافقتهم فيه، وهذا هو الحكمة في النهي.
بارك الله لك کہنا بالرفاء والبنين کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں سے ہیں اور رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 146، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے 8 ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اھم واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے خطبات میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟
خرج إلى رسول الله مهاجرا في أول سنة ثمان فشهد غزوة مؤتة ثم رجع فعرض له مرض فلم يسمع له بذكر في فتح مكة ولا الطائف ولا خيبر ولا في حنين
انھوں نے سال 8 ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین
میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، ناشر: دار صادر - بيروت.
احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الْحَكَمُ بن نَافِعٍ حدثنا إسماعيل ابن عَيَّاشٍ عن سَالِمِ بن عبد بن عبد اللَّهِ عن عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ قال تَزَوَّجَ عَقِيلُ بن أبي طَالِبٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينِ فقال مَهْ لاَ تَقُولُوا ذلك فان النبي صلى الله عليه وسلم قدنهانا عن ذلك وقال قُولُوا بَارَكَ الله فِيكَ وَبَارَكَ الله فيها
عقيل بن ابى طالب [علیہ السلام ] نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات بالرفاء والبنين؛ سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم[صلى الله عليه وآله ] نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی میں برکت عنایت فرمائے۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 201، ح1738، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلاف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جاہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے ؟کیا رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟
تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور مخالفت حکم رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ خیز توجیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔
حلبى نے سيرت میں لکھا ہے :
أن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه جاء إلى مجلس المهاجرين الأولين في الروضة فقال رفئوني فقالوا ماذا يا أمير المؤمنين قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كلامه ولعل النهى لم يبلغ هؤلاء الصحابة حيث لم ينكروا قوله كما لم يبلغ سيدنا عمر رضي الله تعالى عنهم.
ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مهاجرين جو مزار رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] میں موجود تھے ،سے کہا مجھے بالرفاء والبنين. کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ عمر نےجواب دیا میں نے ام کلثوم بنت علی [ع] سے شادی کر لی ہے ! شاید رسول [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے ! تاکہ عمر پر اعتراض کرتے اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے ! !
الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 42، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400هـ.
حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین سے نابلد ہیں کیا ایسا شخص مسند خلافت رسول خدا صلى الله عليه وآله پر بیٹھنے کا اہل ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر مهاجرين الأولين کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔!!!.
کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ 20 سال رسول خدا صلى الله عليه وآله کی صحبت میں رہنے والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟
کیا ایسا شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟
کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟
رسول خدا صلى الله عليه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا:
اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السلام سے بغض کا حساب پورا کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی !اور جب یہ بات بی بی [سلام اللہ علیہا]کو معلوم ہوئی تو ناراض ہوئیں! اور رسول خدا صلى الله عليه وآله سے شکایت کی جب رسول خدا صلى الله عليه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا! :
وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا، وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُل وَاحِد ". فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ.
فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ناراضی کرے اللہ کی قسم بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی [ع] نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ دی !۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1364 ح 3523، كتاب فضائل الصحابة، ب 16، باب ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا!:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بن الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا في أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بن أبي طَالِبٍ فلا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إلا أَنْ يُرِيدَ بن أبي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي ما أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي ما آذَاهَا.
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی طالب[ع] سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، لیکن علی [ع] میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ کرلے ، کیونکہ فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 2004، ح4932، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عن ابْنَتِهِ في الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
چونکہ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه سلام الله عليها علی علیہ السلام سے غضبناک ہوئیں ۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول[ص] کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السلام ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے ۔؟
فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں آیت ذرنى ومن خلقت وحيدا نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اگر بنت رسول [ص]اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ حرام کام کیا ؟ [شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو ]
وليد بن مغيره اور ابوجهل،* دونوں ہی رسول اکرم[ ص ]کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔
آيا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟
نتيجه:
[پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی [ع] سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے - مترجم ]
[اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السلام پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی علیہ السلام کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ ملعونہ کا ہے جس نے اپنے 100 سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا ]
امام علی علیہ السلام پورے وجود سے نہج البلاغہ میں اعلان فرما رہے ہیں :
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ.
میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخلاق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی کا حکم دیتے ۔
نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 198.
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كاَنَ يَرْجُواْ اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الاَْخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا. الأحزاب / 21.
اس آیت میں اللہ نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ کی عبارت بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر دلالت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور آپ ہر زمانہ میں آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں:
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حضرت زهرا سلام الله عليها کی خوستگاری کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جوابِِ انکار دیا اور ان سے منہ موڑ لیا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لائق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ اخلاق اور دیگر صفات میں ۔۔۔
ابن حجر هيثمى نے شیعہ کے خلاف کتاب باب 11 صواعق محرقه میں لکھا ہے :
وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبها فأعرض عنه صلى الله عليه وسلم ثم عمر فأعرض عنه فأتيا عليا فنبهاه إلى خطبتها فجاء فخطبها.
ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے کہ ابو بکر نے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 471، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
ابن حبان نے صحيح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کیخواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی [ع] نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
.
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص 399، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م؛
الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج 1، ص 549، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، النكت الظراف على الأطراف (تحفة الأشراف)، ج 2، ص 83، تحقيق: عبد الصمد شرف الدين، زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1403 هـ - 1983 م؛
ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 259، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .
حاكم نيشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا :
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
یہ حديث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔
النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 181، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.
اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یہ ہے کہ اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔
عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں :
عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے30 سال اورخلافت کے متعدد سال؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھلا نہ سکے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع کیا تھا ۔
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے امّ*كلثوم کی امام علي (عليه السلام) سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں موجود مهاجرين اور انصار سے کہا:
رفئوني فرفؤوه وقالوا بمن يا أمير المؤمنين قال بابنة علي بن أبي طالب.
مجھے مبارکباد دو [رفئوني فرفؤوه ]انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ کہا علی [ع] کی بیٹی سے شادی کی۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 259؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 23، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 294، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
رفئوني یا بالرفاء والبنين کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهليت میں مرسوم تھی لیکن جب رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے :
وكانت ترفئة الجاهلية أن يقال ( بالرفاء والبنين ) ثم نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها.
جاهليت میں رفئوني اور بالرفاء والبنين کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی پھر نبی کریم [صلى الله عليه وآله وسلم] نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 16، ص 205، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
اور عينى، شارح صحيح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے :
قوله: ( بارك الله لك ) وهذه اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنين، لأنه من أقوال الجاهلية، والنبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ذلك لموافقتهم فيه، وهذا هو الحكمة في النهي.
بارك الله لك کہنا بالرفاء والبنين کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں سے ہیں اور رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 146، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے 8 ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اھم واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے خطبات میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟
خرج إلى رسول الله مهاجرا في أول سنة ثمان فشهد غزوة مؤتة ثم رجع فعرض له مرض فلم يسمع له بذكر في فتح مكة ولا الطائف ولا خيبر ولا في حنين
انھوں نے سال 8 ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین
میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، ناشر: دار صادر - بيروت.
احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الْحَكَمُ بن نَافِعٍ حدثنا إسماعيل ابن عَيَّاشٍ عن سَالِمِ بن عبد بن عبد اللَّهِ عن عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ قال تَزَوَّجَ عَقِيلُ بن أبي طَالِبٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينِ فقال مَهْ لاَ تَقُولُوا ذلك فان النبي صلى الله عليه وسلم قدنهانا عن ذلك وقال قُولُوا بَارَكَ الله فِيكَ وَبَارَكَ الله فيها
عقيل بن ابى طالب [علیہ السلام ] نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات بالرفاء والبنين؛ سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم[صلى الله عليه وآله ] نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی میں برکت عنایت فرمائے۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 201، ح1738، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلاف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جاہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے ؟کیا رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟
تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور مخالفت حکم رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ خیز توجیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔
حلبى نے سيرت میں لکھا ہے :
أن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه جاء إلى مجلس المهاجرين الأولين في الروضة فقال رفئوني فقالوا ماذا يا أمير المؤمنين قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كلامه ولعل النهى لم يبلغ هؤلاء الصحابة حيث لم ينكروا قوله كما لم يبلغ سيدنا عمر رضي الله تعالى عنهم.
ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مهاجرين جو مزار رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] میں موجود تھے ،سے کہا مجھے بالرفاء والبنين. کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ عمر نےجواب دیا میں نے ام کلثوم بنت علی [ع] سے شادی کر لی ہے ! شاید رسول [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے ! تاکہ عمر پر اعتراض کرتے اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے ! !
الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 42، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400هـ.
حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین سے نابلد ہیں کیا ایسا شخص مسند خلافت رسول خدا صلى الله عليه وآله پر بیٹھنے کا اہل ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر مهاجرين الأولين کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔!!!.
کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ 20 سال رسول خدا صلى الله عليه وآله کی صحبت میں رہنے والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟
کیا ایسا شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟
کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟
رسول خدا صلى الله عليه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا:
اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السلام سے بغض کا حساب پورا کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی !اور جب یہ بات بی بی [سلام اللہ علیہا]کو معلوم ہوئی تو ناراض ہوئیں! اور رسول خدا صلى الله عليه وآله سے شکایت کی جب رسول خدا صلى الله عليه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا! :
وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا، وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُل وَاحِد ". فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ.
فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ناراضی کرے اللہ کی قسم بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی [ع] نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ دی !۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1364 ح 3523، كتاب فضائل الصحابة، ب 16، باب ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا!:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بن الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا في أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بن أبي طَالِبٍ فلا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إلا أَنْ يُرِيدَ بن أبي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي ما أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي ما آذَاهَا.
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی طالب[ع] سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، لیکن علی [ع] میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ کرلے ، کیونکہ فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 2004، ح4932، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عن ابْنَتِهِ في الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
چونکہ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه سلام الله عليها علی علیہ السلام سے غضبناک ہوئیں ۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول[ص] کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السلام ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے ۔؟
فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں آیت ذرنى ومن خلقت وحيدا نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اگر بنت رسول [ص]اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ حرام کام کیا ؟ [شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو ]
وليد بن مغيره اور ابوجهل،* دونوں ہی رسول اکرم[ ص ]کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔
آيا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟
نتيجه:
[پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی [ع] سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے - مترجم ]
[اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السلام پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی علیہ السلام کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ ملعونہ کا ہے جس نے اپنے 100 سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا ]
امام علی علیہ السلام پورے وجود سے نہج البلاغہ میں اعلان فرما رہے ہیں :
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ.
میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخلاق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی کا حکم دیتے ۔
نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 198.
ساتواں زاویہ : عمر ، ام كلثوم کےكفو نہیں تھے:
جب خليفه دوم کے اخلاق اور نسب کو دیکھتے ہوئے ام کلثوم سے مقائسہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ دو ایک دوسرے کے لئے بالکل مناسب نہیں تھے
امّ*كلثوم رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی بیٹی تھیں اور صدیقہ طاہرہ[سلام اللہ علیہا] کی گود میں پروان پائی اور جبکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق عمر کی دو تہائی زندگی کا حصہ بت پرستی میں گزرا اور انھوں نے حنتمہ جیسی ماں کے دامن میں پرورش پائی۔
علماء اہل سنت نےعمر کے تلخ مزاج ، اخلاق سو ، اور ذاتی جھگڑالو پن کو صراحت سے نقل کیا ہے جبکہ ام کلثوم ایک چھوٹی معصوم بچی اور اس خاندان سے تھیں جس کے اخلاق اور آداب اسلامی تمام بشریت کے لئے اسوہ ِعمل ہیں :
انکے نزدیک شادی کے وقت امّ*كلثوم محتاط اندازے کے مطابق ۷ یا ۸ سال سے زیادہ کی نہیں تھیں جبکہ خلیفہ دوم کی عمر کم سے کم ۵۷ سال تھی ، ان دو میں کیا ملاپ ہے؟
ہم دونوں میں ملاپ اور سنخیت نہ ہونے اور عمر کا ام کلثوم کے کفو نہ ہونے کی اہل سنت کی جہت سے تحقیق کرینگے ۔
غير هاشمي، هاشمي کا کفو نہیں ہے :
[اگرچہ اس بات میں شیعہ حضرات کے اندر متعدد رائے ہوں لیکن اس بات میں کہ عمر ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اور اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے موزوں نہیں تھی ،بلاشبہ شیعہ کے اندر دو رائے نہیں ہے ، جبکہ ہم اس بات کو اہل سنت کے جہت سے بیان کر رہے اور وہ شادی بھی کروانے والے ہیں پس شادی کروانے والے پر لازم ہے کہ اپنے مذھب کے مطابق شادی کی شرائط کا خیال رکھے]
بعض علماء اہل سنت نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ شادی میں تناسب دینی اور نسبی کا ہونا ضروری ہے اور غیر قریشی، قریشی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ہاشمی ، ہاشمی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ بنی ہاشم کو رسول خدا صلى الله عليه وآله کی وجہ سے برتری حاصل ہے اور کوئی بھی قوم اس قوم کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔
یہی وجہ تھی اميرمؤمنین عليه السلام نے فرمایا :میں نے اپنی بیٹیوں کو جعفر کے بیٹوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔
أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ.
عمر بن خطاب،نے علي بن ابى طالب [علیہ السلام ]سے انکی بیٹی ام کلثوم کی خواستگاری کی تو فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو صرف جعفر کے بیٹوں سے شادی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي 227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، ح520، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر:الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
بجيرمى شافعى، (متوفى 1221هـ) نے واضح طور پر کہا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے عمر اور ابوبکر سے رشتہ سے انکار ان دونوں کا اہل بیت کی عورت کے کفو نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا ۔
وفي شرح الخصائص: وخُصّ أن آله لا يكافئهم في النكاح أحد من الخلق وأما تزويج فاطمة لعليّ، فقيل: إنه لم يكن إذ ذاك كفؤاً لها سواه... وزوّجت له بأمر الله لما رواه الطبراني عن ابن مسعود: أنه لما خطبها منه أبو بكر وعمر ردهما وقال: ( إن الله أمرني أن أُزَوّج فاطِمَةَ مِنْ عَليّ ) وزوجها له في غيبته على المختار ويمكن أنه وكل واحداً في قبول نكاحه فلما جاء أخبره بأن الله تعالى أخبره بذلك فقال رضيت.
شرح خصائص میں موجود ہے کہ پيامبر (صلى الله عليه وآله کی خصوصیات میں سے )* انکے گھر والوں سے کوئی بھی شادی کرنے میں کفو نہیں ہے اور فاطمہ [سلام اللہ علیہا] اور علی [علیہ السلام ] کی شادی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ علی [علیہ السلام ] کے علاوہ کوئی دوسرا انکا کفو نہیں تھا ۔۔۔ ان دونوں کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی اس لئے طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ : جب ابوبکر اور عمر نے رسول خدا صلى الله عليه وآله سے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کا رشتہ مانگا تو آپ [ص] نے رد کردیا اور فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی شادی علی [علیہ السلام] سے کردوں۔۔۔۔۔
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج 4، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1417هـ ـ 1996م، الطبعة: الأولى.
اور حاشيه منهج الطلاب میں لکھا ہوا ہے کہ:
فَالنَّسَبُ مُعْتَبَرٌ بِالْآبَاءِ إلَّا أَوْلَادُ بَنَاتِهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ يُنْسَبُونَ إلَيْهِ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ ح ل ( قَوْلُهُ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ) فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى بَعْضِ الْمُدَّعَى وَهُوَ قَوْلُهُ وَلَا غَيْرُ هَاشِمِيٍّ وَمُطَّلِبِيٍّ كُفُؤًا لَهُمَا.
نسب صرف باپ کا معیار ہے ؛ لیکن صرف پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیٹیوں کی اولاد کا نسب آپ کا نسب کہلتاہے اس لئے کہ انکی بیٹیوں کی اولاد آپ سے منسوب ہیں اور آپ کے نسب سے کہلاتے ہیں پس انکا کوئی بھی کفو نہیں ہےاور قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ۔۔ [مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب کیا ] اس قول میں بعض مدعی پر دلالت موجود ہے یعنی غیر ہاشمی ، ہاشمی کا اور غیر مطلّبی، مطلّبی کفو نہیں ہے !
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، حاشية البجيرمي على منهج الطلاب، ج 3، ص 417، ناشر: المكتبة الإسلامية - ديار بكر – تركيا.
بجيرمى کے کلام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے کفو نہیں اسی لئے آپ ص نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عمر اور ابوبکر کو نہیں دی ۔ تو کیا علی علیہ السلام اس سنت کے برخلاف عمل کرتے ؟
مقدسى حنبلى نے احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے :
وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے قریشی کا غیر قریشی اور ہاشمی کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے اس قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی وجہ سے کہ فرمایا : اللہ نے نسل اسماعیل میں کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
شهاب الدين قليوبى نے صراحت سے کہا بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے :
قوله: ( وبنو هاشم إلخ ) نعم الأشراف الأحرار منهم لا يكافئهم غيرهم، وخرج بالأحرار ما لو تزوج هاشمي برقيقة بشرطه، وولدت بنتا فهي مملوكة لسيد الأمة وله تزويجها برقيق ودنيء النسب وإن كانت هاشمية لأن تزويجها بالملكية، ولذلك لو زوجها السلطان بذلك لم يصح.
آزاد بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشيتان. قليوبي: على شرح جلال الدين، المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
کیا نسب ِعمر اور ام کلثوم میں مقائسہ ہوسکتا ہے کیا صھاک کا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اور حنتمہ کا حضرت زہرا [سلام اللہ علیہا ]سےجو اہل جنت کی سردار ہیں ، مقائسہ ہو سکتا ہے ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ؟ کیا خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے برابر ہوسکتا ہے ؟
امّ*كلثوم کو اميرمؤمنین علی علیہ السلام کی بیٹی مان لیں تو کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عمر انکے کفو تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب بھی نسبی کفو کو شادی کے لئے شرط مانتے ہیں اور پست نسب کو اصیل نسب لڑکی سے شادی سے منع کرتے تھے ۔
سرخسى حنفى بزرگ عالم اهل سنت نے كتاب المبسوط میں لکھا ہے :
وبلغنا عن عمر رضي الله عنه أنه قال لأمنعن النساء فروجهن الا من الأكفاء... وفيه دليل أن الكفاءة في النكاح معتبرة.
عمر کی ہم تک روایت پہنچی ہے کہ : میں کسی بھی عورت کی شادی نہیں ہونے دونگا مگر اسکے کفو سے ۔۔۔ پس اس قول میں دلیل موجود ہے کہ نکاح میں کفو ہونا لازم ہے ۔
السرخسي، شمس الدين أبو بكر محمد بن أبى سهل (متوفي483هـ)، المبسوط، ج 4، ص 196، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
اور عبد الرزاق صنعانى نے بھی یہی بات لکھی ہے :
عن إبراهيم بن محمد بن طلحة قال قال عمر بن الخطاب لأمنعن فروج ذوات الأحساب إلا من الأكفاء.
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 152، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 96؛
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 26، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.
السيواسي، كمال الدين محمد بن عبد الواحد (متوفاي681هـ)، شرح فتح القدير، ج 3، ص 292، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الثانية.
ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 19، ص 28، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.
کیا خليفه دوم بھی اس قانون کے پاسدار تھے ؟ کیا خليفه دوم اور امّ*كلثوم میں تناسب سن اور تناسب اور کفائت نسبی کا لحاظ رکھا گیا تھا ؟
عمر ، ام كلثوم کے سن میں ہم کفو نہیں تھے :
خود خليفه دوم ، جوان عورتوں کی بوڑھے مردوں سے شادی کے خلاف تھے
سعيد بن منصور نےسنن میں لکھتے ہیں:
أُتِيَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِامْرَأَةٍ شَابَّةٍ زَوَّجُوهَا شَيْخَاً كَبِيرَاً فَقَتَلَتْهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ، وَلْيَنْكَحِ الرَّجُلُ لُمَّتَهُ مِنَ النسَاءِ، وَلْتَنْكَحِ المَرْأَةُ لُمَّتَهَا مِنَ الرجَالِ يَعْنِي شِبْهَهَا
عمر بن خطاب کے پاس ایک ایسی جوان عورت کو لایا گیا تھا جس کی شادی ایک بوڑھے سے کر دی گئی تھی جو اسی جوان عورت کے ہاتھ قتل ہوا ۔ عمر نے کہا اللہ سے ڈرو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہم کفو سے شادی کرے اسی طرح عورت بھی ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 243، ح809، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 263
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الإفصاح عن أحاديث النكاح، ج 1، ص 32، تحقيق: محمد شكور أمرير المياديني، ناشر: دار عمار - عمان - الأردن، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
کیا عمر اور ام کلثوم میں سن کا لحاظ رکھا گیا ہے ؟
اهل سنت کے نقل کے مطابق یہ شادی ۱۷ ہجری کو ہوئی ہے جیسا کہ ابن اثیر جزری نے لکھا ہے :
وفيها أعني سنة سبع عشرة... تزوج عمر أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي ابنة فاطمة بنت رسول الله ودخل في ذي القعدة.
۱۷ ہجری میں عمر نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب [علیہ السلام ] و بنت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]۔۔۔۔۔۔۔ سے شادی کی اور ذیقعدہ میں زفاف کیا !
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 382، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص215 ـ 220، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 111
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص236 ـ 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
امّ*كلثوم نبى مكرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوئیں اور نکاح کے وقت انکی عمر ۷ یا ۸ سال سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں بھی اشارہ کیا ہے
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
عمر نے امّ*كلثوم سے شادی کی جبکہ وہ نابالغ لڑکی تھیں.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
دوسری طرف عمر بن خطاب ۲۳ ہجری میں قتل ہوئے اور قتل کے وقت 63 سال کے تھے پس 17 ہجری میں شادی کے وقت 57 سال کے تھے یعنی عمر اور ام کلثوم میں 50 سال کا فرق تھا ۔
ہمارا اہل سنت کے نام نہاد علماء سے سوال ہے کہ 7 سالہ ام کلثوم اور 57 سالہ عمر بن خطاب میں کیا میل اور ملاپ تھا ؟
جبکہ عمر اور ابوبکر نے ان ہی کی والدہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان دونوں کو عمر[سن] کے فرق کی وجہ سے رد کردیا تھا ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور نسائى نے سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
ابوبكر اور عمرنے فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے کہا : فاطمه [سلام اللہ علیہا]چھوٹی ہیں ، [لیکن]اسکے فورا بعد علی [عليه السلام] نے خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کروادی۔
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986
کیا یہ عمر[سن] کا فرق اتنے سال گزرنے کے بعد حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سب سے چھوٹی بیٹی میں اور شیخین میں ختم ہوگیا ہے ؟
اميرمؤمنین عليه السلام، چونکہ اس شادی کے مخالف تھے اور وہ ہی پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم کے کلمات کو دھرایا جو آپ صلی اللہ علیہ ّ آلہ نے حضرت سیدہ[سلام اللہ علیہا] کی خواستگاری کے موقعہ پر ارشاد فرمائے تھے کہ وہ چھوٹی ہیں
ہم تو ان سے یہی سوال کر سکتے ہیں کہ 57 سالہ بوڑھے اور 7 سالہ نا بالغ بچی میں کیا ربط ہے؟ روايات اهل سنت، کے مطابق خليفه دوم دوسرے کے لئے تو عمر[سن] کے تناسب کو لازم قرار دیتے ہیں اور بڈھے کو جوان عورت سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ہی اس قانون کے پابند نہیں ہیں اور بڑھاپے میں ایک نابالغ سے شادی کرتے ہیں ۔؟ یہ تو اس محاورہ کا مصداق قرار پائے گا ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“؟
کیا یہ عمل اس آیت کا مصداق نہیں ہے ؟:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبرِِّ وَ تَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَ أَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَلا تَعْقِلُون البقرة /44.
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔۔۔ ۔
عمر، اخلاقي صلاحيت نہیں رکھتے ہیں ام کلثوم سے شادی کرنے کے لئے :
یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی لخت جگر کو بد اخلاق اور جسور شخص کو نہیں دے گا دوسری طرف عمر بن خطاب کا شدت پسندی کا اخلاق لوگوں میں خصوصا انکے خاندان میں مشہور تھا اسی بد اخلاقی کی وجہ سے انکی متعدد خواستگاریاں رد کر دی گئیں تھیں چونکہ ہم نے مقاله http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=128'> آيت محمد رسول اللہ کی تحقیق میں تفصیل سے بحث کی ہے یہاں ان مطالب کو نہیں دھرائیں گے فقط چند مطالب کو بطور مثال مختصر بیان کرتے ہیں :
عتبہ کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار ،انکی تلخ مزاجی کی وجہ سے :
بلاذرى، طبرى، ابن اثير اور ابن كثير کے نقل کے مطابق جب یزید بن ابوسفیان اس دنیا سے چلا گیا توعمر نے اس کی بیوی ام ربان بن عتبہ سے خواستگاری کی اس نے قبول نہیں کیا اور اسکی علت اس طرح بیان کی :
لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.
عمر بن خطاب عبوس اور تلخ مزاج ہے جب گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے ہوئے بد مزاج اور تلخ اخلاق رکھتا ہے گھر کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے [ اور بیویوں کو گھر سے نکل کی جازت نہیں دیتا ہے ] اور اس کی نیکی بہت کم ہے [اپنے عیال کی ضروریات پوری نہیں کرتا ہے ] ۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
ابو بكر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار انکی بد اخلاقی کی وجہ سے:
وہ افراد جن کی کوشش ہے کہ عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم بنت علی[علیہ السلام] سے ثابت کریں ناکہ ابوبکر کی بیٹی سے اس کی وجہ عمر کی ذاتی شدت پسندی اور تلخ مزاجی کو علت قرار دیتے ہیں :
ابن عبدالبر، کے مطابق امّ*كلثوم بنت ابوبكر نے اپنی بہن عائشه سے کہا :
تم کیا یہ چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جس کا اخلاق بہت برا اور شدت پسند ہے کیا میں اسکے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟
پھر مزید کہتی ہیں :
والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به
اللہ کی قسم اگر تم نے یہ کام کیا تو میں قبر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم پر جاکر اور[بطور احتجاج] وہاں نال و فریاد کرونگی ۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
ملاحظہ کیجئے ام کلثوم بنت ابوبکر جیسی ایک کم سن بچی بھی عمر جو خلیفہ مسلمین ہیں اور انکے والد کے قریب ترین دوست ہیں پھر بھی عمر سے شادی پر آمادہ نہیں ہے :
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام عمر کی یہ صفات ناپسندیدہ اور اخلاق سوء کو نظر انداز کر دیں ؟ اور اپنی پارہ جگر کو جو کم سن بھی ہے عمر کے حوالے کردیں ؟
عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتے ہیں :
عمر کی ایک بری صفت یہ بھی تھی کہ ہمیشہ اپنی بیوی کی پٹائی کیا کرتے تھے ۔ ابن ماجہ نے سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لکھا ہے :
اشعث بن قيس سے نقل ہے وہ کہتا ہے :
ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.
ایک رات میں عمر کا مہمان تھا جب آدھی رات ہوگئی تو عمر نے اپنی بیوی کی پٹائی شروع کردی تب میں نے جاکر بچ بچاو کروایا اور دونوں کو الگ کردیا
جب عمر میرے پاس آئے تو کہا
فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.
اے اشعث! ایک قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہےاسے یاد رکھو وہ یہ ہے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا [ یعنی کیا شیر مادر کی طرح حلال ہے؟] ! ! ! ! !
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛
المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.
اسی روايت سے مشابہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے :
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا کوئی عاقل اپنی بیٹی کو ایسے شخص کو دے گا جو بیویوں کی پٹائی میں نام و شہرت رکھتا ہو ؟
عمر کی اخلاقی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اميرمؤمنین عليه السلام اپنی بیٹی ایسے شخص کو دے جو اس قدر بد اخلاق ہو اور جس کا نتیجہ روح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا باعث بنے ؟
عمر دینداری کے لحاظ سے ام کلثوم کے ہم کفو نہیں تھے :
اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،کفائت دینی بھی شادی کی شروط میں سے ہے.
أبو طالب مکی نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے کہ :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ] ہے تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
ابن قدامه مقدسى، فقيه حنابله نے تصریح کی ہے کہ كفائت ديني شادی کی شروط میں سے ہیں اور فاسق ، عفیفہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ کوئی قوم بھی بنی ہاشم کے ہم کفو نہیں ہوسکتی ہیں اور ان سے شادی کا حق نہیں رکھتی ہے :
فصل: والكفء ذو الدين والمنصب فلا يكون الفاسق كفءا لعفيفة لأنه مردود الشهادة... وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
دیندار اور منصب دار کفائت کا حامل ہے پس فاسق ،عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اس لئے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔۔ ۔ اور احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ غیر قریش، قریش کا کفو نہیں ہے اسی طرح بنی ہاشم کا غیر انکا کفو نہیں ہے ۔۔۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
استدلال ابن قدامه کی روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسلم نيشابورى نےصحيح میں وَاثِلَةَ بن الْأَسْقَعِ سے نقل کیا ہے ۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1782، ح2276، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب فَضْلِ نَسَبِ النبي صلى الله عليه وسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
امير مؤمنین (ع)، خليفه دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب، خائن و... جانتے ہیں :
ابن قدامه کے کلام کے مطابق، خليفه دوم کسی بھی صورت میں امير مؤمنین عليه السلام کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ عمر نہ بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی ام کلثوم کےدین میں ہم کفو ہیں
یہ کہ عمر بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن عمر ام کلثوم کے دینی لحاظ سے بھی کفو نہیں تھے اس کی دلیل اہل سنت کی صحیح السند روایات ہیں اگرچہ یہ لوگ ان مطالب کو قبول کرنے میں بہانہ تراشی کرتے ہیں لیکن یہ بات واضح طور پر صحیح السند کے ساتھ موجود ہے جس کا شافی جواب آج تک دینے میں قاصر ہیں :
روايت اول (ظالم فاجر):
عبد الرزاق صنعانى نے سند صحيح سے خود خليفه دوم سے نقل کیا ہے وہ عباس اور علی علیہ السلام کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں :
ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر....
میں نے ابوبكر کے بعد دو سال حكومت کی اور ان دو سالوں میں وہی کیا جس پر رسول اللہ [ص] اور ابوبکر نے عمل کیا جبکہ تم دونوں مجھے ان دو سالوں میں ظالم اور فاجرو فاسق سمجھتے ہو ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
روايت دوم (كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا):
مسلم نيشابورى نے بھی عمر بن الخطاب سے صحيح میں نقل کیا ہے عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کو مخاطب کر کے کہا :
ثُمَّ تُوُفِّىَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَوَلِىُّ أَبِى بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِى كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.
ابوبكر،* کی موت کے بعد میں جانشين پيامبر[ص] و ابوبكر ہوں ، تم دونوں مجھے کذاب ، گناہگار ۔ مکار اور خائن اور غدار جانتے ہو۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
یہ امام علی علیہ السلام کاحقیقی نظریہ ہے جو خلیفہ اول اور دوم کے بارے میں تھا اس لئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے عمر کے کلام کا انکار نہیں کیااس طرح متعدد صحابہ موجود تھے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، زبير بن عوام، سعد بن أبى وقاص و... انھوں نے بھی اس کی نفی نہیں کی خصوصا یہ واقعہ عمر کی خلافت کے آخری سالوں کا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت اس زمانہ تک اپنے نظریہ پر ثابت قدم تھے ۔
اب کیا کوئی بھی عقلمند اپنی بیٹی کو کذاب ، خائن ، مکار ، اور فاسق کو دے گا ؟
صحيح*ترين اهل سنت کی كتاب بخاری میں موجود روایت کے مطابق منافق کی چار خصلتیں ہیں : کذاب ، خیانت کار ، مکار ، فاسق و فاجر ۔ گذشتہ اہل سنت کی دو روایت کے مطابق یہ چاروں صفات اور خصلتیں خلیفہ دوم میں موجود ہیں اور اسکی تائید امام علی علیہ السلام بھی کرتے ہیں :
حدثنا سُلَيْمَانُ أبو الرَّبِيعِ قال حدثنا إِسْمَاعِيلُ بن جَعْفَرٍ قال حدثنا نَافِعُ بن مَالِكِ بن أبي عَامِرٍ أبو سُهَيْلٍ عن أبيه عن أبي هُرَيْرَةَ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ وإذا أؤتمن خَانَ
حدثنا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ قال حدثنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن مَسْرُوقٍ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو أَنَّ النبي (ص) قال أَرْبَعٌ من كُنَّ فيه كان مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كانت فيه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كانت فيه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتى يَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ وإذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا عَاهَدَ غَدَرَ وإذا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ.
پيغمبر (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ منافق کی تین علامت ہیں جب بولے گا تو جھوٹ ، اور جب وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کریگا اور جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا !
رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہے کہ چار علامت ایسی ہیں کہ جس میں بھی یہ ہونگیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں صرف ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو وہ علامت نفاق شمار ہوئی مگر اس خصلت کو ترک کردے ۔ [وہ چار خصلت یہ ہیں ] جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا جب بولے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرےگا وعدہ خلافی کرے گا اور جب دشمنی کرے گا تو فسق و فجور کرے گا!
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 21، ح 33 و 34، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
پس کتب اہل سنت کی روایات صحیح السند کے مطابق خلیفہ دوم ان خصلتوں کے مالک تھے ۔اس بناء پر ہم سوال کرینگے کہ کیا منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کا ہم پلہ ہو سکتا ہے ؟ اور اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے مطابق عمر ام کلثوم کے کفو نہیں ہیں اور ان سے شادی نہیں کر سکتے ہیں۔
شراب خواري خليفه، کفو نہ ہونے کی دلیل :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق شرابی کو بیٹی دینا جائز نہیں ہے اور شرابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کام کیا ہو اس نے قطع رحمی کی ہے ۔
پہلے گزر گیا ہے کہ ابوطالب نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی ہے اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
عبد الرزاق صنعانى جو بخارى کے استاد شمار ہوتے ہیں ، نے المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن مسهر عن الشيباني عن حسان بن مخارق قال بلغني أن عمر بن الخطاب ساير رجلا في سفر وكان صائما فلما أفطر أهوى إلى قربة لعمر معلقة فيها نبيذ قد خضخضها البعير فشرب منها فسكر فضربه عمر الحد فقال له إنما شربت من قربتك فقال له عمر إنما جلدناك لسكرك.
عمر بن خطاب ایک روزہ دار شخص کے ہمراہ سفر پر تھے جب اس نے افطار کیا تو عمر کے مشکیزہ سے جس میں شراب تھی اور اونٹ نے اسے خوب ہلایا تھا ، اس سے پیا اور مست ہو گیا تب عمر نے اسے حد اور سزا دی تو اس روزہ دار نے کہا میں نے تو تمہارے ہی مشکیزہ سے پیا تھا تو عمر نے کہا میں نے تمہیں مست ہونے پر سزا دی ہے !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 502، ح28401، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
ابن عبد ربه نے عقد الفريد میں لکھا ہے :
وقال الشعبي شرب أعرابي من إداوة عمر فانتشى فحده عمر وإنما حده للسكر لا للشراب.
شعبى نے کہا ایک بدو نے عمر کی مشک سے پیا اور مست ہو گیا عمر نے اسے حد لگائی اور یہ مست ہونے کی وجہ سے تھی پینے کی وجہ سے نہیں تھی ۔!
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 382، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ عمر اگر شرابی نہیں تھے تو انکی مشک میں شراب کیا کر رہی تھی ؟ شاید اس حد کی وجہ عمر کی مشک کو خالی کرنے کی وجہ سے ہو ؟ [اس میں بہت سے اھم نکات ہیں جو اہل فہم پر مخفی نہیں ہیں ] جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہم نے تمام روایات کو اہل سنت کی کتب سے نا کہ شیعہ کتب سے نقل کیا ہے اب اہل سنت کے نام نہاد علماء پر لازم ہے کہ ان تمام کا شافی اور قانع کنندہ جواب دیں۔
بدعت گزار ، عفيفه لڑکی ، کا كفو نہیں ہے :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،دین میں بدعت*گزار ، مسلمان عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اور اس سے شادی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔
أبو طالب مكى نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
دوسری طرف خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کا احوال اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے
محمد بن اسماعيل بخارى نے صحيح میں لکھا ہے :
وَعَنْ بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عبد الرحمن بن عَبْدٍ القارىء أَنَّهُ قال خَرَجْتُ مع عُمَرَ بن الْخَطَّابِ رضي الله عنه لَيْلَةً في رَمَضَانَ إلى الْمَسْجِدِ فإذا الناس أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فقال عُمَرُ إني أَرَى لو جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ على قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ على أُبَيِّ بن كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ معه لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قال عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هذه وَالَّتِي يَنَامُونَ عنها أَفْضَلُ من التي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكان الناس يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبد الرحمن بن عبد*القارى سے روايت عمر رمضان کی ایک رات مسجد میں وارد ہوئے، وہاں لوگوں کو الگ الگ سنت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا
عمر نےکہا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا پھر اس کا عزم کر کے ان کو ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔ پھر دوسری رات عمر نے دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کیساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ، تو عمر نے کہاکہ یہ اچھی بدعت ہے!
یہ اس بات سے افضل ہے کہ لوگ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر عبادت کریں رات پہلے ہی پہر میں وہ عبادت کر لیں !
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 707، ح1906، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَاب فَضْلِ من قام رَمَضَانَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کی فہرست بہت طولانی ہے مزید اطلاع کے لئے کتابhttp://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=132'> النص والإجتهاد کی طرف رجوع کیا جائے مرحوم شرف الدین نے بہت خوبصورت اندازمیں ان مطالب کو بیان کیا ہے ۔
نتيجه:
بیان شدہ مطالب کے مطابق ، خلیفہ دوم کسی بھی صورت میں ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ علی علیہ السلام ان شرائط کو نظر انداز کر دیں اور اپنی بیٹی ایسے شخص سے بیاہ دیں جو کسی بھی صورت میں انکے ہم پلہ نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض محال کر لیا جائے یہ شادی امام علی علیہ السلام نے[ام کلثوم بنت ابوبکر کی یا خود ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ] کروائی تھی تب بھی مخالفین کا مدعی ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی داستان کی طرح ہے جب انھوں نے لوطی گناہگاروں کو پیش کش کی میری [قوم ] کی بیٹیوں سے شادی کر لو اور یہ پیش کش کرنا، ثابت نہیں کرتا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور لوطی جماعت کے تعلقات بہت اچھے تھے ؟۔
امّ*كلثوم رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی بیٹی تھیں اور صدیقہ طاہرہ[سلام اللہ علیہا] کی گود میں پروان پائی اور جبکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق عمر کی دو تہائی زندگی کا حصہ بت پرستی میں گزرا اور انھوں نے حنتمہ جیسی ماں کے دامن میں پرورش پائی۔
علماء اہل سنت نےعمر کے تلخ مزاج ، اخلاق سو ، اور ذاتی جھگڑالو پن کو صراحت سے نقل کیا ہے جبکہ ام کلثوم ایک چھوٹی معصوم بچی اور اس خاندان سے تھیں جس کے اخلاق اور آداب اسلامی تمام بشریت کے لئے اسوہ ِعمل ہیں :
انکے نزدیک شادی کے وقت امّ*كلثوم محتاط اندازے کے مطابق ۷ یا ۸ سال سے زیادہ کی نہیں تھیں جبکہ خلیفہ دوم کی عمر کم سے کم ۵۷ سال تھی ، ان دو میں کیا ملاپ ہے؟
ہم دونوں میں ملاپ اور سنخیت نہ ہونے اور عمر کا ام کلثوم کے کفو نہ ہونے کی اہل سنت کی جہت سے تحقیق کرینگے ۔
غير هاشمي، هاشمي کا کفو نہیں ہے :
[اگرچہ اس بات میں شیعہ حضرات کے اندر متعدد رائے ہوں لیکن اس بات میں کہ عمر ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اور اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے موزوں نہیں تھی ،بلاشبہ شیعہ کے اندر دو رائے نہیں ہے ، جبکہ ہم اس بات کو اہل سنت کے جہت سے بیان کر رہے اور وہ شادی بھی کروانے والے ہیں پس شادی کروانے والے پر لازم ہے کہ اپنے مذھب کے مطابق شادی کی شرائط کا خیال رکھے]
بعض علماء اہل سنت نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ شادی میں تناسب دینی اور نسبی کا ہونا ضروری ہے اور غیر قریشی، قریشی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ہاشمی ، ہاشمی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ بنی ہاشم کو رسول خدا صلى الله عليه وآله کی وجہ سے برتری حاصل ہے اور کوئی بھی قوم اس قوم کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔
یہی وجہ تھی اميرمؤمنین عليه السلام نے فرمایا :میں نے اپنی بیٹیوں کو جعفر کے بیٹوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔
أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ.
عمر بن خطاب،نے علي بن ابى طالب [علیہ السلام ]سے انکی بیٹی ام کلثوم کی خواستگاری کی تو فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو صرف جعفر کے بیٹوں سے شادی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي 227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، ح520، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر:الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
بجيرمى شافعى، (متوفى 1221هـ) نے واضح طور پر کہا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے عمر اور ابوبکر سے رشتہ سے انکار ان دونوں کا اہل بیت کی عورت کے کفو نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا ۔
وفي شرح الخصائص: وخُصّ أن آله لا يكافئهم في النكاح أحد من الخلق وأما تزويج فاطمة لعليّ، فقيل: إنه لم يكن إذ ذاك كفؤاً لها سواه... وزوّجت له بأمر الله لما رواه الطبراني عن ابن مسعود: أنه لما خطبها منه أبو بكر وعمر ردهما وقال: ( إن الله أمرني أن أُزَوّج فاطِمَةَ مِنْ عَليّ ) وزوجها له في غيبته على المختار ويمكن أنه وكل واحداً في قبول نكاحه فلما جاء أخبره بأن الله تعالى أخبره بذلك فقال رضيت.
شرح خصائص میں موجود ہے کہ پيامبر (صلى الله عليه وآله کی خصوصیات میں سے )* انکے گھر والوں سے کوئی بھی شادی کرنے میں کفو نہیں ہے اور فاطمہ [سلام اللہ علیہا] اور علی [علیہ السلام ] کی شادی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ علی [علیہ السلام ] کے علاوہ کوئی دوسرا انکا کفو نہیں تھا ۔۔۔ ان دونوں کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی اس لئے طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ : جب ابوبکر اور عمر نے رسول خدا صلى الله عليه وآله سے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کا رشتہ مانگا تو آپ [ص] نے رد کردیا اور فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی شادی علی [علیہ السلام] سے کردوں۔۔۔۔۔
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج 4، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1417هـ ـ 1996م، الطبعة: الأولى.
اور حاشيه منهج الطلاب میں لکھا ہوا ہے کہ:
فَالنَّسَبُ مُعْتَبَرٌ بِالْآبَاءِ إلَّا أَوْلَادُ بَنَاتِهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ يُنْسَبُونَ إلَيْهِ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ ح ل ( قَوْلُهُ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ) فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى بَعْضِ الْمُدَّعَى وَهُوَ قَوْلُهُ وَلَا غَيْرُ هَاشِمِيٍّ وَمُطَّلِبِيٍّ كُفُؤًا لَهُمَا.
نسب صرف باپ کا معیار ہے ؛ لیکن صرف پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیٹیوں کی اولاد کا نسب آپ کا نسب کہلتاہے اس لئے کہ انکی بیٹیوں کی اولاد آپ سے منسوب ہیں اور آپ کے نسب سے کہلاتے ہیں پس انکا کوئی بھی کفو نہیں ہےاور قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ۔۔ [مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب کیا ] اس قول میں بعض مدعی پر دلالت موجود ہے یعنی غیر ہاشمی ، ہاشمی کا اور غیر مطلّبی، مطلّبی کفو نہیں ہے !
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، حاشية البجيرمي على منهج الطلاب، ج 3، ص 417، ناشر: المكتبة الإسلامية - ديار بكر – تركيا.
بجيرمى کے کلام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے کفو نہیں اسی لئے آپ ص نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عمر اور ابوبکر کو نہیں دی ۔ تو کیا علی علیہ السلام اس سنت کے برخلاف عمل کرتے ؟
مقدسى حنبلى نے احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے :
وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے قریشی کا غیر قریشی اور ہاشمی کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے اس قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی وجہ سے کہ فرمایا : اللہ نے نسل اسماعیل میں کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
شهاب الدين قليوبى نے صراحت سے کہا بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے :
قوله: ( وبنو هاشم إلخ ) نعم الأشراف الأحرار منهم لا يكافئهم غيرهم، وخرج بالأحرار ما لو تزوج هاشمي برقيقة بشرطه، وولدت بنتا فهي مملوكة لسيد الأمة وله تزويجها برقيق ودنيء النسب وإن كانت هاشمية لأن تزويجها بالملكية، ولذلك لو زوجها السلطان بذلك لم يصح.
آزاد بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشيتان. قليوبي: على شرح جلال الدين، المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
کیا نسب ِعمر اور ام کلثوم میں مقائسہ ہوسکتا ہے کیا صھاک کا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اور حنتمہ کا حضرت زہرا [سلام اللہ علیہا ]سےجو اہل جنت کی سردار ہیں ، مقائسہ ہو سکتا ہے ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ؟ کیا خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے برابر ہوسکتا ہے ؟
امّ*كلثوم کو اميرمؤمنین علی علیہ السلام کی بیٹی مان لیں تو کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عمر انکے کفو تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب بھی نسبی کفو کو شادی کے لئے شرط مانتے ہیں اور پست نسب کو اصیل نسب لڑکی سے شادی سے منع کرتے تھے ۔
سرخسى حنفى بزرگ عالم اهل سنت نے كتاب المبسوط میں لکھا ہے :
وبلغنا عن عمر رضي الله عنه أنه قال لأمنعن النساء فروجهن الا من الأكفاء... وفيه دليل أن الكفاءة في النكاح معتبرة.
عمر کی ہم تک روایت پہنچی ہے کہ : میں کسی بھی عورت کی شادی نہیں ہونے دونگا مگر اسکے کفو سے ۔۔۔ پس اس قول میں دلیل موجود ہے کہ نکاح میں کفو ہونا لازم ہے ۔
السرخسي، شمس الدين أبو بكر محمد بن أبى سهل (متوفي483هـ)، المبسوط، ج 4، ص 196، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
اور عبد الرزاق صنعانى نے بھی یہی بات لکھی ہے :
عن إبراهيم بن محمد بن طلحة قال قال عمر بن الخطاب لأمنعن فروج ذوات الأحساب إلا من الأكفاء.
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 152، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 96؛
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 26، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.
السيواسي، كمال الدين محمد بن عبد الواحد (متوفاي681هـ)، شرح فتح القدير، ج 3، ص 292، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الثانية.
ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 19، ص 28، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.
کیا خليفه دوم بھی اس قانون کے پاسدار تھے ؟ کیا خليفه دوم اور امّ*كلثوم میں تناسب سن اور تناسب اور کفائت نسبی کا لحاظ رکھا گیا تھا ؟
عمر ، ام كلثوم کے سن میں ہم کفو نہیں تھے :
خود خليفه دوم ، جوان عورتوں کی بوڑھے مردوں سے شادی کے خلاف تھے
سعيد بن منصور نےسنن میں لکھتے ہیں:
أُتِيَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِامْرَأَةٍ شَابَّةٍ زَوَّجُوهَا شَيْخَاً كَبِيرَاً فَقَتَلَتْهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ، وَلْيَنْكَحِ الرَّجُلُ لُمَّتَهُ مِنَ النسَاءِ، وَلْتَنْكَحِ المَرْأَةُ لُمَّتَهَا مِنَ الرجَالِ يَعْنِي شِبْهَهَا
عمر بن خطاب کے پاس ایک ایسی جوان عورت کو لایا گیا تھا جس کی شادی ایک بوڑھے سے کر دی گئی تھی جو اسی جوان عورت کے ہاتھ قتل ہوا ۔ عمر نے کہا اللہ سے ڈرو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہم کفو سے شادی کرے اسی طرح عورت بھی ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 243، ح809، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 263
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الإفصاح عن أحاديث النكاح، ج 1، ص 32، تحقيق: محمد شكور أمرير المياديني، ناشر: دار عمار - عمان - الأردن، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
کیا عمر اور ام کلثوم میں سن کا لحاظ رکھا گیا ہے ؟
اهل سنت کے نقل کے مطابق یہ شادی ۱۷ ہجری کو ہوئی ہے جیسا کہ ابن اثیر جزری نے لکھا ہے :
وفيها أعني سنة سبع عشرة... تزوج عمر أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي ابنة فاطمة بنت رسول الله ودخل في ذي القعدة.
۱۷ ہجری میں عمر نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب [علیہ السلام ] و بنت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]۔۔۔۔۔۔۔ سے شادی کی اور ذیقعدہ میں زفاف کیا !
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 382، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص215 ـ 220، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 111
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص236 ـ 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
امّ*كلثوم نبى مكرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوئیں اور نکاح کے وقت انکی عمر ۷ یا ۸ سال سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں بھی اشارہ کیا ہے
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
عمر نے امّ*كلثوم سے شادی کی جبکہ وہ نابالغ لڑکی تھیں.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
دوسری طرف عمر بن خطاب ۲۳ ہجری میں قتل ہوئے اور قتل کے وقت 63 سال کے تھے پس 17 ہجری میں شادی کے وقت 57 سال کے تھے یعنی عمر اور ام کلثوم میں 50 سال کا فرق تھا ۔
ہمارا اہل سنت کے نام نہاد علماء سے سوال ہے کہ 7 سالہ ام کلثوم اور 57 سالہ عمر بن خطاب میں کیا میل اور ملاپ تھا ؟
جبکہ عمر اور ابوبکر نے ان ہی کی والدہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان دونوں کو عمر[سن] کے فرق کی وجہ سے رد کردیا تھا ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور نسائى نے سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
ابوبكر اور عمرنے فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے کہا : فاطمه [سلام اللہ علیہا]چھوٹی ہیں ، [لیکن]اسکے فورا بعد علی [عليه السلام] نے خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کروادی۔
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986
کیا یہ عمر[سن] کا فرق اتنے سال گزرنے کے بعد حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سب سے چھوٹی بیٹی میں اور شیخین میں ختم ہوگیا ہے ؟
اميرمؤمنین عليه السلام، چونکہ اس شادی کے مخالف تھے اور وہ ہی پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم کے کلمات کو دھرایا جو آپ صلی اللہ علیہ ّ آلہ نے حضرت سیدہ[سلام اللہ علیہا] کی خواستگاری کے موقعہ پر ارشاد فرمائے تھے کہ وہ چھوٹی ہیں
ہم تو ان سے یہی سوال کر سکتے ہیں کہ 57 سالہ بوڑھے اور 7 سالہ نا بالغ بچی میں کیا ربط ہے؟ روايات اهل سنت، کے مطابق خليفه دوم دوسرے کے لئے تو عمر[سن] کے تناسب کو لازم قرار دیتے ہیں اور بڈھے کو جوان عورت سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ہی اس قانون کے پابند نہیں ہیں اور بڑھاپے میں ایک نابالغ سے شادی کرتے ہیں ۔؟ یہ تو اس محاورہ کا مصداق قرار پائے گا ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“؟
کیا یہ عمل اس آیت کا مصداق نہیں ہے ؟:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبرِِّ وَ تَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَ أَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَلا تَعْقِلُون البقرة /44.
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔۔۔ ۔
عمر، اخلاقي صلاحيت نہیں رکھتے ہیں ام کلثوم سے شادی کرنے کے لئے :
یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی لخت جگر کو بد اخلاق اور جسور شخص کو نہیں دے گا دوسری طرف عمر بن خطاب کا شدت پسندی کا اخلاق لوگوں میں خصوصا انکے خاندان میں مشہور تھا اسی بد اخلاقی کی وجہ سے انکی متعدد خواستگاریاں رد کر دی گئیں تھیں چونکہ ہم نے مقاله http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=128'> آيت محمد رسول اللہ کی تحقیق میں تفصیل سے بحث کی ہے یہاں ان مطالب کو نہیں دھرائیں گے فقط چند مطالب کو بطور مثال مختصر بیان کرتے ہیں :
عتبہ کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار ،انکی تلخ مزاجی کی وجہ سے :
بلاذرى، طبرى، ابن اثير اور ابن كثير کے نقل کے مطابق جب یزید بن ابوسفیان اس دنیا سے چلا گیا توعمر نے اس کی بیوی ام ربان بن عتبہ سے خواستگاری کی اس نے قبول نہیں کیا اور اسکی علت اس طرح بیان کی :
لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.
عمر بن خطاب عبوس اور تلخ مزاج ہے جب گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے ہوئے بد مزاج اور تلخ اخلاق رکھتا ہے گھر کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے [ اور بیویوں کو گھر سے نکل کی جازت نہیں دیتا ہے ] اور اس کی نیکی بہت کم ہے [اپنے عیال کی ضروریات پوری نہیں کرتا ہے ] ۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
ابو بكر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار انکی بد اخلاقی کی وجہ سے:
وہ افراد جن کی کوشش ہے کہ عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم بنت علی[علیہ السلام] سے ثابت کریں ناکہ ابوبکر کی بیٹی سے اس کی وجہ عمر کی ذاتی شدت پسندی اور تلخ مزاجی کو علت قرار دیتے ہیں :
ابن عبدالبر، کے مطابق امّ*كلثوم بنت ابوبكر نے اپنی بہن عائشه سے کہا :
تم کیا یہ چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جس کا اخلاق بہت برا اور شدت پسند ہے کیا میں اسکے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟
پھر مزید کہتی ہیں :
والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به
اللہ کی قسم اگر تم نے یہ کام کیا تو میں قبر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم پر جاکر اور[بطور احتجاج] وہاں نال و فریاد کرونگی ۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
ملاحظہ کیجئے ام کلثوم بنت ابوبکر جیسی ایک کم سن بچی بھی عمر جو خلیفہ مسلمین ہیں اور انکے والد کے قریب ترین دوست ہیں پھر بھی عمر سے شادی پر آمادہ نہیں ہے :
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام عمر کی یہ صفات ناپسندیدہ اور اخلاق سوء کو نظر انداز کر دیں ؟ اور اپنی پارہ جگر کو جو کم سن بھی ہے عمر کے حوالے کردیں ؟
عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتے ہیں :
عمر کی ایک بری صفت یہ بھی تھی کہ ہمیشہ اپنی بیوی کی پٹائی کیا کرتے تھے ۔ ابن ماجہ نے سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لکھا ہے :
اشعث بن قيس سے نقل ہے وہ کہتا ہے :
ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.
ایک رات میں عمر کا مہمان تھا جب آدھی رات ہوگئی تو عمر نے اپنی بیوی کی پٹائی شروع کردی تب میں نے جاکر بچ بچاو کروایا اور دونوں کو الگ کردیا
جب عمر میرے پاس آئے تو کہا
فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.
اے اشعث! ایک قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہےاسے یاد رکھو وہ یہ ہے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا [ یعنی کیا شیر مادر کی طرح حلال ہے؟] ! ! ! ! !
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛
المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.
اسی روايت سے مشابہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے :
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا کوئی عاقل اپنی بیٹی کو ایسے شخص کو دے گا جو بیویوں کی پٹائی میں نام و شہرت رکھتا ہو ؟
عمر کی اخلاقی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اميرمؤمنین عليه السلام اپنی بیٹی ایسے شخص کو دے جو اس قدر بد اخلاق ہو اور جس کا نتیجہ روح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا باعث بنے ؟
عمر دینداری کے لحاظ سے ام کلثوم کے ہم کفو نہیں تھے :
اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،کفائت دینی بھی شادی کی شروط میں سے ہے.
أبو طالب مکی نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے کہ :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ] ہے تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
ابن قدامه مقدسى، فقيه حنابله نے تصریح کی ہے کہ كفائت ديني شادی کی شروط میں سے ہیں اور فاسق ، عفیفہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ کوئی قوم بھی بنی ہاشم کے ہم کفو نہیں ہوسکتی ہیں اور ان سے شادی کا حق نہیں رکھتی ہے :
فصل: والكفء ذو الدين والمنصب فلا يكون الفاسق كفءا لعفيفة لأنه مردود الشهادة... وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
دیندار اور منصب دار کفائت کا حامل ہے پس فاسق ،عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اس لئے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔۔ ۔ اور احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ غیر قریش، قریش کا کفو نہیں ہے اسی طرح بنی ہاشم کا غیر انکا کفو نہیں ہے ۔۔۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
استدلال ابن قدامه کی روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسلم نيشابورى نےصحيح میں وَاثِلَةَ بن الْأَسْقَعِ سے نقل کیا ہے ۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1782، ح2276، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب فَضْلِ نَسَبِ النبي صلى الله عليه وسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
امير مؤمنین (ع)، خليفه دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب، خائن و... جانتے ہیں :
ابن قدامه کے کلام کے مطابق، خليفه دوم کسی بھی صورت میں امير مؤمنین عليه السلام کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ عمر نہ بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی ام کلثوم کےدین میں ہم کفو ہیں
یہ کہ عمر بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن عمر ام کلثوم کے دینی لحاظ سے بھی کفو نہیں تھے اس کی دلیل اہل سنت کی صحیح السند روایات ہیں اگرچہ یہ لوگ ان مطالب کو قبول کرنے میں بہانہ تراشی کرتے ہیں لیکن یہ بات واضح طور پر صحیح السند کے ساتھ موجود ہے جس کا شافی جواب آج تک دینے میں قاصر ہیں :
روايت اول (ظالم فاجر):
عبد الرزاق صنعانى نے سند صحيح سے خود خليفه دوم سے نقل کیا ہے وہ عباس اور علی علیہ السلام کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں :
ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر....
میں نے ابوبكر کے بعد دو سال حكومت کی اور ان دو سالوں میں وہی کیا جس پر رسول اللہ [ص] اور ابوبکر نے عمل کیا جبکہ تم دونوں مجھے ان دو سالوں میں ظالم اور فاجرو فاسق سمجھتے ہو ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
روايت دوم (كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا):
مسلم نيشابورى نے بھی عمر بن الخطاب سے صحيح میں نقل کیا ہے عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کو مخاطب کر کے کہا :
ثُمَّ تُوُفِّىَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَوَلِىُّ أَبِى بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِى كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.
ابوبكر،* کی موت کے بعد میں جانشين پيامبر[ص] و ابوبكر ہوں ، تم دونوں مجھے کذاب ، گناہگار ۔ مکار اور خائن اور غدار جانتے ہو۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
یہ امام علی علیہ السلام کاحقیقی نظریہ ہے جو خلیفہ اول اور دوم کے بارے میں تھا اس لئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے عمر کے کلام کا انکار نہیں کیااس طرح متعدد صحابہ موجود تھے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، زبير بن عوام، سعد بن أبى وقاص و... انھوں نے بھی اس کی نفی نہیں کی خصوصا یہ واقعہ عمر کی خلافت کے آخری سالوں کا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت اس زمانہ تک اپنے نظریہ پر ثابت قدم تھے ۔
اب کیا کوئی بھی عقلمند اپنی بیٹی کو کذاب ، خائن ، مکار ، اور فاسق کو دے گا ؟
صحيح*ترين اهل سنت کی كتاب بخاری میں موجود روایت کے مطابق منافق کی چار خصلتیں ہیں : کذاب ، خیانت کار ، مکار ، فاسق و فاجر ۔ گذشتہ اہل سنت کی دو روایت کے مطابق یہ چاروں صفات اور خصلتیں خلیفہ دوم میں موجود ہیں اور اسکی تائید امام علی علیہ السلام بھی کرتے ہیں :
حدثنا سُلَيْمَانُ أبو الرَّبِيعِ قال حدثنا إِسْمَاعِيلُ بن جَعْفَرٍ قال حدثنا نَافِعُ بن مَالِكِ بن أبي عَامِرٍ أبو سُهَيْلٍ عن أبيه عن أبي هُرَيْرَةَ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ وإذا أؤتمن خَانَ
حدثنا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ قال حدثنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن مَسْرُوقٍ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو أَنَّ النبي (ص) قال أَرْبَعٌ من كُنَّ فيه كان مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كانت فيه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كانت فيه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتى يَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ وإذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا عَاهَدَ غَدَرَ وإذا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ.
پيغمبر (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ منافق کی تین علامت ہیں جب بولے گا تو جھوٹ ، اور جب وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کریگا اور جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا !
رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہے کہ چار علامت ایسی ہیں کہ جس میں بھی یہ ہونگیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں صرف ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو وہ علامت نفاق شمار ہوئی مگر اس خصلت کو ترک کردے ۔ [وہ چار خصلت یہ ہیں ] جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا جب بولے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرےگا وعدہ خلافی کرے گا اور جب دشمنی کرے گا تو فسق و فجور کرے گا!
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 21، ح 33 و 34، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
پس کتب اہل سنت کی روایات صحیح السند کے مطابق خلیفہ دوم ان خصلتوں کے مالک تھے ۔اس بناء پر ہم سوال کرینگے کہ کیا منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کا ہم پلہ ہو سکتا ہے ؟ اور اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے مطابق عمر ام کلثوم کے کفو نہیں ہیں اور ان سے شادی نہیں کر سکتے ہیں۔
شراب خواري خليفه، کفو نہ ہونے کی دلیل :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق شرابی کو بیٹی دینا جائز نہیں ہے اور شرابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کام کیا ہو اس نے قطع رحمی کی ہے ۔
پہلے گزر گیا ہے کہ ابوطالب نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی ہے اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
عبد الرزاق صنعانى جو بخارى کے استاد شمار ہوتے ہیں ، نے المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن مسهر عن الشيباني عن حسان بن مخارق قال بلغني أن عمر بن الخطاب ساير رجلا في سفر وكان صائما فلما أفطر أهوى إلى قربة لعمر معلقة فيها نبيذ قد خضخضها البعير فشرب منها فسكر فضربه عمر الحد فقال له إنما شربت من قربتك فقال له عمر إنما جلدناك لسكرك.
عمر بن خطاب ایک روزہ دار شخص کے ہمراہ سفر پر تھے جب اس نے افطار کیا تو عمر کے مشکیزہ سے جس میں شراب تھی اور اونٹ نے اسے خوب ہلایا تھا ، اس سے پیا اور مست ہو گیا تب عمر نے اسے حد اور سزا دی تو اس روزہ دار نے کہا میں نے تو تمہارے ہی مشکیزہ سے پیا تھا تو عمر نے کہا میں نے تمہیں مست ہونے پر سزا دی ہے !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 502، ح28401، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
ابن عبد ربه نے عقد الفريد میں لکھا ہے :
وقال الشعبي شرب أعرابي من إداوة عمر فانتشى فحده عمر وإنما حده للسكر لا للشراب.
شعبى نے کہا ایک بدو نے عمر کی مشک سے پیا اور مست ہو گیا عمر نے اسے حد لگائی اور یہ مست ہونے کی وجہ سے تھی پینے کی وجہ سے نہیں تھی ۔!
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 382، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ عمر اگر شرابی نہیں تھے تو انکی مشک میں شراب کیا کر رہی تھی ؟ شاید اس حد کی وجہ عمر کی مشک کو خالی کرنے کی وجہ سے ہو ؟ [اس میں بہت سے اھم نکات ہیں جو اہل فہم پر مخفی نہیں ہیں ] جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہم نے تمام روایات کو اہل سنت کی کتب سے نا کہ شیعہ کتب سے نقل کیا ہے اب اہل سنت کے نام نہاد علماء پر لازم ہے کہ ان تمام کا شافی اور قانع کنندہ جواب دیں۔
بدعت گزار ، عفيفه لڑکی ، کا كفو نہیں ہے :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،دین میں بدعت*گزار ، مسلمان عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اور اس سے شادی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔
أبو طالب مكى نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
دوسری طرف خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کا احوال اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے
محمد بن اسماعيل بخارى نے صحيح میں لکھا ہے :
وَعَنْ بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عبد الرحمن بن عَبْدٍ القارىء أَنَّهُ قال خَرَجْتُ مع عُمَرَ بن الْخَطَّابِ رضي الله عنه لَيْلَةً في رَمَضَانَ إلى الْمَسْجِدِ فإذا الناس أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فقال عُمَرُ إني أَرَى لو جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ على قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ على أُبَيِّ بن كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ معه لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قال عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هذه وَالَّتِي يَنَامُونَ عنها أَفْضَلُ من التي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكان الناس يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبد الرحمن بن عبد*القارى سے روايت عمر رمضان کی ایک رات مسجد میں وارد ہوئے، وہاں لوگوں کو الگ الگ سنت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا
عمر نےکہا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا پھر اس کا عزم کر کے ان کو ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔ پھر دوسری رات عمر نے دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کیساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ، تو عمر نے کہاکہ یہ اچھی بدعت ہے!
یہ اس بات سے افضل ہے کہ لوگ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر عبادت کریں رات پہلے ہی پہر میں وہ عبادت کر لیں !
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 707، ح1906، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَاب فَضْلِ من قام رَمَضَانَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کی فہرست بہت طولانی ہے مزید اطلاع کے لئے کتابhttp://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=132'> النص والإجتهاد کی طرف رجوع کیا جائے مرحوم شرف الدین نے بہت خوبصورت اندازمیں ان مطالب کو بیان کیا ہے ۔
نتيجه:
بیان شدہ مطالب کے مطابق ، خلیفہ دوم کسی بھی صورت میں ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ علی علیہ السلام ان شرائط کو نظر انداز کر دیں اور اپنی بیٹی ایسے شخص سے بیاہ دیں جو کسی بھی صورت میں انکے ہم پلہ نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض محال کر لیا جائے یہ شادی امام علی علیہ السلام نے[ام کلثوم بنت ابوبکر کی یا خود ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ] کروائی تھی تب بھی مخالفین کا مدعی ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی داستان کی طرح ہے جب انھوں نے لوطی گناہگاروں کو پیش کش کی میری [قوم ] کی بیٹیوں سے شادی کر لو اور یہ پیش کش کرنا، ثابت نہیں کرتا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور لوطی جماعت کے تعلقات بہت اچھے تھے ؟۔
آٹھواں زاویہ : شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر
شيعه کتب میں بھی اس باب میں روایات موجود ہیں لیکن جب ایک ایک روایت کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت نہ تنہا امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب کے اچھے تعلقات کو بیان نہیں کرتی ہیں بلکہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ شادی جبر اور زور گوئی پر ہوئی۔[یاد رہے اس زاویہ کو مطالعہ کرتے ہوئے پہلے زاویہ کو مد نظر ضرور رکھیں ]
مرحوم كلينى رضوان الله تعالى عليه نے كتاب كافى میں ان روایات کو نقل کیا ہے :
1. مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ لَمَّا خَطَبَ إِلَيْهِ قَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إنها صَبِيَّةٌ قَالَ فَلَقِيَ الْعَبَّاسَ فَقَالَ لَهُ مَا لِي أَ بِي بَأْسٌ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ خَطَبْتُ إِلَى ابْنِ أَخِيكَ فَرَدَّنِي أَمَا وَاللَّهِ لَأُعَوِّرَنَّ زَمْزَمَ وَلَا أَدَعُ لَكُمْ مَكْرُمَةً إِلَّا هَدَمْتُهَا وَلَأُقِيمَنَّ عَلَيْهِ شَاهِدَيْنِ بِأَنَّهُ سَرَقَ وَلَأَقْطَعَنَّ يَمِينَهُ فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ فَأَخْبَرَهُ وَسَأَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهِ فَجَعَلَهُ إِلَيْهِ.
هشام بن سالم نے امام صادق عليه السلام سےنقل کیا ہے کہ : جب عمر نے ام کلثوم کی خواستگاری کی تو امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا وہ بہت چھوٹی ہیں امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا :عمر عباس سے ملے اور ان سے عمر نے کہا: مجھ میں کیا برائی ہے ؟. عباس نے کہا :کیوں کیا بات ہوگئی ہے ؟. عمر نے کہا :میں نے تمہارے بھتیجے سے خواستگاری کی لیکن انھوں نے مجھے رد کردیا ۔ خبردار میں آب زمزم کے چشمہ کو بھر کر بند کردونگا اور تم بنی ہاشم کے لئے کوئی بھی فضیلت باقی نہیں چھوڑونگا اور اسے ختم کرکے رہوں گا اور علی [ع] کے خلاف دو گواہوں کو تیار کرونگا جو انکے چور ہونے پر گواہی دینگے اور انکے ہاتھ کو کاٹ دونگا تب عباس، علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انھیں عمر کی زور گوئی کی خبر دی اور عباس نے علی [ع] سے چاہا کہ معاملہ انکے حوالے کردیں پس علی علیہ السلام نے معاملہ انکے حوالے کردیا ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
2.. حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ سَمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلْ حَيْثُ شَاءَتْ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِه.
عبد الله بن سنان اور معاويہ بن عمار کہتے ہیں :* امام صادق عليه السلام سے ایسی عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو سوال کیا کہ وہ وہ اپنے گھر میں عدّت گزارے گی یا جہاں بھی اس کی مرضی ہو فرمایا : اس کی مرضی ہے اس لئے کہ علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو عمر کے قتل کے بعد اپنے گھر لے آئے تھے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
3. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) عَنِ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا أَيْنَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا تَعْتَدُّ أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلَى حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا مَاتَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِهِ.
سليمان بن خالد کہتے ہیں : امام صادق عليه السلام سے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو ، سوال کیا وہ عدت اپنے شوہر کے گھر میں گزارے گی یا جہاں بھی چاہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا : جہاں چاہے ۔پھر فرمایا ہے :جب عمر مر گئے تو علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو اپنے گھر کے کر آگئے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
4. عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَ حَمَّادٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) فِي تَزْوِيجِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ فَرْجٌ غُصِبْنَاه.
امام صادق عليه السلام سے ازدواج امّ*كلثوم کے بارے میں سوال کیا گیا امام علیہ السلام نے فرمایا وہ ایک ناموس ہے جو ہم سے غصب کی گئی [ یہ ایک معنی کی بناء پر لیکن دوسرا معنی کی بناء پر خود شادی مشکوک ہوحاتی ہے یعنی وہ ایک عورت ہے جس کے بہانہ سے ہم پر دباو ڈالا گیا۔
قابل غور بات یہ ہے امام علیہ السلام بلیغ اور فصیح ہوتے ہوئے یہ "ذلك فرج غصب منا" نہیں فرما رہے ہیں کہ بلکہ خود کو مغصوب قرار دے رہے ہیں اور فرماتے ہیں " غصبناه، يا غصبنا عليه" جو دیگر منابع شیعہ و سنی ]بنقل ازشیعہ] میں آیا ہے اور معنی غصبنا یہ ہے کہ ہم مغصوب ہوئے ناکہ وہ ناموس ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
اولاً: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان روایات سے یہ اخذ نہیں ہوتا ہے کہ جس ام کلثوم کی طرف ان روایات اور دیگر روایات شیعہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ہے جو امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقی بیٹی ہیں بلکہ تین احتمال پائے جاتے ہیں۔
ثانياً: اهل سنت ان روایات سے استدلال نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے شادی ہوئی تھی تو تب بھی امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب میں اچھے تعلقات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ زیادہ زیادہ ان روایات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر ہوئی ہے اور ام کلثوم صغیر ہونے کے ساتھ نہ خود راضی تھیں نہ انکے والد ۔
کیا ایسی شادی عمر بن خطاب کے لئے مایہ فضیلت بن سکتی ہے ؟ اور کیا یہ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور خلیفہ دوم میں اچھے مراسم تھے ؟
سيد مرتضى علم الهدى اس کے بارے میں کہتے ہیں :
فأما انكاحه عليه السلام إياها، فقد ذكرنا في كتابنا الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه عليه السلام ما أجاب عمر إلى انكاح بنته إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة بعد كلام طويل مأثور....
والذي يجب أن يعتمد في نكاح أم كلثوم، أن هذا النكاح لم يكن عن اختيار ولا إيثار، ولكن بعد مراجعة ومدافعة كادت تفضي إلى المخارجة والمجاهرة....
وقد تبيح الضرورة أكل الميتة وشرب الخمر، فما العجب مما هو دونها؟
ام کلثوم کی عمر بن خطاب سے شادی کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں تفصیل سے دیا ہے اور وہاں بیان کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے عمر سے شادی قبول نہیں کی مگر جب جبر سےکام لیا گیا اور دھمکایا گیا اور مسلسل اصرار اور تنازع کے بعد جو کہ روایات میں مذکور ہے ۔۔۔ وہ چیز جو اس شادی میں مد نظر رکھنا چاِہئے وہ یہ ہے کہ یہ شادی اختیار اور میل باطنی سے نہیں ہوئی لیکن جب مسلسل اصرار اور زور گوئی کی گئی کہ نزدیک تھا ایک آشکار لڑائی شروع ہوجاتی ۔۔۔ اور ضرورت مردار اور شراب کو بھی حلال کردیتی ہے چہ جائے جب اس سے چھوٹی بات ہو ۔
[نوٹ پہلے زاویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے ساتھ ان روایات کی نفی کرتے ہوئے جو فحش اور اہل بیت کی تذلیل پر دلالت کرتی ہیں [روایات ساق اہل سنت۔ مترجم ]
المرتضي علم الهدي، أبو القاسم علي بن الحسين بن موسى بن محمد بن موسى بن إبراهيم بن الإمام موسى الكاظم عليه السلام (متوفاي436هـ)، رسائل المرتضى، ج 3 ص 149،تحقيق: تقديم: السيد أحمد الحسيني / إعداد: السيد مهدي الرجائي، ناشر: دار القرآن الكريم قم، 1405هـ.
ضرورت کے وقت کافر سے بھی شادی جائز ہوجاتی ہے :
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه" سید مرتضی "کے استاد اس بحث میں کہتے ہیں :
ثم إنه لو صح لكان له وجهان لا ينافيان مذهب الشيعة في ضلال المتقدمين على أمير المؤمنين عليه السلام: أحدهما: أن النكاح إنما هو على ظاهر الإسلام الذي هو: الشهادتان، والصلاة إلى الكعبة، والاقرار بجملة الشريعة. وإن كان الأفضل مناكحة من يعتقد الإيمان، وترك مناكحة من ضم إلى ظاهر الإسلام ضلالا لا يخرجه عن الإسلام، إلا أن الضرورة متى قادت إلى مناكحة الضال مع إظهاره كلمة الإسلام زالت الكراهة من ذلك، وساغ ما لم يكن بمستحب مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان محتاجا إلى التأليف وحقن الدماء، ورأي أنه إن بلغ مبلغ عمر عما رغب فيه من مناكحته ابنته أثر ذلك الفساد في الدين والدنيا، وأنه إن أجاب إليه أعقب صلاحا في الأمرين، فأجابه إلى ملتمسه لما ذكرناه.
والوجه الآخر: أن مناكحة الضال - كجحد الإمامة، وادعائها لمن لا يستحقها - حرام، إلا أن يخاف الإنسان على دينه ودمه، فيجوز له ذلك، كما يجوز له إظهار كلمة الكفر المضاد لكلمة الإيمان، وكما يحل له أكل الميتة والدم ولحم الخنزير عند الضرورات، وإن كان ذلك محرما مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان مضطرا إلى مناكحة الرجل لأنه يهدده ويواعده، فلم يأمنه أمير المؤمنين عليه السلام على نفسه وشيعته، فأجابه إلى ذلك ضرورة كما قلنا إن الضرورة تشرع إظهار كلمة الكفر، قال تعالى: (إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ).
اگر اس شادی کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی دو توجیہ ہو سکتی ہے اور یہ دو توجیہ امام علی علیہ السلام پر سبقت لینے والوں کی گمراہی کے شیعہ نظریہ کےمخالف نہیں ہے ۔
1. پہلی توجیہ :شرط ازدواج کہ نکاح ظاہر اسلام پر ہوتا ہے۔ جو شہادتین ، کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ، اجمالی طور پر شریعت کو قبول کرنے ، سے تعبیر ہے اگرچہ افضل ہے کہ شادی صاحب ایمان سے ہو ۔اسی طرح افضل ہے کہ ایسے افراد سے رشتہ داری نہ کی جائے جو اپنی ضلالت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوتے ہوں مگر جب ضرورت ہو کہ ایسے گمراہ شخص سے شادی کی جائے تو اس کے اظہار اسلام کی بناء پر وہ کراہیت بھی بر طرف ہوجائے گی اور جو کام اختیاری حالت میں مستحب نہ تھا وہ زمانہ اضطرار میں جائز ہوجاتا ہے ۔ اور امیر المومنین علیہ السلام کو ضروت تھی بہت سی جانوں کو قتل اور بگاڑ سے بچائیں اور امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ عمر کی زور گوئی کے بعد بھی انکار دین اور دنیا میں فساد پرپا ہونے کا باعث بنے گا اور امام علیہ السلام نے دین و دنیا کے فساد سے بچتے ہوئے عمر کی بات کو قبول کیا ۔
2. دوسری توجیہ : اگر ہم قائل ہوں کہ گمراہ شخص سے شادی مثلا امامت منکر شخص یا وہ شخص جوایسے کی امامت کا قائل جو امامت کا حقدار نہیں ہے ، حرام ہے مگر جب انسان کو اپنے دین اور جان پر خوف ہو تو ایسی شادی جائز ہوجائے گی جس طرح ایسے مجبور شخص کے لئے ایسا کفریہ بات کہنا بھی جائز ہوجائے گی جو کلمہ ایمان کے منافی ہو ، اور یہ اسی طرح جب مردار ، خون ، خنزیر کھانا ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔اگرچہ اختیاری حالت میں یہ سب حرام ہے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اس وقت ام کلثوم کی شادی پر مضطر تھے اس لئے عمر نے امام علی علیہ السلام کو تہدید کی تھی پس امام علی علیہ السلام اپنے اور اپنے چاہنے والوں کی جان پر خوف محسوس کر رہے تھے اور ضرورت کے تحت اس امر پر ناچار ہوئے جیسا ہم نے پہلے کہا شریعت ضرورت اور اضطرار میں کلمہ کفر کو بھی زبان پر جاری کرنے کی اجازت دیتی ہے جیسا فرمان خداوندی ہے :،(إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ۔{ مگر جسے مجبور کیا جائے جبکہ اسکا دل ایمان سے مطمئن اور سرشار ہو ، }۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 92 ـ 93، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.
عمر ، عاتكه کے ساتھ زبردستی شادی کرتے ہیں :
ام کلثوم کے ساتھ عمر کی پہلی جبری شادی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ اتفاق ہو چکا ہے, اس سے پہلے عاتکہ بنت زید سے زبردستی شادی کر چکے ہیں ۔
محمد بن سعد الطبقات الكبرى میں لکھتے ہیں:
أَنَّ عَاتِكَةَ بِنْتَ زَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ اللَّهِ بنِ أَبي بَكْرٍ، فَمَاتَ عَنْهَا وَاشْتَرَطَ عَلَيْهَا أَلاَّ تَزَوَّجَ بَعْدَهُ، فَتَبَتَّلَتْ وَجَعَلَتْ لاَ تَزَوَّجُ، وَجَعَلَ الرجَالُ يَخْطِبُونَهَا وَجَعَلَتْ تَأْبَى، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِوَلِيهَا: اذْكُرْنِي لَهَا، فَذَكَرَهُ لَهَا فَأَبَتْ عَلى عُمَرَ أَيْضَاً، فَقَالَ عُمَرُ: زَوجْنِيهَا: فَزَوَّجَهُ إِيَّاهَا، فَأَتَاهَا عُمَرُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَعَارَكَهَا حَتَّى غَلَبَهَا عَلى نَفْسِهَا فَنَكَحَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: أُفَ أُفَ أُفَ، أَفَّفَ بها ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَتَرَكَهَا لاَ يَأْتِيهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَوْلاَةً لَهَا أَنْ تَعَالَ فَإِني سَأَتَهِيَّأُ لَكَ.
علي بن زيد کہتے ہیں: عاتكه بنت زيد، عبد الله بن ابوبكر کی بیوی تھیں اور عبد الله انکے ساتھ یہ شرط رکھی تھی میرے مرنے کے بعد کسی سے بھی شادی نہ کرنا " عاتکہ عبد اللہ کے بعد اس کی شرط پر باقی تھی شادی نہ کرنے کا ا راداہ رکھتی تھیں لوگ اس سے خواستگاری کرتے لیکن وہ ان کو رد کردیتی پس عمر نے انکے ولی سے کہا میرے لئے بھی خواستگاری کا ذکر کرو لیکن عمر کو بھی رد کر دیا لیکن عمر نے کہا : اس کی مجھ سے شادی کر دو پس اس نے شادی کر دی عمر اسکے پاس آئے اور دونوں میں اصرار اور انکار کی لڑائی ہوئی لیکن عمر نے اس پر غالب ہوکر اس سے وطی کرلی جب مجامعت سے فارغ ہوئے تو کہا اف اف اف اور اسے ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور اسے چھوڑنے کے بعد دوبارہ رجوع نہیں کیا پس عاتکہ نے اپنی کنیز کے ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ : میرے پاس آئیں میں تیار ہوں۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت.
خاندان اهل بيت عليهم السلام کے ساتھ جبری شادیاں :
حجاج بن يوسف کی عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی سے زبردستی شادی:
نظریہ اهل سنت کے مطابق ، حضرت زينب سلام الله عليها کی عبد الله بن جعفر سے ایک بیٹی تھی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے جبری شادی کی تھی ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں :
وتزوجت زينب بنت علي من فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عبد الله بن جعفر بن أبي طالب؛ فولدت له ابنة تزوجها الحجاج بن يوسف.
زينب بنت علي و بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) نے عبد الله بن جعفر بن ابى طالب سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے شادی کی !
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ - 2003م.
ابن أبى طيفور نے بلاغات النساء میں، الآبى نے نثر الدرر میں، زمخشرى نے ربيع الأبرار میں، اور دیگر علماء اہل سنت نے لکھا ہے :
لما زفت ابنة عبد الله بن جعفر " وكانت هاشمية جليلة " إلى الحجاج بن يوسف ونظر إليها في تلك الليلة وعبرتها تجول في خديها فقال لها بأبي أنت وأمي مما تبكين قالت من شرف اتضع ومن ضعة شرفت.
عبد الله بن جعفر کی بیٹی کو زفاف کے لئے حجاج بن یوسف کے پاس لےجایا گیا تو وہ لڑکی بہت اشکبار تھی حجاج نے سوال کیا میرے ماں پاپ قربان کیوں رو رہی ہو؟ کہا اس شرافت و فضیلت پر جو میرے ہاتھ سے جاری ہے اور اس پستی پر جو فضیلت میں بدل رہی ہے ۔
ابن طيفور، أبو الفضل أحمد بن أبي طاهر (متوفاي280هـ)، بلاغات النساء، ج 1، ص 51؛
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 39، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 92؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 2، ص 48، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.
کیا حجاج بن یوسف نے جو ظلم و ستم خاندان اہل بیت علیہم السلام اور بنی ہاشم کے ساتھ کئے ہیں اس شادی کی وجہ سے ان سب کا انکار کیا جائے گا؟ اور یہ ثابت کیا جائے گا کہ حجاج کے بنی ہاشم اور خاندان نبوت سے بہت اچھے مراسم تھے ؟!
مصعب بن زبيرکی سكينه بنت الحسين عليهما السلام کے ساتھ زبردستی شادی ۔
اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق سکینہ بنت حسین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد زندہ رہیں اور کئی شادیاں کی ۔
اہل سنت کے عالم سبط ابن جوزى حنفی نے تذكرة الخواص میں امام حسين عليه السلام کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
وأما سكينة: فتزوجها مصعب بن الزبير فهلك عنها... وأول من تزوجها مصعب بن الزبير قهراً....
معصب بن زبير نے سکینہ کے ساتھ شادی کی ۔۔۔۔۔ اور مصعب نے ان سے جبری اور زبردستی شادی کی تھی ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص249 ـ 250، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
روايت "جن " کتب اہل سنت میں :
ہم نے گذشتہ بحث میں روایات صحیح السند اہل سنت سے ثابت کیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام خلیفہ دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب ، خيانتكار، گناهكار و پيمان شكن جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت کیا کہ انکا تلخ مزاج اور بد اخلاقی ذاتی جھگڑالو پن ۔ شراب خوری ، بدعت گزاری اور دیگر امور اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئے ہیں
اسی طرح خليفه دوم کا فاطمه زهرا سلام الله عليها سے رویہ اور انکی شہادت میں انکار کردار کتب اہل سنت میں مستند اور معتبر طریق سے ثابت ہے
اس بناء پر اگر شادی عمر کی زور گوئی اور جبر سے بھی ہوئی ہو تو امکان نہیں رکھتا ہے کہ علی علیہ السلام عمر کو ناموس رسالت تک رسائی دیں ۔
اهل سنت زليخا اور عزيز مصر اسی طرح آسيه اور فرعون کے بارے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ چونکہ آسیہ کا مقام جنت میں اور رسول خدا [صلی اللہ علیہ و الہ] کی جنت میں بیوی بننے والی ہیں اس بناء پر فرعون آسیہ سے نزدیکی نہ کر پائے تو جب بھی فرعون آسیہ سے نزدیکی کرنا چاہتا تھا ،اللہ آسیہ کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا ۔
اسی طرح زلیخا کہ جو بعد میں یوسف علیہ السلام کی بیوی بننے والی تھی جب بھی عزیز مصر اس سے خلوت کرنا چاہتا تھا خداوند اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا :
عبد الرحمن صفورى نے نزهة المجالس میں لکھا ہے :
قيل كانت زليخا من بنات الملوك وكان بينها وبين مصر نصف شهر فرأت في منامها يوسف فتعلق حبه بقلبها فتغير لونها فسألها أبوها عن ذلك فقالت رأيت صورة في منامي لم أرى أحسن منها فقال أبوها لو عرفت مكانه لطلبته لك ثم رأته في العام الثاني فقالت له بحق الذي صورك من أنت قال أنا لك فلا تختاري غيري فاستيقظت وقد تغير عقلها فقيدها أبوها بالحديد ثم رأته في العام الثالث فقالت بحق الذي صورك أين أنت قال بمصر فاستيقظت وقد صح عقلها فأخبرت أباها بذلك ففك القيد منها وأرسل إلى ملك مصر أن لي بنتا قد خطها الملوك وهي راغبة إليك فكتب إليه قد أردناها فجهزها أبوها بألف جارية وألف عبد وألف بعير وألف بغلة فلما دخلت مصر وتزوجها الملك بكت بكاء شديدا وسترت وجهها وقالت للخادم ليس هو الذي رأيته في المنام فقالت الجارية اصبري فلما رآها الملك افتتن بها وكان إذا أراد النوم معها مثل الله له جنية في صورتها وحفظها ليوسف فلما اجتمع بها وجدها بكرا كما حفظ آسية بنت مزاحم رضي الله عنها من فرعون لأنها من زوجات النبي صلى الله عليه وسلم في الجنة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پادشاه نے زليخا کو دیکھا ، تو اسکا عاشق ہوگیا اور جب بھی بادشاہ اسکے ساتھ سونے کا ارادہ کرتا، اللہ اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا اور اسے یوسف علیہ السلام کے لئے بچاکر رکھتا جب یوسف علیہ السلام نے اس سے شادی کی تو وہ باکرہ نکلیں اسی طرح آسیہ بن مزاحم کو فرعون سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ جنت میں زوجات رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں سے ہونگی ۔
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي 894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 262، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر:دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
اور اہل سنت کے مطابق ہر وہ واقعات جو گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں وہ اس امت میں بھی ہونگے اس بناء پر اس احتمال کی بناء پر اللہ نے خلیفہ دوم کے پاس ام کلثوم کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجا ہو جس طرح آسیہ اور زلیخا کی جگہ جنیہ بھیجتا رہا ہے !!!
اس شادی کے متعلق بہت سی روایات اہل سنت آئی ہیں جو سندی مشکلات رکھتی ہیں اور دوسری جانب ان میں ایسا تعارض اور تناقض موجود ہے کہ جس میں جمع ممکن نہیں ہے ۔
حضرت آيت الله ميلانى نے كتاب" تزويج امّ*كلثوم من عمر"، ان تمام روایات کی تحقیق پیش کی ہے اور کیونکہ ہمارا ھدف اختصار سے کام لینا ہےفقط اھم ترین روایات اہل سنت کو نقل اور انکی تحقیق پیش کرینگے ۔
بخارى لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَاب [ زهري ]، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِك إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاء مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي عِنْدَكَ. يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُوم بِنْتَ عَلِيّ. فَقَالَ عُمَرُ أُمُّ سَلِيط أَحَقُّ. وَأُمُّ سَلِيط مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ عُمَرُ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُد. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ تَزْفِرُ تَخِيطُ.
ثعلبة بن مالك کہتے ہیں : عمر، مدينه کی عورتوں میں چادریں تقسيم کی، اور ایک اچھی چادر باقی بچ گئی تو عمر کے پاس موجود بعض افراد نے کہا یہ بنت رسول [ص] کو دودو جو تمہارے پاس ہے ان لوگوں کی مراد ام کلثوم بنت علی [ع] تھی تب عمر نے کہا ام سلیط اس کی زیادہ حقدار ہے اور ام سلیط انصار میں سے تھی کیونکہ وہ احد کےدن پھٹی ہوئی مشک کو سیا کرتی تھی ۔۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1056، ح2725، كتاب الجهاد والسير، ب 66، باب حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
اولا: اس سند میں یونس بن یزید ایلی موجود ہے جو اہل سنت بزرگ علماء کے نظریہ کے مطابق جس میں خود بخاری بھی شامل ہے ، شھاب زھری کی روایات میں کثیر خطا کا مرتکب ہوا ہے اور زھری سے منکر روایات نقل کرتا ہے ۔
مزى نے تهذيب الكمال اسکے احوال میں لکھا ہے :
وقال محمد بن عوف، عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الايلي وكان سيئ الحفظ.
قال أبو عَبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزُّهْرِيّ، وعقيل أقل خطأ منه.
وقال أبو زُرْعَة الدمشقي: سمعت أبا عَبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزُّهْرِيّ.
وَقَال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزُّهْرِيّ؟ قال: معمر. قيل له: فيونس؟ قال: روى أحاديث منكرة.
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث، كثيره، وليس بحجة، ربما جاء بالشئ المنكر.
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا !
ابوعبد الله (ظاهرا احمد بن حنبل) نے کہا یونس زھر سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
ابوزرعه دمشقى کہتے ہیں ابوعبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا ہے : یونس کی زھری سے روایات منکرات رکھتی ہیں
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات [ نا قابل قبول ] روایات نقل کرتا ہے !
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے !
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 32، ص 554، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م
اور ابن حجر عسقلانى نےاس کے ترجمہ میں لکھا ہے :
يونس بن يزيد بن أبي النجاد الأيلي بفتح الهمزة وسكون التحتانية بعدها لام أبو يزيد مولى آل أبي سفيان ثقة إلا أن في روايته عن الزهري وهما قليلا وفي غير الزهري خطأ.
يونس بن يزيد، ؛ ۔۔ آل ابو سفیان کا غلام ثقه ہے زھری سے اسکی روایات میں وھم قلیل پایا جاتا ہے اور غیر زھری کی روایات میں خطا پائی جاتی ہے ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1، ص 7912، رقم: 7919، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.علي بن عابس.
ثانياً: اس روايت کی سند میں محمد بن مسلم زهرى ہے جو دشمنان اہل بیت علیہم السلام ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو بنی امیہ کے بارے میں جھوٹی روایات گھڑتی ہیں اسی طرح زھری كثير الإندراج تھا یعنی روایات میں اپنی باتیں شامل کرنے والا ۔
زهري، بني اميه کے مفاد میں روایات گھڑتا ہے :
زهرى ان افراد پلید میں سے تھا جو دربار بنی امیہ میں جعلی روایات و احادیث بناتے تھے جیسا کہ ابن عساکر عالم اہل سنت نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے :
نا جعفر بن إبراهيم الجعفري قال كنت عند الزهري أسمع منه فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت يا جعفري لا تكتب عنه فإنه مال إلى بني أمية وأخذ جوائزهم فقلت من هذه قال أختي رقية خرفت قالت خرفت أنت كتمت فضائل آل محمد.
جعفر بن ابراهيم جعفر ی کہتے ہیں میں زھری سے حدیث سننے میں مشغول تھا اتنے میں ایک بوڑھی عورت آکر کہتی ہے اس سے کوئی روایت نقل مت کرو کیوں کہ یہ بنی امیہ کی طرف مائل ہے اور ان سے تحائف اور انعام لیتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کون ہے ؟ زھری نے کہا یہ میری بہن رقیہ ہے اس کا دماغ چل گیا ہے ۔
زھری کی بہن نے جواب دیا: بلکہ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورتو آل محمد] صلی اللہ علیہ و آلہ [کے فضائل کو چھپاتا ہے !۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 228، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
ابن حجر نے ترجمه اعمش میں لکھا ہے :
وحكى الحاكم عن ابن معين أنه قال أجود الأسانيد الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له انسان الأعمش مثل الزهري فقال برئت من الأعمش أن يكون مثل الزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن.
حاكم ( نيشابوري) نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو اور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 4، ص 196، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.
اور اسی طرح ذهبى نےسير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان رحمه الله محتشما جليلا بزي الأجناد له صورة كبيرة في دولة بني أمية.
زهرى، بہت مال و ثروت کا مالک تھا اور اسکا بنی امیہ کی حکومت میں بڑا کردار اور نام تھا۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 337، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
اور ابن عساكر لکھتے ہیں :
عن عمر بن رديح قال كنت مع ابن شهاب الزهري نمشي فرآني عمرو بن عبيد فلقيني بعد فقال ما لك ولمنديل الأمراء يعني ابن شهاب
عمر بن رديح سے روایت ہوئی ہے ایک دن زھری کے ساتھ چل رہے تھے تو مجھے عمرو بن عیبد نے دیکھ لیا بعد میں مجھ سے ملاقات کر کے کہا تمہارا کیا واسطہ حکمرانوں کے رومال سے ؟ یعنی زھری حکمرانوں کے چمچہ سے تمہارا تعلق کیوں ہے ۔؟
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 55، ص 370، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
دوسری جانب اهل سنت کے علماء ؛ جس میں مزى و ذهبى شامل ہیں وہ امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
هشام بن عباد، قال: سمعت جعفر بن محمد، يقول: الفقهاء أمناء الرسل، فإذا رأيتم الفقهاء قد ركنوا إلى السلاطين فاتهموهم.
هشام بن عباد کہتے ہیں : جعفر بن محمد (عليه السلام) سے سنا ہے کہ فقہاء رسولوں کے امانت دار ہیں پس جب تم فقہیا کو دیکھے کہ انھوں نے حکمرانوں پر تکیہ کیا ہوا ہے تو ایسے فقہاء سے بد ظن ہوجاو۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص 262، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
پس جو شخص اہل بیت علیہم السلام کا خصوصا امام علی علیہ السلام کا دشمن ہو اسکی امام علیہ السلام کے خلاف روایات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے ؟
زهري، كثير الإدراج ہے:
ثالثاً: چونکہ زھری کثیر الندراج ہے اس کے اندرجات اور اضافات خود اہل سنت کا ہان بھی معتبر نہیں ہے یعنی ان افراد میں سے ہے جو اپنی طرف سے احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں اضافہ کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام میں اپنے کلام کی ملاوٹ کرتا ہے ۔اور ظاہر ہوتا ہے کہ يُرِيدُونَ امّ*كلثوم بِنْتَ علي کا جملہ خود زھری کا اضافہ ہے کہ جو اصل روایت میں نہیں ہے ۔
حسن بن سقاف عالم اهل سنت "كتاب تناقضات البانى" میں لکھتے ہیں :
ثم إن الزهري كان يدرج ألفاظا في الأحاديث النبوية هي من فهمه أو تفسيره نبه على ذلك بعض الأئمة كالبخاري وربيعة شيخ الامام مالك... وكم في الفتح وغيره من جمل وكلمات وعبارات نبه عليها الحفاظ أنها من مدرجات وزيادات الزهري والله الهادي.
زهرى، الفاظ کو احادیث نبوی میں اضافہ کرتا تھا جبکہ وہ خود اسکی سوچ اور تفسیر ہوتی تھی جیسا کہ بعض ائمہ، بخاری ، ربیعہ شیخ امام مالک ۔۔۔ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور کتنے کی جملات اور الفاظ ایسے ہیں جس کی طرف حفاظ نے توجہ دلائی ہے کتاب فتح الباری اور دوسری کتب میں بیان کیا ہے کہ وہ سب زھری کا اضافہ ہے ۔
السقاف، حسن بن علي بن هاشم بن أحمد بن علوي (معاصر)، تناقضات الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات، ج 3، ص 336، ناشر: دار الامام النووي، عمان – الأردن، الطبعة: الرابعة، 1412هـ ـ 1992 م. ابن حجر نے فتح البارى میں متعدد مقامات پر صحیح بخاری کی اندر" مدرجات زهرى" ، قرار دیا ہے جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :
1. تنبيه ) قوله وبعض العوالي الخ مدرج من كلام الزهري في حديث أنس بينه عبد الرزاق عن معمر عن الزهري... فقال هو إما كلام البخاري أو أنس أو الزهري كما هو عادته.
اور عبارت وبعض العوالي.. ادراجات زهرى ہے ... یہ مطلب کلام بخاری ہے یا انس یا پھر زھری ہے کہ جس کی عادت ہی یہی ہے۔ !
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 2، ص 29، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
2. قال الخطابي هذه الزيادة يشبه أن تكون من كلام الزهري وكانت عادته أن يصل بالحديث من كلامه ما يظهر له من معنى الشرح والبيان.
ظاهرا یہ ہے یہ کلام کا حصہ، زھری کا اضافہ ہے اور اسکی عادت ہی یہی تھی کہ حدیث سے ایسے معنی کا اضافہ کر دیتا ہے جو معنی شرح اور بیان سےاسے سمجھ آرہا ہو ۔
ج 5، ص 38
3. قوله وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها هو كلام الزهري.
عبارت وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها یہ اضافہ زھری کی طرف سے ہے !
ج 5، ص 352.
4. ( قوله فهما على ذلك إلى اليوم ) هو كلام الزهري أي حين حدث بذلك.
عبارت فهما علي ذلك الى اليوم یہ زھری کا کلام ہے ، يعنى جب روایت بیان کر رہا تھا!
ج 6، ص 204.
5. ( قوله وهي العوامر ) هو كلام الزهري أدرج في الخبر
عبارت وهى العوامر یہ مدرجات كلام زهرى یے جس کو اس نے روایت کے اندر داخل کردیا ہے !
ج6، ص204.
اور اسی طرح بہت سے موارد جس میں : ج 6، ص 174 و ج 6، ص 249 و ج 7، ص 186 و ج 8، ص 87 و ج 9، ص 404 و ج 10، ص 78 و ج 10، ص 141 و ج 11، ص 507 و ج 12، ص 362 و... شامل ہیں
اسی طرح ایک اور عالم اہل سنت نووی نے جہر و اخفات سے متعلق دو روایت نبوی میں لکھا ہے :
( الشرح ) * هذان الحديثان رواهما أبو داود والترمذي وغيرهما وقال الترمذي هما حديثان حسنان وصحح البيهقي الحديث الأول وضعف الثاني حديث أبي هريرة وقال تفرد به عن أبي هريرة ابن أكيمة، بضم الهمزة وفتح الكاف، وهو مجهول قال وقوله فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه هو من كلام الزهري وهو الراوي عن ابن أكيمة قاله محمد بن يحيى الذهلي والبخاري وأبو داود واستدلوا برواية الأوزاعي حين ميزه من الحديث وجعله من قول الزهري.
ان دو حديث کو ابوداوود، ترمذى اور ديگران نے نقل کیا ہے . ترمذى نے کہا ہے یہ دونوں روایت حسن ہے جبکہ بیہقی نےروایت اول کو صحیح اور روایت دوم [ابوہریرہ ] کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ چونکہ ابن اکیمہ مجہول ہے اور بیہقی نے مزید کہا فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه یہ زہری کا کلام ہے اور زھری ابن اکیمیہ سے روایت کرنے والا ہے اس بات کو ذھلی ، بخاری ، ابوداود نے کہا اور ان لوگوں نے اوزاعی کی روایت سے استدلال کیا ہے جبکہ اس کلام کو حدیث سے جدا کیا اوراور اسے قول زھری قرار دیا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 3، ص 311، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
یہ واضح کرتا ہے کہ مدرجات زھری کی اہل سنت ہاں کوئی اھمیت نہیں ہے ورنہ بیہقی اس طرح نہ کہتے ۔
زهري مدلسین میں سے تھے :
رابعاً: زهرى مدلسين میں شمار ہوتے ہیں ؛ چنانچه ابن حجر عسقلانى نے كتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ، میں زهرى کو مدلسین مرتبہ سوم میں سے قرار دیا ہے:
الثالثة من أكثر من التدليس فلم يحتج الأئمة من أحاديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع ومنهم من رد حديثهم مطلقا
سوم : وہ افراد جن کی تدلیس زیادہ ہے پس ائمہ نےانکی احادیث سے استدلال نہیں کیا مگر جب وہ سماع کی تصریح کریں اور بعض ائمہ نے تو ایسے افراد کو ہر حال میں رد کیا ہے [ چاہے سماع کی تصریح کریں یا نہ کریں]!
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ج 1، ص 13، تحقيق وتعليق د. عاصم بن عبد الله القريوني، ناشر: مكتبة المنار ـ اردن، عمان، الطبعة الأولي.
عسقلانی ترجمه زهرى میں لکھتے ہیں :
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري الفقيه المدني نزيل الشام مشهور بالامامة والجلالة من التابعين وصفه الشافعي والدارقطني وغير واحد بالتدليس.
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب زهرى فقیه مدنى، شام میں زندگی بسر کی امامت اور جلالت میں مشہور تابعی ہیں شافعی اور دارقطنی اور بہت سے افراد نے اسے مدلس قرار دیا ہے ۔!
ج 1، ص 45.
دوسری طرف اهل سنت کے علماء نے تدليس و مدلسين کو قبیح قرار دیا ہے اور تدلیس کو جھوٹ اور کذب کا بھائی قرار دیا ہے
؛ چنانچه خطيب بغدادى نے الكفاية فى علم الرواية میں قول شعبة بن حجاج نقل کیا ہے :
عن الشافعي، قال: قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب... وقال غندر: سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا، ولأن أسقط من السماء أحب إلي من أن أدلس... المعافى يقول: سمعت شعبة يقول: لأن أزني أحب إلي من أن أدلس.
تدليس، برادر کذب ہے غندر کہتے ہیں : میں نے شعبہ سے سنا ہے : حدیث میں تدلیس کرنا زنا کرنے سے بدتر ہے کیونکہ مجھے منظور ہے آسمان سے زمین پر گرجاون لیکن تدلیس نہ کروں ۔۔ المعافی نے کہتے ہیں میرے لئے زنا کرنا بہتر اس سے کہ میں تدلیس کروں۔
نیز مزید آگے کہتے ہیں :
خرّب الله بيوت المدلّسين، ما هم عندي إلا كذابون و التدليس كذب
خداوند، مدلسین کا خانہ خراب کرے میرے نزدیک یہ لوگ کذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور تدلیس خود جھوٹ ہے ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص 356، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.
آیا ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے اب بھی کیا زھری پر اعتماد کیا جائے گا؟
زهري، دشمن امام علي عليه السلام ہے:
ثانياً: زهرى اميرالمؤمنین عليه السلام کی بدگوئی کرتا تھا ۔ابن ابی الحدید شافعی نے شرح میں لکھا ہے :
وَ كَانَ الزهْرِيُّ مِنَ الْمُنْحَرِفِينَ عَنْهُ عليه السلام
وَ رَوَى جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ شَهِدْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ فَإِذَا الزُّهْرِيُّ وَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ جَالِسَانِ يَذْكُرَانِ عَلِيّاً فَنَالا مِنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عليه السلام) فَجَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمَا فَقَالَ أَمَّا أَنْتَ يَا عُرْوَةُ فَإِنَّ أَبِي حَاكَمَ أَبَاكَ إِلَى اللَّهِ فَحَكَمَ لِأَبِي عَلَى أَبِيكَ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زُهْرِيُّ فَلَوْ كُنْتُ بِمَكَّةَ لَأَرَيْتُكَ كَرَامَتَكَ.
زهرى علي عليه السلام کے مخالفین میں سے تھا . محمد بن شيبه سے روایت ہوئی ہے : میں مسجد مدینہ میں داخل ہوا ہے تو اس میں زھری اور عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ وہ دونوں علی [علیہ السلام ] کی بد گوئی کر رہے ہیں یہ بات علی بن حسین[ علیہما السلام ] تک پہنچی تو فرمایا: اے عروہ تمہارے والد کو میرے والد نے اللہ کے فیصلہ پر کہا تو اللہ نے میرے والد کے حق میں فیصلہ کیا اور تو اے زھری اگر تم مکہ میں ہوتے تو تیری اوقات یاد دلادیتا ۔
إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 4، ص 61، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.
اور امام علي بن الحسين عليه السلام زھری کے نام خط میں لکھتے ہیں :
... وَ اعْلَمْ أَنَّ أَدْنَى مَا كَتَمْتَ وَ أَخَفَّ مَا احْتَمَلْتَ أَنْ آنَسْتَ وَحْشَةَ الظَّالِمِ وَ سَهَّلْتَ لَهُ طَرِيقَ الْغَيِّ بِدُنُوِّكَ مِنْهُ حِينَ دَنَوْتَ وَ إِجَابَتِكَ لَهُ حِينَ دُعِيتَ فَمَا أَخْوَفَنِي أَنْ تَكُونَ تَبُوءُ بِإِثْمِكَ غَداً مَعَ الْخَوَنَةِ وَ أَنْ تُسْأَلَ عَمَّا أَخَذْتَ بِإِعَانَتِكَ عَلَى ظُلْمِ الظَّلَمَةِ إِنَّكَ أَخَذْتَ مَا لَيْسَ لَكَ مِمَّنْ أَعْطَاكَ وَ دَنَوْتَ مِمَّنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَى أَحَدٍ حَقّاً وَ لَمْ تَرُدَّ بَاطِلًا حِينَ أَدْنَاكَ وَ أَحْبَبْتَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ أَ وَ لَيْسَ بِدُعَائِهِ إِيَّاكَ حِينَ دَعَاكَ جَعَلُوكَ قُطْباً أَدَارُوا بِكَ رَحَى مَظَالِمِهِمْ وَ جِسْراً يَعْبُرُونَ عَلَيْكَ إِلَى بَلَايَاهُمْ وَ سُلَّماً إِلَى ضَلَالَتِهِمْ دَاعِياً إِلَى غَيِّهِمْ سَالِكاً سَبِيلَهُمْ يُدْخِلُونَ بِكَ الشَّكَّ عَلَى الْعُلَمَاءِ وَ يَقْتَادُونَ بِكَ قُلُوبَ الْجُهَّالِ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَبْلُغْ أَخَصُّ وُزَرَائِهِمْ وَ لَا أَقْوَى أَعْوَانِهِمْ إِلَّا دُونَ مَا بَلَغْتَ مِنْ إِصْلَاحِ فَسَادِهِمْ وَ اخْتِلَافِ الْخَاصَّةِ وَ الْعَامَّةِ إِلَيْهِمْ.
جان لو کم اور خفیف ترین کتمان یہ ہے کہ جو تم نے اپنایا وہ یہ ہے کہ تم وحشت ظالم سے مانوس ہوئے اوراپنے قرب اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے ظالم کے لئے سرکشی کرنے کا راستہ آسان کیا مجھے کس بات کا خوف کہ کل تم اپنے گناہوں کی وجہ سے ظالموں [محشور] ہوں اور تم سے ظالموں کی مدد کرنے کے معاوضہ کے بارے میں سوال کیا جائے تم نے ایسا مال لیا ہے جو عطا کرنے والے کا مال نہیں ہے اور ایسے شخص کی ہمنشینی اپنائی جو کسی حقدار کا حق نہیں دیتا ہے اور اسکی ہمنشینی کی تم باطل کو باطل نہیں جانتے ہوں اور جس کو اللہ دشمن رکھتا ہے تم نے اسے اپنا دوست بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔
الحراني، أبو محمد الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة (ق4هـ)، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليهم، ص276، تصحيح و تعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1404هـ.
ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو زھری ان افراد میں سے ہے جس نے عمر بن سعد سے روایت لی اور اسکی شاگردی کی ہے جس کا اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کسی پر مخفی نہیں ہے عمر بن سعد نے دردناک ترین طریقہ سے فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو قتل کیا اور ناموس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسیر کیا ۔ذھبی لکھتا ہے :
عمر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، وعنه ابنه إبراهيم، وقتادة، والزهري.
عمر بن سعد، نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور عمر بن سعد سے اسکے بیٹے ابراہیم ، قتادہ ،اور زھری نے روایت نقل کی ہیں :
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 2، ص 61، رقم: 4058، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.
کیا ایسا شخص قابل اعتماد ہوسکتا ہے ؟ کیا ایسے شخص کی روایت عقائد مسلمین کا منبع بن سکتا ہے ؟
نتيجه:
اولا: حضرت زهرا سلام الله عليها سے ام کلثوم کا اصل وجود قابل اثبات نہیں ہے اور ایک محقیق کی ایک جماعت شیعہ اور سنی میں سے ام کلثوم کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔
ثانياً: وہ امّ*كلثوم کہ جس کی شادی عمر سے ہوئی وہ ابوبکر کی بیٹی تھی نہ کہ امام علی علیہ السلام کی ۔
ثالثاً: اس فرض کے ساتھ کہ یہ شادی ہوئی ہے تو شیعہ روایت کے مطابق وہ زور گوئی اور جبر کے ساتھ ہوئی ہے اس بناء پر خلیفہ دوم اور خاندان اہل بیت علیہ السلام کے اچھے مراسم ثابت نہیں ہوتے ہیں ۔
اس موضوع پر لکھی جانے والی تحقيقات :
ازدواج امّ*كلثوم پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں محقق افراد ان کتب کیطرف رجوع کر سکتے ہیں بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے :
المسائل العُكبرية و المسائل السروية، شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه (متوفى 413هـ)
تزويج امّ*كلثوم لعمر، سيد مرتضى علم الهدى (متوفى 436هـ)؛
رسالة فى تزويج عمر لامّ*كلثوم بنت علي ( ع )، الشيخ سليمان بن عبد الله الماحوزى (متوفى1121 هـ)؛
قول محتوم فى عقد امّ*كلثوم*، سيد كرامة علي الهندى، چاپ هند، 1311هـ؛
العجالة المفحمة فى ابطال رواية نكاح امّ*كلثوم (فارسي)، سيد مصطفى ابن السيد محمد هادى بن مهدى بن دلدار علي نقوى (متوفى 1323هـ)؛
كنز مكتوم فى حل عقد امّ*كلثوم، سيد علي اظهر الهندى (متوفى 1352هـ)؛
تزويج امّ*كلثوم بنت اميرمؤمنان عليه السلام وانكار وقوعه، الشيخ محمد الجواد البلاغى (متوفى1352هـ؛
زواج امّ*كلثوم، سيد علي الشهرستانى (معاصر)؛
إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين
فى خبر تزويج امّ*كلثوم من عمر* و تزويج امّ*كلثوم من عمر، سيد علي الميلانى (معاصر).
مرحوم كلينى رضوان الله تعالى عليه نے كتاب كافى میں ان روایات کو نقل کیا ہے :
1. مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ لَمَّا خَطَبَ إِلَيْهِ قَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إنها صَبِيَّةٌ قَالَ فَلَقِيَ الْعَبَّاسَ فَقَالَ لَهُ مَا لِي أَ بِي بَأْسٌ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ خَطَبْتُ إِلَى ابْنِ أَخِيكَ فَرَدَّنِي أَمَا وَاللَّهِ لَأُعَوِّرَنَّ زَمْزَمَ وَلَا أَدَعُ لَكُمْ مَكْرُمَةً إِلَّا هَدَمْتُهَا وَلَأُقِيمَنَّ عَلَيْهِ شَاهِدَيْنِ بِأَنَّهُ سَرَقَ وَلَأَقْطَعَنَّ يَمِينَهُ فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ فَأَخْبَرَهُ وَسَأَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهِ فَجَعَلَهُ إِلَيْهِ.
هشام بن سالم نے امام صادق عليه السلام سےنقل کیا ہے کہ : جب عمر نے ام کلثوم کی خواستگاری کی تو امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا وہ بہت چھوٹی ہیں امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا :عمر عباس سے ملے اور ان سے عمر نے کہا: مجھ میں کیا برائی ہے ؟. عباس نے کہا :کیوں کیا بات ہوگئی ہے ؟. عمر نے کہا :میں نے تمہارے بھتیجے سے خواستگاری کی لیکن انھوں نے مجھے رد کردیا ۔ خبردار میں آب زمزم کے چشمہ کو بھر کر بند کردونگا اور تم بنی ہاشم کے لئے کوئی بھی فضیلت باقی نہیں چھوڑونگا اور اسے ختم کرکے رہوں گا اور علی [ع] کے خلاف دو گواہوں کو تیار کرونگا جو انکے چور ہونے پر گواہی دینگے اور انکے ہاتھ کو کاٹ دونگا تب عباس، علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انھیں عمر کی زور گوئی کی خبر دی اور عباس نے علی [ع] سے چاہا کہ معاملہ انکے حوالے کردیں پس علی علیہ السلام نے معاملہ انکے حوالے کردیا ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
2.. حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ سَمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلْ حَيْثُ شَاءَتْ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِه.
عبد الله بن سنان اور معاويہ بن عمار کہتے ہیں :* امام صادق عليه السلام سے ایسی عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو سوال کیا کہ وہ وہ اپنے گھر میں عدّت گزارے گی یا جہاں بھی اس کی مرضی ہو فرمایا : اس کی مرضی ہے اس لئے کہ علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو عمر کے قتل کے بعد اپنے گھر لے آئے تھے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
3. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) عَنِ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا أَيْنَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا تَعْتَدُّ أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلَى حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا مَاتَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِهِ.
سليمان بن خالد کہتے ہیں : امام صادق عليه السلام سے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو ، سوال کیا وہ عدت اپنے شوہر کے گھر میں گزارے گی یا جہاں بھی چاہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا : جہاں چاہے ۔پھر فرمایا ہے :جب عمر مر گئے تو علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو اپنے گھر کے کر آگئے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
4. عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَ حَمَّادٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) فِي تَزْوِيجِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ فَرْجٌ غُصِبْنَاه.
امام صادق عليه السلام سے ازدواج امّ*كلثوم کے بارے میں سوال کیا گیا امام علیہ السلام نے فرمایا وہ ایک ناموس ہے جو ہم سے غصب کی گئی [ یہ ایک معنی کی بناء پر لیکن دوسرا معنی کی بناء پر خود شادی مشکوک ہوحاتی ہے یعنی وہ ایک عورت ہے جس کے بہانہ سے ہم پر دباو ڈالا گیا۔
قابل غور بات یہ ہے امام علیہ السلام بلیغ اور فصیح ہوتے ہوئے یہ "ذلك فرج غصب منا" نہیں فرما رہے ہیں کہ بلکہ خود کو مغصوب قرار دے رہے ہیں اور فرماتے ہیں " غصبناه، يا غصبنا عليه" جو دیگر منابع شیعہ و سنی ]بنقل ازشیعہ] میں آیا ہے اور معنی غصبنا یہ ہے کہ ہم مغصوب ہوئے ناکہ وہ ناموس ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
اولاً: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان روایات سے یہ اخذ نہیں ہوتا ہے کہ جس ام کلثوم کی طرف ان روایات اور دیگر روایات شیعہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ہے جو امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقی بیٹی ہیں بلکہ تین احتمال پائے جاتے ہیں۔
ثانياً: اهل سنت ان روایات سے استدلال نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے شادی ہوئی تھی تو تب بھی امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب میں اچھے تعلقات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ زیادہ زیادہ ان روایات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر ہوئی ہے اور ام کلثوم صغیر ہونے کے ساتھ نہ خود راضی تھیں نہ انکے والد ۔
کیا ایسی شادی عمر بن خطاب کے لئے مایہ فضیلت بن سکتی ہے ؟ اور کیا یہ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور خلیفہ دوم میں اچھے مراسم تھے ؟
سيد مرتضى علم الهدى اس کے بارے میں کہتے ہیں :
فأما انكاحه عليه السلام إياها، فقد ذكرنا في كتابنا الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه عليه السلام ما أجاب عمر إلى انكاح بنته إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة بعد كلام طويل مأثور....
والذي يجب أن يعتمد في نكاح أم كلثوم، أن هذا النكاح لم يكن عن اختيار ولا إيثار، ولكن بعد مراجعة ومدافعة كادت تفضي إلى المخارجة والمجاهرة....
وقد تبيح الضرورة أكل الميتة وشرب الخمر، فما العجب مما هو دونها؟
ام کلثوم کی عمر بن خطاب سے شادی کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں تفصیل سے دیا ہے اور وہاں بیان کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے عمر سے شادی قبول نہیں کی مگر جب جبر سےکام لیا گیا اور دھمکایا گیا اور مسلسل اصرار اور تنازع کے بعد جو کہ روایات میں مذکور ہے ۔۔۔ وہ چیز جو اس شادی میں مد نظر رکھنا چاِہئے وہ یہ ہے کہ یہ شادی اختیار اور میل باطنی سے نہیں ہوئی لیکن جب مسلسل اصرار اور زور گوئی کی گئی کہ نزدیک تھا ایک آشکار لڑائی شروع ہوجاتی ۔۔۔ اور ضرورت مردار اور شراب کو بھی حلال کردیتی ہے چہ جائے جب اس سے چھوٹی بات ہو ۔
[نوٹ پہلے زاویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے ساتھ ان روایات کی نفی کرتے ہوئے جو فحش اور اہل بیت کی تذلیل پر دلالت کرتی ہیں [روایات ساق اہل سنت۔ مترجم ]
المرتضي علم الهدي، أبو القاسم علي بن الحسين بن موسى بن محمد بن موسى بن إبراهيم بن الإمام موسى الكاظم عليه السلام (متوفاي436هـ)، رسائل المرتضى، ج 3 ص 149،تحقيق: تقديم: السيد أحمد الحسيني / إعداد: السيد مهدي الرجائي، ناشر: دار القرآن الكريم قم، 1405هـ.
ضرورت کے وقت کافر سے بھی شادی جائز ہوجاتی ہے :
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه" سید مرتضی "کے استاد اس بحث میں کہتے ہیں :
ثم إنه لو صح لكان له وجهان لا ينافيان مذهب الشيعة في ضلال المتقدمين على أمير المؤمنين عليه السلام: أحدهما: أن النكاح إنما هو على ظاهر الإسلام الذي هو: الشهادتان، والصلاة إلى الكعبة، والاقرار بجملة الشريعة. وإن كان الأفضل مناكحة من يعتقد الإيمان، وترك مناكحة من ضم إلى ظاهر الإسلام ضلالا لا يخرجه عن الإسلام، إلا أن الضرورة متى قادت إلى مناكحة الضال مع إظهاره كلمة الإسلام زالت الكراهة من ذلك، وساغ ما لم يكن بمستحب مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان محتاجا إلى التأليف وحقن الدماء، ورأي أنه إن بلغ مبلغ عمر عما رغب فيه من مناكحته ابنته أثر ذلك الفساد في الدين والدنيا، وأنه إن أجاب إليه أعقب صلاحا في الأمرين، فأجابه إلى ملتمسه لما ذكرناه.
والوجه الآخر: أن مناكحة الضال - كجحد الإمامة، وادعائها لمن لا يستحقها - حرام، إلا أن يخاف الإنسان على دينه ودمه، فيجوز له ذلك، كما يجوز له إظهار كلمة الكفر المضاد لكلمة الإيمان، وكما يحل له أكل الميتة والدم ولحم الخنزير عند الضرورات، وإن كان ذلك محرما مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان مضطرا إلى مناكحة الرجل لأنه يهدده ويواعده، فلم يأمنه أمير المؤمنين عليه السلام على نفسه وشيعته، فأجابه إلى ذلك ضرورة كما قلنا إن الضرورة تشرع إظهار كلمة الكفر، قال تعالى: (إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ).
اگر اس شادی کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی دو توجیہ ہو سکتی ہے اور یہ دو توجیہ امام علی علیہ السلام پر سبقت لینے والوں کی گمراہی کے شیعہ نظریہ کےمخالف نہیں ہے ۔
1. پہلی توجیہ :شرط ازدواج کہ نکاح ظاہر اسلام پر ہوتا ہے۔ جو شہادتین ، کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ، اجمالی طور پر شریعت کو قبول کرنے ، سے تعبیر ہے اگرچہ افضل ہے کہ شادی صاحب ایمان سے ہو ۔اسی طرح افضل ہے کہ ایسے افراد سے رشتہ داری نہ کی جائے جو اپنی ضلالت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوتے ہوں مگر جب ضرورت ہو کہ ایسے گمراہ شخص سے شادی کی جائے تو اس کے اظہار اسلام کی بناء پر وہ کراہیت بھی بر طرف ہوجائے گی اور جو کام اختیاری حالت میں مستحب نہ تھا وہ زمانہ اضطرار میں جائز ہوجاتا ہے ۔ اور امیر المومنین علیہ السلام کو ضروت تھی بہت سی جانوں کو قتل اور بگاڑ سے بچائیں اور امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ عمر کی زور گوئی کے بعد بھی انکار دین اور دنیا میں فساد پرپا ہونے کا باعث بنے گا اور امام علیہ السلام نے دین و دنیا کے فساد سے بچتے ہوئے عمر کی بات کو قبول کیا ۔
2. دوسری توجیہ : اگر ہم قائل ہوں کہ گمراہ شخص سے شادی مثلا امامت منکر شخص یا وہ شخص جوایسے کی امامت کا قائل جو امامت کا حقدار نہیں ہے ، حرام ہے مگر جب انسان کو اپنے دین اور جان پر خوف ہو تو ایسی شادی جائز ہوجائے گی جس طرح ایسے مجبور شخص کے لئے ایسا کفریہ بات کہنا بھی جائز ہوجائے گی جو کلمہ ایمان کے منافی ہو ، اور یہ اسی طرح جب مردار ، خون ، خنزیر کھانا ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔اگرچہ اختیاری حالت میں یہ سب حرام ہے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اس وقت ام کلثوم کی شادی پر مضطر تھے اس لئے عمر نے امام علی علیہ السلام کو تہدید کی تھی پس امام علی علیہ السلام اپنے اور اپنے چاہنے والوں کی جان پر خوف محسوس کر رہے تھے اور ضرورت کے تحت اس امر پر ناچار ہوئے جیسا ہم نے پہلے کہا شریعت ضرورت اور اضطرار میں کلمہ کفر کو بھی زبان پر جاری کرنے کی اجازت دیتی ہے جیسا فرمان خداوندی ہے :،(إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ۔{ مگر جسے مجبور کیا جائے جبکہ اسکا دل ایمان سے مطمئن اور سرشار ہو ، }۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 92 ـ 93، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.
عمر ، عاتكه کے ساتھ زبردستی شادی کرتے ہیں :
ام کلثوم کے ساتھ عمر کی پہلی جبری شادی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ اتفاق ہو چکا ہے, اس سے پہلے عاتکہ بنت زید سے زبردستی شادی کر چکے ہیں ۔
محمد بن سعد الطبقات الكبرى میں لکھتے ہیں:
أَنَّ عَاتِكَةَ بِنْتَ زَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ اللَّهِ بنِ أَبي بَكْرٍ، فَمَاتَ عَنْهَا وَاشْتَرَطَ عَلَيْهَا أَلاَّ تَزَوَّجَ بَعْدَهُ، فَتَبَتَّلَتْ وَجَعَلَتْ لاَ تَزَوَّجُ، وَجَعَلَ الرجَالُ يَخْطِبُونَهَا وَجَعَلَتْ تَأْبَى، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِوَلِيهَا: اذْكُرْنِي لَهَا، فَذَكَرَهُ لَهَا فَأَبَتْ عَلى عُمَرَ أَيْضَاً، فَقَالَ عُمَرُ: زَوجْنِيهَا: فَزَوَّجَهُ إِيَّاهَا، فَأَتَاهَا عُمَرُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَعَارَكَهَا حَتَّى غَلَبَهَا عَلى نَفْسِهَا فَنَكَحَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: أُفَ أُفَ أُفَ، أَفَّفَ بها ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَتَرَكَهَا لاَ يَأْتِيهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَوْلاَةً لَهَا أَنْ تَعَالَ فَإِني سَأَتَهِيَّأُ لَكَ.
علي بن زيد کہتے ہیں: عاتكه بنت زيد، عبد الله بن ابوبكر کی بیوی تھیں اور عبد الله انکے ساتھ یہ شرط رکھی تھی میرے مرنے کے بعد کسی سے بھی شادی نہ کرنا " عاتکہ عبد اللہ کے بعد اس کی شرط پر باقی تھی شادی نہ کرنے کا ا راداہ رکھتی تھیں لوگ اس سے خواستگاری کرتے لیکن وہ ان کو رد کردیتی پس عمر نے انکے ولی سے کہا میرے لئے بھی خواستگاری کا ذکر کرو لیکن عمر کو بھی رد کر دیا لیکن عمر نے کہا : اس کی مجھ سے شادی کر دو پس اس نے شادی کر دی عمر اسکے پاس آئے اور دونوں میں اصرار اور انکار کی لڑائی ہوئی لیکن عمر نے اس پر غالب ہوکر اس سے وطی کرلی جب مجامعت سے فارغ ہوئے تو کہا اف اف اف اور اسے ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور اسے چھوڑنے کے بعد دوبارہ رجوع نہیں کیا پس عاتکہ نے اپنی کنیز کے ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ : میرے پاس آئیں میں تیار ہوں۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت.
خاندان اهل بيت عليهم السلام کے ساتھ جبری شادیاں :
حجاج بن يوسف کی عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی سے زبردستی شادی:
نظریہ اهل سنت کے مطابق ، حضرت زينب سلام الله عليها کی عبد الله بن جعفر سے ایک بیٹی تھی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے جبری شادی کی تھی ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں :
وتزوجت زينب بنت علي من فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عبد الله بن جعفر بن أبي طالب؛ فولدت له ابنة تزوجها الحجاج بن يوسف.
زينب بنت علي و بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) نے عبد الله بن جعفر بن ابى طالب سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے شادی کی !
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ - 2003م.
ابن أبى طيفور نے بلاغات النساء میں، الآبى نے نثر الدرر میں، زمخشرى نے ربيع الأبرار میں، اور دیگر علماء اہل سنت نے لکھا ہے :
لما زفت ابنة عبد الله بن جعفر " وكانت هاشمية جليلة " إلى الحجاج بن يوسف ونظر إليها في تلك الليلة وعبرتها تجول في خديها فقال لها بأبي أنت وأمي مما تبكين قالت من شرف اتضع ومن ضعة شرفت.
عبد الله بن جعفر کی بیٹی کو زفاف کے لئے حجاج بن یوسف کے پاس لےجایا گیا تو وہ لڑکی بہت اشکبار تھی حجاج نے سوال کیا میرے ماں پاپ قربان کیوں رو رہی ہو؟ کہا اس شرافت و فضیلت پر جو میرے ہاتھ سے جاری ہے اور اس پستی پر جو فضیلت میں بدل رہی ہے ۔
ابن طيفور، أبو الفضل أحمد بن أبي طاهر (متوفاي280هـ)، بلاغات النساء، ج 1، ص 51؛
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 39، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 92؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 2، ص 48، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.
کیا حجاج بن یوسف نے جو ظلم و ستم خاندان اہل بیت علیہم السلام اور بنی ہاشم کے ساتھ کئے ہیں اس شادی کی وجہ سے ان سب کا انکار کیا جائے گا؟ اور یہ ثابت کیا جائے گا کہ حجاج کے بنی ہاشم اور خاندان نبوت سے بہت اچھے مراسم تھے ؟!
مصعب بن زبيرکی سكينه بنت الحسين عليهما السلام کے ساتھ زبردستی شادی ۔
اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق سکینہ بنت حسین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد زندہ رہیں اور کئی شادیاں کی ۔
اہل سنت کے عالم سبط ابن جوزى حنفی نے تذكرة الخواص میں امام حسين عليه السلام کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
وأما سكينة: فتزوجها مصعب بن الزبير فهلك عنها... وأول من تزوجها مصعب بن الزبير قهراً....
معصب بن زبير نے سکینہ کے ساتھ شادی کی ۔۔۔۔۔ اور مصعب نے ان سے جبری اور زبردستی شادی کی تھی ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص249 ـ 250، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
روايت "جن " کتب اہل سنت میں :
ہم نے گذشتہ بحث میں روایات صحیح السند اہل سنت سے ثابت کیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام خلیفہ دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب ، خيانتكار، گناهكار و پيمان شكن جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت کیا کہ انکا تلخ مزاج اور بد اخلاقی ذاتی جھگڑالو پن ۔ شراب خوری ، بدعت گزاری اور دیگر امور اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئے ہیں
اسی طرح خليفه دوم کا فاطمه زهرا سلام الله عليها سے رویہ اور انکی شہادت میں انکار کردار کتب اہل سنت میں مستند اور معتبر طریق سے ثابت ہے
اس بناء پر اگر شادی عمر کی زور گوئی اور جبر سے بھی ہوئی ہو تو امکان نہیں رکھتا ہے کہ علی علیہ السلام عمر کو ناموس رسالت تک رسائی دیں ۔
اهل سنت زليخا اور عزيز مصر اسی طرح آسيه اور فرعون کے بارے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ چونکہ آسیہ کا مقام جنت میں اور رسول خدا [صلی اللہ علیہ و الہ] کی جنت میں بیوی بننے والی ہیں اس بناء پر فرعون آسیہ سے نزدیکی نہ کر پائے تو جب بھی فرعون آسیہ سے نزدیکی کرنا چاہتا تھا ،اللہ آسیہ کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا ۔
اسی طرح زلیخا کہ جو بعد میں یوسف علیہ السلام کی بیوی بننے والی تھی جب بھی عزیز مصر اس سے خلوت کرنا چاہتا تھا خداوند اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا :
عبد الرحمن صفورى نے نزهة المجالس میں لکھا ہے :
قيل كانت زليخا من بنات الملوك وكان بينها وبين مصر نصف شهر فرأت في منامها يوسف فتعلق حبه بقلبها فتغير لونها فسألها أبوها عن ذلك فقالت رأيت صورة في منامي لم أرى أحسن منها فقال أبوها لو عرفت مكانه لطلبته لك ثم رأته في العام الثاني فقالت له بحق الذي صورك من أنت قال أنا لك فلا تختاري غيري فاستيقظت وقد تغير عقلها فقيدها أبوها بالحديد ثم رأته في العام الثالث فقالت بحق الذي صورك أين أنت قال بمصر فاستيقظت وقد صح عقلها فأخبرت أباها بذلك ففك القيد منها وأرسل إلى ملك مصر أن لي بنتا قد خطها الملوك وهي راغبة إليك فكتب إليه قد أردناها فجهزها أبوها بألف جارية وألف عبد وألف بعير وألف بغلة فلما دخلت مصر وتزوجها الملك بكت بكاء شديدا وسترت وجهها وقالت للخادم ليس هو الذي رأيته في المنام فقالت الجارية اصبري فلما رآها الملك افتتن بها وكان إذا أراد النوم معها مثل الله له جنية في صورتها وحفظها ليوسف فلما اجتمع بها وجدها بكرا كما حفظ آسية بنت مزاحم رضي الله عنها من فرعون لأنها من زوجات النبي صلى الله عليه وسلم في الجنة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پادشاه نے زليخا کو دیکھا ، تو اسکا عاشق ہوگیا اور جب بھی بادشاہ اسکے ساتھ سونے کا ارادہ کرتا، اللہ اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا اور اسے یوسف علیہ السلام کے لئے بچاکر رکھتا جب یوسف علیہ السلام نے اس سے شادی کی تو وہ باکرہ نکلیں اسی طرح آسیہ بن مزاحم کو فرعون سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ جنت میں زوجات رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں سے ہونگی ۔
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي 894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 262، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر:دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
اور اہل سنت کے مطابق ہر وہ واقعات جو گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں وہ اس امت میں بھی ہونگے اس بناء پر اس احتمال کی بناء پر اللہ نے خلیفہ دوم کے پاس ام کلثوم کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجا ہو جس طرح آسیہ اور زلیخا کی جگہ جنیہ بھیجتا رہا ہے !!!
نواں زاویہ : روايات اهل تسنن کی تحقیق :
اس شادی کے متعلق بہت سی روایات اہل سنت آئی ہیں جو سندی مشکلات رکھتی ہیں اور دوسری جانب ان میں ایسا تعارض اور تناقض موجود ہے کہ جس میں جمع ممکن نہیں ہے ۔
حضرت آيت الله ميلانى نے كتاب" تزويج امّ*كلثوم من عمر"، ان تمام روایات کی تحقیق پیش کی ہے اور کیونکہ ہمارا ھدف اختصار سے کام لینا ہےفقط اھم ترین روایات اہل سنت کو نقل اور انکی تحقیق پیش کرینگے ۔
بخارى لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَاب [ زهري ]، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِك إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاء مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي عِنْدَكَ. يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُوم بِنْتَ عَلِيّ. فَقَالَ عُمَرُ أُمُّ سَلِيط أَحَقُّ. وَأُمُّ سَلِيط مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ عُمَرُ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُد. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ تَزْفِرُ تَخِيطُ.
ثعلبة بن مالك کہتے ہیں : عمر، مدينه کی عورتوں میں چادریں تقسيم کی، اور ایک اچھی چادر باقی بچ گئی تو عمر کے پاس موجود بعض افراد نے کہا یہ بنت رسول [ص] کو دودو جو تمہارے پاس ہے ان لوگوں کی مراد ام کلثوم بنت علی [ع] تھی تب عمر نے کہا ام سلیط اس کی زیادہ حقدار ہے اور ام سلیط انصار میں سے تھی کیونکہ وہ احد کےدن پھٹی ہوئی مشک کو سیا کرتی تھی ۔۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1056، ح2725، كتاب الجهاد والسير، ب 66، باب حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
اولا: اس سند میں یونس بن یزید ایلی موجود ہے جو اہل سنت بزرگ علماء کے نظریہ کے مطابق جس میں خود بخاری بھی شامل ہے ، شھاب زھری کی روایات میں کثیر خطا کا مرتکب ہوا ہے اور زھری سے منکر روایات نقل کرتا ہے ۔
مزى نے تهذيب الكمال اسکے احوال میں لکھا ہے :
وقال محمد بن عوف، عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الايلي وكان سيئ الحفظ.
قال أبو عَبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزُّهْرِيّ، وعقيل أقل خطأ منه.
وقال أبو زُرْعَة الدمشقي: سمعت أبا عَبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزُّهْرِيّ.
وَقَال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزُّهْرِيّ؟ قال: معمر. قيل له: فيونس؟ قال: روى أحاديث منكرة.
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث، كثيره، وليس بحجة، ربما جاء بالشئ المنكر.
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا !
ابوعبد الله (ظاهرا احمد بن حنبل) نے کہا یونس زھر سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
ابوزرعه دمشقى کہتے ہیں ابوعبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا ہے : یونس کی زھری سے روایات منکرات رکھتی ہیں
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات [ نا قابل قبول ] روایات نقل کرتا ہے !
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے !
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 32، ص 554، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م
اور ابن حجر عسقلانى نےاس کے ترجمہ میں لکھا ہے :
يونس بن يزيد بن أبي النجاد الأيلي بفتح الهمزة وسكون التحتانية بعدها لام أبو يزيد مولى آل أبي سفيان ثقة إلا أن في روايته عن الزهري وهما قليلا وفي غير الزهري خطأ.
يونس بن يزيد، ؛ ۔۔ آل ابو سفیان کا غلام ثقه ہے زھری سے اسکی روایات میں وھم قلیل پایا جاتا ہے اور غیر زھری کی روایات میں خطا پائی جاتی ہے ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1، ص 7912، رقم: 7919، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.علي بن عابس.
ثانياً: اس روايت کی سند میں محمد بن مسلم زهرى ہے جو دشمنان اہل بیت علیہم السلام ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو بنی امیہ کے بارے میں جھوٹی روایات گھڑتی ہیں اسی طرح زھری كثير الإندراج تھا یعنی روایات میں اپنی باتیں شامل کرنے والا ۔
زهري، بني اميه کے مفاد میں روایات گھڑتا ہے :
زهرى ان افراد پلید میں سے تھا جو دربار بنی امیہ میں جعلی روایات و احادیث بناتے تھے جیسا کہ ابن عساکر عالم اہل سنت نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے :
نا جعفر بن إبراهيم الجعفري قال كنت عند الزهري أسمع منه فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت يا جعفري لا تكتب عنه فإنه مال إلى بني أمية وأخذ جوائزهم فقلت من هذه قال أختي رقية خرفت قالت خرفت أنت كتمت فضائل آل محمد.
جعفر بن ابراهيم جعفر ی کہتے ہیں میں زھری سے حدیث سننے میں مشغول تھا اتنے میں ایک بوڑھی عورت آکر کہتی ہے اس سے کوئی روایت نقل مت کرو کیوں کہ یہ بنی امیہ کی طرف مائل ہے اور ان سے تحائف اور انعام لیتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کون ہے ؟ زھری نے کہا یہ میری بہن رقیہ ہے اس کا دماغ چل گیا ہے ۔
زھری کی بہن نے جواب دیا: بلکہ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورتو آل محمد] صلی اللہ علیہ و آلہ [کے فضائل کو چھپاتا ہے !۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 228، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
ابن حجر نے ترجمه اعمش میں لکھا ہے :
وحكى الحاكم عن ابن معين أنه قال أجود الأسانيد الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له انسان الأعمش مثل الزهري فقال برئت من الأعمش أن يكون مثل الزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن.
حاكم ( نيشابوري) نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو اور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 4، ص 196، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.
اور اسی طرح ذهبى نےسير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان رحمه الله محتشما جليلا بزي الأجناد له صورة كبيرة في دولة بني أمية.
زهرى، بہت مال و ثروت کا مالک تھا اور اسکا بنی امیہ کی حکومت میں بڑا کردار اور نام تھا۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 337، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
اور ابن عساكر لکھتے ہیں :
عن عمر بن رديح قال كنت مع ابن شهاب الزهري نمشي فرآني عمرو بن عبيد فلقيني بعد فقال ما لك ولمنديل الأمراء يعني ابن شهاب
عمر بن رديح سے روایت ہوئی ہے ایک دن زھری کے ساتھ چل رہے تھے تو مجھے عمرو بن عیبد نے دیکھ لیا بعد میں مجھ سے ملاقات کر کے کہا تمہارا کیا واسطہ حکمرانوں کے رومال سے ؟ یعنی زھری حکمرانوں کے چمچہ سے تمہارا تعلق کیوں ہے ۔؟
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 55، ص 370، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
دوسری جانب اهل سنت کے علماء ؛ جس میں مزى و ذهبى شامل ہیں وہ امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
هشام بن عباد، قال: سمعت جعفر بن محمد، يقول: الفقهاء أمناء الرسل، فإذا رأيتم الفقهاء قد ركنوا إلى السلاطين فاتهموهم.
هشام بن عباد کہتے ہیں : جعفر بن محمد (عليه السلام) سے سنا ہے کہ فقہاء رسولوں کے امانت دار ہیں پس جب تم فقہیا کو دیکھے کہ انھوں نے حکمرانوں پر تکیہ کیا ہوا ہے تو ایسے فقہاء سے بد ظن ہوجاو۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص 262، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
پس جو شخص اہل بیت علیہم السلام کا خصوصا امام علی علیہ السلام کا دشمن ہو اسکی امام علیہ السلام کے خلاف روایات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے ؟
زهري، كثير الإدراج ہے:
ثالثاً: چونکہ زھری کثیر الندراج ہے اس کے اندرجات اور اضافات خود اہل سنت کا ہان بھی معتبر نہیں ہے یعنی ان افراد میں سے ہے جو اپنی طرف سے احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں اضافہ کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام میں اپنے کلام کی ملاوٹ کرتا ہے ۔اور ظاہر ہوتا ہے کہ يُرِيدُونَ امّ*كلثوم بِنْتَ علي کا جملہ خود زھری کا اضافہ ہے کہ جو اصل روایت میں نہیں ہے ۔
حسن بن سقاف عالم اهل سنت "كتاب تناقضات البانى" میں لکھتے ہیں :
ثم إن الزهري كان يدرج ألفاظا في الأحاديث النبوية هي من فهمه أو تفسيره نبه على ذلك بعض الأئمة كالبخاري وربيعة شيخ الامام مالك... وكم في الفتح وغيره من جمل وكلمات وعبارات نبه عليها الحفاظ أنها من مدرجات وزيادات الزهري والله الهادي.
زهرى، الفاظ کو احادیث نبوی میں اضافہ کرتا تھا جبکہ وہ خود اسکی سوچ اور تفسیر ہوتی تھی جیسا کہ بعض ائمہ، بخاری ، ربیعہ شیخ امام مالک ۔۔۔ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور کتنے کی جملات اور الفاظ ایسے ہیں جس کی طرف حفاظ نے توجہ دلائی ہے کتاب فتح الباری اور دوسری کتب میں بیان کیا ہے کہ وہ سب زھری کا اضافہ ہے ۔
السقاف، حسن بن علي بن هاشم بن أحمد بن علوي (معاصر)، تناقضات الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات، ج 3، ص 336، ناشر: دار الامام النووي، عمان – الأردن، الطبعة: الرابعة، 1412هـ ـ 1992 م. ابن حجر نے فتح البارى میں متعدد مقامات پر صحیح بخاری کی اندر" مدرجات زهرى" ، قرار دیا ہے جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :
1. تنبيه ) قوله وبعض العوالي الخ مدرج من كلام الزهري في حديث أنس بينه عبد الرزاق عن معمر عن الزهري... فقال هو إما كلام البخاري أو أنس أو الزهري كما هو عادته.
اور عبارت وبعض العوالي.. ادراجات زهرى ہے ... یہ مطلب کلام بخاری ہے یا انس یا پھر زھری ہے کہ جس کی عادت ہی یہی ہے۔ !
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 2، ص 29، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
2. قال الخطابي هذه الزيادة يشبه أن تكون من كلام الزهري وكانت عادته أن يصل بالحديث من كلامه ما يظهر له من معنى الشرح والبيان.
ظاهرا یہ ہے یہ کلام کا حصہ، زھری کا اضافہ ہے اور اسکی عادت ہی یہی تھی کہ حدیث سے ایسے معنی کا اضافہ کر دیتا ہے جو معنی شرح اور بیان سےاسے سمجھ آرہا ہو ۔
ج 5، ص 38
3. قوله وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها هو كلام الزهري.
عبارت وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها یہ اضافہ زھری کی طرف سے ہے !
ج 5، ص 352.
4. ( قوله فهما على ذلك إلى اليوم ) هو كلام الزهري أي حين حدث بذلك.
عبارت فهما علي ذلك الى اليوم یہ زھری کا کلام ہے ، يعنى جب روایت بیان کر رہا تھا!
ج 6، ص 204.
5. ( قوله وهي العوامر ) هو كلام الزهري أدرج في الخبر
عبارت وهى العوامر یہ مدرجات كلام زهرى یے جس کو اس نے روایت کے اندر داخل کردیا ہے !
ج6، ص204.
اور اسی طرح بہت سے موارد جس میں : ج 6، ص 174 و ج 6، ص 249 و ج 7، ص 186 و ج 8، ص 87 و ج 9، ص 404 و ج 10، ص 78 و ج 10، ص 141 و ج 11، ص 507 و ج 12، ص 362 و... شامل ہیں
اسی طرح ایک اور عالم اہل سنت نووی نے جہر و اخفات سے متعلق دو روایت نبوی میں لکھا ہے :
( الشرح ) * هذان الحديثان رواهما أبو داود والترمذي وغيرهما وقال الترمذي هما حديثان حسنان وصحح البيهقي الحديث الأول وضعف الثاني حديث أبي هريرة وقال تفرد به عن أبي هريرة ابن أكيمة، بضم الهمزة وفتح الكاف، وهو مجهول قال وقوله فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه هو من كلام الزهري وهو الراوي عن ابن أكيمة قاله محمد بن يحيى الذهلي والبخاري وأبو داود واستدلوا برواية الأوزاعي حين ميزه من الحديث وجعله من قول الزهري.
ان دو حديث کو ابوداوود، ترمذى اور ديگران نے نقل کیا ہے . ترمذى نے کہا ہے یہ دونوں روایت حسن ہے جبکہ بیہقی نےروایت اول کو صحیح اور روایت دوم [ابوہریرہ ] کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ چونکہ ابن اکیمہ مجہول ہے اور بیہقی نے مزید کہا فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه یہ زہری کا کلام ہے اور زھری ابن اکیمیہ سے روایت کرنے والا ہے اس بات کو ذھلی ، بخاری ، ابوداود نے کہا اور ان لوگوں نے اوزاعی کی روایت سے استدلال کیا ہے جبکہ اس کلام کو حدیث سے جدا کیا اوراور اسے قول زھری قرار دیا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 3، ص 311، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
یہ واضح کرتا ہے کہ مدرجات زھری کی اہل سنت ہاں کوئی اھمیت نہیں ہے ورنہ بیہقی اس طرح نہ کہتے ۔
زهري مدلسین میں سے تھے :
رابعاً: زهرى مدلسين میں شمار ہوتے ہیں ؛ چنانچه ابن حجر عسقلانى نے كتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ، میں زهرى کو مدلسین مرتبہ سوم میں سے قرار دیا ہے:
الثالثة من أكثر من التدليس فلم يحتج الأئمة من أحاديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع ومنهم من رد حديثهم مطلقا
سوم : وہ افراد جن کی تدلیس زیادہ ہے پس ائمہ نےانکی احادیث سے استدلال نہیں کیا مگر جب وہ سماع کی تصریح کریں اور بعض ائمہ نے تو ایسے افراد کو ہر حال میں رد کیا ہے [ چاہے سماع کی تصریح کریں یا نہ کریں]!
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ج 1، ص 13، تحقيق وتعليق د. عاصم بن عبد الله القريوني، ناشر: مكتبة المنار ـ اردن، عمان، الطبعة الأولي.
عسقلانی ترجمه زهرى میں لکھتے ہیں :
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري الفقيه المدني نزيل الشام مشهور بالامامة والجلالة من التابعين وصفه الشافعي والدارقطني وغير واحد بالتدليس.
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب زهرى فقیه مدنى، شام میں زندگی بسر کی امامت اور جلالت میں مشہور تابعی ہیں شافعی اور دارقطنی اور بہت سے افراد نے اسے مدلس قرار دیا ہے ۔!
ج 1، ص 45.
دوسری طرف اهل سنت کے علماء نے تدليس و مدلسين کو قبیح قرار دیا ہے اور تدلیس کو جھوٹ اور کذب کا بھائی قرار دیا ہے
؛ چنانچه خطيب بغدادى نے الكفاية فى علم الرواية میں قول شعبة بن حجاج نقل کیا ہے :
عن الشافعي، قال: قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب... وقال غندر: سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا، ولأن أسقط من السماء أحب إلي من أن أدلس... المعافى يقول: سمعت شعبة يقول: لأن أزني أحب إلي من أن أدلس.
تدليس، برادر کذب ہے غندر کہتے ہیں : میں نے شعبہ سے سنا ہے : حدیث میں تدلیس کرنا زنا کرنے سے بدتر ہے کیونکہ مجھے منظور ہے آسمان سے زمین پر گرجاون لیکن تدلیس نہ کروں ۔۔ المعافی نے کہتے ہیں میرے لئے زنا کرنا بہتر اس سے کہ میں تدلیس کروں۔
نیز مزید آگے کہتے ہیں :
خرّب الله بيوت المدلّسين، ما هم عندي إلا كذابون و التدليس كذب
خداوند، مدلسین کا خانہ خراب کرے میرے نزدیک یہ لوگ کذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور تدلیس خود جھوٹ ہے ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص 356، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.
آیا ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے اب بھی کیا زھری پر اعتماد کیا جائے گا؟
زهري، دشمن امام علي عليه السلام ہے:
ثانياً: زهرى اميرالمؤمنین عليه السلام کی بدگوئی کرتا تھا ۔ابن ابی الحدید شافعی نے شرح میں لکھا ہے :
وَ كَانَ الزهْرِيُّ مِنَ الْمُنْحَرِفِينَ عَنْهُ عليه السلام
وَ رَوَى جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ شَهِدْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ فَإِذَا الزُّهْرِيُّ وَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ جَالِسَانِ يَذْكُرَانِ عَلِيّاً فَنَالا مِنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عليه السلام) فَجَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمَا فَقَالَ أَمَّا أَنْتَ يَا عُرْوَةُ فَإِنَّ أَبِي حَاكَمَ أَبَاكَ إِلَى اللَّهِ فَحَكَمَ لِأَبِي عَلَى أَبِيكَ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زُهْرِيُّ فَلَوْ كُنْتُ بِمَكَّةَ لَأَرَيْتُكَ كَرَامَتَكَ.
زهرى علي عليه السلام کے مخالفین میں سے تھا . محمد بن شيبه سے روایت ہوئی ہے : میں مسجد مدینہ میں داخل ہوا ہے تو اس میں زھری اور عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ وہ دونوں علی [علیہ السلام ] کی بد گوئی کر رہے ہیں یہ بات علی بن حسین[ علیہما السلام ] تک پہنچی تو فرمایا: اے عروہ تمہارے والد کو میرے والد نے اللہ کے فیصلہ پر کہا تو اللہ نے میرے والد کے حق میں فیصلہ کیا اور تو اے زھری اگر تم مکہ میں ہوتے تو تیری اوقات یاد دلادیتا ۔
إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 4، ص 61، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.
اور امام علي بن الحسين عليه السلام زھری کے نام خط میں لکھتے ہیں :
... وَ اعْلَمْ أَنَّ أَدْنَى مَا كَتَمْتَ وَ أَخَفَّ مَا احْتَمَلْتَ أَنْ آنَسْتَ وَحْشَةَ الظَّالِمِ وَ سَهَّلْتَ لَهُ طَرِيقَ الْغَيِّ بِدُنُوِّكَ مِنْهُ حِينَ دَنَوْتَ وَ إِجَابَتِكَ لَهُ حِينَ دُعِيتَ فَمَا أَخْوَفَنِي أَنْ تَكُونَ تَبُوءُ بِإِثْمِكَ غَداً مَعَ الْخَوَنَةِ وَ أَنْ تُسْأَلَ عَمَّا أَخَذْتَ بِإِعَانَتِكَ عَلَى ظُلْمِ الظَّلَمَةِ إِنَّكَ أَخَذْتَ مَا لَيْسَ لَكَ مِمَّنْ أَعْطَاكَ وَ دَنَوْتَ مِمَّنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَى أَحَدٍ حَقّاً وَ لَمْ تَرُدَّ بَاطِلًا حِينَ أَدْنَاكَ وَ أَحْبَبْتَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ أَ وَ لَيْسَ بِدُعَائِهِ إِيَّاكَ حِينَ دَعَاكَ جَعَلُوكَ قُطْباً أَدَارُوا بِكَ رَحَى مَظَالِمِهِمْ وَ جِسْراً يَعْبُرُونَ عَلَيْكَ إِلَى بَلَايَاهُمْ وَ سُلَّماً إِلَى ضَلَالَتِهِمْ دَاعِياً إِلَى غَيِّهِمْ سَالِكاً سَبِيلَهُمْ يُدْخِلُونَ بِكَ الشَّكَّ عَلَى الْعُلَمَاءِ وَ يَقْتَادُونَ بِكَ قُلُوبَ الْجُهَّالِ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَبْلُغْ أَخَصُّ وُزَرَائِهِمْ وَ لَا أَقْوَى أَعْوَانِهِمْ إِلَّا دُونَ مَا بَلَغْتَ مِنْ إِصْلَاحِ فَسَادِهِمْ وَ اخْتِلَافِ الْخَاصَّةِ وَ الْعَامَّةِ إِلَيْهِمْ.
جان لو کم اور خفیف ترین کتمان یہ ہے کہ جو تم نے اپنایا وہ یہ ہے کہ تم وحشت ظالم سے مانوس ہوئے اوراپنے قرب اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے ظالم کے لئے سرکشی کرنے کا راستہ آسان کیا مجھے کس بات کا خوف کہ کل تم اپنے گناہوں کی وجہ سے ظالموں [محشور] ہوں اور تم سے ظالموں کی مدد کرنے کے معاوضہ کے بارے میں سوال کیا جائے تم نے ایسا مال لیا ہے جو عطا کرنے والے کا مال نہیں ہے اور ایسے شخص کی ہمنشینی اپنائی جو کسی حقدار کا حق نہیں دیتا ہے اور اسکی ہمنشینی کی تم باطل کو باطل نہیں جانتے ہوں اور جس کو اللہ دشمن رکھتا ہے تم نے اسے اپنا دوست بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔
الحراني، أبو محمد الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة (ق4هـ)، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليهم، ص276، تصحيح و تعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1404هـ.
ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو زھری ان افراد میں سے ہے جس نے عمر بن سعد سے روایت لی اور اسکی شاگردی کی ہے جس کا اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کسی پر مخفی نہیں ہے عمر بن سعد نے دردناک ترین طریقہ سے فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو قتل کیا اور ناموس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسیر کیا ۔ذھبی لکھتا ہے :
عمر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، وعنه ابنه إبراهيم، وقتادة، والزهري.
عمر بن سعد، نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور عمر بن سعد سے اسکے بیٹے ابراہیم ، قتادہ ،اور زھری نے روایت نقل کی ہیں :
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 2، ص 61، رقم: 4058، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.
کیا ایسا شخص قابل اعتماد ہوسکتا ہے ؟ کیا ایسے شخص کی روایت عقائد مسلمین کا منبع بن سکتا ہے ؟
نتيجه:
اولا: حضرت زهرا سلام الله عليها سے ام کلثوم کا اصل وجود قابل اثبات نہیں ہے اور ایک محقیق کی ایک جماعت شیعہ اور سنی میں سے ام کلثوم کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔
ثانياً: وہ امّ*كلثوم کہ جس کی شادی عمر سے ہوئی وہ ابوبکر کی بیٹی تھی نہ کہ امام علی علیہ السلام کی ۔
ثالثاً: اس فرض کے ساتھ کہ یہ شادی ہوئی ہے تو شیعہ روایت کے مطابق وہ زور گوئی اور جبر کے ساتھ ہوئی ہے اس بناء پر خلیفہ دوم اور خاندان اہل بیت علیہ السلام کے اچھے مراسم ثابت نہیں ہوتے ہیں ۔
اس موضوع پر لکھی جانے والی تحقيقات :
ازدواج امّ*كلثوم پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں محقق افراد ان کتب کیطرف رجوع کر سکتے ہیں بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے :
المسائل العُكبرية و المسائل السروية، شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه (متوفى 413هـ)
تزويج امّ*كلثوم لعمر، سيد مرتضى علم الهدى (متوفى 436هـ)؛
رسالة فى تزويج عمر لامّ*كلثوم بنت علي ( ع )، الشيخ سليمان بن عبد الله الماحوزى (متوفى1121 هـ)؛
قول محتوم فى عقد امّ*كلثوم*، سيد كرامة علي الهندى، چاپ هند، 1311هـ؛
العجالة المفحمة فى ابطال رواية نكاح امّ*كلثوم (فارسي)، سيد مصطفى ابن السيد محمد هادى بن مهدى بن دلدار علي نقوى (متوفى 1323هـ)؛
كنز مكتوم فى حل عقد امّ*كلثوم، سيد علي اظهر الهندى (متوفى 1352هـ)؛
تزويج امّ*كلثوم بنت اميرمؤمنان عليه السلام وانكار وقوعه، الشيخ محمد الجواد البلاغى (متوفى1352هـ؛
زواج امّ*كلثوم، سيد علي الشهرستانى (معاصر)؛
إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين
فى خبر تزويج امّ*كلثوم من عمر* و تزويج امّ*كلثوم من عمر، سيد علي الميلانى (معاصر).
تبصرے