شيعہ حضرات زيارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور ديواروں کو کيوں چومتے ہيں اور انہيں باعث برکت کيوں سمجھتے ہيں؟
جواب:اوليائے الہی سے منسوب اشياء کو اپنے لئے باعث برکت سمجھنا کوئی ايسا جديد مسئلہ نہيں ہے جو مسلمانوں کے درميان آج پيدا ہوا ہو بلکہ اس کی بنياديں رسول خداۖ اور ان کے صحابہ کے زمانے ميں دکھائی ديتی ہيں . اس عمل کو نبی اکرمۖ اور ان کے اصحاب ہی نے انجام نہيں ديا ہے بلکہ گزشتہ انبياء بھی ايسا ہی کرتے تھے اب ہم آپ کے سامنے اس عمل کے جائز ہونے کے سلسلے ميں قرآن مجيد اور سنت پيغمبرۖسے چنددليليں پيش کرتے ہيں:
١۔قرآن مجيد ميں ہم پڑھتے ہيں کہ جس وقت حضرت يوسف نے اپنے بھائيوں کے سامنے خود کو پہچنوايا اور ان کے گناہوں کو معاف کرديا تو يہ فرمايا: اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ (1)
ميری يہ قميص لے کر جاؤ اورميرے بابا کے چہرے پر ڈال دو کہ انکی بصارت پلٹ آئے گی.
اور پھرقرآن فرماتا ہے: فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا (2)
اور اس کے بعد جب بشارت دينے والے نے آکر قميص کو يعقوب کے چہرے پر ڈال ديا تو وه دوباره صاحب بصارت ہوگئے .
قرآن مجيد کی يہ آيتيں گواہی دے رہی ہيں کہ ايک نبی (جناب يعقوب) نے دوسرے نبی (جناب يوسف) کی قميص کو باعث برکت سمجھا تھا اور يہی نہيں بلکہ حضرت يعقوب کا يہ عمل ان کی بصارت کے لوٹنے کا سبب بنا تھا. کيا يہاں پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دو انبياء کے اس عمل نے انہيں توحيد اور عبادت خدا کے دائرے سے خارج کرديا تھا!؟
٢۔اس بات ميں کوئی شک نہيں ہے کہ رسول خداۖ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت انہوں نے جواب ديا: ''رايت رسول لله يستلمہ و يقبلہ ''( 3)
ميں نے رسول خداۖ کو ديکھا ہے کہ وه حجر اسود کو سلام کررہے تھے اور بوسے دے رہے تھے.
اگر ايک پتھر کو سلام کرنا اور بوسے دينا شرک ہوتا تو نبی اکرمۖ ہرگز اس عمل کو انجام نہ ديتے.
٣۔صحيح، مسنداور تاريخی کتابونميں بہت سی ايسی روايات ہيں جن کے مطابق صحابۂ کرام آنحضرتۖ سے منسوب اشياء جيسے آپۖ کا لباس، آپ کے وضو کا پانی اور برتن وغيره کو باعث برکت سمجھتے تھے اگر ان روايات کا مطالعہ کيا جائے تو اس عمل کے جائزہونے ميں کسی بھی قسم کی ترديد باقی نہيں رہے گی. اگرچہ اس بارے ميں وارد ہونے والی روايات کی تعداد زياده ہے اور سب کو اس مختصر کتاب ميں پيش کرنا ممکن نہيں ہے ليکن پھر بھی يہاں ہم ان ميں سے بعض روايتوں کو نمونہ کے طور پر پيش کررہے ہيں :
الف: بخاری نے اپنی کتاب صحيح ميں آنحضرتۖ اور ان کے اصحاب کے خصوصيات کو بيان کرنے والی ايک طولانی روايت کے ضمن ميں يوں نقل کيا ہے:
''واذا توضّأ کادوا يقتتلون علیٰ وضوئہ''( 4)
جس وقت پيغمبر خداۖ وضو کرتے تھے تو نزديک ہوتا تھا کہ مسلمان آپۖ کے وضوکے پانی کو حاصل کرنے کے لئے آپس ميں جنگ شروع کرديں.
ب:ابن حجر کہتے ہيں کہ:
''اِنّ النب کان يؤت بالصبيان فيبرک عليھم''( 5)
بے شک نبی اکرم کی خدمت ميں بچوں کو لايا جاتا تھا اور آنحضرتۖ اپنے وجود کی برکت سے انہيں بھی بابرکت بنا ديتے تھے.
ج:محمد طاہر مکی کہتے ہيں: ام ثابت سے روايت ہوئی ہے وه کہتی ہيں: کہ رسول خداۖ ميرے ہاں تشريف لائے اور آپ نے ديوار پر آويزاں ايک مشک کے دھانے سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمايا يہ ديکھ کر ميں اپنی جگہ سے اٹھی اور ميں نے اس مشک کے دھانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ ليا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہيں : اسی حديث کو ترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ يہ حديث صحيح اور حسن ہے اور کتاب رياض الصالحين ميں اس حديث کی شرح ميں کہا گيا ہے کہ ام ثابت نے مشک کے دھانے کو اس لئے کاٹ ليا تھا تاکہ وه اس جگہ کو اپنے پاس محفوظ کرليں جہاں سے پيغمبر اکرمۖ نے پانی نوش فرمايا تھا کيونکہ وه اسے باعث برکت سمجھتی تھيناسی طرح صحابہ کی بھی يہی کوشش رہتی تھی کہ وه اس جگہ سے پانی پئيں جہاں سے پيغمبراکرمۖ نے پانی پيا ہو.( 6) ''کان رسول للهّ اِذا صلیٰ الغداة جاء خدم المدينة بآنيتھم فيھا الماء فما يُؤتی بانائٍ اِلا غمس يده فيھا فربما جاؤوه ف الغداة الباردة فيغمس يده فيھا ''( 7)
رسول خدا جب نماز صبح سے فارغ ہوجاتے تو مدينہ کے خادم پانی کے برتن لئے آنحضرتۖ کی خدمت ميں آتے تھے اور آپ ان سب برتنوں ميں اپنا ہاتھ ڈبو ديتے تھے بعض اوقات تو وه لوگ ٹھنڈک والی صبح ميں آنحضرت کی خدمت ميں پہنچ جاتے تھے ليکن پھربھی آنحضرت ان کے برتنوں ميں ہاتھ ڈبو ديتے تھے. ( 8)
گذشتہ دلائل کی روشنی ميں يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اوليائے الہی سے منسوب اشياء کو باعث برکت قرار دينا ايک جائز عمل ہے اور وه لوگ جو شيعوں پر اس عمل کی وجہ سے تہمت لگاتے ہيں وه توحيد اور شرک کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ نہيں پائے ہيں کيونکہ شر ک کے معنی يہ ہيں کہ خدا کی عبادت کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی خدا سمجھا جائے يا يہ عقيده ہو کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئيے گئے ہيں اور وه اپنے وجود اور صحيح بخاری، کتاب اشربہ ،مؤطا مالک جلد ١ ص ١٣٨ باب صلوة علی النبیۖ، اسدالغابة جلد ٥ ص ٩٠ ، مسند احمد جلد ٤ ص ٣٢ الاستيعاب (الاصابة) کے حاشيے ميں جلد ٣ ص ٦٣١ ، فتح الباری جلد ١ صفحہ ٢٨١ اور ٢٨٢ تاثير رکھنے ميں خدا سے بے نياز ہے. جبکہ شيعہ اوليائے الہی اور ان سے متعلق اشياء کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہيں اور وه اپنے اماموں اور دين کے پرچمداروں کے احترام اور ان سے سچی محبت کے اظہار کے لئے ان بزرگوں کو باعث برکت قرار دے کر ان سے فيض حاصل کرتے ہيں . شيعوں کا پيغمبر اسلامۖ اور ان کے اہل بيت ٪ کے حرم ميں جاکر ان کی ضريح مقدس کو بوسہ دينا يا حرم کے در وديوار کو مس کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پيغمبرخداۖ اور ان کی عترت کے عشق سے سرشار ہيں اور يہ عشق ہر انسان کی فطرت ميں پايا جاتا ہے اور يہ ايک انسانی محبت کاجذبہ ہے جو ہر محبتی انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے : اس
بارے ميں ايک شاعر کہتا ہے: أمر علیٰ الديار ديار سلمیٰ
اقبل ذاالجدار و ذالجدار ا
وما حُبّ الديار شغفن قلب
ولکن حُبّ مَن سکن الديارا
ميں جب سلمیٰ کے ديار سے گزرتا ہوں تو اس ديوار اور اس ديوار کے بوسے ليتا ہوناس ديار کی محبت نے ميرے دل کولبھايا نہيں ہے بلکہ اس ديار کے ساکن کی محبت نے ميرے قلب کو اسير کرليا ہے۔
١۔قرآن مجيد ميں ہم پڑھتے ہيں کہ جس وقت حضرت يوسف نے اپنے بھائيوں کے سامنے خود کو پہچنوايا اور ان کے گناہوں کو معاف کرديا تو يہ فرمايا: اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ (1)
ميری يہ قميص لے کر جاؤ اورميرے بابا کے چہرے پر ڈال دو کہ انکی بصارت پلٹ آئے گی.
اور پھرقرآن فرماتا ہے: فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا (2)
اور اس کے بعد جب بشارت دينے والے نے آکر قميص کو يعقوب کے چہرے پر ڈال ديا تو وه دوباره صاحب بصارت ہوگئے .
قرآن مجيد کی يہ آيتيں گواہی دے رہی ہيں کہ ايک نبی (جناب يعقوب) نے دوسرے نبی (جناب يوسف) کی قميص کو باعث برکت سمجھا تھا اور يہی نہيں بلکہ حضرت يعقوب کا يہ عمل ان کی بصارت کے لوٹنے کا سبب بنا تھا. کيا يہاں پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دو انبياء کے اس عمل نے انہيں توحيد اور عبادت خدا کے دائرے سے خارج کرديا تھا!؟
٢۔اس بات ميں کوئی شک نہيں ہے کہ رسول خداۖ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت انہوں نے جواب ديا: ''رايت رسول لله يستلمہ و يقبلہ ''( 3)
ميں نے رسول خداۖ کو ديکھا ہے کہ وه حجر اسود کو سلام کررہے تھے اور بوسے دے رہے تھے.
اگر ايک پتھر کو سلام کرنا اور بوسے دينا شرک ہوتا تو نبی اکرمۖ ہرگز اس عمل کو انجام نہ ديتے.
٣۔صحيح، مسنداور تاريخی کتابونميں بہت سی ايسی روايات ہيں جن کے مطابق صحابۂ کرام آنحضرتۖ سے منسوب اشياء جيسے آپۖ کا لباس، آپ کے وضو کا پانی اور برتن وغيره کو باعث برکت سمجھتے تھے اگر ان روايات کا مطالعہ کيا جائے تو اس عمل کے جائزہونے ميں کسی بھی قسم کی ترديد باقی نہيں رہے گی. اگرچہ اس بارے ميں وارد ہونے والی روايات کی تعداد زياده ہے اور سب کو اس مختصر کتاب ميں پيش کرنا ممکن نہيں ہے ليکن پھر بھی يہاں ہم ان ميں سے بعض روايتوں کو نمونہ کے طور پر پيش کررہے ہيں :
الف: بخاری نے اپنی کتاب صحيح ميں آنحضرتۖ اور ان کے اصحاب کے خصوصيات کو بيان کرنے والی ايک طولانی روايت کے ضمن ميں يوں نقل کيا ہے:
''واذا توضّأ کادوا يقتتلون علیٰ وضوئہ''( 4)
جس وقت پيغمبر خداۖ وضو کرتے تھے تو نزديک ہوتا تھا کہ مسلمان آپۖ کے وضوکے پانی کو حاصل کرنے کے لئے آپس ميں جنگ شروع کرديں.
ب:ابن حجر کہتے ہيں کہ:
''اِنّ النب کان يؤت بالصبيان فيبرک عليھم''( 5)
بے شک نبی اکرم کی خدمت ميں بچوں کو لايا جاتا تھا اور آنحضرتۖ اپنے وجود کی برکت سے انہيں بھی بابرکت بنا ديتے تھے.
ج:محمد طاہر مکی کہتے ہيں: ام ثابت سے روايت ہوئی ہے وه کہتی ہيں: کہ رسول خداۖ ميرے ہاں تشريف لائے اور آپ نے ديوار پر آويزاں ايک مشک کے دھانے سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمايا يہ ديکھ کر ميں اپنی جگہ سے اٹھی اور ميں نے اس مشک کے دھانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ ليا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہيں : اسی حديث کو ترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ يہ حديث صحيح اور حسن ہے اور کتاب رياض الصالحين ميں اس حديث کی شرح ميں کہا گيا ہے کہ ام ثابت نے مشک کے دھانے کو اس لئے کاٹ ليا تھا تاکہ وه اس جگہ کو اپنے پاس محفوظ کرليں جہاں سے پيغمبر اکرمۖ نے پانی نوش فرمايا تھا کيونکہ وه اسے باعث برکت سمجھتی تھيناسی طرح صحابہ کی بھی يہی کوشش رہتی تھی کہ وه اس جگہ سے پانی پئيں جہاں سے پيغمبراکرمۖ نے پانی پيا ہو.( 6) ''کان رسول للهّ اِذا صلیٰ الغداة جاء خدم المدينة بآنيتھم فيھا الماء فما يُؤتی بانائٍ اِلا غمس يده فيھا فربما جاؤوه ف الغداة الباردة فيغمس يده فيھا ''( 7)
رسول خدا جب نماز صبح سے فارغ ہوجاتے تو مدينہ کے خادم پانی کے برتن لئے آنحضرتۖ کی خدمت ميں آتے تھے اور آپ ان سب برتنوں ميں اپنا ہاتھ ڈبو ديتے تھے بعض اوقات تو وه لوگ ٹھنڈک والی صبح ميں آنحضرت کی خدمت ميں پہنچ جاتے تھے ليکن پھربھی آنحضرت ان کے برتنوں ميں ہاتھ ڈبو ديتے تھے. ( 8)
گذشتہ دلائل کی روشنی ميں يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اوليائے الہی سے منسوب اشياء کو باعث برکت قرار دينا ايک جائز عمل ہے اور وه لوگ جو شيعوں پر اس عمل کی وجہ سے تہمت لگاتے ہيں وه توحيد اور شرک کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ نہيں پائے ہيں کيونکہ شر ک کے معنی يہ ہيں کہ خدا کی عبادت کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی خدا سمجھا جائے يا يہ عقيده ہو کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئيے گئے ہيں اور وه اپنے وجود اور صحيح بخاری، کتاب اشربہ ،مؤطا مالک جلد ١ ص ١٣٨ باب صلوة علی النبیۖ، اسدالغابة جلد ٥ ص ٩٠ ، مسند احمد جلد ٤ ص ٣٢ الاستيعاب (الاصابة) کے حاشيے ميں جلد ٣ ص ٦٣١ ، فتح الباری جلد ١ صفحہ ٢٨١ اور ٢٨٢ تاثير رکھنے ميں خدا سے بے نياز ہے. جبکہ شيعہ اوليائے الہی اور ان سے متعلق اشياء کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہيں اور وه اپنے اماموں اور دين کے پرچمداروں کے احترام اور ان سے سچی محبت کے اظہار کے لئے ان بزرگوں کو باعث برکت قرار دے کر ان سے فيض حاصل کرتے ہيں . شيعوں کا پيغمبر اسلامۖ اور ان کے اہل بيت ٪ کے حرم ميں جاکر ان کی ضريح مقدس کو بوسہ دينا يا حرم کے در وديوار کو مس کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پيغمبرخداۖ اور ان کی عترت کے عشق سے سرشار ہيں اور يہ عشق ہر انسان کی فطرت ميں پايا جاتا ہے اور يہ ايک انسانی محبت کاجذبہ ہے جو ہر محبتی انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے : اس
بارے ميں ايک شاعر کہتا ہے: أمر علیٰ الديار ديار سلمیٰ
اقبل ذاالجدار و ذالجدار ا
وما حُبّ الديار شغفن قلب
ولکن حُبّ مَن سکن الديارا
ميں جب سلمیٰ کے ديار سے گزرتا ہوں تو اس ديوار اور اس ديوار کے بوسے ليتا ہوناس ديار کی محبت نے ميرے دل کولبھايا نہيں ہے بلکہ اس ديار کے ساکن کی محبت نے ميرے قلب کو اسير کرليا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) سوره يوسف آيت: ٩٣
1) سوره يوسف آيت: ٩٣
2) سوره يوسف آيت: ٩٦
3) صحيح بخاری جزئ ٢ کتاب الحج باب تقبيل الحجر ص ١٥١ اور ص ١٥٢ طبع مصر
4) صحيح بخاری جلد ٣ باب مايجوز من الشروط ف الاسلام باب الشروط ف الجہاد والمصالحة ص ١٩٥
5) الاصابة جلد ١ خطبہ کتاب ص ٧ طبع مصر
6) تبرک الصحابہ (محمد طاہر مکی) فصل اول ص ٢٩ ترجمہ انصاری
7) صحيح مسلم جزء ٧ کتاب الفضائل باب قرب النبیۖ من الناس و تبرکھم بہ، ص ٧٩
8) مزيد معلومات کے لئے درج ذيل کتابوں کا مطالعہ فرمائيں
تبصرے