شيعوں کے نزديک يہ کيوں ضروری ہے کہ خليفہ کو خدا اور رسولۖ ہی معين فرمائيں؟
جواب: يہ واضح ہے کہ اسلام ايک ہميشہ رہنے والا عالمی دين ہے پيغمبر اسلامۖ کی حيات طيبہ ميں آپ ہی امت کے رہبر
اور ہادی تھے ليکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زياده لائق فرد ہو اسے امت اسلاميہ کی رہبری
سونپ دی جائے .
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ آيا پيغمبر اسلامۖ کے بعد خليفہ، نص کے ذريعہ معين کيا جائے گا(يعنی خدا اور رسول ہی اپنا
خليفہ معين فرمائيں گے )يا يہ کہ خلافت ايک انتخابی عہده ہے ؟ اس سلسلہ ميں چند نظريے پائے جاتے ہيں شيعوں کا اعتقاد
ہے کہ منصب خلافت نص کے ذريعہ معين ہوتا ہے يعنی يہ ضروری ہے کہ پيغمبراکرمۖ کا جانشين خدا کی جانب سے معين
کيا جائے .
جب کہ اہل سنت يہ عقيده رکھتے ہيں کہ منصب خلافت ايک انتخابی عہده ہے اور ضروری ہے کہ پيغمبرخداۖ کی امت،
مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ايک شخص کو خليفہ چن لے.
عصر رسالت کے حالات کا تجزيہ بتاتا ہے کہ خليفہ کو
نص کے ذريعہ معين ہونا چاہئے.
شيعہ علماء نے عقائد کی کتابوں ميں خليفہ کے نص کے ذريعہ معين کئے جانے کے بارے ميں بہت سے دلائل بيان کئے
ہيں ليکن وه دليل جسے يہاں بيان کيا جاسکتا ہے اور جس سے شيعوں کا عقيده بھی واضح ہوجاتا ہے وه عصر رسالت کے
حالات کا صحيح تجزيہ ہے.
عصر رسالت ميں اسلام کی داخلی اور خارجی سياست کا يہ تقاضا تھا کہ پيغمبر خداۖ کا جانشين خدا کی طرف سے خود
آنحضرتۖ کے ذريعہ معين کيا جائے کيونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تين بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ايران کی بادشاہت اور
منافقين حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطره لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتيں بھی
تقاضا کررہی تھيں کہ پيغمبر اسلام اپنا خليفہ معين کر کے ساری امت کو بيرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے ميں ايک
صف مينکھڑا کرديں اور اس طرح ملت اسلاميہ کو ان داخلی اختلافات سے بچاليں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا
موقع فراہم ہوسکتا ہے .
اس کی وضاحت
ان تين خطرناک طاقتوں ميں سے ايک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پيغمبراسلامۖ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک
فکر مند رہے ہجرت کے آٹھويں سال فلسطين کی سرزمين پرمسلمانوں اور روم کے عيسائيوں کے درميان پہلی جنگ ہوئی
تھی اس جنگ ميں اسلامی فوج کے تين کمانڈر ''جعفر طيار'' ''زيد بن حارثہ''اور ''عبدلله بن رواحہ'' شہيد ہوئے تھے اور
سپاه اسلام کو اس جنگ ميں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا .
کفار کے مقابلے ميں مسلمانوں کی اس شکست سے قيصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات
کاڈر رہتا تھا کہ کہيں وه اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائيں .
اسی وجہ سے پيغمبر اسلامۖ نے ہجرت کے نويں سال مسلمانوں کے ايک بڑے لشکر کو شام کے اطراف ميں بھيجا تھا اور
اراده يہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتۖ خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائيں گے اس درد و رنج والے سفر ميں
سپاه اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سياسی مقام و منصب دوباره مل گيا پيغمبر اسلام اس
فتح کے بعد بھی مطمئن نہيں ہوئے اور آپۖ نے اپنی بيماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قيادت ميں
شام کی طرف جانے کا حکم ديا.
عصر رسالت ميں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ايران کی بادشاہی تھی يہاں تک کہ ايران کے بادشاه نے انتہائی غصے
سے آنحضرتۖ کے خط کو پھاڑ ديا تھا اور آپۖ کے ايلچی کو توہين کے ساتھ باہر نکال ديا تھا اور نيز يمن کے گورنر کو
خط لکھا تھا کہ پيغمبر اسلامۖ کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت ميں انہيں قتل کرڈالے .
اگرچہ ايران کا بادشاه خسرو پرويز رسول خداۖ کے زمانے ہی ميں مر گيا تھا ليکن مدتوں سے ايران کے زير اقتدار رہنے
والے ملک يمن کا مسلمانوں کے ذريعہ استقلال حاصل کرلينا ايرانی بادشاہوں کو شديد ناگوار گزرا اس وجہ سے ايران کی
سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا ديکھنا برداشت کے قابل نہيں تھا .
مسلمانوں کو تيسرا خطره منافقين کے گروه سے تھا منافقوں کی ہميشہ سے يہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درميان تفرقہ
اندازی کے ذريعہ فتنہ و فساد پيدا کريں ان لوگوں کے نفاق اور کينہ کا اس بات سے بخوبی اندازه لگايا جاسکتا ہے کہ انہوں
نے تبوک سے مدينہ کے راستے ميں حضرت رسول اکرم کو قتل کرنے کا منصوبہ تيار کيا تھا يہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ
رسول خداۖ کی رحلت سے اسلام کی تحريک ختم ہوجائے گی اور وه لوگ آسوده خاطر ہوجائيں گے منافقين کے عزائم اور
ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجيد نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائده، انفال ، توبہ، عنکبوت،
احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حديد، منافقين اور حشر ميں ان کا تذکره فرمايا ہے.( 1)
اسلام کے ايسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی ميں کيا يہ صحيح تھا کہ رسول خداۖ تازه مسلمانوں کے دينی
اور سياسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشين معين نہ فرماتے؟
اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ يہ ضروری تھا کہ رسول خداۖ اپنے بعد اپنا
جانشين معين کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کرديتے اور ايک مستحکم دفاعی نظام تشکيل ديتے ہوئے اسلامی وحدت
کو دوام بخشتے اگر آنحضرت اپنا کوئی خليفہ معين نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شديد قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتيجة ہر گروه يہ کہنے لگتا کہ خليفہ ہم ميں سے ہونا چاہئے.
رسول خدا کی حديثيں
اجتماعی حالات کے تقاضوناور چند دوسری وجوہات کی بنياد پر آنحضرت نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے
آخری ايام تک اپنی جانشينی کے مسئلے کو بيان فرمايا ہے آپۖ نے دعوت ذوالعشيره ميں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمايا
وہيں اپنے جانشين کو بھی معين فرما ديا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ايام ميں حجة الوداع سے لوٹتے وقت
غدير خم کے ميدان ميں اپنے جانشين کا اعلان فرمايا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتۖ اپنی ساری زندگی
کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشين کی شناخت کراتے رہے مزيد تفصيلات کے لئے اسی کتاب ميں تيسرے سوال
کے جواب کا مطالعہ فرمائيں ہم نے وہاں پيغمبر اسلامۖ کی حديثونکے تين ايسے نمونے ذکر کئے ہيں جن ميں آنحضرت کے
جانشنين کا تذکره ہے وہاں ہم نے ان حديثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہيں .
صدر اسلام کے حالات اور پيغمبر اسلام کی ان حديثوں (جن ميں آنحضرت نے حضرت علی کو اپنا جانشين مقرر فرمايا
اور ہادی تھے ليکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زياده لائق فرد ہو اسے امت اسلاميہ کی رہبری
سونپ دی جائے .
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ آيا پيغمبر اسلامۖ کے بعد خليفہ، نص کے ذريعہ معين کيا جائے گا(يعنی خدا اور رسول ہی اپنا
خليفہ معين فرمائيں گے )يا يہ کہ خلافت ايک انتخابی عہده ہے ؟ اس سلسلہ ميں چند نظريے پائے جاتے ہيں شيعوں کا اعتقاد
ہے کہ منصب خلافت نص کے ذريعہ معين ہوتا ہے يعنی يہ ضروری ہے کہ پيغمبراکرمۖ کا جانشين خدا کی جانب سے معين
کيا جائے .
جب کہ اہل سنت يہ عقيده رکھتے ہيں کہ منصب خلافت ايک انتخابی عہده ہے اور ضروری ہے کہ پيغمبرخداۖ کی امت،
مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ايک شخص کو خليفہ چن لے.
عصر رسالت کے حالات کا تجزيہ بتاتا ہے کہ خليفہ کو
نص کے ذريعہ معين ہونا چاہئے.
شيعہ علماء نے عقائد کی کتابوں ميں خليفہ کے نص کے ذريعہ معين کئے جانے کے بارے ميں بہت سے دلائل بيان کئے
ہيں ليکن وه دليل جسے يہاں بيان کيا جاسکتا ہے اور جس سے شيعوں کا عقيده بھی واضح ہوجاتا ہے وه عصر رسالت کے
حالات کا صحيح تجزيہ ہے.
عصر رسالت ميں اسلام کی داخلی اور خارجی سياست کا يہ تقاضا تھا کہ پيغمبر خداۖ کا جانشين خدا کی طرف سے خود
آنحضرتۖ کے ذريعہ معين کيا جائے کيونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تين بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ايران کی بادشاہت اور
منافقين حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطره لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتيں بھی
تقاضا کررہی تھيں کہ پيغمبر اسلام اپنا خليفہ معين کر کے ساری امت کو بيرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے ميں ايک
صف مينکھڑا کرديں اور اس طرح ملت اسلاميہ کو ان داخلی اختلافات سے بچاليں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا
موقع فراہم ہوسکتا ہے .
اس کی وضاحت
ان تين خطرناک طاقتوں ميں سے ايک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پيغمبراسلامۖ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک
فکر مند رہے ہجرت کے آٹھويں سال فلسطين کی سرزمين پرمسلمانوں اور روم کے عيسائيوں کے درميان پہلی جنگ ہوئی
تھی اس جنگ ميں اسلامی فوج کے تين کمانڈر ''جعفر طيار'' ''زيد بن حارثہ''اور ''عبدلله بن رواحہ'' شہيد ہوئے تھے اور
سپاه اسلام کو اس جنگ ميں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا .
کفار کے مقابلے ميں مسلمانوں کی اس شکست سے قيصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات
کاڈر رہتا تھا کہ کہيں وه اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائيں .
اسی وجہ سے پيغمبر اسلامۖ نے ہجرت کے نويں سال مسلمانوں کے ايک بڑے لشکر کو شام کے اطراف ميں بھيجا تھا اور
اراده يہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتۖ خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائيں گے اس درد و رنج والے سفر ميں
سپاه اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سياسی مقام و منصب دوباره مل گيا پيغمبر اسلام اس
فتح کے بعد بھی مطمئن نہيں ہوئے اور آپۖ نے اپنی بيماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قيادت ميں
شام کی طرف جانے کا حکم ديا.
عصر رسالت ميں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ايران کی بادشاہی تھی يہاں تک کہ ايران کے بادشاه نے انتہائی غصے
سے آنحضرتۖ کے خط کو پھاڑ ديا تھا اور آپۖ کے ايلچی کو توہين کے ساتھ باہر نکال ديا تھا اور نيز يمن کے گورنر کو
خط لکھا تھا کہ پيغمبر اسلامۖ کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت ميں انہيں قتل کرڈالے .
اگرچہ ايران کا بادشاه خسرو پرويز رسول خداۖ کے زمانے ہی ميں مر گيا تھا ليکن مدتوں سے ايران کے زير اقتدار رہنے
والے ملک يمن کا مسلمانوں کے ذريعہ استقلال حاصل کرلينا ايرانی بادشاہوں کو شديد ناگوار گزرا اس وجہ سے ايران کی
سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا ديکھنا برداشت کے قابل نہيں تھا .
مسلمانوں کو تيسرا خطره منافقين کے گروه سے تھا منافقوں کی ہميشہ سے يہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درميان تفرقہ
اندازی کے ذريعہ فتنہ و فساد پيدا کريں ان لوگوں کے نفاق اور کينہ کا اس بات سے بخوبی اندازه لگايا جاسکتا ہے کہ انہوں
نے تبوک سے مدينہ کے راستے ميں حضرت رسول اکرم کو قتل کرنے کا منصوبہ تيار کيا تھا يہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ
رسول خداۖ کی رحلت سے اسلام کی تحريک ختم ہوجائے گی اور وه لوگ آسوده خاطر ہوجائيں گے منافقين کے عزائم اور
ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجيد نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائده، انفال ، توبہ، عنکبوت،
احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حديد، منافقين اور حشر ميں ان کا تذکره فرمايا ہے.( 1)
اسلام کے ايسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی ميں کيا يہ صحيح تھا کہ رسول خداۖ تازه مسلمانوں کے دينی
اور سياسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشين معين نہ فرماتے؟
اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ يہ ضروری تھا کہ رسول خداۖ اپنے بعد اپنا
جانشين معين کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کرديتے اور ايک مستحکم دفاعی نظام تشکيل ديتے ہوئے اسلامی وحدت
کو دوام بخشتے اگر آنحضرت اپنا کوئی خليفہ معين نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شديد قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتيجة ہر گروه يہ کہنے لگتا کہ خليفہ ہم ميں سے ہونا چاہئے.
رسول خدا کی حديثيں
اجتماعی حالات کے تقاضوناور چند دوسری وجوہات کی بنياد پر آنحضرت نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے
آخری ايام تک اپنی جانشينی کے مسئلے کو بيان فرمايا ہے آپۖ نے دعوت ذوالعشيره ميں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمايا
وہيں اپنے جانشين کو بھی معين فرما ديا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ايام ميں حجة الوداع سے لوٹتے وقت
غدير خم کے ميدان ميں اپنے جانشين کا اعلان فرمايا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتۖ اپنی ساری زندگی
کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشين کی شناخت کراتے رہے مزيد تفصيلات کے لئے اسی کتاب ميں تيسرے سوال
کے جواب کا مطالعہ فرمائيں ہم نے وہاں پيغمبر اسلامۖ کی حديثونکے تين ايسے نمونے ذکر کئے ہيں جن ميں آنحضرت کے
جانشنين کا تذکره ہے وہاں ہم نے ان حديثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہيں .
صدر اسلام کے حالات اور پيغمبر اسلام کی ان حديثوں (جن ميں آنحضرت نے حضرت علی کو اپنا جانشين مقرر فرمايا
ہے) کے مطالعے سے يہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خليفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معين ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- فروغ ابديت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)
تبصرے