آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 1
«اِنّما وَليّکم الله و رسوله والّذين آمنوا الّذين يقيمون الصّلوة و يؤتون الزّکاة و هم راکعون» (1) تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پيغمبر اور وہ ايمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہيں اور خيرات ديتے ہيں اس حالت ميں کہ وہ رکوع ميں ہيں- .(يہ آيت شريفہ ايسےحال ميں رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئي جب اميرالمؤمنين عليہ السلام نماز ميں مصروف تھے اور رکوع کي حالت ميں تھے اور اسي حالت ميں اپنے ہاتھ سے انگشتري اتار کر ايک ايسے شخص کو بعنوان صدقہ ديا جو محتاج تھا اور مدد مانگ رہا تھا)- وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ- (2) اور جو پيروي کرے اللہ اور اس کے رسول اور رکوع کي حالت ميں اس زکواۃ دينے والے کي، تو بلاشبہ اللہ کا لشکر ہي غالب آنے والا اور کامياب ہے- اسلامي فکر و عقيدے اور عقل کا تقاضا يہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک اور عالمين کے پروردگار کي اطاعت کرے کيونکہ اللہ ہي انسان کے تمام اسرار و رموز سے واقف اور اس کي مصلحتوں سے آگاہ ہے وہ انسان کا محتاج نہيں ہے اور انسان اور تمام موجودات اس چنانچہ انسان کي عقل اس کو خدا کي طرف بلاتي ہے؛ کيونکہ انسان اپني عمر کے آنے والے ايام سے بے خبر ہے اور وہ حتي عمر کے اگلے لمحے کي خبر بھي نہيں رکھتا اور وہ اپني زندگي کي تمام جزئيات کے لئے خدا کي ذات کا محتاج ہے؛ جبکہ دوسري طرف سے وہ خدا جس نے اس کو خلق فرمايا ہے حتي اپني مخلوق کے وجود کے چھوٹے سے چھوٹے راز سے آگاہ و باخبر ہے اور حتي کہ وہ اس کي حرکت کے مقصد و انجام کو بھي جانتا ہے
«اِنّما وَليّکم الله و رسوله والّذين آمنوا الّذين يقيمون الصّلوة و يؤتون الزّکاة و هم راکعون» (1)
تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پيغمبر اور وہ ايمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہيں اور خيرات ديتے ہيں اس حالت ميں کہ وہ رکوع ميں ہيں-
.(يہ آيت شريفہ ايسےحال ميں رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئي جب اميرالمؤمنين عليہ السلام نماز ميں مصروف تھے اور رکوع کي حالت ميں تھے اور اسي حالت ميں اپنے ہاتھ سے انگشتري اتار کر ايک ايسے شخص کو بعنوان صدقہ ديا جو محتاج تھا اور مدد مانگ رہا تھا)-
وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ- (2)
اور جو پيروي کرے اللہ اور اس کے رسول اور رکوع کي حالت ميں اس زکواۃ دينے والے کي، تو بلاشبہ اللہ کا لشکر ہي غالب آنے والا اور کامياب ہے-
اسلامي فکر و عقيدے اور عقل کا تقاضا يہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک اور عالمين کے پروردگار کي اطاعت کرے کيونکہ اللہ ہي انسان کے تمام اسرار و رموز سے واقف اور اس کي مصلحتوں سے آگاہ ہے وہ انسان کا محتاج نہيں ہے اور انسان اور تمام موجودات اس چنانچہ انسان کي عقل اس کو خدا کي طرف بلاتي ہے؛ کيونکہ انسان اپني عمر کے آنے والے ايام سے بے خبر ہے اور وہ حتي عمر کے اگلے لمحے کي خبر بھي نہيں رکھتا اور وہ اپني زندگي کي تمام جزئيات کے لئے خدا کي ذات کا محتاج ہے؛ جبکہ دوسري طرف سے وہ خدا جس نے اس کو خلق فرمايا ہے حتي اپني مخلوق کے وجود کے چھوٹے سے چھوٹے راز سے آگاہ و باخبر ہے اور حتي کہ وہ اس کي حرکت کے مقصد و انجام کو بھي جانتا ہے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 2
چنانچہ انسان کي عقل اس کے خدا کي درگاہ کي طرف ہي لے جاتي ہے؛ کيونکہ ان حقائق کے علاوہ وہ تمام امور و معاملات ميں وہ بے نياز مطلق اور غني مطلق ہے اور کسي بھي حوالے سے اپني مخلوقات کا ضرورتمند نہيں ہے چنانچہ وہ کسي صورت ميں بھي انسان کے لئے خير و خوبي کے سوا کچھ نہيں چاہتا- ليکن اسلامي عقيدے ميں يہ اطاعت صرف اطاعت الہي پر منحصر نہيں ہے؛ بلکہ خدا ہي کا فرمان ہے کہ ايک مسلمان کو تمام امور ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے وجودِ مبارک اور ائمۂ معصومين عليہم السلام کا مطيع و فرمانبردار ہونا چاہئے-
اس نظريئے کے مطابق پيروي، اطاعت اور متابعت بغير کسي قيد و شرط کے مطلق طور پر صرف ذات باري تعالي کے لئے مختص ہے اور ہم اسي کے حکم پر تمام امور ميں رسول اللہ اور ائمہ معصومين عليہم السلام کے پيروي کرتے ہيں- رسول اللہ (ص) اور ائمۂ معصومين عليہم السلام کا کلام اور ان کا طرز سلوک انسان کو اللہ تعالي کي رضا و خوشنودي کي طرف راہنمائي فراہم کرتے ہيں اور اللہ کي خوشنودي کا انجام انسان کي ابدي سعادت ہے- اس کي وجہ بھي يہ ہے کہ ان کے اعمال اور کلام ميں ہوي و ہوس کي کوئي گنجائش نہيں ہے اور وہ اللہ کے لطف و عنايت سے ہر قسم کي خطا اور غلطي سے معصوم ہيں-
اسلامي تعليمات کے مطابق انسان کو اللہ تعالي اور اللہ کے حکم سے رسول اللہ اور ائمہ معصومين صلوات اللہ عليہم اجمعين کے سوا کسي کي بھي مطلق طور پر اور اور قيد و شرط کے بغير، اطاعت نہيں کرني چاہئے-
جس طرح کہ اشارہ ہوا خدا اور معصومين عليہم السلام کي اطاعت و فرمانبرداري کا ابتدائي منشاء و مبدأ انساني عقل ہے ليکن آگے جاکر انساني عقليت کي معيت اللہ کي محبت پر منتج ہوتي ہے جو اس اطاعت کو کمال عطا کرتي ہے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 3
جب انسان اس بارے ميں سوچتا ہے، اپنے آپ کو اللہ کي رحمتوں اور نعمتوں ميں ڈوبا ہوا پاتا ہے- وہ اس حقيقت کا ادراک کرليتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ بھي سب اللہ کا ہے اور اللہ انسان کي بے انتہا نافرمانيوں کے باوجود اللہ کا فضل و کرم اور اس کي نعمتيں اور رحمتيں نہ صرف منقطع نہيں ہوئيں بلکہ لمحہ بہ لمحہ جاري و ساري ہيں؛ لہذا يہ انسان اسي عقليت کي برکت سے اس مہربان پروردگار کي اطاعت کي راہ پر گامزن رہنے کے لئے پہلے سے زيادہ کوشاں رہتا ہے؛ ايسے راستے پر جس کا انجام کمال و سعادت کے ساو کچھ بھي نہيں ہے-
اسلامي تعليمات کے مطابق ولايت کي حقيقت اور اس کا مجموعي مفہوم بھي اللہ اور معصومين کي اطاعت کے دائرے ميں ہي وصف و بيان ہے- دوسري جانب سے عمومي طور پر رسول اللہ اور ائمۂ معصومين ميں سے ہر ايک کے ساتھ مسلمانوں اور بطور خاص شيعيان آل محمد (ص) کا رابطہ و تعلق بھي بہت گہرا اور دوطرفہ ہے- اس محبت کے ايک طرف رسول اللہ (ص) اور ائمۂ معصومين ہيں جو ہر مسلم فرد کے لئے شفقت و مہرباني اور محبت کا نمونۂ کاملہ ہيں يہاں تک کہ ايک مسلمان کو پہنچنے والي معمولي سي تکليف بھي ان کے آزردگي اور رنج و تکليف کا سبب ہوتي ہے؛ اور اس حقيقت کي بے شمار مثاليں ہماري تاريخ کے صفحات پر ثبت ہيں ليکن دوسرے فريق کي حيثيت سے مسلمانان عالم بھي معصومين کے وجود ميں اخلاقي مکارم اور روحاني کمالات مجتمع ہونے کے پيش نظر، اپني جان و دل کي اتہاہ گہرائيوں سے ان سے عشق و محبت برتتے ہيں-
يہ گہرا دوطرفہ رشتہ اطاعت کي ايسي مثاليں قائم کرتا ہے کہ مسلمانان عالم نہ صرف رسول اللہ اور ائمۂ معصومين عليہم السلام کے کلام کے سامنے نہ صرف مطيع اور فرمانبردار ہيں بلکہ اپنے ذہن ميں ان کي اطاعت کے سلسلے ميں ذرہ برابر شک و تردد محسوس نہيں کرتے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 4
خدا کي طرف سے انسان کي ہدايت و سعادت کے لئے والے قرآن کريم ميں اللہ تعالي کي جانب سے حضرت رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور امام اول حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام کے مقام ولايت کے اثبات پر مبني متعدد دليليں بيان ہوئي ہيں جبکہ باقي گيارہ اماموں کي ولايت و امامت کي تأئيد و تصديق اللہ کے حکم سے رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ابلاغ سے ہوچکي ہے [وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى؛ اور وہ نفساني خواہشوں سے بات نہيں کرتا- نہيں ہوتي وہ مگر وحي جو بھيجي جاتي ہے]- (3)
ہم يہاں ان ہي آيات کريمہ ميں سے ايک آيت ميں غور و تفکر و تأمل کرتے ہيں؛ جس ميں مؤمنين پر ولايت کا مسئلہ بيان ہوا ہے اور خداوند متعال کے ساتھ ساتھ رسول اللہ (ص) اور اميرالمؤمنين (ع) کا مقام ولايت ثابت ہوچکا ہے- چنانچہ ہم ابتداء ميں اس آيت کے الفاظ و کلمات (4) کا الگ الگ، جائزہ ليتے ہيں اور اس کے بعد آيت شريفہ کي شأن نزول کا جائزہ ليتے ہيں اور آخر ميں آيت کے مختلف اقتباسات ميں مزيد غور و تدبر کرتے ہيں-
آيت کے الفاظ کا جائزہ:
إنّما
انما لسان العرب کا لفظ ہے جو انحصار ظاہر کرنے کے لئے بروئے کار لايا جاتا ہے؛ يعني يہ کہ بولنے والا يا خطاب کرنے والا شخص يہ لفظ بروئے کار لاکر اپنے کلام کو ايک خاص معني و مفہوم يا معينہ افراد و اشخاص ميں منحصر کرديتا ہے- بطور مثال اگر کہا جائے کہ "صرف اللہ ہمارا معبود ہے" تو اس کے معني يہ ہيں کہ الوہيت اور معبود ہونا صرف اللہ کي ذات ميں منحصر ہے اور باقي موجودات مقام الوہيت سے خارج ہوچکے ہيں- اس بنياد پر اور عربي زبان ميں اس لفظ کے استعمال کے قواعد و قوانين کے مطابق (جن کي طرف مزيد وضاحت کے حصے ميں اشارہ ہوا ہے) اس آيت کے آغاز ميں لفظ "انما" نے مقام ولايت کو خاص ذوات مقدسہ ميں منحصر کرديا ہے
انما لسان العرب کا لفظ ہے جو انحصار ظاہر کرنے کے لئے بروئے کار لايا جاتا ہے؛ يعني يہ کہ بولنے والا يا خطاب کرنے والا شخص يہ لفظ بروئے کار لاکر اپنے کلام کو ايک خاص معني و مفہوم يا معينہ افراد و اشخاص ميں منحصر کرديتا ہے- بطور مثال اگر کہا جائے کہ "صرف اللہ ہمارا معبود ہے" تو اس کے معني يہ ہيں کہ الوہيت اور معبود ہونا صرف اللہ کي ذات ميں منحصر ہے اور باقي موجودات مقام الوہيت سے خارج ہوچکے ہيں- اس بنياد پر اور عربي زبان ميں اس لفظ کے استعمال کے قواعد و قوانين کے مطابق (جن کي طرف مزيد وضاحت کے حصے ميں اشارہ ہوا ہے) اس آيت کے آغاز ميں لفظ "انما" نے مقام ولايت کو خاص ذوات مقدسہ ميں منحصر کرديا ہے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 5
بالفاظ ديگر آيت کے نزول کے وقت انما کا لفظ لاکر صرف تين ہستيوں کو مؤمنين کے لئے ولي قرار ديا گيا ہے پس اس آيت کے معني کو يوں ہونا چاہئے: "تمہارا "ولي" اور حاکم و سر پرست بس "صرف اور صرف" اللہ ہے اور اس کا پيغمبر ہيں اور وہي لوگ جو ايمان رکھتے ہيں، نماز ادا کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں خيرات و زكواة ديتے ہيں"-
انما کے بارے ميں تفصيل:
عربي زبان ميں ايک مفہوم بيان کرنے کے لئے بناوٹ اور ڈھانچے کے حوالے سے دو قسم کے جملے بروئے کار لائے جاسکتے ہيں؛ جملۂ اسميہ اور جملۂ فعليہ- جملۂ اسميہ وہ جملہ ہے جو "اسم" سے شروع ہوتا ہے اور جملۂ فعليہ وہ ہے جو فعل سے شروع ہوتا ہے- جملہ کي مختلف قسميں ہيں اور اس کي ہر قسم کے بعض اصلي اور بنيادي اصول اور ارکان ہوتے ہيں جن کے وسيلے سے جملہ معني کے لحاظ سے مکمل ہوجاتا ہے اور اگر اس جملے کا ايک حصہ حذف کيا جائے تو وہ جملہ معني کے لحاظ سے ناقص اور نامکمل رہے گا-
بولنے والا کلام سے اپنے مقصد کو مد نظر رکھ کر ان ارکان کو اپنے جملے کے مختلف حصوں ميں بروئے کار لاسکتا ہے اور ان کے استعمال کي ترتيب بدل سکتا ہے-
انما کا لفظ جملۂ اسميہ اور جملۂ فعليہ پر وارد ہوسکتا ہے اور اپنا مدعا جملے کے آخري رکن يا اس (انما) کے بعد اور دوسرے ارکان سے قبل آنے والے رکن ميں محصور کرديتا ہے- اب بحث کو زيادہ روشن اور قابل فہم بنانے کے لئے ايک مثال لاتے ہيں؛ فرض کريں کہ ايک آدمي کھڑا ہے جس کا نام "محمد" ہے؛ ہم يہ بات دو مختلف صورتوں ميں بيان کرسکتے ہيں:
1- يہ جو شخص کھڑا ہے يہ محمد ہے-
2- محمد کھڑا ہے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 6
گر اول الذکر جملے کے آغاز ميں لفظ "انما استعمال کيا جائے تو قيام (کھڑے ہونے کے عمل) کو محمد ميں محصور و منحصر کردے گآ اور اس جملے کے معني يہ ہونگے کہ "کھڑا ہونے والا فرد محمد کے سوا کوئي بھي نہيں" يعني کوئي اور کھڑا نہيں ہے)- ليکن مؤخر الذکر جملے کے شروع ميں انما سے استفادہ کيا جائے تو اس کے معني يوں ہونگے کہ "محمد صرف کھڑا ہے"، (يعني محمد کھڑے ہونے کے عمل کے سا کچھ بھي نہيں کررہا ہے)- ہماري اس آيت ميں بھي جملے کا آخري رکن ان افراد کا تعارف کرانا ہے جو مؤمنين پر ولايت رکھتے ہيں- نتيجہ يہ ہوگا کہ مذکورہ امور و قواعد کي بنا پر "انما" کا لفظ ولايت کو ان افراد پر منحصر کرديتا ہے اور آيت بيان کرتي ہے کہ "مؤمنين کے اولياء صرف اور صرف خدا، رسول (ص) اور مؤمنين ہيں جو نماز ادا کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں زکواة و صدقہ ديتے ہيں"-
لفظ "وليّ"
مفردات القرآن، لسان العرب وغيرہ جيسي کتب ميں اس لفظ کے لئے متعدد معاني بيان ہوئے ہيں جيسے داماد، حليف، دوست، حاکم و سرپرست اور يار و مددگار وغيرہ- مذکورہ معاني ميں سے بيشتر، اس آيت ميں بلکہ لفظ ولي پر مشتمل دوسري آيات مبارکہ بعض، لفظ "ولي" کي تشريح کے دوران، صحيح مفہوم نہيں پہنچاتے، مثال کے طور پر اگر ان معاني ميں سے ہم اول الذکر معني "داماد" کو ولي کے متبادل کے طور پر مدنظر رکھيں تو آيت کا ترجمہ يوں ہوگا: "صرف اللہ اور اس کا رسول اور حالت رکوع ميں زکواة دينے والے مؤمنين کے داماد ہيں!"، اور اس معني کي عدم صحت مکمل طور پر آشکار ہے؛ چنانچہ اسلامي مفسرين اور صاحبان رائے و نظر نے اس لفظ کو تين معاني ميں محدود کرديا ہے-
1- دوست
2- يار و ياور اور ناصر و مددگار
3- سرپرست اور صاحب اختيار
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 7
لفظ "زكواة"
زكواة يعني اللہ کي خوشنودي کي نيت سے مال عطاء کرنا؛ اور اس کے ايک معني، محتاجوں کو مال و دولت عطاء کرنے سے عبارت ہے؛ اور اس آيت ميں زکواة کا لفظ اسي معني ميں استعمال ہوا ہے-
لفظ "رکوع"
آيت شريفہ ميں لفظ "رکوع" سے پہلے نماز کي ادائيگي کا ذکر ہے (يقيمون الصلوة)، چنانچہ رکوع اس آيت ميں اسي مصطلح اور نماز ميں بجالائے جانے والے رکوع کے معني ميں آيا ہے جس کي باري قيام کے بعد آتي ہے اور يہ عمل جھکنے اور کرنش اور سرجھکانے کے ہيں-
رکوع کے بارے ميں توضيحِ مزيد
رکوع کے تين لغوي، اصطلاحي اور مجازي معاني ہيں- اس کے لغوي معني سر کے انحناء اور سر خم کرنے کے ہيں کہ رکوع کے اصطلاحي معني يہ ہيں کہ يہ عمل خدا کي قربت کي نيت سے نماز کے ضمن ميں اور نماز کے ايک عمل کے عنوان سے انجام پائے- بالفاظ ديگر رکوع کے اصطلاحي معني لغوي معني يعني خم ہونے اور جھکنے اور سر کے انحناء سے لئے گئے ہيں، فرق صرف اتنا ہے کہ چونکہ يہ نماز کا اصلي اور بنيادي رکن ہے اسي لئے اس کو قربت کي نيت سے بجا لانا ضروري ہے (قربت کي نيت کا مطلب يہ ہے کہ پوري توجہ اللہ کي جانب ہو اور کوئي عمل صرف اس کي خوشنودي کے لئے انجام پائے؛ کسي اور مقصد سے نہيں)- رکوع کے مجازي معني کسي فرد کي ذلت اور خضوع اور غيراللہ کے سامنے جھکنے اور کرنش بجالانے کے ہيں)-
ہم جب بھي کسي متن کا مطالعہ کرتے ہيں سب سے پہلے الفاظ کے لغوي معناي ہمارے ذہن ميں آتے ہيں اور اگر کوئي دليل اور قرينہ يا نشاني موجود ہو تو لفظ کے لغوي اور اصطلاحي معاني، دونوں ذہن ميں نقش ہوتے ہيں- قرآن کے الفاظ بھي ايسے ہي ہيں اور سب سے پہلے ان کے لغوي معاني کا جائزہ لينا پڑتا ہے اور اگر قرينہ اور دليل يا کوئي نشاني موجود ہو تو اس کے لغوي يا اصطلاحي معني کو مدنظر رکھتے ہيں
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 8
لفظ رکوع بھي اس قاعدے سے مستثني نہيں ہے اور ہم قرآن مجيد ميں جہاں بھي اس لفظ کا سامنا کرتے ہيں، ابتداء ميں اس کے لغوي معني کو مدنظر رکھتے ہيں- مثال کے طور پر جہاں نماز اور نمازگزاروں کي بحث ہوتي ہے چونکہ نماز قرينہ اور دليل ہے لہذا اس سے اصطلاحي معني مراد ہيں اور اگر کوئي اور قرينہ اور دليل ہو تو اس کے مجازي معني کو مدنظر رکھا جائے گا- اس آيت ميں بھي چونکہ آيت کے آغاز ميں نماز کي بات ہورہي ہے (يقيمون الصلوة) لہذا رکوع سے مراد وہي اصطلاحي معني ہيں جو نماز کے خاص عمل سے عبارت ہے- (5)
ابتداء ميں اشارہ ہوا کہ ولي کے تين معاني ہيں: 1- دوست، 2- ناصر و مددگار اور 3- سرپرست؛ اور ہم يہاں اول الذکر دو معاني (دوست اور ناصر و مددگار) کا جائزہ ليتے ہيں اور بعد ميں مؤخرالذکر اور سب سے بہتر اور مناسب معني (سرپرست اور حاکم) تک رسائي حاصل کريں-
1- دوست 2- ناصر (مددگار)
ان دو معاني کے پيش نظر آيت کا ترجمہ يوں ہوگا:
"تمہارا دوست يا ناصر و مددگار صرف خدا، اس کا پيغمبر اور وہ لوگ ہيں جو ايمان لائے وہي جو نماز کے رکوع ميں زکواة ديتے ہيں"-
ہم نے کہا کہ لفظِ "انما" حصر کے لئے استعمال ہوتا ہے- پس آيت کي ابتداء ميں لفظ انّما کے استعمال کے بموجب آيت کا مفہوم يہ ہے کہ "ہمارے دوست اور يار و مددگار صرف اللہ، رسول اور رکوع کي حالت ميں خيرات و صدقہ دينے والے ہيں لہذا ہمارا کوئي بھي اور دوست يا ناصر و مددگار نہيں ہونا چاہئے؛ اور مثال کے طور پر اللہ اور اس کے رسول (ع) کے بعد کسي ايسے شخص سے دوستي کا تصور ہي نہيں کرنا چاہئے جس نے حالت رکوع ميں زکواة نہ دي ہو اور اس کے بعد کسي کو بھي دوست و ناصر نہيں سمجھنا چاہئے
ابتداء ميں اشارہ ہوا کہ ولي کے تين معاني ہيں: 1- دوست، 2- ناصر و مددگار اور 3- سرپرست؛ اور ہم يہاں اول الذکر دو معاني (دوست اور ناصر و مددگار) کا جائزہ ليتے ہيں اور بعد ميں مؤخرالذکر اور سب سے بہتر اور مناسب معني (سرپرست اور حاکم) تک رسائي حاصل کريں-
1- دوست 2- ناصر (مددگار)
ان دو معاني کے پيش نظر آيت کا ترجمہ يوں ہوگا:
"تمہارا دوست يا ناصر و مددگار صرف خدا، اس کا پيغمبر اور وہ لوگ ہيں جو ايمان لائے وہي جو نماز کے رکوع ميں زکواة ديتے ہيں"-
ہم نے کہا کہ لفظِ "انما" حصر کے لئے استعمال ہوتا ہے- پس آيت کي ابتداء ميں لفظ انّما کے استعمال کے بموجب آيت کا مفہوم يہ ہے کہ "ہمارے دوست اور يار و مددگار صرف اللہ، رسول اور رکوع کي حالت ميں خيرات و صدقہ دينے والے ہيں لہذا ہمارا کوئي بھي اور دوست يا ناصر و مددگار نہيں ہونا چاہئے؛ اور مثال کے طور پر اللہ اور اس کے رسول (ع) کے بعد کسي ايسے شخص سے دوستي کا تصور ہي نہيں کرنا چاہئے جس نے حالت رکوع ميں زکواة نہ دي ہو اور اس کے بعد کسي کو بھي دوست و ناصر نہيں سمجھنا چاہئے
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 9
اس بات کي وضاحت ضروري نہيں ہے کہ قرآن کلام خدا ہے اور اس ميں خطا کي گنجائش نہيں ہے اور اس ميں کسي قسم کا تضاد نہيں ہے ليکن يہ دو معاني قرآني آيات کے منافي ہيں؛ ارشاد رباني ہے کہ "و إن استنصروکم في الدّين فعليکم النصر"؛ (6)
" اگر وہ تم سے کسي ديني مہم ميں مدد مانگيں تو تمہارا فرض ہے کہ مدد کرو".
اس آيت شريفہ سے ثابت ہے مدد کرنا اور نصرت کے لئے اقدام کرنا خاص افراد سے مختص نہيں ہے اور فرمايا جاتا ہے کہ "جو بھي تم سے دين کے لئے مدد مانگے اس کي مدد کرو"- « کمک کنيد همديگر را بر نيکو کاري و پرهيزکاري- »
اس آيت ميں بھي ايک دوسرے کي مدد کو نيکي اور تقوي پر منحصر قرار ديا گيا ہے اور ہر شخص پر فرض قرار ديا گيا ہے کہ وہ ہر تقوي اور نيکي کے کاموں ميں دوسروں کے ساتھ تعاون کرے اور يہ مدد و تعاون کسي خاص فرد يا چند خاص افراد سے مختص نہيں ہے-
"انّما المؤمنون إخوة" (6)
" مسلمان آپس ميں بھائي بھائي ہيں"-
خداوند متعال نے اس آيت ميں مؤمنين کو آپس ميں بھائي بھائي قرار ديا ہے اور واضح و آشکار ہے کہ اسلامي اخوت و برادري کا رشتہ دوستي کے رابطے سے کہيں زيادہ اہم ہے (اور اسلامي بھائي ناصر و مددگار سے بھي زيادہ اہم ہے)؛ پس کيونکر ممکن ہے کہ ہم صرف ان لوگوں ميں سے اپنے لئے دوست چن ليں جنہوں نے حالت رکوع ميں زکواة دي ہے اور صرف ان کو ناصر و مددگار سمجھ کر ان ہي سے مدد مانگيں؛ حالانکہ قرآن نے تمام مؤمنين کو بھائي بھائي قرار ديا ہے؟!
پس معلوم ہوتا ہے کہ ولي کے معني اس آيت ميں دوست يا ناصر و مددگار کے نہيں ہے کيونکہ دوست اور ناصر کے معني کلي ہيں اور خاص افراد سے مختص نہيں ہيں-
تبصرے