کيا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟
جواب:اس قسم کے سوال کا سبب قرآن مجيد کی وه آيتيں ہيں جو اپنے ظاہری معنی کے اعتبار سے غير خدا کو پکارنے سے روکتی ہيں:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (1)
اور مساجد سب لله کے لئے ہيں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.
وَلاتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لايَنْفَعُکَ وَلايَضُرُّکَ(2)
اور خدا کے علاوه کسی ايسے کو آواز نہ دو جو نہ فائده پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان.
بعض لوگ اس قسم کی آيتوں کو سند بنا کر يہ کہتے ہيں کہ اوليائے خدا اور صالحين کو ان کے اس دنيا سے چلے جانے کے بعد پکارنا شرک اور ان کی عبادت ہے.
اس سوال کے جواب ميں مناسب يہ ہے کہ سب سے پہلے ان دو کلمات ''دعا'' اور ''عبادت'' کے معنی واضح کردئے جائیں اس ميں شک نہيں کہ عربی زبان ميں لفظ دعا کے معنی ندا اور پکارنے کے ہيں اور لفظ عبادت کے معنی پرستش کے ہيں اس اعتبار سے يہ دونوں الفاظ ہرگز ہم معنی نہيں ہيں يعنی يہ نہيں کہا جاسکتا کہ ہر ندا اورطلب عبادت اور پرستش ہے اس کی مندرجہ ذيل دليليں ہيں :
١۔قرآن مجيد ميں لفظ دعوت بعض ايسی جگہوں پر استعمال ہوا ہے جہاں ہرگز يہ نہيں کہا جاسکتا کہ اس سے مراد عبادت ہے جيسے:
قَالَ رَبِّ نِّ دَعَوْتُ قَوْمِ لَيْلاً وَنَہَارًا ( 3)
انہوں نے کہا پروردگار ميں نے اپنی قوم کو دن ميں بھی بلايا اور رات ميں بھی.
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (1)
اور مساجد سب لله کے لئے ہيں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.
وَلاتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لايَنْفَعُکَ وَلايَضُرُّکَ(2)
اور خدا کے علاوه کسی ايسے کو آواز نہ دو جو نہ فائده پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان.
بعض لوگ اس قسم کی آيتوں کو سند بنا کر يہ کہتے ہيں کہ اوليائے خدا اور صالحين کو ان کے اس دنيا سے چلے جانے کے بعد پکارنا شرک اور ان کی عبادت ہے.
اس سوال کے جواب ميں مناسب يہ ہے کہ سب سے پہلے ان دو کلمات ''دعا'' اور ''عبادت'' کے معنی واضح کردئے جائیں اس ميں شک نہيں کہ عربی زبان ميں لفظ دعا کے معنی ندا اور پکارنے کے ہيں اور لفظ عبادت کے معنی پرستش کے ہيں اس اعتبار سے يہ دونوں الفاظ ہرگز ہم معنی نہيں ہيں يعنی يہ نہيں کہا جاسکتا کہ ہر ندا اورطلب عبادت اور پرستش ہے اس کی مندرجہ ذيل دليليں ہيں :
١۔قرآن مجيد ميں لفظ دعوت بعض ايسی جگہوں پر استعمال ہوا ہے جہاں ہرگز يہ نہيں کہا جاسکتا کہ اس سے مراد عبادت ہے جيسے:
قَالَ رَبِّ نِّ دَعَوْتُ قَوْمِ لَيْلاً وَنَہَارًا ( 3)
انہوں نے کہا پروردگار ميں نے اپنی قوم کو دن ميں بھی بلايا اور رات ميں بھی.
کيا يہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح کی مراد يہ تھی کہ ميں نے دن رات ان کی عبادت کی ہے. لہذا يہ نہيں کہا جاسکتا کہ دعوت (پکارنا ) اور عبادت ہم معنی کلمات ہينلہذا اگر کوئی شخص پيغمبراکرمۖ يا کسی اور صالح بندے سے مدد طلب کرے اور انہيں پکارے تو اس کا يہ عمل ان کی عبادت شمار نہيں کيا جائے گاکيونکہ دعوت کے معنی ميں پرستش کی بہ نسبت زياده عموميت ہے.
٢۔آيات کے اس مجموعے ميں دعا سے مراد ہر قسم کا پکارنا نہيں ہے بلکہ ايک خاص قسم کا پکارنا مقصود ہے جو کہ لفظ پرستش کا لازمہ ہوسکتا ہے کيونکہ يہ آيات ان بت پرستوں کے بارے ميں آئی ہيں جو اپنے بتوں کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے . اس ميں شک نہيں ہے کہ بت پرستوں کا خضوع ان کی دعا اور ان کی فرياد يہ سب ايسے بتوں کے مقابلے ميں تھا جنہيں وه حق شفاعت اور مغفرت کا مالک سمجھتے تھے ان کی نگاه ميں يہ بت دنيا اور آخرت کے امور ميں مستقل طور پر حق تصرف رکھتے تھے اب يہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شرائط کے ساتھ ان موجودات کو پکارنا اور ان سے کسی قسم کی التجا کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا کيونکہ وه ان کو خدا کی حيثيت سے پکارتے تھے اور اس کا
بہترين گواه درج ذيل آيت ہے:
وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (4)
عذاب کے آجانے کے بعد انکے وه خدا بھی کام نہ آئے جنہيں وه خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے
لہذا يہ آيتيں ہماری بحث سے کوئی ربط نہيں رکھتيں کيونکہ ہماری بحث کا موضوع ايک بندے کا دوسرے بندے سے کوئی التجا کرنا ہے جبکہ يہ بنده اسے نہ تواپنا خدا سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے دنيا و آخرت کے امور ميں اپنا مالک ، تام الاختيار يا تصرف کرنے والا مانتا ہے بلکہ اسے خدا کا ايسا معزز اور محترم بنده سمجھتا ہے جسے پروردگار عالم نے منصب رسالت يا امامت سے نوازا ہے اوروعده کيا ہے کہ اس کی دعا کو اپنے بندوں کے حق ميں قبول کرے گا اس سلسلے ميں خدا فرماتا ہے
وَلَوْ نَّہُمْ ذْ ظَلَمُوا نفُسَہُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (5)
اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق ميں استغفار کرتے تو يہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.
٣۔مذکوره آيات اس بات پر شاہد ہيں کہ دعوت سے مراد ہر قسم کی درخواست اور حاجت نہيں ہے بلکہ اس دعوت سے مراد پرستش ہے اسی لئے ايک آيت ميں لفظ دعوت کے بعد بلا فاصلہ اسی معنی کيلئے لفظ ''عبادت'' استعمال کيا گيا ہے
وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِ سْتَجِبْ لَکُمْ نَّ الَّذِينَ يَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِ سَيَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِينَ (6)
اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو ميں قبول کروں گا اور يقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وه عنقريب ذلت کے ساتھ جہنم ميں داخل ہوں گے.
جيسا کہ آپ نے ملاحظہ کيا اس آيت کے آغاز ميں لفظ ''ادعونی'' ہے اور اس کے ذيل ميں لفظ ''عبادتی'' آيا ہے يہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان آيتوں ميں لفظ دعوت سے مراد وه التجا و استغاثہ ہے جو ايسے موجودات سے کياجاتا ہے جنہيں وه خدا کی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔.
نتيجہ:ان گزشتہ تين مقدموں کی روشنی ميں ہم يہ نتيجہ نکالتے ہيں کہ ان آيات ميں قرآن مجيد کا بنيادی مقصد بت پرستوں کو بتوں کو پکارنے سے روکنا ہے وه بت کہ جنہيں وه خدا کا شريک يا مدبر يا صاحب شفاعت جانتے تھے.کفار کا ان بتوں کے سامنے ہر قسم کا خضوع اور احترام يا گريہ اور استغاثہ کرنا اور ان سے شفاعت کاطلب کرنا يا پھر ان سے اپنی حاجت طلب کرنا يہ سب اس وجہ سے تھا کہ وه ان بتوں کو چھوٹے خدا سمجھتے تھے اور انہيں خدا کے کاموں کو انجام دينے والا تصور کرتے تھے بت پرستوں کا يہ عقيده تھا کہ خدا نے دنيا اور آخرت کے متعلق بعض کام ان بتوں کو سونپ دئے ہيں اس اعتبار سے ان آيتوں کا ايک ايسے روح رکھنے والے انسان سے استغاثہ کرنے سے کيا تعلق ہے جو پکارنے والے کی نظرميں ذره برابر بھی بندگی کی حد سے باہر قدم نہيں رکھتا بلکہ اس کی نگاه ميں خداوندعالم کا محبوب و محترم بنده ہے .
اگر قرآن مجيد فرماتا ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (7)
''اور مساجد سب لله کے لئے ہيں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.''
تو اس سے مراد پرستش کے قصد سے پکارنا ہے کيونکہ زمانۂ جاہليت کے عرب بتوں ، ستاروں، فرشتوں، اور جنوں کی پوجاکيا کرتے تھے يہ آيت اور اس قسم کی دوسری آيتيں کسی شخص ياکسی شے کو معبود سمجھ کر پکارنے سے متعلق ہيں اور اس ميں شک نہيں کہ ان موجودات سے اس قسم کا عقيده رکھتے ہوئے کسی چيز کی درخواست کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا ليکن ان آيتوں کا کسی ايسے شخص سے دعا کرنے سے کوئی تعلق نہيں ہے جس کے سلسلے ميں دعا کرنے والا شخص اس کی ربوبيت يا الوہيت کا قائل نہيں ہے بلکہ اس شخص کو خدا کا بہترين اور محبوب بنده سمجھتا ہے؟ ممکن ہے کوئی يہ تصور کرے کہ اوليائے خدا کو صرف ان کی زندگی ميں پکارنا جائز ہے اور ان کے اس دنيا سے چلے جانے کے بعد انہيں پکارنا شرک ہے.
اس سوال کے جواب ميں ہم کہيں گے:
١۔ہم خاک ميں سونے والے جسموں سے مدد نہيں مانگتے ہيں بلکہ ايسے نيک بندوں کی پاک ارواح (جيسے پيغمبرۖ اور اماموں) سے مدد مانگتے ہينجو قرآنی آيات کی صراحت کے مطابق زنده ہيں اور شہداء سے بھی بلند وبالا مقام و منزلت کے ساتھ برزخ کی زندگی گزار رہے ہيں اور اگر ہم ان کی قبروں پر جاکر ان سے اس طرح کی درخواستيں کرتے ہيں تو يہ اس وجہ سے ہے کہ يہاں آکر ہم ان کی مقدس ارواح کی طرف متوجہ ہوتے ہيں اور ان سے رابطہ قائم کرتے ہيں اس سے بڑھ کر يہ کہ روايات کے مطابق يہ مقدس مقامات وه ہيں جہاں دعائيں قبول ہوتی ہيں.
٢۔ان اوليائے الہی کابقيد حيات ہونا يا حيات سے متصف نہ ہونا شرک يا توحيد کی شناخت کا معيار نہيں ہے اور ہماری گفتگو شرک اور توحيد کے معيار کے بارے ميں ہے ليکن ان کو پکارنافائده مند ہے يا نہيں؟تو يہ ہماری گفتگو سے خارج ہے. البتہ اس مسئلے (کہ کيا اس قسم کے استغاثے فائده مند ہيں؟) کے بارے ميں گفتگو اس کی مناسب جگہ پر موجود ہے۔
.............
1)سوره جن آيت : ١٨
2)سوره يونس آيت : ١٠
٢۔آيات کے اس مجموعے ميں دعا سے مراد ہر قسم کا پکارنا نہيں ہے بلکہ ايک خاص قسم کا پکارنا مقصود ہے جو کہ لفظ پرستش کا لازمہ ہوسکتا ہے کيونکہ يہ آيات ان بت پرستوں کے بارے ميں آئی ہيں جو اپنے بتوں کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے . اس ميں شک نہيں ہے کہ بت پرستوں کا خضوع ان کی دعا اور ان کی فرياد يہ سب ايسے بتوں کے مقابلے ميں تھا جنہيں وه حق شفاعت اور مغفرت کا مالک سمجھتے تھے ان کی نگاه ميں يہ بت دنيا اور آخرت کے امور ميں مستقل طور پر حق تصرف رکھتے تھے اب يہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شرائط کے ساتھ ان موجودات کو پکارنا اور ان سے کسی قسم کی التجا کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا کيونکہ وه ان کو خدا کی حيثيت سے پکارتے تھے اور اس کا
بہترين گواه درج ذيل آيت ہے:
وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (4)
عذاب کے آجانے کے بعد انکے وه خدا بھی کام نہ آئے جنہيں وه خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے
لہذا يہ آيتيں ہماری بحث سے کوئی ربط نہيں رکھتيں کيونکہ ہماری بحث کا موضوع ايک بندے کا دوسرے بندے سے کوئی التجا کرنا ہے جبکہ يہ بنده اسے نہ تواپنا خدا سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے دنيا و آخرت کے امور ميں اپنا مالک ، تام الاختيار يا تصرف کرنے والا مانتا ہے بلکہ اسے خدا کا ايسا معزز اور محترم بنده سمجھتا ہے جسے پروردگار عالم نے منصب رسالت يا امامت سے نوازا ہے اوروعده کيا ہے کہ اس کی دعا کو اپنے بندوں کے حق ميں قبول کرے گا اس سلسلے ميں خدا فرماتا ہے
وَلَوْ نَّہُمْ ذْ ظَلَمُوا نفُسَہُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (5)
اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق ميں استغفار کرتے تو يہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.
٣۔مذکوره آيات اس بات پر شاہد ہيں کہ دعوت سے مراد ہر قسم کی درخواست اور حاجت نہيں ہے بلکہ اس دعوت سے مراد پرستش ہے اسی لئے ايک آيت ميں لفظ دعوت کے بعد بلا فاصلہ اسی معنی کيلئے لفظ ''عبادت'' استعمال کيا گيا ہے
وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِ سْتَجِبْ لَکُمْ نَّ الَّذِينَ يَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِ سَيَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِينَ (6)
اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو ميں قبول کروں گا اور يقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وه عنقريب ذلت کے ساتھ جہنم ميں داخل ہوں گے.
جيسا کہ آپ نے ملاحظہ کيا اس آيت کے آغاز ميں لفظ ''ادعونی'' ہے اور اس کے ذيل ميں لفظ ''عبادتی'' آيا ہے يہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان آيتوں ميں لفظ دعوت سے مراد وه التجا و استغاثہ ہے جو ايسے موجودات سے کياجاتا ہے جنہيں وه خدا کی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔.
نتيجہ:ان گزشتہ تين مقدموں کی روشنی ميں ہم يہ نتيجہ نکالتے ہيں کہ ان آيات ميں قرآن مجيد کا بنيادی مقصد بت پرستوں کو بتوں کو پکارنے سے روکنا ہے وه بت کہ جنہيں وه خدا کا شريک يا مدبر يا صاحب شفاعت جانتے تھے.کفار کا ان بتوں کے سامنے ہر قسم کا خضوع اور احترام يا گريہ اور استغاثہ کرنا اور ان سے شفاعت کاطلب کرنا يا پھر ان سے اپنی حاجت طلب کرنا يہ سب اس وجہ سے تھا کہ وه ان بتوں کو چھوٹے خدا سمجھتے تھے اور انہيں خدا کے کاموں کو انجام دينے والا تصور کرتے تھے بت پرستوں کا يہ عقيده تھا کہ خدا نے دنيا اور آخرت کے متعلق بعض کام ان بتوں کو سونپ دئے ہيں اس اعتبار سے ان آيتوں کا ايک ايسے روح رکھنے والے انسان سے استغاثہ کرنے سے کيا تعلق ہے جو پکارنے والے کی نظرميں ذره برابر بھی بندگی کی حد سے باہر قدم نہيں رکھتا بلکہ اس کی نگاه ميں خداوندعالم کا محبوب و محترم بنده ہے .
اگر قرآن مجيد فرماتا ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (7)
''اور مساجد سب لله کے لئے ہيں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.''
تو اس سے مراد پرستش کے قصد سے پکارنا ہے کيونکہ زمانۂ جاہليت کے عرب بتوں ، ستاروں، فرشتوں، اور جنوں کی پوجاکيا کرتے تھے يہ آيت اور اس قسم کی دوسری آيتيں کسی شخص ياکسی شے کو معبود سمجھ کر پکارنے سے متعلق ہيں اور اس ميں شک نہيں کہ ان موجودات سے اس قسم کا عقيده رکھتے ہوئے کسی چيز کی درخواست کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا ليکن ان آيتوں کا کسی ايسے شخص سے دعا کرنے سے کوئی تعلق نہيں ہے جس کے سلسلے ميں دعا کرنے والا شخص اس کی ربوبيت يا الوہيت کا قائل نہيں ہے بلکہ اس شخص کو خدا کا بہترين اور محبوب بنده سمجھتا ہے؟ ممکن ہے کوئی يہ تصور کرے کہ اوليائے خدا کو صرف ان کی زندگی ميں پکارنا جائز ہے اور ان کے اس دنيا سے چلے جانے کے بعد انہيں پکارنا شرک ہے.
اس سوال کے جواب ميں ہم کہيں گے:
١۔ہم خاک ميں سونے والے جسموں سے مدد نہيں مانگتے ہيں بلکہ ايسے نيک بندوں کی پاک ارواح (جيسے پيغمبرۖ اور اماموں) سے مدد مانگتے ہينجو قرآنی آيات کی صراحت کے مطابق زنده ہيں اور شہداء سے بھی بلند وبالا مقام و منزلت کے ساتھ برزخ کی زندگی گزار رہے ہيں اور اگر ہم ان کی قبروں پر جاکر ان سے اس طرح کی درخواستيں کرتے ہيں تو يہ اس وجہ سے ہے کہ يہاں آکر ہم ان کی مقدس ارواح کی طرف متوجہ ہوتے ہيں اور ان سے رابطہ قائم کرتے ہيں اس سے بڑھ کر يہ کہ روايات کے مطابق يہ مقدس مقامات وه ہيں جہاں دعائيں قبول ہوتی ہيں.
٢۔ان اوليائے الہی کابقيد حيات ہونا يا حيات سے متصف نہ ہونا شرک يا توحيد کی شناخت کا معيار نہيں ہے اور ہماری گفتگو شرک اور توحيد کے معيار کے بارے ميں ہے ليکن ان کو پکارنافائده مند ہے يا نہيں؟تو يہ ہماری گفتگو سے خارج ہے. البتہ اس مسئلے (کہ کيا اس قسم کے استغاثے فائده مند ہيں؟) کے بارے ميں گفتگو اس کی مناسب جگہ پر موجود ہے۔
.............
1)سوره جن آيت : ١٨
2)سوره يونس آيت : ١٠
3) سوره نوح آيت: ٥
4) سوره ہود آيت : ١٠
5) سوره نساء آيت: ٦٤
6) سوره غافر آيت ٦٠
7 )سوره جن آيت : ١٨
تبصرے