مسئلہ سب و شتم


مسئلہ سب و شتم


میں نے ضروری آثار و شواہد کے ساتھ اس امر کا پورا ثبوت فراہم کر دیا تھا کہ سب علی کی مہم کا آغاز امیر معاویہ نے کیا تھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد تک یہ پورے زور شور سے جاری رہی تھی۔ مگر مجھے سخت حیرت ہے کہ مدیر البلاغ نے پھر میری باتوں کو غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے اور میں بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ دوبارہ مجبورا اس تکلیف دہ موضوع پر کلام کر رہا ہوں۔ انہوں نے میری تردید کرتے ہوئے پہلے اس روایت کا حوالہ دیا ہے جو میں نے البدایہ سے نقل کی تھی اور جس میں یہ مذکور ہے کہ امیر معاویہ نے حضرت سعد ابن ابی وقاص کے سامنے حضرت علی کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد مسلم کی جو روایت میں نے درج کی ہے، اسے دوبارہ نقل کیا ہے جو یوں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
اس روایت کا ترجمہ بھی میرے الفاظ میں مولانا محمد تقی صاحب نے دے دیا ہے اور وہ یہ ہے

“ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کو حکم دیا، پھر کہا کہ آپ کو کس چیز نے روکا ہے کہ آپ ابو تراب [ حضرت علی] پر سب و شتم کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ان تین ارشادات کو یاد کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کے متعلق فرمائے تھے تو میں ہرگز ان پر سب و شتم نہیں کر سکتا۔”
اس روایت کا انگلش ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں عبدالحمید صدیقی صاحب نے " سِب" کا ترجمہ ABUSING ہی کیاگیا ہے۔
Sahih Muslim,Book 031, Number 5915:

abusingAbu Turab (Hadrat 'Ali), whereupon be said: It is because of three things which I remember Allah's Messenger (may peace be upon him) having said about him that I would notabusehim....

عبدالحمید صدیقی صاحب کا یہ ترجمہ حصہ ہےUSC-MSA Compendium of Muslim Textsکا اور انتہائی معتبر مانے جانے والا ترجمہ ہے۔
صحیح مسلم میں اس ایک جگہ نہیں، بلکہ بے تحاشہ جگہ " سِب" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اور ہر ہر جگہ اسکا ترجمہ Abusing کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ‏"‏
abusing(‏ سِبَابُ)a Muslim is an outrage and fighting against him is unbelief.

Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman:

شَتْمُالرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْيَشْتِمُالرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ ‏"‏ نَعَمْيَسُبُّأَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ ‏
مختصرا صحیح مسلم میں بے تحاشہ اور جگہ پر سِب و شتم کے الفاظ آئے ہیں اور ہر جگہ انکا ترجمہ Abusing ہی کیا گیا ہے۔ اب اگر مفتی تقی عثمانی صاحب بنی امیہ کی محبت میں ان سب کو ہضم کر جانا چاہیں تو ان کو اس میں فقط بدہضمی کا ہی شکار ہونا پڑے گا۔
صحیح بخاری انگریزی ترجمہ جو سعودیہ میں مکہ و مدینہ کےمترجمین نے کیا ہے( ڈاکٹر محسن خان اور انکے رفقاء ):اور صحیح بخاری میں بھی بے تحاشہ جگہ " سِب" کا لفظ آیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے ان سعودی مترجمین نے ہر ایک جگہ پر لفظ Abusing ہی کیا ہے۔مثلا:
Sahih Bukhari, Volume 3, Book 47, Number 755:
They then sent Zainab bint Jahsh who went to him and used harsh words saying, "Your wives request you to treat them and the daughter of Ibn Abu Quhafa on equal terms." On that she raised her voice and abused 'Aisha to her face so much so that Allah's Apostle looked at 'Aisha to see whether she would retort. 'Aisha started replying to Zainab till she silenced her. The Prophet then looked at 'Aisha and said, "She is really the daughter of Abu Bakr."
صحیح بخاری کے اس انگلش ترجمہ میں ہر جگہ آپ کو " سب" کے لیے Abusing کا استعمال ہی ملے گا۔

اس پر مولانا عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ “سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ترجمہ کو درست مان لیا جائے تب بھی اس کی روشنی میں اس قول کی دلیل کیسے مل گئی کہ حضرت معاویہ خطبوںمیں برسر منبر حضرت علی پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے؟”

بہتر ہوتا کہ عثمانی صاحب میرے غلط ترجمے کے ساتھ اپنا درست ترجمہ بھی درج فرما دیتے، اس کے بغیر آخر میری غلطی کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر میری اس ایک پیش کردہ روایت پر یہ سوال کتنا عجیب و غریب ہے کہ اس میں خطبوں میں برسرِ منبر سب و شتم کا ثبوت کیسے ملتا ہے؟ کیا میں نے سب و شتم کے ثبوت میں بس یہی ایک یا دو روایتیں نقل کی تھیں؟ میں نے تو فتح الباری، مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، تاریخ طبری، البدایہ، الکامل اور دیگر کتب کے متعدد حوالوں سے یہ بات نہایت صراحت و وضاحت سے ثابت کر دی تھی کہ حضرت معاویہ اور آپ کے گورنر برسر منبر سب و شتم کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر دلائل و شواہد کا مطالبہ بدستور قائم ہے تو میں اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ مگر میں یہاں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ اس سب و شتم کے نقوش اوراق تاریخ پر اتنے جلی اور نمایاں عنوان کے ساتھ ثبت ہیں کہ ان کے لیے کسی حوالے کا اندراج تکلف سے کم نہیں ہے۔ مورخین اسے ایک مسلمہ واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہیں اور مولانا مودودی یا میرے لیے یہ ضروری ہی نہ تھا کہ اس کے لیے کوئی حوالہ دیتے۔ جو پہلے دیے گئے یا اب دیے جائیں گے وہ تبرعا دیے جائیں گے۔ متعدد اہل علم نے اس سب و شتم کی رسم کو بطور ایک بدیہی واقعہ کے بیان کیا ہے اور بعض نے اس کے لیے کسی حوالے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ میں یہاں اس کی چند مثالیں پیش کیے دیتا ہوں۔ مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی اپنی کتاب “تاریخ اسلام” جلد دوم طبع پنجم، صفحہ 13 پر لکھتے ہیں

“ امیر معاویہ نے اپنے زمانے میں برسر منبر حضرت علی پر سب و شتم کی مذموم رسم جاری کی تھی اور ان کے تمام عمال اس رسم کو ادا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے، لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مذموم بدعت سے نہ بچ سکے۔ حجر بن عدی اور ان کی جماعت کو قدرتا اس سے تکلیف پہنچتی تھی۔۔۔ مغیرہ بن شعبہ کے بعد زیاد کے زمانہ میں بھی یہ رسم جاری رہی۔”

مشہور مصری عالم و مورخ استاذ محمد ابو زہرہ اپنی تصنیف “تاریخ المذاہب الاسلامیہ” الجز الاول صفحہ 38 پر لکھتے ہیں

“ اور بنو امیہ کا عہد حضرت علی کی قدر و منزلت اور تعظیم و تکریم میں مزید اضافہ کا موجب ثابت ہوا کیونکہ امیر معاویہ نے اپنے زمانے میں ایک بُری سُنت قائم کی جو ان کے بعد کے جاننشینوں نے بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد تک جاری رکھی۔ یہ سنت یہ تھی کہ امام ہدی علی ابن ابی طالب پر خطبہ جمعہ کے آخر میں لعنت کی جاتی تھی۔ دوسرے صحابہ کرام نے اس پر نکیر کی اور امیر معاویہ اور آپکے گورنروں کو اس سے منع کیا۔ حتی کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے امیر معاویہ کی طرف خط لکھا جس میں اس فعل سے باز رہنے کو کہا اور اس میں لکھا کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر برسر منبر لعن طعن کرتے ہو اور یہ اس طرح کہ علی ابن ابی طالب پر اور جنہوں نے ان سے محبت کی ان پر لعنت بھیجتے ہو۔ اور میں اس کی گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت علی محبوب تھے۔”

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب:یہاں محمد ابو زہرہ نے بھی سنت کا لفظ استعمال کیا ہے اور سب علی کے ضمن میں جو اقوال میں نے حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن حجر مکی کے نقل کیے ہیں انہوں نے بھی اس طریقے کو سنت لکھا ہے۔ اب یہ کیسی اور کس کی سنت ہے، اس کو ہر شخص بآسانی خود سمجھ سکتا ہے۔]

مشہور مورخ ابو الفداء عماد الدین اسماعیل شافعی ( وفات 733) جو حماۃ شام کے والی تھے اور الملک الموید کے لقب سے معروف تھے، وہ اپنی تاریخ المختصر فی اخبار البشر میں امیر معاویہ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں “ معاویہ اور ان کے گورنر جمعہ کے خطبے میں حضرت عثمان کے حق میں دعا کرتے تھے اور حضرت علی پر سب و شتم اور ان کی بدگوئی کرتے تھے۔” [ المختصر فی اخبار البشر جلد 2 طبع بیروت]
آگے چل کر ابو الفداء عمر بن عبدالعزیز کے سوانھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
“ خلفائے بنی امیہ نے 41 ؁ سے حضرت علی پر سب و شتم کا آغاز کیا اور یہ وہ سال ہے جب حضرت حسن خلافت سے دست بردار ہوئے۔ یہ سلسلہ 99 ؁ ہجری کے اوائل تک جاری رہا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسکا خاتمہ کیا۔ [ المختصر، الجز الثانی صفحہ 120]

امام ابن حزم اندلسی اپنی تصنیف “جوامع السیرۃ” کے ساتھ ملحقہ رسالہ “اسماء الخللفاء والولاۃ” میں بنو عباس کا ذکر کرتے ہوئے پہلے تو انکی مذمت کرتے ہیں، پھر فرماتے ہیں
“ مگر بنو عباس نے صحابہ کرام ؓ میں سے کسی پر علانیہ سب و شتم نہیں کیا۔ اس کے برعکس بنو امیہ نے ایسے گورنر مقرر کیے جو علی بن ابی طالب اور آپ کے صاحبزادگان بنی فاطمۃ الزہراء پر لعنت کرتے تھے۔ ان سب کا یہی حال تھا سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز اور یزید بن ولید کے کہ ان دونوں نے اس لعن طعن کی اجازت نہیں دی۔” [ جوامع السیرۃ لابن حزم، تحقیق و مراجعۃ احمد محمد شاکر، دار المعارف مصر صفحہ 266]

ڈاکٹر عمر فروخ ایک مشہور اور کثیر التصنیف عالم ہیں۔ مجمع اللغتۃ العربیہ، قاہرہ، الجمع العلمی العربی دمشق، جمیعت بحوث الاسلامیہ ہند وگیرہ کے رکن ہیں۔ انہوں نےحضرت عمر بن عبدالعزیز کی سیرت “الخلیفۃ الزاہد” کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں ایک مستقل فصل “بدعت معاویہ” کے زیر عنوان ہے۔ اس بدعت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

“ عہد بنی امیہ میں ایک بدعت رائج ہوئی۔ یہ ایک شرمناک بدعت تھی جس نے سر اٹھایا اور چہار سُو پھیل گئی۔ حتی کہ اس نے ہر منبر کو پامال کیا اور ہر شخص کی سمع خراشی کی۔ یہ بدعت مسجد نبوی، منبر رسول اور اہل بیت پر حملہ آور ہونے سے بھی باز نہ رہ سکی۔ اس کا آغاز امیر معاویہ نے کیا تھا اور اپنے گورنروں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ وہ اسے جمعہ کے خطبوں میں مستقل طور پر اختیار کریں۔”

مصنف موصوف نے تین صفحات میں سب و شتم کی اس مہم کو تفصیلا بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کا گمان یہ تھا کہ اس طرح ان کی سلطنت مستحکم ہو گی اور اہلبیت کی عظمت و عقیدت ختم ہو گی۔ پھر لکھتے ہیں

“ امیر معاویہ کا ییہ خیال غلط ثابت ہوا اور انہوں نے اس بردباری سے تجاوز کیا جس کی وہ شہرت رکھتے تھے۔ اس بدعت کا نتیجہ ان کے گمان اور رائے کے خلاف برآمد ہوا۔”

شیخ محمد بن احمد السفارینی الحنبلی اپنی کتاب لوامع الانوار البہیہ و سواطع الاسرار الاثریہ کے صفحہ 239 پر فرماتے ہیں کہ حضرت علی کے مناقب و فضائل احادیث میں اس وجہ سے بکثرت مروی ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو اس عظیم اختلاف و ابتلاء پر مطلع فرما دیا تھا جس سے حضرت علیؓ آگے چل کر دوچار ہونے والے تھے، اس لیے نھضور ﷺ نے امت کی نصح و خیر خواہی کے پیش نظر فضائل علی کو بیان فرما دیا کہ امت ان سے تمسک کر کے نجات ھاصل کرے۔ چنانچہ جب بنو امیہ نے منابر پر حضرت علیؓ کی سب و تنقیص کی مہم چلائی اور خوارج نے بھی ان کی ہمنوائی کی، اس وقت محدثین کرام نے آنحضور ﷺ کے ارشاد فرمودہ مناقب علی کو کھول کھول کر بیان کیا اور حمایتِ حق کا سامان فراہم کیا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی صاحب: یہ تقریبان وہی مضمون ہے جو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں درج کیا ہے اور جسے پہلے نقل کیا جا چکا ہے۔ حضرت علیؓ پر سب و شتم کے ثبوت میں متعدد دیگر اقوال آگے “عدالت صحابہ” اور “مروان اور اس کا باپ “کے زیر عنوان مضامین میں بھی ملیں گے۔ بعض حوالے آگے باب ہفتم میں درج ہیں جن میں سے ایک خود محمد تقی صاحب کے بھائی کی مطبوعہ کتاب کا ہے۔]

میں نے البدایہ کی روایت نقل کی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ امیر معاویہ نے حضرت سعد ابن ابی وقاص کے سامنے نجی مجلس میں حضرت علی کو بُرا بھلا کہا تھا اور لکھا تھا کہ ایک طرح سے پرائیویٹ مجلس میں سب و شتم اپنے ساتھ اغتیاب ( غیبت ) کو بھی جمع کر لیتا ہے۔ اس سے بھی مدیر البلاغ نے دو نکتے پیدا کر لیے ہیں۔ ایک یہ کہ ممبر پر سب و شتم اغتیاب کیوں نہیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تم نے گویا پرائیویث مجلس میں برائی کرنے کو زیادہ مذموم سمجھا، حالانکہ مولانا مودودی تو یہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں یہ فعل زیادہ گھناؤنا ہے۔ اگر اس طرح کے لاطائل معارضات کا جواب بھی ضروری ہے، تو میرا جواب یہ ہے کہ حضرت علی جب کوفے میں تھے تو شام کے منبروں پر انہیں کوسنا اور حضرت علی کی وفات کے بعد ان پر سب و شتم کرنا یہ بلاشبہ غیبت تھا اور اس حد تک مجھے عثمانی صاحب کے نکتہ اولی سے پورا اتفاق ہے۔ لیکن جیسا کہ میں ابن حجر مکی کے حوالے سے آئندہ نقل کروں گا اور مولانا مودودی البدایہ وغیرہ کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ امیر معاویہ کا گورنر مروان حضرات حسنین کو اور ان کے والد ماجد کو خطبہ جمعہ میں گالیاں دیتا تھا، اسے غیبت کہنا تو مشکل ہے البتہ اس میں غیبت کا قبیح پہلو اگر مفقود ہے تو اس کے بجائے یہ مذموم پہلو موجود ہے کہ خطبہ جمعہ کو ایسی آلودگی سے ملوث کیا جائے۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے زیادہ برا کام کونسا ہے۔ میرے نزدیک دونون ہی اپنی شناخت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں میری بات اور مولانا مودودی کی بات میں تفاوت و اختلاف ہے تو چلیے یوں ہی سہی۔ میں نے یہ کب کہا ہے کہ مجھے مولانا کی ہر بات سے کلی اتفاق ہے۔

اُردو اور عربی والا سب و شتم

میں نے کتب حدیث میں سے سِب علی کا جو قطعی ثبوت پیش کیا تھا، ا س سے صریح انکار کی گنجائش چونکہ نہیں ہے، اس لیے مدیر البلاغ نے اس کے بالواسطہ انکار کے لیے استدلال کا ایک دوسرا پہلو اختیار کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اردو میں لفظ سب و شتم جس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے عربی میں نہیں ہوتا۔ عربی میں معمولی سے اعتراض یا تغلیط کو بھی لفظ سب سے تعبیر کر دیتے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں انہوں نے صحیح مسلم کی ایک حدیث پیش کی ہے جس میں دو صاحبان کے متعلق ذکر ہے کہ انہیں آنحضرت ﷺ نے “سِب” فرمایا۔ مدیر البلاغ کا کہنا یہ ہے کہ یہاں مطلب معاذ اللہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ نے گالیاں دیں۔ یہاں سب کا لفظ غلطی پر ٹوکنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے امیر معاویہ کے متعلق جو سب کا لفظ آیا ہے اسکا حاصل حضرت علی کے طرز عمل پر اعتراض کرنا یا اسے غلط ٹہرانا ہے۔ اس سے زائد کچھ نہیں۔ لیکن مدیر البلاغ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اردو میں لفظ سب و شتم جن معنوں میں آتا ہے، عربی میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مطلب ہر حال میں گالی دینا ہی ہو، لیکن یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ عربی میں معمولی سے اعتراض یا غلطی کی نشان دہی کو بھی سب کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ عربی میں بھی یہ لفظ یا تو بدگوئی اور گالم گلوچ کے لیے آتا ہے، یا پھر طعن و تشنیع اور ڈانٹ ڈپٹ کے لیے آتا ہے۔

نہایہ ابن اثیر، قاموس، الصحاح وغیرہ میں اس کے یہی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ سب و شتم کا انداز اور اس کے اسلوب و الفاظ ہرحال میں ایک نہیں ہو سکتے۔ اس میں فریقین کی ذات اور حیثیت جس مرتبہ و منزلت کی حامل ہو گی، سب و شتم کے الفاظ بھی اسی کے موافق ہوں گے اور بسا اوقات ایک ہی قسم کے الفاظ ایک موقع و محل میں سب و شتم سمجھے جائیں گے اور دوسرے مقام پر نہیں سمجھے جائیں گے۔ اب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس تو بہت اعلی و ارفع ہے، ہم تو حضرت امیر معاویہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کر سکتے کہ وہ خدانخواستہ کسی کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوں گے جیسی کہ اجڈ قسم کے لوگ دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ “فسبھما النبی ﷺ” سے مراد یہ ہے کہ رسول ﷺ نے بس غلطی پر ٹوک دیا۔ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے جس میں نبی ﷺ نے واضح حکم دیا تھا کہ کل تم لوگ انشاء اللہ ایک چشمے پر اترو گے تو جو شخص ہم سے پہلے وہاں جا پہنچے وہ پانی کو بالکل نہ چھوئے۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ دو صاحبوں نے جا کر پانی استعمال کر لیا۔ ظاہر ہے کہ اس صریح حکم کی خلاف ورزی رسول ﷺ کے لیے سخت موجب کوفت ہوئی ہو گی اور آپ نے خلاف معمول ہی سخت الفاظ میں ڈانٹا ہو گا جنہیں حضرت مغاذ نے اس طرح روایت کیا کہ

فسبھما و قال لھما ماشائ اللہ ان یقول

“ آنحضور ﷺ نے بُرا بھلا کہا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ کچھ فرمایا۔”

یہاں اس بات کو واضح کر دینا بھی مناسب ہے کہ دوسرے لوگوں کے سب و شتم اور نبی ﷺ کے فعل سب میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اس فعل کا صدور اگر آنحضرت کیﷺ کی ذات مبارک سے بتقاضائے بشریت ہو تو اسے اس شخص کے حق میں اللہ نے موجب رحمت و برکت بنا دیا ہے۔ جو خطا اس کا مورد بن گیا ہو، یہ خاصیت کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کا ایک باب ہے جس کا عنوان ہے
“ نبی ﷺ جس پر لعنت یا سب یا بددعا کریں اور وہ اس کا سزاوار نہ ہو تو یہ چیز اس کے حق میں اجر و برکت اور رحمت بن جائے گی۔”

اس کے بعد حدیث ہے کہ دو آدمیو ں نے آنحضور ﷺ سے کوئی ایسی بات کہی کہ آپ سخت نارا ض ہوئے اور آپ نے ان پر لعنت اور سب کا اظہار فرمایا[فلعنہما و سبھما]اور باہر نکال دیا۔حضرت عاشہ نہ اس پر کہا “یا رسول اللہ، کسی اور کو خیر سے حصہ ملے تو ملے، مگر یہ دونوں تو بالکل اس سے محرو م ہو گئے۔” آنحضور ﷺ نے فرمایا” کس طرح”؟ وہ بولیں”آپ نے ان پر سب اور لعنت بھیجی”۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے یہ بات ٹہرا لی ہے کہ اے اللہ، میں ایک بشر ہوں، میں جس مسلمان پر بھی لعنت کروں، بددعا کروں وہ اس کے لیے باعث اجر و تذکیہ ہو”۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا“اے اللہ، میں بشر ہوں، اگر کسی مومن کو ایذا دوں، اس پر شتم کروں، لعنت کروں یا کوڑے ماروں،تو اس کے لیے قیامت کے روز اس فعل کو رحمت و تقرب کا ذریعہ بنا۔” معلوم ہوا کہ جو شخص سب و شتم یا لعنت کا مستحق ہو، اس پر لعنت و نفرین کرنے میں مضائقہ نہیں، لیکن لعنت یا سب و شتم کے عربی یا اردو مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نبی ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ جو روایت کر رہی ہیں کہ آنحضور ﷺ نے دو اشخاص پر لعنت کی اور انہیں نکال دیا [ اخرجھما ] تو اس میں لعنت کا مفہوم وہی ہے جو ایک اُردو دان سمجھتا ہے، بلکہ اس کے لیے لفظ بھی لعنت ہی کا استعمال فرمایا ہو گا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی: یہی معاملہ ان روایات کا ہے جن میں حضرت علی پر سب و شتم کا ذکر ہے۔ بعض میں سب کے علاوہ لعنت، شتم اور اس جیسے بعض دوسرے الفاظ آئے ہیں جن کی وہ توجیہ بالکل نہیں کی جا سکتی اور نہ وہ معانی مراد لیے جا سکتے ہیں جو عثمانی صاحب لینے کی سعی کر رہے ہیں۔]

جہاں تک سب یا بُرا کہنے کا تعلق ہے ، اس کی تشریح ہمیں بہت سی احادیث میں مل جاتی ہے،، مثال کے طور پر آنحصور ﷺ جب کسی پر ناراض ہوتے تھے تو فرماتے تھے“تیری ماں تجھے روئے، تجھے رونے والیاں روئیں، تجھ میں جاہلیت ہے، تیری تباہی ہو، تیری ناک یا چہرہ خاک آلود ہو”۔ بعض اوقات اس سے زیادہ سخت الفاظ فرماتے تھے، مگر اللہ تعالی نے آنھصور ﷺ کی لعنت اور بددعا کو [ اگر وہ مسلمان کے خلاف صادر ہو جو اس کا مستحق نہ ہو ] اس شخص کے حق میں رحمت بنا دیا۔ اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ لعنت اور بد دعا بالخصوص اسے عام طریقہ و وطیرہ بنا لینا جائز ہے یا عربی زبان میں سب و لعنت کے معنی اردو کے معانی سے مختلف ہیں۔ قران مجید میں ہے

[ سورۃ الانعام، آیت 108] وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ

[ اشرف علی تھانوی ] اور دشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ برائے جہل حد سے گذر کر اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے۔”

اب اس آیت میں بھی سب کا مطلب بتوں یا معبودوں کو غلط روش پر محض ٹوک دینا یا ان پر معمولی سا اعتراض کرنا نہیں ہو سکتا اورمترجمین نے سب کا جو ترجمہ دشنام یا گالی سے کیا ہے اسکا مطلب بھی مغلظات نہیں ہو سکتا بلکہ مراد لعن طعن اور بدگوئی ہے جس سے مقصود محض دل آزاری ہو۔ پھر جیسا کہ پہلے اشارتاً ذکر ہو چکا ہے بسا اوقات ایک ہی قوم کے الفاظ اگر کوئی بڑا چھوٹے کے لیے یا آقا اپنے ماتحت کے لیے کہہ دے تو سب و شتم تصور نہیں ہوں گے لیکن وہی الفاظ اگر کم مرتبے کا انسان بڑے مرتبے والے کے حق میں استعمال کرے تو وہ سِب اور گالی کی تعریف میں آ سکیں گے۔ مثال کے طور پر باپ بیٹے کو یا بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو پاجی کہہ دے تو مضائقہ نہیں، لیکن چھوٹا اگر یہی الفاظ پلٹ کر بڑے کو کہہ دے تو یہ بلاشبہ سب و شتم کے زمرے میں داخل ہوں گے۔ اب مدیر البلاغ خود تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ ( اور انکے گورنر ) اپنے ذاتی خصائل و اوصاف میں حضرت علی کے ہم پلہ نہ تھے تو پھر حضرت معاویہ کے لیے یہ کیسے مناسب تھا کہ آپ خفیہ یا علانیہ نہ صرف حضرت علی کو مطعون و مجروح کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے ، اور جو ایسا نہ کرتا اس سے باز پُرس فرماتے۔ اور وہ بھی ان کی وفات کے بعد ! اپنی کتاب کے صفحہ 26 پر عثمانی صاحب نے خود یہ لکھا ہے کہ بسر بن ارطاۃ نے حضرت علی کو کچھ بُرا بھلا کہا تو حضرت معاویہ نے کہا “ تم علی کو گالی دیتے ہو۔” گویا کہ یہاں عثمانی صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ بدگوئی گالی کے مترادف تھی۔
پھر یہ بات بھی عجیب ہے کہ ایک طرف مولانا محمد تقی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ “یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعد کے سامنے حضرت علی پر جو سِب کیا یا کرنے کی ہدایت کی، تو وہ اردو والا سب و شتم نہیں تھا، بلکہ اس سے مراد حضرت علی پر اعتراض کرنا اور ان کی غلطی سے اپنی براءت کا اظہار تھا، اس سے زائد کچھ نہیں۔ اور دوسری طرف صاحب موصوف اس بات کو ثابت کرنے پر بڑا زور لگا چکے ہیں کہ جن راویوں نے حضرت علی پر سب و شتم والی روایات بیان کی ہیں، وہ سب امیر معاویہ کے جانی دشمن، کٹے اور جلے بھنے رافضی و ہیں۔ اگر سارے سِب و شتم کا حاصل اور مفاد و مال بس یہ ہے کہ امیر معاویہ حضرت علی پر اعتراض فرما دیتے تھے تو اس کے لیے راویوں کو لتاڑنے اور انکے لتے لینے کی کیا ضرورت ہے؟ بالخصوص جب کہ ان واقعات کو اکثر اور بالتصریح بیان کرنے والے نہایت عادل، ثقہ اور سنی راوی ہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی پر جس سب و شتم کا ذکر بار بار حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے، اگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ایک آدھ غیر محتاط لفظ امیر معاویہ کی زبان سے نکل گیا ہو، جیسا کہ عثمانی صاحب ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں، تو اس شدید احتجاج کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے اور اُسے کس طرح حق بجانب کہا جا سکتا ہے جو بعض جلیل القدر اصحاب کی طرف سے اس کے خلاف صادر ہوا؟ مثال کے طور پر حضرت سعد ہی کے واقعے کو لیجئیے۔ میں نے البدیہ سے جو روایت نقل کی تھی، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت سعد کو اپنے پاس بٹھایا، پھر حضرت علی کی برائی اور عیب چینی شروع کر دی [ فوقع فیہ ] اس پر حضرت سعد نے فرمایا کہ آپ نے مجھے گھر پر بلایا اور پھر علی کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا [ فی علی تشتمہ ] ۔ پھر حضرت سعد نے حضرت علی کے فضائل و مناقب بیاان کیے جو نبی ﷺ سے مروی تھے۔اس کے بعد حضرت سعد وہاں سے دامن جھاڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چل دیے کہ میں آئندہ کبھی بھی آپ کے ہاں نہیں آؤں گا۔ اب کیا کوئی شخص اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ حضرت سعد امیر معاویہ کے محض ایک آدھ غیر محتاط لفظ یا معمولی اعتراض پر اس حد تک غضبناک ہوئے ہوں گے؟پھر فتح الباری، مناقب علی کی شرح میں حضرت سعد کا قول مسند ابی یعلی سے یوں مروی ہے کہ اگر میرے سر پر [ لکڑی کاٹنے والا ] آرہ رکھ کر مجھے سب علی کے لیے کہا جائے تو میں ابد تک یہ کام نہیں کروں گا۔ کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی پر سب و شتم بس ذرا سا اظہار اختلاف و اعتراض ہے؟

سب علی کا مفہوم اور اس کی مثالیں
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے اس بری رسم پر متعدد مرتبہ نفرت و ملامت کا اظہار فرمایا۔ ایک حوالہ ابو زہرہ صاحب کی کتاب سے اوپر نقل ہو چکا ہے۔ ایک دوسرا حوالہ میں پہلی بحث میں مسند احمد کا دے چکا ہوں کہ حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر برسر منبر سب و شتم کیوں ہو رہا ہے؟ سننے والوں نے حیرت سے پوچھا کہ کہاں اور کیسے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کیا حضرت علی پر سب و شتم نہیں ہو رہا جو آنحضور ﷺﷺ پر سب و شتم کے مترادف ہے کیونکہ آنحضور ﷺ علی سے محبت کرتے تھے اور میں اس کی گواہ ہوں؟ پھر میں نے سنن ابی داؤد اور مسند احمد کی روایات نقل کی تھیں جن میں مذکور ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ جب وہ کوفہ میں امیر معاویہ کے عامل تھے تو انکی موجودگی میں مسجد کے اندر سب علی کا ارتکاب ہوتا تھا اور حضرت مغیرہ بھی اس میں شریک تھے جس پر حضرت سعید بن زید نے سخت صدائے احتجاج بلند کی کی یہ کیا ہو رہا ہے اور اس رسم بد کو بند کیوں نہیں کیا جاتا؟ اب ان ساری تصریحات سے مدیر البلاغ اگر آنکھیں میچ کر بس یہ کہتے رہیں کہ عربی والا سب اور ہے اور اردو والا اور ہے اور یہ محض ذرا سا اختلاف تھا تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ ام المومنین ؓ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ان دونوں اصحابِ رسول نے خواہ مخواہ اور بیجا بات کا بتنگڑ بنایا، ورنہ امیر معاویہ اور ان کے گورنروں کا تو سرے سے کوئی قصور ہی نہ تھا۔ اور وہ بس اتنی بات کہتے تھے کہ حضورت علی قاتلین عثمان سے قصاص لینے میں سستی برت رہے ہیں اور اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔

[ حاشیہ از ملک غلام علی:صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے : سباب المسلم فسوق۔۔ ۔ من اکبر الکبائر یسب الرجل والدیہ۔۔۔۔ ان احادیث میں وہ مفہوم کسی طرح کھپ نہیں سکتا جو عثمانی صاحب لینا چاہتے ہیں اور نہ معمولی اظہار اختلاف کو اکبر الکبائر کہا جا سکتا ہے۔
پوری روایت یوں ہے:
Sahih Muslim, Kitab-ul-Iman:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ ‏

It is narrated on the authority of 'Abdullah b. Amr b. al-'As that the Messenger of Allaah (sallAllaahu alayhi wa sallam) observed:abusingone's parents is one of the major sins. They (the hearers) said: Messenger of Allaah, does a man abuse his parents too? He (the Prophet) replied: Yes, oneabusesthe father of another man, who in turn abuses his father. One abuses his mother and he in turn abuses his (the former's) mother.

]

اب اگر عثمانی صاحب سے ہم یہ پوچھیں کہ حضرت کیا آپ کی نگاہ میں صحابیت کا شرف صرف حضرت معاویہ ہی کو حاصل تھا اور ام المومنینؓ اور اکابر صحابہ کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ تھی تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟ دوسروں پر توہین صحابہ کا الزام رکھنے والے کبھی خود بھی سوچ لیں کہ وہ صحابہ کا کیا احترام فرماتے ہیں۔
جہاں تک امیر معاویہ کے گورنروں کے فعل سب کا تعلق ہے، اُسے مدیر البلاغ نے یہ کہہ کر صاف کر دینے کی کوشش کی ہے کہ “مولانا نے صرف دو روایتوں کا حوالہ دیا تھا جن میں سے ایک میں گورنر کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ذکر ہے لیکن اس کے راوی اول تا آخر شیعہ ہیں اور دوسری روایت جو مروان کے متعلق تھی، اس کو یوں اڑا دیا ہے کہ بخاری میں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مروان حضرت علی کو ابوتراب کہتا تھا۔ یہ احمقانہ تعریض ہو سکتی ہے ، مگر اسے گالی نہیں کہا جا سکتا۔” میں کہتا ہوں کہ طبری والی روایت کے راوی اگر شیعہ ہیں تو کیا ابن ماجہ، سنن ابی داؤد اور مُسند احمد والی روایات کے راوی بھی شیعہ ہیں یا جھوٹے ہیں جو شیعوں کی نسبت زیادہ صراحت کے ساتھ فعل شب و شتم اور اس کے خلاف شدید ردعمل کو بیان کر رہے ہیں؟ باقی رہا مروان کا قصہ تو اس کے متعلق البدایہ کی جس روایت کا حوالہ “خلافت و ملوکیت” میں دیا گیا تھا، اس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ “جب مروان مدینے میں حضرت معاویہ کا گورنر تھا تو وہ ہر جمعہ کو منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی پر سب و شتم کیا کرتا تھا۔” اس پر البلاغ میں لکھا گیا تھا کہ مروان حضرت علی کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کرتا تھا مگر تاریخی روایتوں میں سے کسی میں ان کا ذکر نہیں۔ یہ دعوی غلط ہے۔ تاریخ الخلفاء امام سیوطی اور تطہیر الجنان [ ابن حجر المکی ] صفحہ 152 پر یہ روایت مذکور ہے کہ مروان جمعہ میں حضرت علی اور اہلبیت کو جس طرح گالیاں دیتا تھا، اس سے تنگ آ کر حضرت حسن عین اقامت جمعہ کے وقت مسجد میں آتے تھے، پہلے تشریف نہ لاتے تھے، آخر مروان نے ایک قاصد بھیج کر گالی دی جس میں دیگر سب و شتم کے علاوہ حضرت حسن کو یہ بھی کہا گیا کہ“تیری مثال خچر کی سی ہے جس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔۔۔۔” ظاہر ہے کہ اس بدزبان نے جسے نبی ﷺ نے ملعون کہا اور جسے شاہ عبدالعزیز صاحب نے طرید ابن طرید لکھا اور اس نے حضرت حسن کو خچر سے اور سیدۃ النساء حضرت فاطمہ کو گھوڑی سے اور حضرت علی کو گدھے سے تشبیہ دی[نعوذ باللہ من ذلک]۔ اس روایت کے رجال کو ابن حجر نے ثقات قرار دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ معلوم نہیں مروان نے کیا نازیبا الفاظ استعمال کیے تو اس پر حیف صد ہزار حیف ہے۔ میں پھر بھی یہ مانتا ہوں کہ امیر معاویہ تو ایسی غلیظ گالیاں ہرگز نہ دیتے ہوں گے لیکن مروان جیسے لعنت زدہ اور زیاد جیسے مجہول النسب گورنر بھی کیا کسی حد پر جا کر رکتے ہوں گے؟ زیاد ہی کی گندی گالیوں کے خلاف حضرت حضر بن عدی نے احتجاج کیا تھا جس پر ان کے خلاف بغاوت کا بناوٹی مقدمہ بنا کر انہیں سزائے موت دی گئی۔

ابو تراب کے لفظ کا تحقیر آمیز استعمال

[ نوٹ از مصنف ھذا: اوپر ہم صحیح مسلم کی روایت پیش کر چکے ہیں جو کہ تفصیل سے بتا رہی ہے کہ یہ مروان نہیں بلکہ آل مروان [ مروان کے خاندان کا ایک شخص] ہے جو کہ گورنر ہوا تھا اور جس نے حضرت سہلؓ کو پہلے تو علی کو سب و شتم کرنے کا حکم دیا، اور جب وہ اس پر راضی نہ ہوئے تو ان سے مطالبہ کیا کہ وہ پھر یہ ہی کہہ دیں کہ “ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو”۔ چنانچہ مفتی تقی عثمانی صاحب کو صرف بخاری کی روایت پیش کر کے یہ قیاسی عذر پیش کرنا کہ یہ مروان صرف ابو تراب کہتا تھا، بالکل نامعقول عذر و بہانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ ملک غلام علی صاحب کا کچھ متن ہم نےچھوڑ دیا ہے کیونکہ صحیح مسلم کی اس واضح روایت کے بعد اس ضمن میں کوئی اور بحث کی گنجائش نہیں رہ جاتی]

ملک غلام علی صاحب آگے لکھتے ہیں کہ لنڈا بازار لاہور میں ایک شخص ابو یزید بٹ نے “محبین صحابہ” کے نام سے ایک جمیعت بنا رکھی ہے۔ اس نے ایک کتابچہ “بنو ہاشم اور بنو امیہ کی قرابت داریاں” کے نام سے چھاپا ہے۔ اس کے صفحہ پندرہ کی درج ذیل عبارت پڑھیے
“ ذرا نگاہ تقدس سے پردہ ہٹا کر نگاہ تدبر سے غور فرمائیں کہ حضور کی صاحبزادی کو تکالیف کس نے پہنچائیں۔ آخر سیدنا علی سارا دن کیا کرتے تھے؟ جو خاوند گھر میں کچھ کما کر نہ لائے، اپنی بیوی کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹائے، بیوی اور اولاد کی کفالت نہ کر سکے اور بقول حضرت امام محمد باقر رسول اللہ سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف لکڑیاں لانا، پانی بھرنا اور بیرون خانہ کا کام بھی جناب سیدہ فاطمہ بنت محمد رسول اللہ کے ذمے ڈال دے تو اندازہ لگائیں جناب سیدہ اور خود رسول مقبول کو ان ہاشمی داماد سے کیا سکھ ملا ہوگا؟۔۔۔۔۔ جب رسول خدا نے فاطمہ کو اس حال میں دیکھا آنسو چشم ہائے مبارک سے رواں ہوئے اور فرمایا اے دختر گرامی، تلخی ہائے دنیا کی حلاوت چکھو [ یعنی سیدنا علی جو تمہیں دکھ دے رہے ہیں، انہیں برداشت کرو] ۔۔۔۔۔۔۔ سبائی مفسرین کی روایات سے معلوم ہوتا ہے چونکہ سیدنا علی کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے اسی لیے حضور انہیں ابو تراب بار بار کہہ کر خطاب کرتے تھے۔۔۔۔ بار بار ابو تراب اس لیے فرماتے تھے کہ یہ کوئی کام کاج نہ کرتے تھے اور گھر میں پڑے رہتے تھے۔”

یہ پورا رسالہ اسی طرح کے ہفوات سے لبریز ہے اور اس میں جگہ جگہ مروان کو رضی اللہ عنہ اور یزید کو سیدنا یزید رضی اللہ عنہ لکھا گیا ہے۔ اس ابو یزید نے اس طرح کی خرافات پر مشتمل متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ مدیر البلاغ صرف اسی ایک اقتباس کو پڑھ کر مجھے بتائیں کہ کیا اب بھی انہیں اس پر اصرار ہے کہ ابو تراب کے لفظ سے کوئی شخص سب و شتم کا کام نہیں لے سکتا اور اسے کسی بھی قاعدے سے سب و شتم کی بوچھار یا گالی نہیں کہا جا سکتا؟

کیا حضرت علی بھی سب و شتم کرتے تھے؟
حضرت علی پر سب و شتم کے ثبوت میں جو روایات اور جو دلائل میں نے پیش کیے تھے ان کے جواب میں عثمانی صاحب نے بعض ایسے اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت علی کے ساتھی بھی حضرت عثمان اور امیر معاویہ کی بدگوئی کرتے تھے اور حضرت علی نے حضرت معاویہ اور حضرت عمر بن عاص کو بدترین مرد بلکہ ان کے ایمان تک کو مشکوک بتایا۔ آخر میں سب کچھ نقل کر دینے کے بعد “البلاغ” میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ہم تو ایسی بیشتر روایتوں کو ان کی سند کے ضعف کی بنا پر صحیح نہیں سمجھتے لیکن مولانا مودودی اور غلام علی صاحب جو تاریخی روایات کو بے چون و چرا مان لینے کے قائل ہیں وہ بتائیں کہ ان روایات کی بنا پر کوئی شخص اگر حضرت علی پر بھی سب و شتم کا الزام قطعیت کے ساتھ لگا دے تو اس کا کیا جواب ہو گا۔ اسکا جواب دینے کو تو بڑا مفصل و مدلل دیا جا سکتا ہے، مگر میں اب قطع بحث کے لے صرف یہ کہوں گا کہ ہم ہر قسم کی تاریخی روایات کو بے چون و چرا مان لینے کے ہرگز قائل نہیں ہیں، لیکن ہم اس بات کے قائل بھی نہیں ہیں کہ کسی صحابی کی کوئی غلطی اگر صحت نقل کے ساتھ احادیث و آثار یا تاریخ میں مروی ہو تو اُسے بھی محض اس دلیل کی بنا پر رد کر دیا جائے کہ اس سے صحابہ کرام اور ان کے احترام پر حرف آتا ہے یا پھر ان روایات صحیحہ کے انکار کی راہ اس طرح سے ہموار کی جائے کہ ایک صحابی کی خطا کو کالعدم قرار دینے کے لیے بعض ضعیف و مکذوب روایات کے ذریعے سے دوسرے صحابی کو بھی اُسی طرح کی خطا کا مورد ٹہراتے ہوٗے آخر میں یہ کہہ دیا جائے کہ صحیح اور غلط روایات سب پھینک دینے کے قابل ہیں۔ میری پوری بحث کو سامنے رکھ کر ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ سب علی کو ثابت کرنے میں میرا اصل انحصار صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد پر ہے جو بالاجماع حدیث کی صحیح ترین کتابیں ہیں۔ علماء و مورخین جن کے اقوال میں نے نقل کیے ہیں وہ بھی بالاتفاق اٗمہ اہل سنت ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امیر معاویہ کے عہد میں حضرت علی اور اہلبیت پر سب و شتم کا آغاز ہوا جو حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور تک منبروں پر جاری رہا۔ اس کے بالمقابل جناب محمد تقی صاحب پلڑا برابر کرنے کے کے لیے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حضرت علی بھی اسی طرح سب و شتم کرتے تھے مگر اس کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں ابن حبیب کی ایک عبارت کو جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت علی کے ساتھی حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔ تاہم میں اس روایت کی تردید ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض حضرات صحابہ نے حضرت علی سے عدم تعاون یا مزاحمت کا رویہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی قاتلین عثمان یا حضرت عثمان کو بُرا بھلا کہنے والوں کی سرکوبی نہ کر سکے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حضرت علی اس مذموم روش کی حوصلہ افزائی یا اُسے گوارا کرتے تھے۔ ویسے تو کوفہ کی مسجد میں خارجی خود انہیں گالیاں اور قتل کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے اور آپ اسے نظر انداز کرتے تھے، مگر جس کسی نے آپ کے سامنے حضرت عثمان یا حضرت معاویہ کی بدگوئی کی، آپ نے سختی سے اس پر ٹوکا۔
دوسری روایات عثمانی صاحب نے ابن جریر طبری کی نقل کی ہیں، ان میں بلاشبہ حضرت علی کے نامناسب الفاظ مذکور ہیں جو انہوں نے حضرت معاویہ یا بعض دوسرے اصحاب کے لیے استعمال کیے ہیں۔ میں معصوم عن الخطاء نہ حضرت علی کو سمجھتا ہوں نہ امیر معاویہ کو۔ حضرت علی بھی بہرحال انسان تھے، ان کے مقابلے میں مخالفت و محاربت کی جو روش اختیار کی گئی اس کے نتیجے میں حضرت علی کے دل کا ملول و مکدر ہو جانا قدرتی بات ہے اور ان کا یہ کہہ دینا کہ “معاویہ کا کوئی اسلامی کارنامہ نہیں اور وہ اسلام میں بادل ناخواستہ داخل ہونے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے اور طلقاء میں سے تھے”، یہ ایک ناخوشگوار جوابی ردعمل ہے۔ اگر اسے سب و شتم سمجھا جائے تو اس کے ساتھ نبی ﷺ کا وہ ارشاد گرامی بھی سامنےرکھا جائے جو صحیح مسلم اور دوسری کتب حدیث میں مروی ہے کہ
“ دو آدمی ایک دوسرے کی بدگوئی کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہیں، اس کا بوجھ ابتدا کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔”
اب بر بنائے انصاف ہرشخص خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس قضیے میں ابتدا کن کی طرف سے ہوئی اور فریق ثانی نے جوابا جو کچھ کیا وہ فریق اول سے زائد تھا یا اس سے کمتر تھا۔ اس سلسلے میں مدیر البلاغ نے البدایہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھی حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔ حضرت حجر کا موقف جو کچھ بھی تھا، اس پر تو تفصیلا آگے چل کر بحث ہو گی۔ یہاں میں صرف یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت حجر نے جو کچھ حضرت علی کی شہادت کے بعد کیا اور جو کچھ حضرت حجر کے ساتھ کیا گیا اس کی ذمہ داری سے تو حضرت علی بری ہیں۔ تاہم حضرت علی کی زندگی میں اگر ان کے علم میں کوئی ایسی بات آئی ہے تو آپ نے فورا اس پر ٹوکا ہے۔ چنانچہ ابو حنیفہ دینوری اپنی تاریخ الاخبار الطوال کے صفحہ 165 پر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی کو معلوم ہوا کہ حضرت حجر اہل شام کی بدگوئی کر رہے ہیں۔ حضرت علی نے انہیں پیغام بھیج کر اس فعل سے منع کیا اور باز رہنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ “امیر المومنین، کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا، ہاں، مگر میں تمہارے لیے ناپسند کرتا ہوں کہ تم لعن طعن کرو۔

اس کے بعد مولانا محمد تقی صاحب نے البدایہ جلد 7 ، صٖحہ 258 کے ایسے اقوال کا ذکر بھی ضروری سمجھا ہے کہ حضرت علی نے امیر معاویہ کے ایمان تک کو مشکوک بتایا حالانکہ ابن کثیر نے خود ان اقوال کی تردید کی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جن اقوال کی ناقل نے خود تکذیب کر دی ہے ان کے بیان کی کیا حاجت تھی؟ ابن کثیر نے تو انہیں نقل کرنے کے بعد یہ لکھ دیا ہے کہ
“ میرے نزدیک ان کی نسبت حضرت علی سے صحیح نہیں۔”

لیکن محمد تقی صاحب نے ان روایات کے ساتھ دوسری بہت سی روایات کو بھی لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ فرما دیا کہ ہم تو ان جیسی بیشتر روایتوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ گویا کہ یہ تاثر دلانا مقصود ہے کہ جو روایتیں ہم نے دی ہیں اور ( دوسری وہ ) جن کی ابن کثیر نے تکذیب کی ہے، سب ایک درجے میں ہیں۔ ہم گویا سب کو بے چون و چرا مان لینے کے قائل ہیں اور آپ سب کو یا اکثر کو ناقابل اعتبار، قطعی جھوٹ اور افترا سمجھتے ہیں۔ یہ خلط مبحث کا جو انداز مدیر البلاغ اختیار کر رہے ہیں، بعینہ یہی انداز منکرین حدیث اور ناصبیت کے علمبردار ااختیار کرتے ہیں۔ وہ چند جھوٹی روایتوں کو لیتے ہیں اور ان کی آڑ میں جس صحیح واضح حدیث کا چاہتے ہیں انکار کر دیتے ہیں۔

مدیر البلاغ چونکہ بڑے شدومد کے ساتھ اس بات کے مدعی ہیں کہ جن احادیث و روایات میں سب علی کا ذکر ہے، اس سے مراد بس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کچھ غیر محتاط الفاظ کا استعمال ہے، اس لیے میں یہاں سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث پیش کیے دیتا ہوں جو اس کے ابواب فضائل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان الفاظ میں مروی ہے اور جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔

عن سعد ابن ابی وقاص قال قدم معاویۃ فی بعض حجاتہ فدخل علیہ سعد فذکروا علیافنال منہفغضب سعد۔

حضرت سعد ابن ابی وقاص سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ ایک حج کے موقع پر آئے تو حضرت علی کا ذکرہوا تو امیر معاویہ نے انکی بدگوئی کی۔اس پر حضرتسعد غضبناک ہو گئے۔۔۔( اسکے بعد حضرت سعد نے حضرت علی کے وہی فضائل بیان کیے جو دوسری روایات میں مذکور ہیں) ۔

میں نے یہاں " نال منہ " کا ترجمہ بدگوئی کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا عثمانی صاحب فرمائیں کہ بدگوئی کا لفظ سخت ہے، لیکن وہ خود ملاحظہ فرما لیں کہ اپنی کتاب میں صفحہ 63 پر انہوں نے بھی حضرت حجر اور ان کے ساتھیوں کے متعلق " بدگوئی " کا لفظ لکھا ہے جو " ینالون منہ " کا ترجمہ ہے۔اب ناپ تول کے پیمانے دو دو تو نہیں ہونے چاہیے ہیں کہ ایک حضرت معاویہ کے لیے ہو اور ایک حضرت حجر کے لیے ہو۔

[ نوٹ از مصنف ھذا: عثمانی صاحب کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں یہ روایت صفحہ 76 پر نقل ہوئی ہے۔ مولانا عثمانی لکھتے ہیں:بقول ابن جریر و ابن کثیر: انھم کانوا ینالون من عثمان ۔۔۔۔ ترجمہ: " یہ لوگ حضرت عثمان کی بدگوئی کرتے تھے۔۔۔۔۔ مولانا عثمانی کےاس اپنے ترجمہ کا، انکی اپنی کتاب سےسیکن شدہ صفحہیہاں ملاحظہ فرمائیں]

مشہور مؤرخ احمد بن یحیی البلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں لکھتے ہیں

“ جب بُسر بن ابی ارطاۃ بصرہ میں پہنچا اور معاویہ نے بُسر کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ اُن کے مخالفین کو قتل کرے اور ان کی بیعت کرنے والوں کو زندہ رہنے دے تو بُسر نے منبر پر چڑھ کر علی کا ذکر بُرے الفاظ میں کیا، ان کی بدگوئی اور تنقیص کی اور پھر کہنے لگا " اے لوگو تمہیں خدا کی قسم کیا میں نے سچ کہا؟" حضرت ابو بکرہ نے جواب دیا: تم بہت بڑی ذات کی قسم دلا رہے ہو، خدا کی قسم تم نے نہ سچ کہا اور نہ نیکی کا کام کیا۔ بُسر نے حضرت ابو بکرہ کو مارنے کا حکم دیا حتی کہ وہ مار سے بیہوش ہو گئے۔ ( انساب الاشراف ، صفحہ 492 ، جلد اول، دارالمعارف، مصر)

بُسر بھی امیر معاویہ کا عامل تھا اور اس کے ظلم و ستم کے واقعات سارے مؤرخین نے بیان کیے ہیں۔ اب یہاں بلاذری صاف بیان کر رہے ہیں کہ ا س نے منبر پر چڑھ کر حضرت علی کا ذکر قبیح طریقے سے کیا، آپ پر سب و شتم کیا، آپ کی توہین و تحقیر کی اور ٹوکنے والے صحابی کو مار مار کر بیہوش کر دیا۔ اتنی تصریحات کے بعد اس بات کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ ساری سب و شتم والی روایات کو کالعدم یا بالکل معمولی اظہار اختلاف پر محمول کر دیا جائے؟

[ نوٹ یہاں آ کر ملک غلام علی کی تحریر ختم ہوتی ہے ]

مولانی عثمانی کی صداقت کے تابوت میں آخری کیل

( از مصنف آرٹیکل ھذا )

یاد رکھئیے،لنگڑےلولے عذر اور بہانے ہر کوئی لے آتا ہے۔ شیطان ابلیس بھی اللہ کے مقابلے میں لنگڑا لولا عذر لے کر آ گیا تھا کہ وہ آدم کو سجدہ کیوں کرے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے۔

بنی امیہ جہاں جہاں حضرت علی ابن ابی طالب کے لیے سَب، اور شتم اور " ینالون منہ " وغیرہ استعمال کرتے رہے، اُن تمام جگہوں پر مولانا عثمانی کوئی نہ کوئی عذر لے کر آ گئے۔

مگر انکا یہ دوغلا پن سب سے بُرے طریقے سے اُس وقت پکڑا جاتا ہے جب اسی " سِب " کے لفظ کا استعمال حضرت حجر بن عدی خود انکے ممدوح بنی امیہ کے خلاف کرتے ہیں تو یہی مولانا عثمانی صاحب اس " سِب " کا ترجمہ بذات خود " بُرا بھلا " کہنا کر رہے ہیں۔
اپنی کتاب " حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق " کے صفحہ 72 پر مولانا عثمانی لکھتے ہیں
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
" و قد التف علی حجر جماعات من شیعۃ علی یتولون امرہ و یشدون علی یدہو یسبون معاویۃو یتبراون منہ"
" حضرت حجر کو شیعان علی کی کچھ جماعتیں لپٹ گئی تھیں جو ان کے تمام امور کی دیکھ بھال کرتی تھیں اورحضرت معاویہ کو بُرا بھلاکہتی تھیں۔"
عثمانی صاحب کی کتاب کاسکین امیج یہاںملاحظہ فرمائیے۔
چنانچہ جب تک معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بنی امیہ کے گورنراہلبیت علیھم السلام پر " سِب و شتم " کرتے رہے اُس وقت تک عثمانی صاحب کے مطابق یہ صرف
نام

ابن ابی حدید,2,ابنِ تیمیہ,8,ابن جریر طبری شیعہ,1,ابن حجر مکی,2,ابن خلدون,1,ابن ملجم لعین,1,ابو یوسف,1,ابوسفیان,1,ابومخنف,1,اجماع,2,احمد بن محمد عبدربہ,1,اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی,7,افطاری کا وقت,1,اللہ,4,ام المومنین ام سلمہ سلام علیھا,2,امام ابن جوزی,1,امام ابو زید المروزی,1,امام ابوجعفر الوارق الطحاوی,2,امام ابوحنیفہ,17,امام احمد بن حنبل,1,امام الزھبی,2,امام بخاری,1,امام جعفر صادق علیہ السلام,3,امام حسن علیہ السلام,11,امام حسین علیہ السلام,21,امام شافعی,5,امام علی رضا علیہ السلام,1,امام غزالی,3,امام مالک,3,امام محمد,1,امام مہدی عج,5,امامت,4,امداد اللہ مکی,1,اہل بیت علیھم السلام,2,اہل حدیث,16,اہل قبلہ,1,آذان,2,آن لائن کتابوں کا مطالعہ,23,آیت تطہیر,1,بریلوی,29,بریلوی اور اولیاء اللہ کے حالات,2,بنو امیہ,3,تبرا,8,تحریف قرآن,6,تراویح,2,تقابل ادیان و مسالک,34,تقيہ,2,تکفیر,3,جنازہ رسول اللہ,1,جنگ جمل,4,جنگ صفین,1,حافظ مبشر حسین لاہوری,1,حدیث ثقلین,5,حدیث طیر,1,حدیث غدیر,7,حدیث قرطاس,1,حضرت ابن عباس رض,3,حضرت ابو طالب علیہ السلام,5,حضرت ابوبکر,20,حضرت ابوزر غفاری رض,1,حضرت ام اکلثوم سلام علیھا,2,حضرت خدیجہ سلام علھیا,1,حضرت عائشہ بنت ابوبکر,14,حضرت عثمان بن عفان,7,حضرت علی علیہ السلام,64,حضرت عمار بن یاسر رض,3,حضرت عمر بن خطاب,23,حضرت عیسیٰ علیہ السلام,4,حضرت فاطمہ سلام علیھا,16,حضرت مریم سلام علیھا,1,حضرت موسیٰ علیہ السلام,2,حفصہ بنت عمر,1,حلالہ,1,خارجی,2,خالد بن ولید,1,خلافت,10,دورود,1,دیوبند,55,رافضی,3,رجال,5,رشید احمد گنگوہی,1,روزہ,3,زبیر علی زئی,7,زنا,1,زیاد,1,زیارات قبور,1,زيارت,1,سب و شتم,2,سجدہ گاہ,3,سرور کونین حضرت محمد ﷺ,14,سلیمان بن خوجہ ابراہیم حنفی نقشبندی,1,سلیمان بن عبد الوہاب,1,سنی کتابوں سے سکین پیجز,284,سنی کتب,6,سولات / جوابات,7,سیرت معصومین علیھم السلام,2,شاعر مشرق محمد اقبال,2,شاعری کتب,2,شجرہ خبیثہ,1,شرک,8,شفاعت,1,شمر ابن ذی الجوشن لعین,2,شیخ احمد دیوبندی,3,شیخ عبدالقادرجیلانی,1,شیخ مفید رح,1,شیعہ,8,شیعہ تحریریں,8,شیعہ عقائد,1,شیعہ کتب,18,شیعہ مسلمان ہیں,5,صحابہ,18,صحابہ پر سب و شتم,1,صحیح بخاری,5,صحیح مسلم,1,ضعیف روایات,7,طلحہ,1,عبادات,3,عبدالحق محدث دہلوی,1,عبداللہ ابن سبا,1,عبدالوہاب نجدی,2,عرفان شاہ بریلوی,1,عزاداری,4,علامہ بدرالدین عینی حنفی,1,علمی تحریریں,76,علیہ السلام لگانا,1,عمامہ,1,عمر بن سعد بن ابی وقاص,1,عمران بن حطان خارجی,2,عمرو بن العاص,3,غزوہ احد,1,غم منانا,12,فتویٰ,4,فدک,3,فقہی مسائل,17,فیض عالم صدیقی ناصبی,1,قاتلان امام حسینؑ کا مذہب,6,قاتلان عثمان بن عفان,1,قادیانی,3,قادیانی مذہب کی حقیقت,32,قرآن,5,کالا علم,1,کتابوں میں تحریف,5,کلمہ,2,لفظ شیعہ,2,ماتم,3,مباہلہ,1,متعہ,4,مرزا بشیر احمد قادیانی,2,مرزا حیرت دہلوی,2,مرزا غلام احمد قادیانی,28,مرزا محمود احمد,2,مسئلہ تفضیل,3,معاویہ بن سفیان,25,مغیرہ,1,منافق,1,مولانا عامر عثمانی,1,مولانا وحید الزماں,3,ناصبی,22,ناصر الدین البانی,1,نبوت,1,نماز,5,نماز جنازہ,2,نواصب کے اعتراضات کے جواب,72,واقعہ حرا,1,وسلیہ و تبرک,2,وصی رسول اللہ,1,وضو,3,وہابی,2,یزید لعنتی,14,یوسف کنجی,1,Requests,1,
rtl
item
شیعہ اہل حق ہیں: مسئلہ سب و شتم
مسئلہ سب و شتم
مسئلہ سب و شتم سب علی کا مفہوم اور اس کی مثالیں ابو تراب کے لفظ کا تحقیر آمیز استعمال کیا حضرت علی بھی سب و شتم کرتے تھے؟
شیعہ اہل حق ہیں
https://www.shiatiger.com/2014/03/blog-post_2401.html
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/2014/03/blog-post_2401.html
true
7953004830004174332
UTF-8
تمام تحریرں دیکھیں کسی تحریر میں موجود نہیں تمام دیکھیں مزید مطالعہ کریں تبصرہ لکھیں تبصرہ حذف کریں ڈیلیٹ By مرکزی صفحہ صفحات تحریریں تمام دیکھیں چند مزید تحریرں عنوان ARCHIVE تلاش کریں تمام تحریرں ایسی تحریر موجود نہیں ہے واپس مرکزی صفحہ پر جائیں Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content