آپ اپنے اماموں کو معصوم کيوں کہتے ہيں؟
جواب:شيعوں کے ائمہ جو کہ رسول کے اہل بيت ہيں ان کی عصمت پر بہت سی دليليں موجود ہيں. ہم ان ميں سے صرف ايک دليل کا يہاں پر تذکره کرتے ہيں:
شيعہ اور سنی دانشوروں نے يہ نقل کيا ہے کہ پيغمبر خداۖ نے اپنی زندگی کے آخری ايام ميں يہ ارشاد فرمايا ہے :
''اِن تارک فيکم الثقلين کتاب للهّ و أھل بيت و انھما لن يفترقا حتی يردا علَّ الحوض۔''( ١
ميں تمہارے درميان دو وزنی چيزيں چھوڑے جارہا ہوں''کتاب خدا'' (قرآن) اور ''ميرے اہل بيت '' يہ دونوں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس پہنچيں گے .
.............
١) مستدرک حاکم ، جزء سوم ص ١٤٨ ۔اور الصواعق المحرقہ ابن حجر باب ١١ فصل اول ص ١٤٩ اور اسی سے ملتی جلتی روايات ) ١٨٢ اور ديگر کتب ميں موجود ہيں. ، کنز العمال جزء اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ٤٤ ، اور مسند احمد جز ء پنجم ص ١٨٩
يہاں پر ايک لطيف نکتہ يہ ہے کہ : قرآن مجيد ہر قسم کے انحراف اور گمراہی سے محفوظ ہے اور يہ کيسے ممکن ہے کہ وحیِ الہی کی طرف غلطی اور خطا کی نسبت دی جائے جبکہ قرآن کو نازل کرنے والی ذات، پروردگار عالم کی ہے اور اسے لانے والا فرشتۂ وحی ہے اور اسے لينے والی شخصيت پيغمبر خداۖ کی ہے اور ان تينوں کا معصوم ہونا آفتاب کی طرح روشن ہے اسی طرح سارے مسلمان يہ عقيده رکھتے ہيں کہ پيغمبرخدا وحی کے لينے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کی تبليغ کرنے کے سلسلے ميں ہر قسم کے اشتباه سے محفوظ تھے لھذا يہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کتاب خدا اس پائيدار اور محکم عصمت کے حصار ميں ہے تو رسول خداۖ کے اہل بيت ٪ بھی ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ ہيں کيونکہ حديث ثقلين ميں پيغمبرخداۖ نے اپنی عترت کو امت کی ہدايت اور رہبری کے اعتبار سے قرآن مجيد کا ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار ديا ہے.اور چونکہ عترت پيغمبرۖ اور قرآن مجيد ايک دوسرے کے ہم پلہ ہيں لہذا يہ دونوں عصمت کے لحاظ سے بھی ايک جيسے ہيں دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ غير معصوم فرد يا افراد کو قرآن مجيد کا ہم پلہ قراردينے کی کوئی وجہ نہ تھی. اسی طرح ائمہ معصومين ٪ کی عصمت کے سلسلے ميں واضح ترين گواه پيغمبر اکرم کا يہ جملہ ہے:
'' لن يفترقا حتی يردا علّ الحوض.''
يہ دو ہرگز (ہدايت اور رہبری ميں) ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملينگے. اگر پيغمبرخداۖ کے اہل بيت ہر قسم کی لغزشوں سے محفوظ نہ ہوں اور ان کے لئے بعض کاموں ميں خطا کا امکان پايا جاتا ہو تو وه قرآن مجيد سے جدا ہوکر (معاذلله) گمراہی کے راستے پر چل پڑيں گے . کيونکہ قرآن مجيد ميں خطا اور غلطی کا امکان نہيں ہے ليکن رسول خداۖ نے انتہائی شدت کے ساتھ اس فرضيہ کی نفی فرمائی ہے. البتہ يہ نکتہ واضح رہے کہ اس حديث ميں لفظ اہل بيت سے آنحضرتۖ کی مراد آپۖ کے تمام نسبی اور سببی رشتہ دار نہيں ہيں کيونکہ اس بات ميں شک نہيں ہے کہ وه سب کے سب لغزشوں سے محفوظ نہيں تھے. لہذا آنحضرت کی عترت ميں سے صرف ايک خاص گروه اس قسم کے افتخار سے سرفراز تھا اور يہ قدر ومنزلت صرف کچھ گنے چنے افراد کے لئے تھی اور يہ افراد وہی ائمہ اہل بيت ٪ ہيں جو ہر زمانے ميں امت کو راه دکھانے والے، سنت پيغمبرۖ کے محافظ اور آنحضرتۖ کی شريعت کے پاسبان تھے۔
تبصرے