موضوع سے پہلے تفسیر بغوی کا مختصر تعارف کرواتے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس تفسیر کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
مختصر تعارف کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ سورت فاتحہ کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ
علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے قرطبی، زمخشری اور بغوی رحمہم اللہ کی تفاسیر میں امام بغوی رحمہ اللہ کی تفسیر کو باقی دونوں پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: " فاسلمھا من البدعۃ و الاحادیث الضعیفۃ البغوی" (فتاویٰ ابن تیمیہ ج 2 ص 194) یعنی ان تینوں میں بدعتی نظریات اور ضعیف احادیث سے محفوظ ترین تفسیر امام بغوی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔تفسیر بغوی اردو جلد اول صفحہ 8
مختصر تعارف کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ سورت فاتحہ کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ
" رب العالمین الرحمٰن الرحیم" رب بمعنی مالک ہےجیسے مالک دار کو رب الدار کہا جاتا ہے اور رب الشئی بھی اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ اس شئی کا مالک ہو جائے اور رب بمعنی تربیت و اصلاح کے بھی آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ "رب فلان الضیعۃ یربھا " یعنی فلاں نے زمین کی اصلاح کی اور رب کا لفظ ایسا ہے جیسے کہ " طب" اور " بر" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تمام عالمین کے مالک و مربی ہیں اور مخلوق کو ھو الرب نہیں کہا جا سکتا ( یعنی رب کے لفظ پر الف لام لگا کر الرب کا استعمال مخلوق کے لئے نہیں کیا جا سکتا۔) ہاں اضافتہ کے ساتھ رب کا استعمال صحیح ہے مثلاً " رب الارض ، رب المال " کہا جا سکتا ہےکیونکہ الف لام تعمیم کے لئےہے ( لہٰذا الرب کا معنی ہوگا ہر شئی کا مالک) جبکہ مخلوق ہر شئی کی مالک نہیں ہو سکتیتفسیر بغوی اردو جلد اول صفحہ 31 ، 32
تبصرے