ناظرین اہل اسلام کے ہاں یہ مسئلہ قابل نقاش بنا ہوا ہے کہ کیا انسان اگر اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں، اس حوالے سے اہل اسلام کے ہاں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، کچھ مطلقا اس کو مبطل وضو قرار دیتے ہے اور کچھ مطلقا اس کو عدم مبطل قرار دیتے ہے، پھر جو مبطل وضو قرار دیتے ہے ان میں دو آراء ہیں آیا شہوت کے ساتھ کو ہاتھ لگانے سے ہوگا یا بغیر شہوت کے بھی اس حکم کا اجرا ہوگا، غرض یہ کہ اہل اسلام کے ہاں مختلف رائے ہیں۔ فقہ جعفریہ (شیعہ) میں اگر کوئی شخص اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹتا اور جب وضو نہیں ٹوٹتا تو نماز بھی باقی رہتی ہے اگر دوران نماز ہو۔ اب آتے ہے اصل مسئلہ کی جانب۔
ایک بھائی نے مجھے تہذیب الاحکام سے ایک روایت بھیجی جو کچھ یوں تھی:
الحسين بن سعيد عن فضالة عن معاوية بن عمار قال: سألت أبا عبد الله (ع) عن الرجل يعبث بذكره في الصلاة المكتوبة؟ فقال: لا بأس.
راوی معاویہ بن عمار امام صادق ع سے دریافت کرتے ہے کہ آیا ایک شخص جو اپنی فرض نماز میں اپنی شرمگاہ کے ساتھ تلعب (کھیلے) کرے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ امام جواب دیتے ہے کہ اس کی نماز میں مسئلہ نہیں۔
حوالہ: الاستبصار جلد ١ ص ٨٨ و تہذیب الاحکام جلد ١ ص ٣٤٦
تبصرہ: ادھر گویا یہ تاثر دیا گیا کہ دیکھو شیعوں میں کیسی نماز ادا کی جاتی ہے گویا ان کے ہاں شرمگاہ سے کھیلو اور نماز پھر بھی صحیح تو ذھن میں رہے کہ ایک ادائے نماز کا معاملہ ہوتا ہے اور ایک کمال نماز کا،، تو اجزائے نماز کے عنوان سے اگر کوئی شخص اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے کھجلائے یا آنکھیں قبلہ رخ اوپر نیچی کرے تو اگرچہ یہ خشوع نماز اور کمال نماز کے بالکل برخلاف تو ہے تو لیکن پھر بھی اس کی نماز کو ادا کے عنوان سے صحیح مانا جائے گا اگرچہ قبولیت نماز کے عنوان سے سوال کیا جاسکتا ہے۔ تو جو جس چیز کا محل ہو اس کو ویسے ہی دیکھنا چاہئے، اور ادائے وجوب اور کمال نماز میں فرق کو ذھن میں رکھنا چاہئے۔
اب اگر آپ شوکانی کی عبارت کو دیکھئے تو وہ اس پر بحث کرتے ہے کہ آیا شرمگاہ کو چھونے مبطل وضو ہے یا نہیں، فرماتے ہے:
وذهب علي عليه السلام وابن مسعود وعمار والحسن البصري وربيعة والعترة والثوري وأبو حنيفة وأصحابه وغيرهم إلى أنه غير ناقض . وقد ذكر الحازمي في الاعتبار جماعة من القائلين بهذه المقالة ، وجماعة من القائلين بالمقالة الأولى من الصحابة والتابعين لم نذكرهم هنا فليرجع إليه واحتج الآخرون بحديث طلق بن علي عند أبي داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد والدارقطني مرفوعا بلفظ : { الرجل يمس ذكره أعليه وضوء ؟ فقال صلى الله عليه وسلم : إنما هو بضعة منك } ، وصححه عمرو بن علي الفلاس وقال : هو عندنا أثبت من حديث بسرة .
امام علی علیہ السلام، ابن مسعود، عمار، حسن البصری، ربیعہ، عترت اہلبیت ع، سفیان ثوری، ابو حنیفہ اور ان کے ساتھ کے بقول شرمگاہ کو چھونا مبطل وضو نہیں، حازمی نے اپنی کتاب الاعتبار میں ایک جماعت علماء سے نقل کیا ہے جو اس کو وضو کا مبطل نہیں مانتے اور ان کا ذکر بھی کیا ہے صحابہ اور تابعین میں سے جن کا ہم نے ذکر نہیں کیا جو اس کو وضو کا مبطل مانتی تھی، تو اس طرف رجوع کیجئے اور جو حضرات اس کو وضو کا مبطل نہیں مانتے انہوں نے طلق بن علی کی روایت سے استدلال کیا ہے جس کو ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، احمد اور دار القطنی نے مرفوعا ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا کہ اگر ایک شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو کیا اس پر وضو ہے؟ تو رسول ص نے جواب دیا شرمگاہ اس کے جسم کا ٹکڑا ہے (تو اس کو چھونے سے وضو کیسا؟) عمرو بن علی الفلاس نے اس روایت کو صحیح کہا اور کہا کہ یہ ہمارے نزدیک بسرہ کی حدیث (جو مبطل وضو قرار دیتی ہے) سے زیادہ ثابت شدہ ہے۔
حوالہ: نیل الاوطار جلد ٢ ص ٢٣٥-٢٣٧
چنانچہ ثابت ہوا کہ رسول ص کی ایک روایت کے مطابق، اور خود امیر المؤمنین ع اور عترت اہلبیت علیھم السلام کے مطابق شرمگاہ کو ہاتھ لگانا مبطل وضو نہیں تو جب یہ مبطل وضو نہیں تو نماز کے دوران اگر کوئی چھیڑ چھاڑ کرے تو فقہی عنوان سے اس کی نماز کو باطل نہیں کہا جائے گا اگرچہ اس کو ایسا کرنا یقینا خضوع و خشوع کے منافی ہے، امام ع کا کسی چیز کا فقہی عنوان سے صحیح کہنا اس کو مجزی تو قرار دے سکتا ہے لیکن وہ چیز ضروری نہیں مستحسن بھی ہو۔ کتنی ہی مکروہ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں حکم تو یہ لگے گا کہ ان کے کرنے میں کوئی مانع نہیں لیکن اصلا ان کی کراہیت تو پھر بھی باقی رہتی ہے۔
اب ہم یہی سوال آپ سے پوچھتے ہیں کہ جو حضرات مس الذکر یعنی شرمگاہ کو چھونا وضو کے ٹوٹنے کا باعث نہیں سمجھتے، کیا اگر کوئی شخص نماز میں چھیڑم چھاڑی کرے اور ایسا کرنا عمل کثیر کے ضمرے میں نہ ہو تو کیا اس کی نماز کو باطل کہا جائے گا یا نہیں؟ جو جواب آپ کے مفتی صاحبان کا ہوگا وہی ہمارا سمجھئے۔
خیر طلب
ایک بھائی نے مجھے تہذیب الاحکام سے ایک روایت بھیجی جو کچھ یوں تھی:
الحسين بن سعيد عن فضالة عن معاوية بن عمار قال: سألت أبا عبد الله (ع) عن الرجل يعبث بذكره في الصلاة المكتوبة؟ فقال: لا بأس.
راوی معاویہ بن عمار امام صادق ع سے دریافت کرتے ہے کہ آیا ایک شخص جو اپنی فرض نماز میں اپنی شرمگاہ کے ساتھ تلعب (کھیلے) کرے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ امام جواب دیتے ہے کہ اس کی نماز میں مسئلہ نہیں۔
حوالہ: الاستبصار جلد ١ ص ٨٨ و تہذیب الاحکام جلد ١ ص ٣٤٦
تبصرہ: ادھر گویا یہ تاثر دیا گیا کہ دیکھو شیعوں میں کیسی نماز ادا کی جاتی ہے گویا ان کے ہاں شرمگاہ سے کھیلو اور نماز پھر بھی صحیح تو ذھن میں رہے کہ ایک ادائے نماز کا معاملہ ہوتا ہے اور ایک کمال نماز کا،، تو اجزائے نماز کے عنوان سے اگر کوئی شخص اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے کھجلائے یا آنکھیں قبلہ رخ اوپر نیچی کرے تو اگرچہ یہ خشوع نماز اور کمال نماز کے بالکل برخلاف تو ہے تو لیکن پھر بھی اس کی نماز کو ادا کے عنوان سے صحیح مانا جائے گا اگرچہ قبولیت نماز کے عنوان سے سوال کیا جاسکتا ہے۔ تو جو جس چیز کا محل ہو اس کو ویسے ہی دیکھنا چاہئے، اور ادائے وجوب اور کمال نماز میں فرق کو ذھن میں رکھنا چاہئے۔
اب اگر آپ شوکانی کی عبارت کو دیکھئے تو وہ اس پر بحث کرتے ہے کہ آیا شرمگاہ کو چھونے مبطل وضو ہے یا نہیں، فرماتے ہے:
وذهب علي عليه السلام وابن مسعود وعمار والحسن البصري وربيعة والعترة والثوري وأبو حنيفة وأصحابه وغيرهم إلى أنه غير ناقض . وقد ذكر الحازمي في الاعتبار جماعة من القائلين بهذه المقالة ، وجماعة من القائلين بالمقالة الأولى من الصحابة والتابعين لم نذكرهم هنا فليرجع إليه واحتج الآخرون بحديث طلق بن علي عند أبي داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد والدارقطني مرفوعا بلفظ : { الرجل يمس ذكره أعليه وضوء ؟ فقال صلى الله عليه وسلم : إنما هو بضعة منك } ، وصححه عمرو بن علي الفلاس وقال : هو عندنا أثبت من حديث بسرة .
امام علی علیہ السلام، ابن مسعود، عمار، حسن البصری، ربیعہ، عترت اہلبیت ع، سفیان ثوری، ابو حنیفہ اور ان کے ساتھ کے بقول شرمگاہ کو چھونا مبطل وضو نہیں، حازمی نے اپنی کتاب الاعتبار میں ایک جماعت علماء سے نقل کیا ہے جو اس کو وضو کا مبطل نہیں مانتے اور ان کا ذکر بھی کیا ہے صحابہ اور تابعین میں سے جن کا ہم نے ذکر نہیں کیا جو اس کو وضو کا مبطل مانتی تھی، تو اس طرف رجوع کیجئے اور جو حضرات اس کو وضو کا مبطل نہیں مانتے انہوں نے طلق بن علی کی روایت سے استدلال کیا ہے جس کو ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، احمد اور دار القطنی نے مرفوعا ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا کہ اگر ایک شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو کیا اس پر وضو ہے؟ تو رسول ص نے جواب دیا شرمگاہ اس کے جسم کا ٹکڑا ہے (تو اس کو چھونے سے وضو کیسا؟) عمرو بن علی الفلاس نے اس روایت کو صحیح کہا اور کہا کہ یہ ہمارے نزدیک بسرہ کی حدیث (جو مبطل وضو قرار دیتی ہے) سے زیادہ ثابت شدہ ہے۔
حوالہ: نیل الاوطار جلد ٢ ص ٢٣٥-٢٣٧
چنانچہ ثابت ہوا کہ رسول ص کی ایک روایت کے مطابق، اور خود امیر المؤمنین ع اور عترت اہلبیت علیھم السلام کے مطابق شرمگاہ کو ہاتھ لگانا مبطل وضو نہیں تو جب یہ مبطل وضو نہیں تو نماز کے دوران اگر کوئی چھیڑ چھاڑ کرے تو فقہی عنوان سے اس کی نماز کو باطل نہیں کہا جائے گا اگرچہ اس کو ایسا کرنا یقینا خضوع و خشوع کے منافی ہے، امام ع کا کسی چیز کا فقہی عنوان سے صحیح کہنا اس کو مجزی تو قرار دے سکتا ہے لیکن وہ چیز ضروری نہیں مستحسن بھی ہو۔ کتنی ہی مکروہ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں حکم تو یہ لگے گا کہ ان کے کرنے میں کوئی مانع نہیں لیکن اصلا ان کی کراہیت تو پھر بھی باقی رہتی ہے۔
اب ہم یہی سوال آپ سے پوچھتے ہیں کہ جو حضرات مس الذکر یعنی شرمگاہ کو چھونا وضو کے ٹوٹنے کا باعث نہیں سمجھتے، کیا اگر کوئی شخص نماز میں چھیڑم چھاڑی کرے اور ایسا کرنا عمل کثیر کے ضمرے میں نہ ہو تو کیا اس کی نماز کو باطل کہا جائے گا یا نہیں؟ جو جواب آپ کے مفتی صاحبان کا ہوگا وہی ہمارا سمجھئے۔
خیر طلب
تبصرے