شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب " الانصاف فی بیان سبب الاختلاف " جس کا ترجمہ مولانا محمد عبید اللہ نے" فقہی اختلاف کی حقیقت " کے عنوان سے کیا اس کے صفحہ 24 پر صحابہ میں اختلاف کی تیسری وجہ بیان ہوئی ہے
یا پھر حضرت عمر کو اپنا اجتہاد اتنا عزیز ہوتا تھا کہ حدیث کا انکار کر دیتے تھے؟
یا شاہ ولی اللہ رافضی ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر پر الزام لگایا ہے؟
یا مولانا محمد عبید اللہ صاحب نے ترجمہ میں خیانت کی ہے؟
۔۔۔
اگر ایک صحابی دوسرے صحابی کی بیان کردہ بیان روایت پر یقین کرنے سے انکار کر سکتا ہے تو پر کسی صحابی پر جراح کیوں نہیں کی جا سکتی؟
تحریر و تحقیق : مخدوم عاصم جاوید
" سوم یہ کہ اگر ایک صحابی کو کوئی حدیث پہنچتی مگر اس کی صحت کا گمان غالب نہ ہوتا تو وہ صحابی اپنا اجتہاد ترک نہ کرتا اور اس روایت تو نا درست قرار دیتا "صفحہ 25 پر اس کی مثال یوں پیش کی گئی ہے
اس کی ایک مثال شیخین ( بخاری و مسلم ) کی یہ روایت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر رض نے عمار بن یاسر رض کے اس بیان کو تسلیم نہ کیا اور غیر واضح ضعف کے سبب جو ان کو اس روایت میں نظر آیا ان کے نزدیک یہ روایت دلیل نہ ٹھہری۔۔۔۔"تبصرہ: کیا حضرت عمار بن یاسر رض حضرت عمر کے نزدیک اتنے اتنے بھی صادق نہیں تھے کہ ان کی بیان کردہ حدیث کو صحیح تسلیم کرلیتے؟
یا پھر حضرت عمر کو اپنا اجتہاد اتنا عزیز ہوتا تھا کہ حدیث کا انکار کر دیتے تھے؟
یا شاہ ولی اللہ رافضی ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر پر الزام لگایا ہے؟
یا مولانا محمد عبید اللہ صاحب نے ترجمہ میں خیانت کی ہے؟
۔۔۔
اگر ایک صحابی دوسرے صحابی کی بیان کردہ بیان روایت پر یقین کرنے سے انکار کر سکتا ہے تو پر کسی صحابی پر جراح کیوں نہیں کی جا سکتی؟
تحریر و تحقیق : مخدوم عاصم جاوید
تبصرے