توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت کے کیا معنی ہیں؟
۱۔ توحید ذاتی
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ توحید ذات کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایک ہے دو خدا نہیں ہیں، لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول روایت میں بیان ہوا ہے ، کیونکہ اس کا مطلب ”واحدِ عددی“ ہے (یعنی دوسرے خدا کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اس کا وجود خارجی نہیں ہے)، قطعاًیہ نظریہ باطل ہے، توحید ذات کے صحیح معنی یہ ہیں کہ خدا ایک ہے اور اس کے دوسرے کا تصور بھی نہیں ہے، یا دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ ”خدا کے لئے کوئی شبیہ و نظیر او رمانند نہیں ہے“ نہ کوئی چیز اس کی شبیہ ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز سے مشابہ، کیونکہ ایک لامحدود و بیکراں کامل وجود کے یہی صفات ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: ”اٴیّ شَیءٍ الله اٴکْبَر“ ( اللہ اکبر کے کیا معنی ہیں؟)
تو اس نے عرض کی: ”الله اکبر من کل شیء“ اللہ تمام چیزوں سے بڑا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فَکَانَ ثمَّ شیءٍ فیکونُ اٴکبرُ مِنْہُ“ کیا کوئی چیز (اس کے مقابلہ میں) موجود ہے جس سے خدا بڑا ہو،؟
صحابی نے عرض کیا: ”فما ہو“؟ آپ خود ہی فرمائیں اللہ اکبر کی تفسیر کیا ہے؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اللهُ اٴکبرُ من اٴنْ یُوصفْ“ خدا اس سے کہیں بلند و بالا ہے کہ اس کی توصیف کی جائے۔(1)
۲۔توحید صفاتی
جس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ توحید کی ایک قسم ”توحید صفاتی“ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف خداوندعالم جس طرح اپنی ذات میں ازلی اور ابدی ہے اسی طرح اپنے صفات: علم و قدرت وغیرہ میں بھی ازلی و ابدی ہے، تو دوسری طرف یہ کہ یہ صفات زائد بر ذات نہیں ہیں یعنی اس کی ذات پر عارض نہیں ہیں بلکہ یہ صفات ؛ عین ذات ہیں۔
نیز یہ کہ اس کے صفات ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں یعنی اس کا علم اور اس کی قدرت ایک ہی ہیں، اور دونوں اس کی عین ذات ہیں!۔
مزیدوضاحت: جب ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں کہ شروع شروع میںہمارے یہاں بہت سے صفات نہیں تھے، پیدائش کے وقت نہ علم تھا اور نہ طاقت، لیکن آہستہ آہستہ یہ صفات ہمارے یہاں پیدا ہوتے گئے،اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ صفات ہمارے لئے زائد بر ذات ہیں ، لہٰذا ممکن ہے کہ ایک روز ہمارا وجود ہو لیکن ہمارا علم و طاقت ختم ہوجائے ، نیز ہم اس بات کو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ ہمارا علم اور ہماری قدرت ہم سے جدا اور الگ ہیں، طاقت ہمارے جسم میں اور علم ہماری روح میں نقش ہے!
لیکن خداوندعالم کے یہاں یہ تصور نہیں پایاجاتا،بلکہ اس کی تمام ذات علم ہے، اس کی تمام ذات قدرت ہے اور یہ تمام چیزیں ایک ہی ہیں، البتہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان معنی و مفہوم کی تصدیق کرنا تھوڑا پیچیدہ او ر غیرمانوس ہے کیونکہ یہ صفات ہمارے یہاں نہیں پائے جاتے،
(1) ”معانی الاخبار“ ،صدوق ۺ ، صفحہ ۱۱، حدیث۱․
صرف عقل و منطق اور دقیق استدلال کے ذریعہ ہی ان صفات کو سمجھا جاسکتا ہے۔(1)
۳۔توحید افعالی
یعنی دنیا میں ہر موجود،اور ہر فعل خداوندعالم کی ذات پاک کی طرف پلٹتا ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، تمام علتوں کی علت اسی کی ذات اقدس ہے، یہاں تک کہ جن افعال کو ہم انجام دیتے ہیں ایک طرح سے وہ بھی اسی کی طرف پلٹتے ہیں، اس نے ہمیں قدرت، اختیار اور ارادہ دیا ہے، لہٰذا ایک لحاظ سے ہم اپنے افعال کے فاعل اور ان کے ذمہ دارہیں ، اورایک لحاظ سے ان کا فاعل خداوندعالم ہے، کیونکہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ سب اسی کی طرف پلٹتا ہے۔ ”لا موٴثر فی الوجود الا الله“ (وجود میں سوائے اللہ کے کوئی موثر نہیں ہے)
۴۔ عبادت میں توحید
یعنی صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کا اہل اور سزاوار نہیں ہے، کیونکہ عبادت اس کی ہونی چاہئے کہ جو کمالِ مطلق اور مطلق کمال ہو، جو سب سے بے نیاز ہو، جو تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا ہو، جو تمام موجودات کا خلق کرنے والا ہو، اور یہ صفات ذات اقدس الٰہی کے علاوہ کسی غیر میں نہیں ہیں۔
عبادت کا اصلی مقصد کمالِ مطلق اور لامتناہی وجودکی بارگاہ میں قرب حاصل کرنا ہے، تاکہ اس کے صفات کمال و جمال کا عکس انسان کی روح پر پڑے، جس کے نتیجہ میں انسان ہوا ہوس سے دوری اختیار کرے اور اپنے نفس کے تزکیہ اور پاکیزگی کے لئے سعی وکوشش کرے۔
عبادت کا یہ ہدف اور مقصد صرف ”اللہ تعالیٰ“ کی عبادت میں موجودہے اور اس کے علاوہ کسی غیر کی عبادت میں نہیں پایا جاتا چونکہ صرف وہی کمال مطلق ہے۔(۲)
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۷، صفحہ ۴۴۶․ (۲) تفسیر پیام قرآن، جلد ۳، صفحہ ۲۷۴․
تبصرے