کيا خداوندعالم کو ديکھا جاسکتا ہے؟
کتاب : 110 سوال و جواب
تالیف : ناصر مکارم شیرازی رح
مترجم : اقبال حیدر حیدری
عقلی دلائل اس بات کی گواہی ديتے ہيں کہ خداوندعالم کو ہرگز آنکھوں کے ذريعہ نہيں دےکھاجا سکتا، کيونکہ آنکھ تو کسی چيز کے جسم يا صحيح الفاظ ميں چيزوں کی کيفيتوں کو ديکھ سکتی ہيں، اور جس چيز کا کوئی جسم نہ ہو بلکہ اس ميں جسم کی کوئی کيفيت بھی نہ ہو تو اس چيز کو آنکھ کے ذريعہ نہيں ديکھا جاسکتا، دوسرے الفاظ ميں يوں سمجھئے کہ آنکھ اس چيز کو ديکھنے کی صلاحيت رکھتی ہے جس ميں مکان، جہت اور ماده ہو ، حالانکہ خداوندعالم ان تمام چيزوں سے پاک و پاکيزه ہے اور اس کا وجود لامحدود ہے اسی وجہ سے وه ہمارے اس مادی جہان سے بالاتر ہے، کيونکہ مادی جہان ميں سب چيزيں محدود ہيں۔ قرآن مجيد کی بہت سی آيات ،منجملہ بنی اسرائيل سے متعلق آيات جن ميں خداوندعالم کے ديدار کی درخواست کی گئی ہے، ان ميں مکمل وضاحت کے ساتھ خداوندعالم کے ديد ار کے امکان کی نفی کی گئی ہے، ليکن تعجب کی بات يہ ہے کہ بہت سے اہل سنت علمايہ عقيده رکھتے ہيں کہ اگر خداوندعالم اس دنيا ميں نہيں دکھائی دے سکتا تو روز قيامت ضرور دکھائی دے گا!! جيسا کہ مشہور و معروف اہل سنت عالم، صاحب تفسير المنار کہتے ہيں:”ھَذا مَذْھبُ أہل السُّنة والعِلم بالحديثِ “ (يہ عقيده اہل سنت اور علمائے اہل حديث کا ہے) ( 1 )
اس سے بھی زياده عجيب بات يہ ہے کہ عصر حا ضر کے علمائے اہل سنت جو اپنے کو روشن فکر بھی سمجھتے ہيں وه بھی اسی عقيده کا اظہارکرتے ہيں اور کبھی کبھی تو اس سلسلہ ميں بہت زياده ہٹ دھرمی کرتے ہيں! حالانکہ اس عقيده کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث و گفتگو کی بھی ضرورت نہيں ہے، کيونکہ اس سلسلہ ميں (جسمانی معاد کے پيش نظر) دنيا و آخرت ميں کوئی فرق نہيں ہے ، کيو نکہ جب خداوندعالم کی ذات اقدس مادی نہيں ہے وه ماده سے پاک و منزه ہے، تو کيا وه روز قيامت ايک مادی وجود ميں تبديل ہوجائے گا، اور اپنی لامحدود ذات سے محدود بن جائے گا، کيا اس دن خدا جسم يا عوارض جسم ميں تبديل ہوجائے گا؟ کيا خداوندعالم کے عدم ديدار کے عقلی دلائل دنيا و آخرت ميں کوئی فرق کرتے ہيں؟ ہر گز نہيں، کيونکہ عقلی حکم کوئی استثنا نہيں ہوتا ۔ اسی طرح بعض لوگوں کا يہ غلط توجيہ کرنا کہ ممکن ہے انسان کو روز قيامت دوسری آنکھيں مل جائيں يا انسان کو ايک دوسرا ادراک مل جائے جس سے وه خداوندعالم کا ديدار کرسکے، تو يہ بالکل بے بنياد ہيں، کيونکہ اگر اس ديد اور آنکھ سے يہی عقلانی اور فکری ديد مراد ہے تو يہ تو اس دنيا ميں بھی موجود ہے اور ہم اپنے دل اور عقل کی آنکھوں سے خدا کے جمال کا مشاہده کرتے ہيں، اور اگر اس سے مراد وہی چيز ہے جس کو آنکھوں سے ديکھا جائے گا تو اس طرح کی چيز خداوندعالم کے بارے ميں محال اور ناممکن ہے، چاہے وه اس دنيا سے متعلق ہو يا اُس دنيا سے،لہٰذا کسی کا يہ کہنا کہ انسان اس دنيا ميں خدا کو نہيں ديکھ سکتا مگر مومنين روز قيامت خداوندعالم کا ديدار کريں گے، يہ بات غير منطقی اور ناقابل قبول ہے۔ يہ لوگ اپنی معتبر کتابوں ميں موجود بعض احاديث کی بنا پر اس عقيده کا دفاع کرتے ہيں جن احاديث ميں روز قيامت خدا کے ديدار کی بات کہی گئی ہے،ليکن کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ ان روايات کے باطل ہونے کو عقل کے ذريعہ پرکھيں اور ان روايات کو جعلی اور جن کتابوں ميں يہ روايات بيان ہوئی ہيں ان کو بے بنياد مانيں، مگر يہ کہ ان روايات کو دل کی آنکھوں سے مشاہده کے معنی ميں تفسير کريں، کيا يہ صحيح ہے کہ اس طرح کی روايات کی بناپر اپنی عقل کو الوداع کہہ ديں ، اور اگر قرآن کريم کی بعض آيات ميں اس طرح کے الفاظ موجود ہيں جن کے ذريعہ پہلی نظر ميں ديدار خدا کا مسئلہ سمجھ ميں اتا ہے، جيسا کہ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے:
اس سے بھی زياده عجيب بات يہ ہے کہ عصر حا ضر کے علمائے اہل سنت جو اپنے کو روشن فکر بھی سمجھتے ہيں وه بھی اسی عقيده کا اظہارکرتے ہيں اور کبھی کبھی تو اس سلسلہ ميں بہت زياده ہٹ دھرمی کرتے ہيں! حالانکہ اس عقيده کا باطل ہونا اس قدر واضح ہے کہ بحث و گفتگو کی بھی ضرورت نہيں ہے، کيونکہ اس سلسلہ ميں (جسمانی معاد کے پيش نظر) دنيا و آخرت ميں کوئی فرق نہيں ہے ، کيو نکہ جب خداوندعالم کی ذات اقدس مادی نہيں ہے وه ماده سے پاک و منزه ہے، تو کيا وه روز قيامت ايک مادی وجود ميں تبديل ہوجائے گا، اور اپنی لامحدود ذات سے محدود بن جائے گا، کيا اس دن خدا جسم يا عوارض جسم ميں تبديل ہوجائے گا؟ کيا خداوندعالم کے عدم ديدار کے عقلی دلائل دنيا و آخرت ميں کوئی فرق کرتے ہيں؟ ہر گز نہيں، کيونکہ عقلی حکم کوئی استثنا نہيں ہوتا ۔ اسی طرح بعض لوگوں کا يہ غلط توجيہ کرنا کہ ممکن ہے انسان کو روز قيامت دوسری آنکھيں مل جائيں يا انسان کو ايک دوسرا ادراک مل جائے جس سے وه خداوندعالم کا ديدار کرسکے، تو يہ بالکل بے بنياد ہيں، کيونکہ اگر اس ديد اور آنکھ سے يہی عقلانی اور فکری ديد مراد ہے تو يہ تو اس دنيا ميں بھی موجود ہے اور ہم اپنے دل اور عقل کی آنکھوں سے خدا کے جمال کا مشاہده کرتے ہيں، اور اگر اس سے مراد وہی چيز ہے جس کو آنکھوں سے ديکھا جائے گا تو اس طرح کی چيز خداوندعالم کے بارے ميں محال اور ناممکن ہے، چاہے وه اس دنيا سے متعلق ہو يا اُس دنيا سے،لہٰذا کسی کا يہ کہنا کہ انسان اس دنيا ميں خدا کو نہيں ديکھ سکتا مگر مومنين روز قيامت خداوندعالم کا ديدار کريں گے، يہ بات غير منطقی اور ناقابل قبول ہے۔ يہ لوگ اپنی معتبر کتابوں ميں موجود بعض احاديث کی بنا پر اس عقيده کا دفاع کرتے ہيں جن احاديث ميں روز قيامت خدا کے ديدار کی بات کہی گئی ہے،ليکن کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ ان روايات کے باطل ہونے کو عقل کے ذريعہ پرکھيں اور ان روايات کو جعلی اور جن کتابوں ميں يہ روايات بيان ہوئی ہيں ان کو بے بنياد مانيں، مگر يہ کہ ان روايات کو دل کی آنکھوں سے مشاہده کے معنی ميں تفسير کريں، کيا يہ صحيح ہے کہ اس طرح کی روايات کی بناپر اپنی عقل کو الوداع کہہ ديں ، اور اگر قرآن کريم کی بعض آيات ميں اس طرح کے الفاظ موجود ہيں جن کے ذريعہ پہلی نظر ميں ديدار خدا کا مسئلہ سمجھ ميں اتا ہے، جيسا کہ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے:
< وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ # إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَة >(2)
”اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے۔اپنے پروردگار( کی نعمتوں) پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے“۔
مذکوره آيت درج ذيل آيت کی طرح ہے:
”اس دن بعض چہرے شاداب ہوں گے۔اپنے پروردگار( کی نعمتوں) پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے“۔
مذکوره آيت درج ذيل آيت کی طرح ہے:
< يَدُ للهِ فَوْقَ أَيْدِيہِمْ> (3)
”اور ان کے ہاتھوں کے اوپر لله ہی کا ہاتھ ہے“۔
جس ميں کنايةً قدرت پروردگار کی بات کی گئی ہے، کيونکہ ہم جانتے ہيں کہ قرآن مجيد کی کوئی بھی آيت اپنے حکم کے برخلاف حکم نہيں دے گی۔ قابل توجہ بات يہ ہے کہ اہل بيت عليہم السلام سے منقول روايات ميں اس باطل عقيده کی شدت سے نفی اور مخالفت کی گئی ہے، اور ايسا عقيده رکھنے والوں پر مختلف انداز ميں تنقيد کی گئی ہے، جيسا کہ حضرت امام صادق
عليہ السلام کے مشہور و معروف صحابی جناب ہشام کہتے ہيں: ميں حضرت امام صادق عليہ السلام کی خدمت ميں تھاکہ امام عليہ السلام کے ايک دوسرے صحابی معاويہ بن وہب آپ کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا: اے فرزند رسول! آپ اس روايت کے بارے ميں کيا فرماتے ہيں جس ميں بيان ہوا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے خدا کا ديدارکيا ہے؟(اے فرزند رسول آپ بتائيے کہ ) آنحضرت (ص) نے کس طرح خدا کو ديکھا ہے؟ اور اسی طرح آنحضرت (ص) سے منقول روايت جس ميں بيان ہوا ہے کہ مومنين جنت ميں خدا کا ديدار کريں گے، تو يہ ديدار کس طرح ہوگا؟!
اس موقع پر امام صادق عليہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمايا: اے معاويہ بن ٨٠ سال کی عمر پائے ، خدا کے ، وہب! کتنی بری بات ہے کہ انسان ٧٠ ملک ميں زندگی گزارے اس کی نعمتوں سے فيضياب ہو، ليکن اس کو صحيح طريقہ سے نہ پہچان سکے، اے معاويہ! پيغمبر اکرم (ص) نے ان آنکھوں سے خدا کا ديدار نہيں کيا ہے، ديدار اور مشاہده کی دو قسميں ہوتی ہيں: دل کی آنکھوں سے ديدار ، اور سر کی آنکھوں سے ديدار، اگر کوئی شخص يہ کہے کہ اس نے دل کی آنکھوں سے خدا کا ديدار کيا ہے تو صحيح ہے ليکن اگر کوئی کہے کہ ان ظاہری آنکھوں سے خدا کا ديدار کيا ہے تو وه جھوٹ بولتا ہے اور خدا اور اس کی آيات کاانکار کرتا ہے، کيونکہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: جو شخص خداوندعالم کو مخلوق کی شبيہ اور مانند قرار دے تو وه کافر ہے۔ (4)
”اور ان کے ہاتھوں کے اوپر لله ہی کا ہاتھ ہے“۔
جس ميں کنايةً قدرت پروردگار کی بات کی گئی ہے، کيونکہ ہم جانتے ہيں کہ قرآن مجيد کی کوئی بھی آيت اپنے حکم کے برخلاف حکم نہيں دے گی۔ قابل توجہ بات يہ ہے کہ اہل بيت عليہم السلام سے منقول روايات ميں اس باطل عقيده کی شدت سے نفی اور مخالفت کی گئی ہے، اور ايسا عقيده رکھنے والوں پر مختلف انداز ميں تنقيد کی گئی ہے، جيسا کہ حضرت امام صادق
عليہ السلام کے مشہور و معروف صحابی جناب ہشام کہتے ہيں: ميں حضرت امام صادق عليہ السلام کی خدمت ميں تھاکہ امام عليہ السلام کے ايک دوسرے صحابی معاويہ بن وہب آپ کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا: اے فرزند رسول! آپ اس روايت کے بارے ميں کيا فرماتے ہيں جس ميں بيان ہوا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے خدا کا ديدارکيا ہے؟(اے فرزند رسول آپ بتائيے کہ ) آنحضرت (ص) نے کس طرح خدا کو ديکھا ہے؟ اور اسی طرح آنحضرت (ص) سے منقول روايت جس ميں بيان ہوا ہے کہ مومنين جنت ميں خدا کا ديدار کريں گے، تو يہ ديدار کس طرح ہوگا؟!
اس موقع پر امام صادق عليہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمايا: اے معاويہ بن ٨٠ سال کی عمر پائے ، خدا کے ، وہب! کتنی بری بات ہے کہ انسان ٧٠ ملک ميں زندگی گزارے اس کی نعمتوں سے فيضياب ہو، ليکن اس کو صحيح طريقہ سے نہ پہچان سکے، اے معاويہ! پيغمبر اکرم (ص) نے ان آنکھوں سے خدا کا ديدار نہيں کيا ہے، ديدار اور مشاہده کی دو قسميں ہوتی ہيں: دل کی آنکھوں سے ديدار ، اور سر کی آنکھوں سے ديدار، اگر کوئی شخص يہ کہے کہ اس نے دل کی آنکھوں سے خدا کا ديدار کيا ہے تو صحيح ہے ليکن اگر کوئی کہے کہ ان ظاہری آنکھوں سے خدا کا ديدار کيا ہے تو وه جھوٹ بولتا ہے اور خدا اور اس کی آيات کاانکار کرتا ہے، کيونکہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: جو شخص خداوندعالم کو مخلوق کی شبيہ اور مانند قرار دے تو وه کافر ہے۔ (4)
اسی طرح ايک دوسری روايت جو ”کتاب توحيد “شيخ صدوقۺ ميں اسماعيل بن فضل سے نقل ہوئی ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے سوال کيا کہ کيا روز قيامت خداوندعالم کا ديدار ہوسکتا ہے؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: خداوندعالم اس چيز سے پاک و پاکيزه ہے اور بہت ہی پاک و پاکيزه ہے:
” إنَّ الأَبصَار لا تُدرک إلاَّ ما لَہ لون والکيفية ولله خالق الألوان والکيفيات“( 5 )
”آنکھيں صرف ان چيزوں کو ديکھ سکتی ہيں جن ميں رنگ اور کيفيت ہو جبکہ خداوندعالم رنگ اور کيفيت کا خالق ہے“۔
قابل توجہ بات يہ ہے کہ اس حديث ميں لفظ ”لَون“ (يعنی رنگ) پر خاص توجہ دی گئی ہے اور آج کل ہم پر يہ بات واضح و روشن ہے کہ ہم خود جسم کو نہيں ديکھ سکتے بلکہ کسی چيز کے جسم کا رنگ ديکھا جاتا ہے، اور اگر کسی جسم کا کوئی رنگ نہ ہو تو وه ہرگز دکھائی نہيں دے سکتا۔( 6 )
جناب موسیٰ (ع) نے ديدارخدا کی درخواست کيوں کی؟
سوره اعراف آيت نمبر ١۴٣ / ميں جناب موسیٰ عليہ السلام کی زبانی نقل ہوا کہ انھوں نے عرض کی: (پالنے والے! مجھے اپنا ديدار کرادے) ، اس آيت کے پيش نظر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ جيسا بزرگ اور اولو العزم نبی يہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ خداوندعالم نہ جسم رکھتا ہے اور نہ مکان اور نہ ہی قابل ديدار ہے، تو پھر انھوں نے ايسی درخواست کيوں کی جو کہ ايک عام آدمی سے بھی بعيد ہے؟ اگر چہ مفسرين نے اس سلسلہ ميں مختلف جواب پيش کئے ہيں ليکن سب سے واضح جواب يہ ہے کہ جناب موسیٰ عليہ السلام نے يہ درخواست اپنی قوم کی طرف سے کی تھی، کيونکہ بنی اسرائيل کے بہت سے جاہل لوگ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ خدا پر ايمان لانے کے لئے پہلے اس کوديکھيں گے، (سوره نساء کی آيت نمبر ١۵٣ / اس بات کی شاہد ہے) جناب موسیٰ عليہ السلام کو خدا کی طرف سے حکم ملا کہ اس درخواست کو بيان کريں، تاکہ سب لوگ واضح جواب سن سکيں، چنا نچہ کتاب عيون اخبار الرضا عليہ السلام ميں امام علی بن موسیٰ الرضا سے مروی حديث بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے۔( 7 )
انھيں معنی کو روشن کرنے والے قرائن ميں سے ايک قرينہ يہ ہے کہ اسی سوره کی آيت نمبر ۵۵ ميں جناب موسی عليہ السلام اس واقعہ کے بعد عرض کرتے ہيں: ”أتھلُکنا بِما فَعَلَ السُّ فَھاء مِنَّا“ ( کيا اس کام کی وجہ سے ہميں ہلاک کردے گا؟ جس کو ہمارے بعض کم عقل لوگوں نے انجام ديا ہے؟)
اس جملہ سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جناب موسیٰ عليہ السلام نے نہ صرف اس طرح کی درخواست نہيں کی تھی بلکہ شايد وه ٧٠ افراد جو آپ کے ساتھ کوهِ طور پر گئے تھے ان کا بھی يہ عقيده نہيں تھا، وه صرف بنی اسرائيل کے دانشور اورلوگوں کی طرف سے نمائندے تھے، تاکہ ان جاہل لوگوں کے سامنے اپنی آنکھوں ديکھی کہانی کو بيان کريں جو خدا کے ديدار کے لئے اصرار کررہے تھے۔
”آنکھيں صرف ان چيزوں کو ديکھ سکتی ہيں جن ميں رنگ اور کيفيت ہو جبکہ خداوندعالم رنگ اور کيفيت کا خالق ہے“۔
قابل توجہ بات يہ ہے کہ اس حديث ميں لفظ ”لَون“ (يعنی رنگ) پر خاص توجہ دی گئی ہے اور آج کل ہم پر يہ بات واضح و روشن ہے کہ ہم خود جسم کو نہيں ديکھ سکتے بلکہ کسی چيز کے جسم کا رنگ ديکھا جاتا ہے، اور اگر کسی جسم کا کوئی رنگ نہ ہو تو وه ہرگز دکھائی نہيں دے سکتا۔( 6 )
جناب موسیٰ (ع) نے ديدارخدا کی درخواست کيوں کی؟
سوره اعراف آيت نمبر ١۴٣ / ميں جناب موسیٰ عليہ السلام کی زبانی نقل ہوا کہ انھوں نے عرض کی: (پالنے والے! مجھے اپنا ديدار کرادے) ، اس آيت کے پيش نظر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ جيسا بزرگ اور اولو العزم نبی يہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ خداوندعالم نہ جسم رکھتا ہے اور نہ مکان اور نہ ہی قابل ديدار ہے، تو پھر انھوں نے ايسی درخواست کيوں کی جو کہ ايک عام آدمی سے بھی بعيد ہے؟ اگر چہ مفسرين نے اس سلسلہ ميں مختلف جواب پيش کئے ہيں ليکن سب سے واضح جواب يہ ہے کہ جناب موسیٰ عليہ السلام نے يہ درخواست اپنی قوم کی طرف سے کی تھی، کيونکہ بنی اسرائيل کے بہت سے جاہل لوگ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ خدا پر ايمان لانے کے لئے پہلے اس کوديکھيں گے، (سوره نساء کی آيت نمبر ١۵٣ / اس بات کی شاہد ہے) جناب موسیٰ عليہ السلام کو خدا کی طرف سے حکم ملا کہ اس درخواست کو بيان کريں، تاکہ سب لوگ واضح جواب سن سکيں، چنا نچہ کتاب عيون اخبار الرضا عليہ السلام ميں امام علی بن موسیٰ الرضا سے مروی حديث بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے۔( 7 )
انھيں معنی کو روشن کرنے والے قرائن ميں سے ايک قرينہ يہ ہے کہ اسی سوره کی آيت نمبر ۵۵ ميں جناب موسی عليہ السلام اس واقعہ کے بعد عرض کرتے ہيں: ”أتھلُکنا بِما فَعَلَ السُّ فَھاء مِنَّا“ ( کيا اس کام کی وجہ سے ہميں ہلاک کردے گا؟ جس کو ہمارے بعض کم عقل لوگوں نے انجام ديا ہے؟)
اس جملہ سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جناب موسیٰ عليہ السلام نے نہ صرف اس طرح کی درخواست نہيں کی تھی بلکہ شايد وه ٧٠ افراد جو آپ کے ساتھ کوهِ طور پر گئے تھے ان کا بھی يہ عقيده نہيں تھا، وه صرف بنی اسرائيل کے دانشور اورلوگوں کی طرف سے نمائندے تھے، تاکہ ان جاہل لوگوں کے سامنے اپنی آنکھوں ديکھی کہانی کو بيان کريں جو خدا کے ديدار کے لئے اصرار کررہے تھے۔
...........................................
1) تفسير المنار ، جلد ٧، صفحہ ۶۵٣
2) سورهٔ قيامت ، آيت ٢٣ ۔ ٢۴
3)سورهٔ فتح ،آيت ١٠
4) معانی الاخبار بنا بر نقل تفسير الميزان ، جلد ٨، صفحہ ٢۶٨ )
5) نور الثقلين ، جلد اول، صفحہ ٧۵٣
6) تفسير نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ٣٨١ 2.) تفسير نور الثقلين ، جلد ٢، صفحہ ۶۵
7) تفسير نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ٣۵۶
6) تفسير نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ٣٨١ 2.) تفسير نور الثقلين ، جلد ٢، صفحہ ۶۵
7) تفسير نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ٣۵۶