امام علی علیہ السلام کااپنے حق کے دفاع میں ایک مکا لمہ
خلافت عثمان کے زمانہ میں مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ مسجد نبوی میں جمع ہوا جن کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی اور وہیں ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ان لوگوں نے آپس میں گفتگو اور مناظرہ کیا۔بعض لوگ علم و تقویٰ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہتے تھے کہ قریش تمام دوسرے لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی فضیلت کے سلسلہ میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا تھا:
”الائمة من قریش ،ائمہ قریش سے ہیں“۔
یا دوسری جگہ فرمایا:
”الناس تبع لقریش وقریش ائمة العرب“
”لوگ قریش کے پیروہیں اور قریش عرب کے امام ہیں“۔
اس طرح ہر گروہ اپنی اپنی صاحب افتخار شخصیتوں کو شمار کرنے لگا ،مہاجرین میں علی علیہ السلام سعد وقاص عبد الرحمن عوف ،طلحہ وزبیر، مقداد ، ہاشم بن عتبہ، عبد اللہ بن عمر،حسن وحسین علیہم السلام اور عمر بن ابوبکر عبد اللہ بن جعفر جیسے لوگ تھے۔
اور انصار میں ابی بن کعب ،زید بن ثابت ،ابو ایوب انصاری ،قیس بن سعد،جابر بن عبد اللہ انصاری انس بن مالک جیسے لوگ تھے یہ گفتگو اور مناظرہ صبح سے لے کر دو پہر تک اسی حالت میں ہوتا رہا، عثمان اپنے گھر میں تھے جب کہ علی علیہ السلام اور ان کے متعلقین سب کے سب خاموش بیٹھے تھے۔
اسی دوران کچھ لوگ امام علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا: ”آپ کیوں نہیں کچھ بول رہے ہیں؟“
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”تم دونوں گروہوں نے اپنی اپنی عظمت بیان کی (اور رہبری کے لئے اپنی شائستگی کے متعلق باتیں کی)لیکن میں دونوں گروہ سے یہ پوچھتاہوں کہ تم لوگوں کو خدا وند متعال نے یہ فضیلت اور برتری کس کی وجہ سے عطا کی ہے؟“مہاجرین اور انصار نے کہا: ”یہ تمام امتیازات و فضیلتیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور ان کے خاندان کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوئی ہیں“، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ”سچ کہا،آیا تم یہ نہیں جانتے کہ اس دنیا اور آخر ت کی تمام سعادتیں تمہیں ہمارے خاندان نبوت کی بدولت ملی ہیں اور میرے چچازاد بھائی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: ”میں اور میرا خاندان جناب آدم علیہ السلام کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے نور کی شکل میں خداوند عالم کی بار گاہ میں موجود تھا پھر خداوندمتعال اس نور کو ایک نسل کے بعد دوسری آنے والی نسل کے صلب اور پاک رحم میں منتقل ہوتا رہا جس میں ذرہ برابر بھی نجاست نہیں پائی جاتی ہے۔
اس کے بعد مولائے کائنات علی علیہ السلام نے اپنے فضائل کا ایک ٹکڑا بیان کیا اور لوگوں سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا ایسا نہیں ہے؟تمام لوگوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ رسول اسلام نے آپ کے بارے میں یہ چیزیں بیان فرمائیں ہیں۔
منجملہ یہ بھی فرمایا: ”تم لوگوں کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے بھی پیغمبر کی زبان سے میری خلافت کے بارے میں سنا ہے وہ اٹھ کر گواہی دے“۔
اسی وقت سلمان ،ابوذر،مقداد، عمار ،زید بن ارقم، براء بن عازب جیسے لوگوں نے اٹھ کر کہا:
”ہم لوگ گواہی دیتے ہیں ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس روزکی بات آج بھی یاد ہے کہ جب رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتشریف رکھتے تھے اور آپ منبر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ آنحضرت نے فرمایا: ”خدا وند متعال نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ علی میرے ،وصی ،جانشین اور میرے بعد میرے تمام کاموں کے ذمہ دار ہیں اور خداوند متعال نے ان کی اطاعت تمام مومنوں پر واجب قرار دی ہے ،اے لوگو! یہ میرا بھائی علی میرے بعد تمہارا امام مولا اور راہنما ہے:
”وھو فیکم بمنزلتي فیکم فقلدوہ دینکم واطیعوہ فی جمیع امورکم“۔[1]
”تمہارے درمیان جو مقام ومنزلت میرا ہے وہی علی کا بھی ہے تم دین خدا میں ان کی پیروی کرو اور اپنے تمام امور میں انھیں کی اطاعت کرو“۔
اس طرح مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے لوگوں کے درمیان اپنی امامت کو ثابت کیا اور اتمام حجت کر دیا۔
------------------------------------
حوالاجات
[1] الغدیر ،ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۶ تک کا خلاصہ ،فرائد السمطین ،باب ۷۸،سمط اول۔
تبصرے