عائشہ کا اقرارِ بدعات اور روایات کی تحقیق و تخریج
حضرت عائشہ نے مرنے سے پہلے اپنے گناھوں کے اقرار کئے اور کہا کہ کاش کہ اللہ مجھے پیدا نہ کرتا، کاش میں درخت ھوتی کاش میں پتھر ھوتی --- پوچھا گیا کہ ان دعاؤں کی وجہ کیا ھے تو کہا کہ " کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد نئی نئی باتیں اختیار کر لی تھیں- یعنی بدعتیں اختیار کر لی تھیں" اس لئے مجھے رسول اللہﷺ کے پاس دفن نہ کرنا بلکہ باقی ازواج کے پاس جنت البقیح میں دفن کرنا--یہاں پر ھم صرف صحیح اسناد سے اس اقرار کو ثابت کریں گے اور تمام روایات اھلِسنت والجماعت کی کتب سے لی گئی ھیں اور تمام کی تمام روایات صحیح ھیں
گو کہ المستدرک علی الصحیحین میں اس روایت کو شیخین (یعنی بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح کہا ھے لیکن اس کے باوجود ھم اس کی سند کی تحقیق طبقاتِ ابنِ سعد سے لی گئی روایت سے پیش کر دیں گے
اس سے پہلے ایک نظر صحیح البخاری پر دوڑاتے ھیں اور دیکھتے ھیں کہ بدعت کرنے والے کہ بارے میں رسول اللہ ﷺ کا کیا قول ھے؟
صحیح البخاری کی جلد نمبر 3 حدیث نمبر 1870 میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ھیں کہ بدعتی پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ھے اور نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ھے اور نہ نفل -- ملاحظہ کریں صحیح البخاری کا سکین
اب آتے ھیں المستدرک علی الصحیحین کی طرف اس کی جلد نمبر 4 اور حدیث نمبر 6796 کامتن اوپر بیان ھو چکا ھے لیکن ایک بار پھر بیان کر دیتے ھیں کہ عائشہ کہ میں نے خود سے بدعتیں ایجاد کی ھیں اور مجھے رسول اللہﷺ اور ابوبکر کے ساتھ نہ دفنایا جائے اور مجھے دوسری ازواجِ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنت البقیح میں دفنایا جائے
حاکم نے اس روایت کو مسلم اور بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ھے
اور یہی روایت دو جگہ پر المصنف میں بھی وارد ھوئی ھے ملاحضہ کریں سکین
اسی روایت کو صحیح اسناد کے ساتھ ابنِ سعد نے الطبقات الکبریٰ میں نقل کیا ھے ملاحضہ فرمائے سکین
طبقات ابنِ سعد کی سند میں 4 راوی ھیں 1:- فضل بن دکین ، 2:- حسن بن صالح، 3:- اسماعیل بن ابی خالد، 4:- قیس اور یہ چاروں کے چاروں ثقہ راوی ھیں ملاحضہ فرمائیں چاروں راوی
دوسرے راوی :- حسن بن صالح
تیسرے راوی:- اسماعیل بن ابی خالد
چوتھے راوی:- قیس
حرفِ آخر:- ان تمام روایات و احادیث کی روشنی میں صحیح احادیث سے ثابت ھوتا ھے کہ حضرت عائیشہ نے بعد از وفاتِ رسول اللہ ﷺ کی بدعات کیں اور ایسے گناہ کئے جن کی بنیاد پر انہوں نے درخت، پتھر اور پیدا ھی نہ ھونے کی خواہشات کا اظہار کیا-- اگر ان روایات کو صحیح بخاری کی پیش کی گئی حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو فیصلہ آپ خود کر سکتے ھیں
والسلام علی داور