امام حسن ع
ولادت باسعادت: 15 رمضان المبارک سن 3 ہجریمحل ولادت: مدینہ منورہ
والد کا نام: امام علی ابن ابی طالب ع
والدہ کا نام: فاطمہ بنت رسول خدا
سن مبارک: 47سال
شہادت: 27 صفر سن 50 ہجری
محل شہادت: مدینہ
مدفن: قبرستان بقیع
حضرت علی ع نے اپنے فرزند امام حسن ع کو خدا کے حکم سے منصب امامت لئے معین فرمایا
(اثباۃ الہداۃ ج 5 ص 121)
حضرت رسول خدا امام حسن ع اور حسین ع کو بہت چاہتے اور ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں
( ینابیع المودۃ ص 373 )
حضرت حسن ع اپنے والد کی شہادت کے بعد مسند خلافت و حکومت پر جلوۃ افروز ہوئے لیکن معاویہ کی شدید مخالفت اور اس کے حیلہ و فریب کے سبب جنگ کی نوبت آگئی اور وہ وقت یہاں تک آپہونچا کہ معاویہ کی فوج امام حسن ع جے روبرو کھڑی ہو گئی جب امام حسن نے اپنے سپاہیوں کے حالات اور ان کی کارکردگی کا معاینہ کیا تو ان میں اکثر کو خیانت کے جال میں پھنسا ہوا پایا لہذا آپ ع جنگ سے منصرف ہو کر معاویہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوگئے
امام حسن ع کے صلح کی بنیادی دو وجہیں تھیں
پہلی وجہ :
(الف) حضرت کے فوجیوں کی تعداد تھی لیکن متفرق اور غیر منظم تھے اور ان میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جو ظاہر میں آپ کے ساتھ اور باطن میں معاویہ کے طرفدار تھے ، معاویہ سے یہاں تک طے ہو چکا تھا کہ "ہم امام حسن کو پکڑ کر تمہارے حوالے کردیں گے ، حضرات امام حسن نے دیکھا اگر اس حال میں ان سپاہیوں کے ساتھ جنگ کی جائے تو شکست یقینی ہے۔
(ب): اگر ان سے جنگ کا ارادہ کریں تو ان منافقوں سے داخلی جنگ اور آپس ہی میں خون خرابہ شروع ہو جائے گا اور اس اختلاف میں علی ع کے چاہنے والے کثرت سے شہید ہوجائیں گے نتیجہ میں مسلمانوں کی طاقت کمزور ہوجائے گی۔
دوسری وجہ
معاویہ لوگوں کوفریب اور دھوکے دینے کے لئے اپنے کو دین کا حامیومددگار مظلوموں سے دفاع کرنے کا نعرہ بلند کرتا تھا اور کہتا تھا میرا مقصد اس جنگ سے اسلام کی ترویج اور قرآن کا بول بالا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
حضرت کو اطلاع تھی کہ معاویہ جھوٹ بولتاہے، اور اس کو حکومت اور ریاست کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں ہے مگر اس مطلب کو آسانی سے لوگوں کو سمجھایا نہیں جاسکتا تھا
ان دو جوہ کے علاوہ اور دوسرے اسباب کی بناپر صلح کے لئے آمادہ ہوگئے، تاکہ معاویہ کی مکاری اور اس کی خباثت لوگوں پر آشکار ہوجائے اور تمام لوگ معاویہ اور سیرت بنی امیہ کو خوب پہچان لیں تاکہ آنے والے انقلاب کے لئے ایک بہترین راۃ فراہم ہو سکے۔
حضرت نے روح اسلام اور اصل دین کی بقا کے لئے صلح کااقدام فرمایا اور صلح نامہ میں اپنے تمام شرائط کو اس سے باور کرایا تھا لیکن معاویہ نے ایک بھی شرط کو بھی پورا نہ کیا، سن پچاس ہجری میں معاویہ کے حکم سے جعدہ بنت اشعت نے حضرت حسن ع کو زہر دے کر شہید کرڈالا۔
امام حسن کا کا ایک واقعہ:
ایک شامی نے حضرت کو دیکھ کر گالیاں دینا شروع کر دیا جب وہ خاموش ہوا تو آپ نے اس کی طرف متوجہ ہو کر سلام کرکے مسکرا دئے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تو مسافر ہے اور میری حقیقت تجھ پر روشن نہیں ہے ، اگر تو معافی مانگے گا تو تجھ سے راضی ہو جاؤں گا ، اگر کوئی چیز طلب کرے گا توعطا کرونگا ، اگر رہنمائی چاہے گا توراہنمائی کر دوںگا ، اگر بھوکا ہے تو تجھے سیر کر دوں گا ، اگر بھوکا ہے تو تجھے سیر کردوں گا، اگر لباس نہیں رکھتا ہے تو لباس دونگا، اگر فقیر ہے تو غنی کر دونگا، میرا گھر وسیع اور میرے پاس بہت سا مال ہے اگر میرا مہمان ہوگا تو تیرے لئے بہتر ہے۔
جب شامی نے یہ حضرت ع سے یہ تمام باتیں سنیں ، گریہ کرنے لگا اور رو کر کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں آپ اللہ کے خلیفہ اور تمام لوگوں کے امام ہیں بیشک خدا بہتر جانتا ہے خلافت و امامت کہاں قرار دے، یابن رسول اللہ ! آپ کی ملاقات سے پہلے میں آپ کا اور آپ کے والد کا سخت دشمن تھا۔ اور تمام لوگوں میں پست ترین انسان سمجھتا تھا، لیکن اب آپ ع سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور آپ کو لوگوں میں بہترین شخص سمجھتا ہوں پھر وہ شخص حضرت کے بہت الشرف آیا اور جب تک مدینہ میں تھا حضرت کامہمان رہا ( مناقب شہر آشوب ج 4 ص19 )
.............................................
کتاب: سبھی کے جاننے کی باتیں ص 94 یا 97
تالیف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی
مترجم: امحمد اصغر صادقی
التماسِ دعا: عاصم جاوید عاصم