حضرت علی ؑ نے اپنے دور حکومت میں فدک پر قبضہ کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال سنی حضرات اکثریہ سوال کرتے ہیں شیعہ علما ء کرام نے اس کا جواب مختلف طریقوں سے دیا ہے
1۔ حضرت علی ؑ نیبوں کی میراث نہیں ہوتی والی ابو بکر کی پیش کردہ روایت کو ٹھیک نہیں سمجھے یہ بات صحاح ستہ سے ثابت ہے۔جائیدادِ فدک حضرت علی ؑ کے قبضے میں تھی صحیح بخاری جلد دوم کتاب مغازی حدیث 1206میں لکھا ہے کہ\" عروہ فرماتا ہے کہ مال ( فدک اور دیگر صدقات ) حضرت علی ؑ کے قبضے میں رہا انہوں نے حضرت عباس کو قابض نہ ہونے دیا پھر امام حسن ؑ کے قبضے میں آیا پھر امام حسین ؑ کے قبضے میں آیا پھر علی ؑ بن حسین ؑ اور پھر حسن ؑ بن حسن ؑ کے قبضے میں رہاپھر زید ؑ بن حسن ؑ منتظم رہے حقیقت میں رسول ؐ کا صدقہ تھا \" پس اس سے قبضہ ثابت ہو جاتا ہے
2۔ جائیداد فدک حکمرانوں کا کھلونا رہی ہے اہل بیت ؑ کو اس پر کبھی مکمل تصرف حاصل نہ ہواحضرت علی ؑ نے اپنے دور حکو مت میں جائیداد فدک طاقت کے زور پر حاصل نہیں کی کیونکہ اب یہ متنازعہ بن چکی تھی اور عثمان نے یہ جاگیر مروان کو بخش دی تھی ( فیض الباری جلد 12صفحہ 621)لہٰذا اگر حضرت علی ؑ طاقت کے زور سے حاصل کر کے اولادِ فاطمہ ؑ میں تقسیم کر دیتے تو یہ بات غیر آئینی ہوتی حضرت علی ؑ اصول کے پابند حا کم تھے باشاہ ہوتے ہوئے بھی ایک معمولی زرہ کے لئے قاضی کے پاس مقدمہ داخل کیا تھا ۔اس لئے حضرت علی ؑ غیر آئینی فعل کر ہی نہیں سکتے تھے
3۔ آپ ؑ کا دور حکو مت داخلی انتشار سے بھر پور تھا ملکی مصروفیات نے اتنی قلت وقت پید ا کر دی کہ اپنا ذاتی معاملہ حدود قانون میں طے نہ فرما سکے اگر حضرت علی ؑ در پیش حالات میں فدک واپس لینے کی کوشش کرتے تو زبردست فساد برپا ہو جا تا اگر امن کے چند ماہ مل جاتے تو ضرور یہ معاملہ آئینی طور پر طے پا جاتا اگر محض حکو مت کے اثر سے فدک چھین لیتے تو 23سال کا صبر غیر مفید جاتا اور مخالفین فوراٌ اس بات کا نشانہ اعتراض بنا دیتے کہ مال و دولت کا حریص تھا حقیقی حقدار تو نہیں تھا پس تاج و تخت کے زور پر غاصبانہ قبضہ کر لیاہے ۔ ایسی صورت میں مدعی اور مد عا علیہ کے کرداروں میں کوئی فرق نہ رہ جاتا
1۔ حضرت علی ؑ نیبوں کی میراث نہیں ہوتی والی ابو بکر کی پیش کردہ روایت کو ٹھیک نہیں سمجھے یہ بات صحاح ستہ سے ثابت ہے۔جائیدادِ فدک حضرت علی ؑ کے قبضے میں تھی صحیح بخاری جلد دوم کتاب مغازی حدیث 1206میں لکھا ہے کہ\" عروہ فرماتا ہے کہ مال ( فدک اور دیگر صدقات ) حضرت علی ؑ کے قبضے میں رہا انہوں نے حضرت عباس کو قابض نہ ہونے دیا پھر امام حسن ؑ کے قبضے میں آیا پھر امام حسین ؑ کے قبضے میں آیا پھر علی ؑ بن حسین ؑ اور پھر حسن ؑ بن حسن ؑ کے قبضے میں رہاپھر زید ؑ بن حسن ؑ منتظم رہے حقیقت میں رسول ؐ کا صدقہ تھا \" پس اس سے قبضہ ثابت ہو جاتا ہے
2۔ جائیداد فدک حکمرانوں کا کھلونا رہی ہے اہل بیت ؑ کو اس پر کبھی مکمل تصرف حاصل نہ ہواحضرت علی ؑ نے اپنے دور حکو مت میں جائیداد فدک طاقت کے زور پر حاصل نہیں کی کیونکہ اب یہ متنازعہ بن چکی تھی اور عثمان نے یہ جاگیر مروان کو بخش دی تھی ( فیض الباری جلد 12صفحہ 621)لہٰذا اگر حضرت علی ؑ طاقت کے زور سے حاصل کر کے اولادِ فاطمہ ؑ میں تقسیم کر دیتے تو یہ بات غیر آئینی ہوتی حضرت علی ؑ اصول کے پابند حا کم تھے باشاہ ہوتے ہوئے بھی ایک معمولی زرہ کے لئے قاضی کے پاس مقدمہ داخل کیا تھا ۔اس لئے حضرت علی ؑ غیر آئینی فعل کر ہی نہیں سکتے تھے
3۔ آپ ؑ کا دور حکو مت داخلی انتشار سے بھر پور تھا ملکی مصروفیات نے اتنی قلت وقت پید ا کر دی کہ اپنا ذاتی معاملہ حدود قانون میں طے نہ فرما سکے اگر حضرت علی ؑ در پیش حالات میں فدک واپس لینے کی کوشش کرتے تو زبردست فساد برپا ہو جا تا اگر امن کے چند ماہ مل جاتے تو ضرور یہ معاملہ آئینی طور پر طے پا جاتا اگر محض حکو مت کے اثر سے فدک چھین لیتے تو 23سال کا صبر غیر مفید جاتا اور مخالفین فوراٌ اس بات کا نشانہ اعتراض بنا دیتے کہ مال و دولت کا حریص تھا حقیقی حقدار تو نہیں تھا پس تاج و تخت کے زور پر غاصبانہ قبضہ کر لیاہے ۔ ایسی صورت میں مدعی اور مد عا علیہ کے کرداروں میں کوئی فرق نہ رہ جاتا
تبصرے