دیوبندی بزرگوں کی چند حکایات
ضرت والد ماجدمولانا حافظ محمداحمد صاحب اور عم محترم مولانا حبیب الرحمن صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا۔ اور حضرت گنگوہی اور حضرت ناناتوی کے مردید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت گنگوہی نے حضرت ناناتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایاکہ یہاں زرا لیٹ جاؤ۔حضرت ناناتوی کچھ شرما سے گئے۔مگر حضرت نے پھر فرمایا تو مولانا بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔حضرت بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا کی طرف کو کروٹ لے کراپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے۔ مولانا ہرچند فرماتے ہیں کہ میاں کیا کررہے ہویہ لوگ کیا کہیں گے ۔حضرت نے فرمایا لوگ کہیں گے کہنے دو
خان صاحب نے فرمایاکہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا۔اس زمانہ میں ان کے مطبع میں مولانا ناناتوی بھی ملازم تھے اور ایک حافظ صاحب بھی نوکر تھے۔یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے۔رندانہ وضع تھی چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے۔داڑھی چڑھاتے تھے۔ نماز کبھی نہ پڑھتے تھے مگر مولانا ناناتوی سے ان کو اور مولانا ناناتوی کی ان سے نہایت گہری دوستی تھی ۔وہ مولانا کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔اور مولانا ان کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔مولانا ان کو کنگھا کرتے تھے اور وہ مولانا کو کنگھا کرتے تھے۔اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا کے پاس آتی تو ان کا حصہ ضرور رکھتے تھے۔غرض بہت گہرے تعلقات تھے ۔مولانا کے معتقد دوست مولانا کی ایک ایسے آزاد شخص کے ساتھ اس قسم کی دوستی سے ناخوش تھے مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا۔مولانا نے حسب معمول حافظ جی کو نہلایا ۔او ر حافظ جی مولانا کو جب نہلا چکے تو مولانا نے فرمایا حافظ جی تم میں اور مجھ میں دوستی ہے
والد صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ چھتے کی مسجد میں مولانا فیض الحسن صاحب استنجے کے لئے لوٹا تلاش کر رہے تھے اور اتفاق سے سب لوٹوں کی ٹونٹیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ فرمانے لگے کہ یہ تو سارے ہی لوٹے مختون ہیں ۔حضرت نے ہنس کر فرمایا پھر آپ کو تو بڑا استنجا نہیں کرنا ہے۔(گویا مختون سے کیا ڈرہے)
حضرت والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ مولانا منصور علی خان صاحب مرحوم مراد آبادی حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔طبیعت کے بہت پختہ تھے اس لئے جدھر طبیعت مائل ہوتی تھی پختگی اور انہماک کے ساتھ ادھر جھکتے تھے۔انہوں نے اپنا واقعہ خود بھی مجھ سے نقل فرمایا کہ مجھے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا اور اس قدر اس کی محبت نے طبیعت پر غلبہ پایا کہ رات دن اسی کے تصور میں گزرنے لگے میری عجیب حالت ہوگئی تمام کاموں میں اختلال ہوگیا۔حضرت کی فراست نے بھانپ لیا لیکن سبحان اللہ تربیت و نگرانی اسے کہتے ہیں کہ نہایت بے تکلفی کے ساتھ حضرت نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کیا اور اسے اس قدر بڑھا یا کہ جیسے دو یار آپس میں بے تکلف دل لگی کیا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود ہی اس محبت کا ذکر چھیڑا ۔ فرمایا کہ ہاں بھئی وہ (لڑکا) تمہارے پاس کبھی آتے بھی ہیں یا نہیں؟ میں شرم و حجاب سے چپ رہ گیا تو فرمایا کہ نہیں بھائی یہ حالات تو انسان ہی پر آتے ہیں۔اس میں چھپانے کی کیا بات ہے غرض اس طریق سے مجھ سے گفتگو کی کہ میری ہی زبان سے اس کی محبت کا اقرار کرالیا۔اور کوئی خفگی اور ناراضگی نہیں ظاہر کی۔بلکہ دل جوئی فرمائی
حضرت حافظ صاحب کے مزاج اور خوش مزاجی کے بہت قصے بیان فرمایا کرتے تھے۔ایک بار فرمایا ۔حافظ صاحب کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک بار ندی پر شکار کھیل رہے تھے۔کسی نے کہا’’ حضرت ہمیں‘‘ آپ نے فرمایا’’اب کے ماروں تیری‘‘
خاں صاحب نے فرمایا کہ میاں جی محمدی صاحب حکیم خادم علی صاحب شیخ فیاض علی صاحب شیخ قاسم علی صاحب یہ چاروں ماموں ’پھوپھی‘ خالہ زاد بھائی تھے۔ ان میں سے شیخ قاسم علی صاحب شاہ عبدالعزیز صاحب کے کچھ شاگرد تھے ان پر نہایت فریفتہ تھے ۔ میاں جی محمدی صاحب سید صاحب کے مرید اور ان پر عاشق تھے ۔حکیم خادم علی صاحب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر دیوانہ تھے۔شیخ فیاض علی صاحب شاہ اسحاق صاحب پر فریفتہ تھے
فرمایا کہ امیر شاہ خاں صاحب فرماتے تھے کہ بزرگوں کی شانیں مختلف ہوتی ہیں ۔ بعضوں کے خدام تو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اور بعضوں کے نہیں ہوتے ۔ چناچہ مولانا محمد قاسم صاحب کے خدام آپ کے عاشق تھے