دین کب کامل و مکمل ہوا
غدیر کے دن حضرت علی (ع) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات میں سے آیت میں اللہ تعالی ٰٰ کا ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً (سورہ مائدہ : 3)
(ترجمہ) آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے
تمام امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جب نبی (ص) نے علی (ع) کی ولایت کا اعلان کھلے لفظوں میں غدیر کے دن کر دیا اور اس پر نص صریح پیش کر دی تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس کو تمام صحابہ نے جانا، پورے عرب نے سمجھا اور جس کے پاس اس کی خبر آئی اس نے اس کے ذریعے احتجاج کیا اور اس پر اھل سنت کے بہت سے علمائے تفسیر ، آئمہ حدیث اور حفاظ آثار نے امامیہ سے اتفاق کیا.چنانچہ آیت اکمال کا شان نزول مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے
حافظ ابو بکر خطیب بغدادی نے عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران سے ، انہوں نے حافظ علی بن عمر دارقطنی سے انہوں نے ابی نصر جشون خلال سے انہوں نے علی بن سعید رملی سے انہوں نے حمزہ بن ربیعہ سے انہوں نے عبداللہ بن شوذب سے انہوں نے مطر وارق سے انہوں نے شہر بن حوشب سے انہوں نے ابوھریرہ سے کہ
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھے ،اللہ اسے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائے گا.یہی غدیر خم کا وہ دن ہے جب نبی اعظم (ص) نے علی بن ابی طالب (ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: کیا میں مومنوں کا ولی نہیں ہوں؟ سب نے کہا : ہاں ! اے اللہ کے رسول ! تب آپ (ص) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ،یہ سن کر عمر بن خطاب بولے مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابو طالب (ع) آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے.اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل ہوئی:آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے
اس حدیث کو حافظ بغدادی نے ایک اور سند کے ساتھ علی بن سعید رملی سے بھی نقل کیا ہے
(تاریخ بغداد ، ج 9 ،ص 222)
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً (سورہ مائدہ : 3)
(ترجمہ) آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے
تمام امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جب نبی (ص) نے علی (ع) کی ولایت کا اعلان کھلے لفظوں میں غدیر کے دن کر دیا اور اس پر نص صریح پیش کر دی تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس کو تمام صحابہ نے جانا، پورے عرب نے سمجھا اور جس کے پاس اس کی خبر آئی اس نے اس کے ذریعے احتجاج کیا اور اس پر اھل سنت کے بہت سے علمائے تفسیر ، آئمہ حدیث اور حفاظ آثار نے امامیہ سے اتفاق کیا.چنانچہ آیت اکمال کا شان نزول مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے
حافظ ابو بکر خطیب بغدادی نے عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران سے ، انہوں نے حافظ علی بن عمر دارقطنی سے انہوں نے ابی نصر جشون خلال سے انہوں نے علی بن سعید رملی سے انہوں نے حمزہ بن ربیعہ سے انہوں نے عبداللہ بن شوذب سے انہوں نے مطر وارق سے انہوں نے شہر بن حوشب سے انہوں نے ابوھریرہ سے کہ
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھے ،اللہ اسے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائے گا.یہی غدیر خم کا وہ دن ہے جب نبی اعظم (ص) نے علی بن ابی طالب (ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: کیا میں مومنوں کا ولی نہیں ہوں؟ سب نے کہا : ہاں ! اے اللہ کے رسول ! تب آپ (ص) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ،یہ سن کر عمر بن خطاب بولے مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابو طالب (ع) آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے.اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل ہوئی:آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے
اس حدیث کو حافظ بغدادی نے ایک اور سند کے ساتھ علی بن سعید رملی سے بھی نقل کیا ہے
(تاریخ بغداد ، ج 9 ،ص 222)
سند حدیث کے رجال پر بحث
ابوھریرہ:
جمہور نے اس کی عدالت اور وثاقت پر اجماع و اتفاق کیا ہے لہذا اس کے بارے میں ہمیں بات بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں
شہر بن حوشب اشعری:
ایک جماعت نے ان پر جرح کی ہے لیکن جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے (المجموع ،ج 1، ص 370)
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ جمہور کے نزدیک مقبول ہیں (الامالی المطلقہ ، ج 1، 75)
ارباب صحاح نے ان سے روایات لیں ہیں اور ان روایات کو صحیح اورحسن کا ردجہ دیا ہے
مطر بن طہمان وراق ابو رجا خرسانی
بخاری مسلم اور دوسرے تمام ارباب صحاح نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں. ابن حجر نے ان کے حالات لکھے ہیں ،کسی نے ان کی نقل شدہ حدیث رد نہیں کی .ان کی صداقت اور ان کا بےلوث ہونا منقول ہے علمائے رجال سے (تہذیب التہذیب ، ج 10 ، ص 167)
عبداللہ بن شوذب
کثیر بن ولید سے مروی ہے کہ جب میں ابن شوذب کو دیکھتا تھا تو مجھے فرشتے یاد آجاتے تھے.احمد بن حنبل، ابن معین، نسائی ،،عجلی ، ابن عمار نے ان کو ثقہ کہا ہے. مسلم کے علاوہ کل صحاح ستہ میں ان کی روایات ہیں .ذہبی نے ان کی حدیث کو تلخیص میں صحیح کہا ہے (تہذیب التہذیب ، ج 5 ، ص 255)
ضمرۃ بن ربیتہ قرشی:
جمہور نے اس کی عدالت اور وثاقت پر اجماع و اتفاق کیا ہے لہذا اس کے بارے میں ہمیں بات بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں
شہر بن حوشب اشعری:
ایک جماعت نے ان پر جرح کی ہے لیکن جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے (المجموع ،ج 1، ص 370)
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ جمہور کے نزدیک مقبول ہیں (الامالی المطلقہ ، ج 1، 75)
ارباب صحاح نے ان سے روایات لیں ہیں اور ان روایات کو صحیح اورحسن کا ردجہ دیا ہے
مطر بن طہمان وراق ابو رجا خرسانی
بخاری مسلم اور دوسرے تمام ارباب صحاح نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں. ابن حجر نے ان کے حالات لکھے ہیں ،کسی نے ان کی نقل شدہ حدیث رد نہیں کی .ان کی صداقت اور ان کا بےلوث ہونا منقول ہے علمائے رجال سے (تہذیب التہذیب ، ج 10 ، ص 167)
عبداللہ بن شوذب
کثیر بن ولید سے مروی ہے کہ جب میں ابن شوذب کو دیکھتا تھا تو مجھے فرشتے یاد آجاتے تھے.احمد بن حنبل، ابن معین، نسائی ،،عجلی ، ابن عمار نے ان کو ثقہ کہا ہے. مسلم کے علاوہ کل صحاح ستہ میں ان کی روایات ہیں .ذہبی نے ان کی حدیث کو تلخیص میں صحیح کہا ہے (تہذیب التہذیب ، ج 5 ، ص 255)
ضمرۃ بن ربیتہ قرشی:
اب حجر نے صدوق کہا ہےاور مسلم کے علاوہ دیگر صحاح ستہ میں ان کی روایات موجود ہیں (تقریب: 221)
علی بن سعید رملی:
ذہبی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے امر میں ایسے پختہ ہیں کہ گویا وہ سچے ہیں (میزان،ج3،ص 131)
ابونصر حبشون بن موسیٰ:
حافظ خطیب نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ووہ ثقہ تھے،بصرہ میں رہتے تھے اور دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ وہ سچے ہیں (تاریخ بغداد ، ج 9 ، 222،ترجمہ:4345)
حافظ علی بن عمر دارقطنی:
حافظ خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے وحید و فرید اور امام وقت تھے ، علم علل حدیث اور اسماء رجال و روایت کی ان پر انتہا ہوگئی (تاریخ بغداد ، ج 12 ، 34)
عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران
خطیب بغدادی نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان کا سماعت صحیح ہے (تاریخ بغداد ، ج 11 ، 185)
علی بن سعید رملی:
ذہبی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے امر میں ایسے پختہ ہیں کہ گویا وہ سچے ہیں (میزان،ج3،ص 131)
ابونصر حبشون بن موسیٰ:
حافظ خطیب نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ووہ ثقہ تھے،بصرہ میں رہتے تھے اور دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ وہ سچے ہیں (تاریخ بغداد ، ج 9 ، 222،ترجمہ:4345)
حافظ علی بن عمر دارقطنی:
حافظ خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے وحید و فرید اور امام وقت تھے ، علم علل حدیث اور اسماء رجال و روایت کی ان پر انتہا ہوگئی (تاریخ بغداد ، ج 12 ، 34)
عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران
خطیب بغدادی نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان کا سماعت صحیح ہے (تاریخ بغداد ، ج 11 ، 185)
نتیجہ:
سند کے لحاظ سے اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور یہ حدیث صحیح یا حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے
چند مزید حوالے:
تاریخ بغداد کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں آیت اکمال کا شان نزول مروی ہے کہ یہ اعلان ولایت علی (ع) کے بعد رسول (ص) پر اتری
چند مزید حوالے:
تاریخ بغداد کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں آیت اکمال کا شان نزول مروی ہے کہ یہ اعلان ولایت علی (ع) کے بعد رسول (ص) پر اتری
- شواهد التنزيل للحاكم الحسكاني ج 1 ص 203
- خوارزمی ،مناقب ،س 94
- السيوطي في تفسبر الاية الكريمة من الدر المنثور
- تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر ج 42 ص 232
- تذکرۃ الخواص الامتہ ، ص 18
تبصرے