حدیث غدیر اور عمر کا مولا علی ع کو مبارک دینا
مسند امام احمد، جلد میں ایک روایت آتی ہے
18479 -
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ” أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ ” قَالُوا: بَلَى، قَالَ: ” أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ ” قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ” قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: ” لَهُ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَمُؤْمِنَةٍ “
ترجمہ:
برا بن عازب کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے سفر میں جب ہم غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ اس وقت نماز کے لیے اذان دی گئی۔ اور رسول اللہ نے نماز پڑھی، اور پھر علی کا ہاتھ پکڑ کے کہا
کیا میں مومنوں پر ان کی جان سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟
ہم نے کہا: بالکل
اس پر فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ اے اللہ ! اس کا دوست بن جو اس کا دوست ہے، اور اس کا دشمن بن جو اس کا دشمن ہے۔
اس کے بعد عمر ان سے ملا اور کہا: مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے! آج آپ تمام مومنین کے مولا بن گئے
اس روایت کے سارے راویان بخاری یا مسلم کے ہیں
تاہم علی بن زید پر جرح بھی موجود ہے، اس وجہ شیخ شعیب نے اسے صحیح لیغیرہ کہا
شیخ حمزہ احمد زین، نے اپنی تحقیق کے جلد ۱۴، صفحہ ۱۸۵؛ پر اس سند کو حسن کہا۔
اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی فضائٖل الصحابہ، صفحہ 610، روایت 1042؛ میں درج کیا؛ اور کتاب کے محقق، وصی اللہ بن محمد عباس؛ نے اسے حسن لیغیرہ قرار دیا
ایک نقطہ:
یہی سند سنن ابن ماجہ میں بھی آتی ہے، مگر اس میں عمر کا مبارک دینا مذکور نہیں۔ اور اس روایت کو شیخ البانی نے اپنی صحیح سنن ابن ماجہ ؛ جلد ۱، صفحہ ۵٦ روایت ۱۱۵
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو الحسين أخبرني حماد بن سلمة عن علي بن زيد بن جدعان عن عدي بن ثابت عن البراء بن عازب قال أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته التي حج فنزل في بعض الطريق فأمر الصلاة جامعة فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا بلى قال ألست أولى بكل مؤمن من نفسه قالوا بلى قال فهذا ولي من أنا مولاه اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه
یہی سند سنن ابن ماجہ میں بھی آتی ہے، مگر اس میں عمر کا مبارک دینا مذکور نہیں۔ اور اس روایت کو شیخ البانی نے اپنی صحیح سنن ابن ماجہ ؛ جلد ۱، صفحہ ۵٦ روایت ۱۱۵
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو الحسين أخبرني حماد بن سلمة عن علي بن زيد بن جدعان عن عدي بن ثابت عن البراء بن عازب قال أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته التي حج فنزل في بعض الطريق فأمر الصلاة جامعة فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا بلى قال ألست أولى بكل مؤمن من نفسه قالوا بلى قال فهذا ولي من أنا مولاه اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه
فائدہ : ذرا ہی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ جائے گا کہ دوست نہیں کہا بلکہ آپ ع کی خلافت کا اعلان کیا گیا جس کی وجہ سے آپ ع کو مبارک دی گئے ۔۔۔ اللہ سب کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فر مائے آمین