آیت وضو اور علامہ ابن حزم ناصبی کا اقرار
آخر کار اھل حدیث حضرات کے عالم اور امام جناب ابن حزم صاحب نے اقرار کر ہی لیا کہ قرآن شریف میں پائو ں کے مسح کرنے کا حکم آیا ہے اور عمل رسول (ص) اور آثار صحابہ و تابعین سے بھی مسح ہی ثابت ہے
ملاحظہ کریں ابن حزم کا اعتراف
پائوں کے مسح کے بارے میں ہم نے جو کہا تھا ،تو اس لئے کہ قرآن میں پائوں کے مسح کاحکم ہے.اللہ تعالیٰٰ کاارشاد ہے کہ
اورتم مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پائوں کا (سورہ مائدہ ،6)
ارجل کے لام کو خواہ فتحہ کے ساتھ پڑھاجائے یاکسرہ کے ساتھ ، یہ ہر حال میں رئوس پر عطف ہے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے مابین کوئی نیا قضیہ حائل نہیں ہو سکتا.
حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے کہ قرآن مجید میں پائوں کے مسح کا حکم نازل ہوا ہے .یہی وجہ کہ سلف میں سے ایک جماعت پائوں کے مسح کی قائل ہے.مثلا` حضرت علی (ع) ، ابن عباس ، حسن بصری ،،عکرمہ ، شعبی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے حضرات،امام طبری کا قول بھی یہی ہے.اس سلسلے میں کئ آثار بھی منقول ہیں
چنانچہ ایک اثر بطریق ہمام از اسحاق بن عبد اللہ از علی بن یحییٰٰ از پد ر خود بیان کیا ہے کہ حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ انھوں نے آنحضرت (ص) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس وقت تک تم میں سے کسی کی نماز درست نہیں ،،جب تک کہ وہ اس طرح اچھے طریقے سے وضو نہ کر لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ،پھر اپنے چہرے کو دھوئے ،پھر ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور پھر سر کا اور پائوں کا ٹخنوں تک مسح کر ے
(المحلی ٰ ،ج 2 ، ص 56، طبع مصر )
فوائد :
اللہ کے کرم سے آج صرف امامیہ شیعہ ہی ہیں جو قرآنی حکم،سنت رسول (ص) اور امام علی (ع) کی سنت پر عمل کرتےہوئے اپنے وضو میں پائوں پر مسح کرتے ہیں
ہم اھل حدیث حضرات سےاپیل کرتے ہیں کہ تعصب اور شیعہ دشمنی کو ترک کرتے ہوئے قرآنی حکم ، قول رسول (ص) اور سلف صالحین کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وضو کو درست کریں اور پائوں کو دھونے کی بجائے اس پر مسح کریں ،تاک قرآنی حکم کی حکمرانی برقرار رہے. وعلم اللہ
تبصرے