امام علی (ع) اور حسنین کریمین (ع) کا معاویہ سے تبرا کرنا
ناصبی حضرات کہتے ہیں کہ امام حسن وحسین (ع) معاویہ سے وظیفہ لیتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ معاویہ برحق خلیفہ تھا اور ان حضرات کے معاویہ کے ساتھ خوشگوار اور باہمی احترام پر مبنی تھے لیکن احناف کے مایہ ناز فقیہ ، مفسر اور محدث امام ابوبکر احمد بن علی جصاص رازی نے ان ناصبی ملائوں کے استدلال کا رد اس طرح کیا ہے
حسن بصری ، سعید بن جبیر ، شعبی اور تمام تابعین ان ظالم (حکمرانوں) سے وظیفے لیتے تھے لیکن اس بناء پر نہیں کہ وہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز تصور کرتے تھے ، بلکہ اس لئے لیتے تھے کہ یہ تو ان کے اپنے حقوق ہیں جو ظالم و فاجر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں .ان سے دوستی کی بنیاد پر یہ کام کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ انہوں نے حجاج سے تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا .چار ہزار قراء (علماء) نے ، جو تابعین میں سے بہترین اور فقہاء تھے، عبدالرحمان بن محمد بن اشعث کی قیادت میں حجاج سے اھواز کے مقام پر جنگ کی ، پھر بصرہ اور بعد ازاں کوفہ کے قریب فرات کے کنارے دیر جماجم کے مقامات پر حجاج سے جنگ کی ہے.انہوں نے عبدالملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی ،ان (اموی حکمرانوں ) پر لعنت کرتے اور ان سے تبرا کرتے تھے .ان سے پہلے کے لوگوں کا معاویہ کے ساتھ بھی یہی طریقہ تھا ،جب وہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد زبردستی حکمران بن گیا ،امام حسن اور امام حسین (ع) بھی (معاویہ سے) وظائف لیتے تھے اور اس زمانے کے صحابہ کرام کا بھی یہی طریقہ کار تھا بلکہ اس (معاویہ) سے اسی طرح تبرا کرتے تھے ،جس طرح حضرت علی (ع) معاویہ سے تبرا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰٰ آپ (ع ) کی وفات کے بعد جنت و رضوان میں لے گیا .چنانچہ (ان ظالم حکمرانوں) کی طرف سے عہدہ قضا قبول کرنے اور وظائف لینے میں یہ دلیل نہیں ہے کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز اعتقاد کرتے تھے
احکام القرآن //ابوبکر جصاص // ج 1 //ص 86//سورۃ البقرۃ ،آیت : لا ینال عہدی الظالمین //طبع ثانیہ 1424ھ ، دارالکتب العلمیہ بیروت
تبصرہ
حیرت کی بات ہے کہ اھل سنت کے معتبر علماء اس امر کا اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت علی (ع) ، حسنین (ع) اور دیگر صحابہ معاویہ سے تبرا کرتے اور اس پر لعنت کرتے تھے ،پھر یہ نادان ملوانے تمام صحابہ و اھل بیت کی سنت ثابتہ سے انحراف کرتے ہوئے معاویہ سے بیزاری کیوں نہیں کرتے
تبصرے