آئمہ[ع] کی قبور سے تبرک و توسل
تاریخ میں ہمیں ملتا ہے کہ سلسلۂ تبرک صرف آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اہلبیت ع ،صحابہ تابعیین اور آج تک صالحین کی قبروں اور انکے آثار سے تبرک و توسل حاصل کرتے رہیے ہیں،تاریخ کے اوراق سے ایسے کئیے واقعات درج کیے ہیں انہی واقعات میں امام موسی کاظم اور امام علی رضا ع کی قبر اطہر سے تبرک و توسل کا واقع نقل کر رہاہوں
کہ کسطرح سلفیوں کے علما آئمہ علیہ السلام کی قبور سے فیوض و برکات حاصل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے رہے ہیں
امام موسیٰ کاظم ]ع[ کی قبر سے تبرک
قال الخطيب البغدادي في ..
تاريخ بغداد ج 1 / 120
)ما ذكر في مقابر بغداد المخصوصة بالعلماء والزهاد
بالجانب الغربي في أعلا المدينة :
مقابر قريش : دفن بها موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب وجماعة من الأفاضل معه.
أخبرنا القاضي أبو محمد الحسن بن الحسين بن محمد بن رامين الإستراباذي ، قال : أنبأنا أحمد بن جعفر بن حمدان القطيعي ، قال : سمعت الحسن بن إبراهيم أبا علي الخلال يقول: ما همني أمر فقصدت قبر موسى بن جعفر فتوسلت به إلا سهل الله تعالى لي ما أحب.( انتهى من تاريخ بغداد
امام موسیٰ بن جعفر کاظم]ع[ کی قبر مبارک کے بارے میں ابو علی الخلال کہتے ہیں: :
"جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں امام موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اُن کو وسیلہ بناتا تو جیسے میں چاہتا اﷲ تعالیٰ ویسے ہی میرے لئے راستہ نکال دیتا انتھی۔
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 120
آن لائن حوالہ
http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=717&pid=595589'>-
امام علی رضا ب موسیٰ ]ع[ کی قبر سے تبرک
مشہور محدث امام حبان)م 354ھ( حضرت امام علی رضا بن موسی]ع[ کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قد زرته مرارا كثيرة وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عنى إلا أستجيب لي وزالت عنى تلك الشدة وهذا شئ جربته مرارا فوجدته كذلك أماتنا الله على محبة المصطفى وأهل بيته صلى الله عليه وسلم الله عليه وعليهم أجمعين"۔
"میں نے ان کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا ]ع[ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالی سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی، یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بار ہا آزمایا تو اس طرح پایا۔ اللہ تعالی ہمیں حضور نبی اکرم ]ص[ اور آپ کے اہل بیت ]ع[ کی محبت پر موت نصیب فرمائے"۔
ابن حبان، کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411
آن لائن حوالہ http://4.bp.blogspot.com/-cMiow2FRS0U/UFN5e8SmxPI/AAAAAAAAAEU/uCiqx0TU0rM/s1600/2012-08-26_0002531.jpg'>http://4.bp.blogspot.com/-cMiow2FRS0U/UFN5e8SmxPI/AAAAAAAAAEU/uCiqx0TU0rM/s640/2012-08-26_0002531.jpgوہابی/s640/2012-08-26_0002531.jpg
دارمی نے اپنی سنن میں ایک حدیث لکھی ھے
حدثنا أبو النعمان حدثنا سعيد بن زيد حدثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق
راوی کہتا ھے کہ مدینہ میں شدید قحط پڑا، پس لوگوں نے عائشہ سے جا کر اس کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ کی قبر کی جانب دیکھو، اور اس میں ایک ایسا روشندان بناوٰ کہ جو آسمان تک جائے {یعنی اس سے آسمان نظر آئے}، یہاں تک کہ قبر اور آسمان کے بیچ کچھ نہ ھو، پس ایسا کیا گیا، پھر ایسی بارش ھوئی کہ ہر طرف سبزہ اگ آیا، اور اونٹ بہت موٹے ھو گئے، اس سال کو عام الفتق کہا گیا
کتاب کے محقق، حسين سليم أسد الداراني، لکھتے ھیں
رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
سارے راوی ثقہ ھیں، اور یہ روایت عائشہ پر وقف کرتی ھے
الكتاب: مسند الدارمي المعروف بـ سنن الدارمي
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَهرام بن عبد الصمد الدارمي، التميمي السمرقندي (المتوفى: 255هـ)
تحقيق: حسين سليم أسد الداراني
الناشر: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية
الطبعة: الأولى، 1412 هـ - 2000 م
1/227
وہابی اپنے ان علما پھر بھی مشرک کا فتویٰ لگائے گئے؟