کيا اوليائے خدا کی غيبی طاقت پر عقيده رکھنا شرک ہے؟
جواب: يہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وه اس شخص کو اس کام کے انجام دينے ميں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور يہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :١۔کبھی يہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جيسے ہم کسی شخص سے کہيں مجھے ايک گلاس پانی لادو .
٢۔بعض اوقات يہ طاقت مادی اور فطری نہيں ہوتی بلکہ غيبی صورت ميں ہوتی ہے جيسے کسی شخص کا يہ عقيده ہو کہ خدا کے کچھ نيک بندے جناب عيسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہيں اور مسيحائی کا مظاہره کرتے ہوئے شديد قسم کے مريض کو بھی نجات عطا کرتے ہيں يہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غيبی طاقتوں پر انہيں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقيده رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقيده رکھنے کی طرح ہے اور يہ ہرگز شرک قرار نہيں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے يہ مادی اور فطری طاقتيں انسان کو عطا کی ہيں اور اسی نے غيبی طاقتوں کو اپنے نيک بندوں کو عنايت فرمايا ہے .
يہاں پر ہم اس جواب کی مزيد وضاحت کرنے کے لئے يہ کہيں گے کہ اوليائے خدا کی غيبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقيده رکھا جاسکتا ہے :
١۔کسی شخص کی غيبی قدرت پر اس طرح عقيده رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت ميں مستقل اوراصل سمجھيں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دينے لگيں اس صورت ميں شک نہيں کہ يہ عقيده شرک شمار ہوگا کيونکہ اس طرح ہم نے غير خدا کو طاقت ميں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غير خدا کی طرف منسوب کرديا ہے جب کہ يہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے .
٢۔خدا کے نيک اور باايمان بندوں کی غيبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھيں کہ انہوں نے اپنی يہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقيقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب يہ ہے کہ ان کے ذريعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کيا جاسکے اور وه خود اپنی ذات ميں کسی طرح کا استقلال نہيں رکھتے ہينبلکہ وه اپنی ہستی اور اپنی غيبی قدرت کے استعمال ميں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہيں.
واضح ہے کہ اس طرح کا عقيده اوليائے الہی کو خدا سمجھنے يا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دينے کی طرح نہيں ہے کيونکہ اس صورت ميں پروردگار عالم کے نيک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کرده غيبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہيں . قرآن مجيد اس سلسلے ميں فرماتا ہے: وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (1)
اور کسی رسول کو يہ اختيار نہيں ہے کہ وه لله کی اجازت کے بغير کوئی نشانی لے آئے.
اس بيان کی روشنی ميں واضح ہوجاتا ہے کہ ايسا عقيده باعث شرک قرار نہيں پائے گا بلکہ توحيد و يکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقيده نظر آئے گا.
قرآن مجيد کی نظر ميں اوليائے الہی کی غيبی طاقت
مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نيک بندوں کا تذکره کيا ہے جنہوں نے پروردگار
عالم کی اجازت سے اپنی حيرت انگيز قدرت کا مظاہره کيا تھا اس سلسلے ميں قرآن مجيد کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:
حضرت موسیٰ کی غيبی طاقت
خداوندعالم نے حضرت موسیٰ کو حکم ديا تھا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماريں تاکہ اس
سے پانی کے چشمے جاری ہوجائيں:
وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ (2)
اور اس وقت کو ياد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کيا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتيجے ميں اس سے باره چشمے پھوٹ نکلے.
حضرت عيسیٰ کی غيبی طاقت
قرآن مجيد ميں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عيسیٰ کی غيبی قدرت کا تذکره ہوا ہے ہم ان ميں سے بعض کو يہاں
پيش کرتے ہيں: وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِئُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (3)
(حضرت عيسیٰ نے فرمايا)ميں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس ميں پھونک مارونگا تو وه خدا کے حکم سے پرنده بن جائے گا اور ميں پيدائشی اندھے اور برص کے مريض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زنده کروں گا.
سے پانی کے چشمے جاری ہوجائيں:
وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ (2)
اور اس وقت کو ياد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کيا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتيجے ميں اس سے باره چشمے پھوٹ نکلے.
حضرت عيسیٰ کی غيبی طاقت
قرآن مجيد ميں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عيسیٰ کی غيبی قدرت کا تذکره ہوا ہے ہم ان ميں سے بعض کو يہاں
پيش کرتے ہيں: وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِئُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (3)
(حضرت عيسیٰ نے فرمايا)ميں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس ميں پھونک مارونگا تو وه خدا کے حکم سے پرنده بن جائے گا اور ميں پيدائشی اندھے اور برص کے مريض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زنده کروں گا.
حضرت سليمان کی غيبی طاقت
حضرت سليمان کی غيبی طاقتوں کے سلسلے ميں قرآن مجيديہ فرماتا ہے:
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ (4)
اور سليمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہميں پرندوں کی زبان کا علم ديا گيا ہے اور ہميں ہر طرح کی
چيزيں عنايت کی گئی ہيں بے شک يہ تو ايک نماياں فضل ہے.
اس ميں شک نہيں ہے کہ اس قسم کے کام جيسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردينا حضرت عيسیٰ کا گيلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردينا اور لاعلاج مريضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زنده کرنا حضرت سليمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا يہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہيں اور درحقيقت انبيائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غيبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام ديا ہے .
جب قرآن مجيد نے اپنی آيات ميں بيان کيا ہے کہ خداوندعالم کے نيک بندے غيبی طاقت رکھتے ہيں تو اب کيا ان آيات کے مضامين پر عقيده رکھنا شرک يا بدعت شمار کيا جاسکتا ہے؟ان بيانات کی روشنی ميں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نيک بندوں کی غيبی قدرتوں پر عقيده رکھنے کے معنی يہ نہيں ہيں کہ انہيں خدا مانا جائے يا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے ميں اس قسم کے عقيده سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ايسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عيسیٰ اور حضرت سليمان وغيره قرآن کی نظر ميں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان يہ جانتے ہيں کہ کتاب الہٰی کی نگاه ميں اوليائے الہی صرف خداکے نيک بندوں کی حيثيت رکھتے ہيں يہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اوليائے الہی کی غيبی طاقت کے سلسلے ميں يہ عقيده رکھنا کہ انہيں يہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقيقت ان کی اس قدرت کے ذريعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت ميں ہمارے يہ عقائد باعث شرک قرار نہيں پائيں گے بلکہ عقيده توحيد کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئيں گے کيونکہ توحيد اور يکتا پرستی کا معيار يہ ہے کہ ہم دنيا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائيں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار ديں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سليمان کی غيبی طاقتوں کے سلسلے ميں قرآن مجيديہ فرماتا ہے:
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ (4)
اور سليمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہميں پرندوں کی زبان کا علم ديا گيا ہے اور ہميں ہر طرح کی
چيزيں عنايت کی گئی ہيں بے شک يہ تو ايک نماياں فضل ہے.
اس ميں شک نہيں ہے کہ اس قسم کے کام جيسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردينا حضرت عيسیٰ کا گيلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردينا اور لاعلاج مريضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زنده کرنا حضرت سليمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا يہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہيں اور درحقيقت انبيائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غيبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام ديا ہے .
جب قرآن مجيد نے اپنی آيات ميں بيان کيا ہے کہ خداوندعالم کے نيک بندے غيبی طاقت رکھتے ہيں تو اب کيا ان آيات کے مضامين پر عقيده رکھنا شرک يا بدعت شمار کيا جاسکتا ہے؟ان بيانات کی روشنی ميں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نيک بندوں کی غيبی قدرتوں پر عقيده رکھنے کے معنی يہ نہيں ہيں کہ انہيں خدا مانا جائے يا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے ميں اس قسم کے عقيده سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ايسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عيسیٰ اور حضرت سليمان وغيره قرآن کی نظر ميں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان يہ جانتے ہيں کہ کتاب الہٰی کی نگاه ميں اوليائے الہی صرف خداکے نيک بندوں کی حيثيت رکھتے ہيں يہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اوليائے الہی کی غيبی طاقت کے سلسلے ميں يہ عقيده رکھنا کہ انہيں يہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقيقت ان کی اس قدرت کے ذريعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت ميں ہمارے يہ عقائد باعث شرک قرار نہيں پائيں گے بلکہ عقيده توحيد کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئيں گے کيونکہ توحيد اور يکتا پرستی کا معيار يہ ہے کہ ہم دنيا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائيں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار ديں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سوره رعد آيت : ٣٨
- سوره بقره آيت: ٦٠
- سوره آل عمران آيت : ٤٩
- سوره نمل آيت : ١٦
تبصرے