تقيہ کا معيارکيا ہے؟
جواب:دشمنوں کے مقابلے ميں دنياوی اور دينی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقيدے اور ايمان کو چھپانے کا نام تقيہ ہے تقيہ ہر مسلمان شخص کا ايک ايسا شرعی فريضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آيات ہيں:قرآن کی نگاه ميں تقيہ
قرآن مجيد ميں تقيہ سے متعلق بہت سی آيات ہينان ميں سے يہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہيں :لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ (1)
مومنوں کو چاہيے کہ وه اہل ايمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائيں اور جو کوئی ايسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر يہ کہ تمہيں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہيں ہے .
يہ آيت بخوبی اس بات کی گواہی ديتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہيں ہے ليکن اگر جان خطره ميں ہو تو تقيہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کيا جاسکتا ہے. مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (2)
جو شخص بھی ايمان لانے کے بعد کفر اختيار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کرديا جائے اور اس کا دل ايمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہيں ہے)ليکن وه شخص جس کے سينہ ميں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے .
مفسرين نے اس آيت کے شان نزول ميں يہ لکھا ہے :ايک دن کفار نے جناب عمار ابن ياسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراه گرفتار کرليا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو چھوڑ کر کفر و شرک اختيار کرلو تو عماربن ياسر کے ہمراه افراد نے ان کے جواب ميں توحيد و رسالت کی گواہياں دينا شروع کرديں جس پر کفار نے ان ميں سے بعض کو شہيد کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقيدے کے برخلاف تقيہ اختيار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کيا تو کفار نے انہيں چھوڑ ديا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پريشانی کے عالم ميں رسول خدا کی خدمت ميں
( پہنچے تو آنحضرت نے انہيں تسلی دی اور پھر اس سلسلے ميں يہ آيت نازل ہوئی. (3)
اس آيت اور اس کی تفسير سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پيغمبرخداۖ کے زمانے ميں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقيدے کو چھپا کر تقيہ کرتے تھے. تقيہ شيعوں کی نگاه ميں
بنی اميہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہميشہ شيعوں سے برسرپيکار رہے ہيں اور انہوں نے شيعوں کے قتل عام ميں کوئی کسر اٹھا نہيں رکھی ہے(4)
اس بنا پر اس زمانے ميں شيعوں نے قرآن مجيد کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات ميں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائيوں کی جانيں محفوظ کی تھينواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا ميں شيعوں کے لئے تقيہ کے علاوه کوئی ايسا چارهٔ کار نہيں تھا جو شيعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وه ظالم حکام، شيعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شيعوں کا بے گناه قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شيعہ تقيہ اختيار نہ کرتے يہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقيہ صرف شيعوں سے ہی مخصوص نہيں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ايسے دشمنوں کے مقابلے ميں قرار پاتے ہيں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہيں (جيسے کہ خوارج اور وه ظالم حکومتيں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہيں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہيں ہوتی تو وه اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقيہ کا سہاراليتے ہيں اس بنياد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب ميں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کرديں تو پھر ہرگز انھيں تقيہ کی ضرورت باقی نہيں رہے گی.
نتيجہ
گزشتہ بحث سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ:١۔تقيہ کی اساس قرآن مجيد پر ہے اور صدر اسلام ميں پيغمبراکرمۖ کے اصحاب بھی تقيہ کر تے تھے اور آنحضرتۖ ان کے اس عمل کی تائيد فرماتے تھے يہ سب تقيہ کے جائز ہونے کی دليليں ہيں.
٢۔شيعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقيہ کرتے تھے .
٣۔تقيہ صرف شيعوں سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقيہ کرتے ہيں.
٤۔تقيہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے ميں ہی انجام نہيں پاتا بلکہ تقيہ کا معيار (مسلمانوں کی جان بچانا) عموميت رکھتا ہے اور ہر ايسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو يا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقيہ ضروری ہوجاتا ہے .
٥۔اگر مسلمانوں ميں مکمل وحدت اور ہم فکری پيدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درميان تقيہ کی ضرورت باقی نہيں رہے گی.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سوره آل عمران آيت: ٢٨
- سوره نحل آيت: ١٠٦
- اس سلسلے ميں جلال الدين سيوطی کی تفسير در المنثور جلد ٤ ص ١٣١ (طبع بيروت) کا مطالعہ کيجئے
- بنی اميہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شيعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے ميں تفصيلی معلومات حاصل کرنے کے ) لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبين''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضيلة(مصنفہ علامہ امينی)''، ''الشيعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنيہ)کا مطالعہ مفيد ثابت ہوگا