کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟
جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسول ۖ حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں . اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبر ۖ کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :
١۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمۖ ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
الف: ( لَعَمْرُکَ ِنَّہُمْ لَفِ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُونَ)(1)
(پیغمبرۖ!) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں.
ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَاة وَالْقَمَرِ ِذَا تَلاَہَاة وَالنَّہَارِ ِذَا جَلاَّہَاة وَاللَّیْلِ ِذَا یَغْشَاہَاة وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاہَاة وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاہَاة وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاة فََلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا... )(2)
آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے . اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا . اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.
ج: (وَالنَّجْمِ ِذَا ہَوَی )(3)
قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.
د: ( وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )(4)
: (وَالْعَصْرِ ة ِنَّ الِْنسَانَ لَفِ خُسْرٍ )(5)
قسم ہے عصر کی . بے شک انسان خسارے میں ہے.
و: (وَالْفَجْرِ ة وَلَیَالٍ عَشْرٍ)(6)
قسم ہے فجر کی . اور دس راتوں کی.
ز: (وَالطُّورِ ة وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ ة فِ رَقٍّ مَنْشُورٍ ة وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ة وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور)(7)
طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم . جو کشادہ اوراق میں ہے . اور بیت معمور کی قسم . اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.
اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں . اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو .
٢۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداۖ کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتۖ کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں . عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداۖ کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمۖ نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامۖ سے یوں روایت کی ہے :
''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنھیٰ عن منکر خیر من أن تسکت''..(8)
میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.
مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :
جاء رجل اِلی النب ۖ فقال: یا رسول اللّہ أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّہ أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ.....(9)
ایک شخص نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کو نسا صدقہ زیادہ اجر رکھتا ہے ؟ پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا: تمہارے باپ کی قسم یقینا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ( سب سے زیادہ اجر والا صدقہ) یہ ہے کہ تم صحت مندی، آرزوئے حیات ، خوف فقر اور امید بقاء کے ساتھ صدقہ دو .جو لوگ دنیا کے اکثر مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ سب غیر خدا کی قسم کھاتے ہیں تو وہ پیغمبر خدا کے اس عمل کی کیا تاویل کریں گے ؟
٣۔کتاب خدا اور سنت پیغمبرۖ کے علاوہ رسول خداۖ کے انتہائی قریبی اور متعبر اصحاب کی سیرت بھی اس عمل کے جائز ہونے کی بہترین دلیل ہے . عالم اسلام کے عظیم الشأن رہبر حضرت علی بن ابی طالبـ نے اپنے بہت سے گہربار خطبوں اور بیانات میں اپنی جان کی قسم کھائی ہے وہ فرماتے ہیں :
ولعمر لیضعفن لکم التیہ من بعد أضعافا(10)
میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
ایک جگہ اور فرماتے ہیں :
''ولعمر لأن لم تنزع عن غیک و شقاقک لتعرفنھم عن قلیل یطلبونک''(11)
میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اور شقاوت سے دست بردار نہ ہوئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ وہ لوگ تمہیں بھی ڈھونڈ لیں گے. (12)
اب واضح ہے کہ ان سب روایات کے مقابلے میں اجتہاد اور استحسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی دلیل قرآن مجید کی آیتوں، پیغمبراکرمۖ کی سنت اور معتبر صحابہ کی سیرت کو غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کی طرف شرک کی نسبت دے سکتی ہے.
١۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمۖ ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
الف: ( لَعَمْرُکَ ِنَّہُمْ لَفِ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُونَ)(1)
(پیغمبرۖ!) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں.
ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَاة وَالْقَمَرِ ِذَا تَلاَہَاة وَالنَّہَارِ ِذَا جَلاَّہَاة وَاللَّیْلِ ِذَا یَغْشَاہَاة وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاہَاة وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاہَاة وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاة فََلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا... )(2)
آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے . اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا . اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.
ج: (وَالنَّجْمِ ِذَا ہَوَی )(3)
قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.
د: ( وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )(4)
: (وَالْعَصْرِ ة ِنَّ الِْنسَانَ لَفِ خُسْرٍ )(5)
قسم ہے عصر کی . بے شک انسان خسارے میں ہے.
و: (وَالْفَجْرِ ة وَلَیَالٍ عَشْرٍ)(6)
قسم ہے فجر کی . اور دس راتوں کی.
ز: (وَالطُّورِ ة وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ ة فِ رَقٍّ مَنْشُورٍ ة وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ة وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور)(7)
طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم . جو کشادہ اوراق میں ہے . اور بیت معمور کی قسم . اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.
اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں . اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو .
٢۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداۖ کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتۖ کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں . عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداۖ کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمۖ نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامۖ سے یوں روایت کی ہے :
''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنھیٰ عن منکر خیر من أن تسکت''..(8)
میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.
مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :
جاء رجل اِلی النب ۖ فقال: یا رسول اللّہ أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّہ أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ.....(9)
ایک شخص نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کو نسا صدقہ زیادہ اجر رکھتا ہے ؟ پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا: تمہارے باپ کی قسم یقینا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ( سب سے زیادہ اجر والا صدقہ) یہ ہے کہ تم صحت مندی، آرزوئے حیات ، خوف فقر اور امید بقاء کے ساتھ صدقہ دو .جو لوگ دنیا کے اکثر مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ سب غیر خدا کی قسم کھاتے ہیں تو وہ پیغمبر خدا کے اس عمل کی کیا تاویل کریں گے ؟
٣۔کتاب خدا اور سنت پیغمبرۖ کے علاوہ رسول خداۖ کے انتہائی قریبی اور متعبر اصحاب کی سیرت بھی اس عمل کے جائز ہونے کی بہترین دلیل ہے . عالم اسلام کے عظیم الشأن رہبر حضرت علی بن ابی طالبـ نے اپنے بہت سے گہربار خطبوں اور بیانات میں اپنی جان کی قسم کھائی ہے وہ فرماتے ہیں :
ولعمر لیضعفن لکم التیہ من بعد أضعافا(10)
میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
ایک جگہ اور فرماتے ہیں :
''ولعمر لأن لم تنزع عن غیک و شقاقک لتعرفنھم عن قلیل یطلبونک''(11)
میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اور شقاوت سے دست بردار نہ ہوئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ وہ لوگ تمہیں بھی ڈھونڈ لیں گے. (12)
اب واضح ہے کہ ان سب روایات کے مقابلے میں اجتہاد اور استحسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی دلیل قرآن مجید کی آیتوں، پیغمبراکرمۖ کی سنت اور معتبر صحابہ کی سیرت کو غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کی طرف شرک کی نسبت دے سکتی ہے.
نتیجہ:
گزشتہ دلائل کے مجموعے سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن و سنت اور مومنین کی سیرت کے اعتبار سے غیر خدا کی قسم کھانا ایک جائز اور مسلم اصل کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح عقیدہ توحید سے نہیں ٹکراتا . لہذا اگر کوئی روایت ظاہری طور پر ان یقینی دلیلیوں کی مخالفت کرے تو اس کی تاویل کرنی چاہیے تاکہ وہ قرآن و روایات کی مسلم اصل کے موافق ہوجائے . بعض اوقات ایک ایسی مبہم سی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جس میں اس عمل کی مخالفت کی گئی ہے یہاں ہم اس روایت کو اسکے جواب کے ساتھ بیان کرتے ہیں :
اِن رسول اللّٰہ سمع عمر و ھو یقول : وأب،فقال: اِن اللّٰہ ینھاکم أن تحلفوا بآبائکم و من کان حالفاً فلیحلف باللّہ أو یسکت(13)
رسول خدا ۖ نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنامیرے باپ کی قسم (یہ سن کر) پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا خداوند کریم نے تم لوگوں کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور جسے قسم کھانا ہو وہ خدا کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے . اگرچہ یہ حدیث قرآن کی ان آیات اور روایات کے مقابلے میں جو غیر خدا کی قسم کھانے کو جائز قرار دیتی ہیں ، کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن پھر بھی اس حدیث کو آیات اور روایات کے ہمراہ لانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامۖ نے حضرت عمر اور ان جیسے افراد کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے اس لئے روکا تھا کہ ان کے باپ مسلمان نہیں تھے اور غیر مسلموں کی قسمیںنہیں کھائی جاسکتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن رسول اللّٰہ سمع عمر و ھو یقول : وأب،فقال: اِن اللّٰہ ینھاکم أن تحلفوا بآبائکم و من کان حالفاً فلیحلف باللّہ أو یسکت(13)
رسول خدا ۖ نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنامیرے باپ کی قسم (یہ سن کر) پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا خداوند کریم نے تم لوگوں کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور جسے قسم کھانا ہو وہ خدا کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے . اگرچہ یہ حدیث قرآن کی ان آیات اور روایات کے مقابلے میں جو غیر خدا کی قسم کھانے کو جائز قرار دیتی ہیں ، کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن پھر بھی اس حدیث کو آیات اور روایات کے ہمراہ لانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامۖ نے حضرت عمر اور ان جیسے افراد کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے اس لئے روکا تھا کہ ان کے باپ مسلمان نہیں تھے اور غیر مسلموں کی قسمیںنہیں کھائی جاسکتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سورہ حجر آیت ٧٢
- سورہ شمس آیت ١ تا ٨
- سورہ نجم آیت:١
- سورہ قلم آیت:١
- سورہ عصر آیت ١ ا ور٢
- سورہ فجر آیت : ١ اور ٢
- سورہ طور آیت نمبر ١ سے ٦ تک
- مسند احمد جلد ٥ ص ٢٢٤ اور ٢٢٥ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی
- صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ٩٣ اور ٩٤
- نہج البلاغہ (محمد عبدہ) خطبہ نمبر ١٦١
- نہج البلاغہ (محمد عبدہ) مکتوب نمبر ٩
- اور زیادہ موارد کی آگاہی کے لئے خطبہ نمبر ١٦٨،١٨٢،اور ١٨٧ اورمکتوب نمبر ٦ اور ٥٤ کی طرف رجوع فرمائیے
- سنن الکبری ، جلد ١٠ ص ٢٩ اور سنن نسائی جلد٧ صفحہ نمبر٥ اور ٦
تبصرے