کيا اوليائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت يا شرک ہے؟
جواب:خدا کے نيک بندوں کی ياد منانا اور ان کی ولادت کے موقعے پر جشن منانا ، عقلاء کی نظر ميں ايک واضح مسئلہ ہے ليکن پھر بھی ہم اس عمل کے جائز ہونے کی دليليں اس لئے پيش کررہے ہيں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ ره جائے. ١۔ان کی ياد منانے ميں محبت کا اظہار ہوتا ہے.
قرآن مجيد نے مسلمانوں کو پيغمبرخداۖ اور ان کے اہل بيت٪ سے محبت کرنے کا حکم ديا ہے:
قُلْ لاَسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِ الْقُرْبَیٰ (1)
(اے پيغمبر)آپ کہہ ديجئے کہ ميں تم سے اس تبليغ رسالت کا کوئی اجر نہيں مانگتا سوائے اس کے کہ ميرے اقربا سے
محبت کرو .
اس ميں شک نہيں ہے کہ مسلمان اولياء خد اکی ياد منا کر ان سے اپنی اس
محبت و الفت کا اظہار کرتے ہيں جس کا حکم قرآن مجيد نے ديا ہے. ٢۔پيغمبر اکرمۖ کی ياد منانا آنحضرتۖ کی تعظيم کا اظہار ہے
قرآن مجيد نے رسول خدا کی نصرت کرنے کے علاوه آپ کے احترام کو بھی کاميابی اور سعادت کا معيار قرار ديا ہے.
فَالَّذِينَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِ نزِلَ مَعَہُ وْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُون ( 2)
پس جو لوگ پيغمبر پر ايمان لائے اور ان کا احترام کيا، ان کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کيا جو ان کے ساتھ نازل ہوا
ہے وہی درحقيقت فلاح يافتہ اور کامياب ہيں.
گزشتہ آيت کی روشنی ميں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نگاه ميں پيغمبراکرمۖ کا احترام انتہائی پسنديده کام ہے اور
ان کی ياد کو ہميشہ زنده رکھنے اور ان کے بلند مقام کی تعظيم کے لئے جشن منانا خداوندعالم کی خوشنودی کا باعث بنتا
ہے کيونکہ اس آيت ميں
فلاح يافتہ لوگوں کے لئے چار صفات ذکر کی گئی ہيں:
الف:ايمان(الَّذِينَ آمَنُوا بِہ) وه لوگ نبیۖ پر ايمان لائے.
ب:ان کے نور کی پيروی (وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِ نزِلَ مَعَہُ) اور اس نور کی پيروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا.
ج:ان کی نصرت کرنا (وَنَصَرُوه) اورانہوں نے ان کی نصرت کی.
د:پيغمبراکرمۖ کی تعظيم(وَعَزَّرُوه) اور ان کا احترام کيا.
اس اعتبارسے پيغمبر اکرمۖ پر ايمان لانے اور ان کی نصرت کرنے اور ان کے دئيے ہوئے احکام کی پيروی کرنے کے
علاوه آنحضرت کا احترام اورآپۖ کی تعظيم بھی ايک ضروری امر ہے اس لحاظ سے حضور سرورکائنات کی ياد کو باقی
رکھنا ''وَعَزَّرُوهُ'' کے امر کا امتثال ہے. ٣۔انکی ياد منانے ميں خداوندعالم کی پيروی ہے.
خداوندعالم قرآن مجيد ميں پيغمبراکرمۖ کی عظمت کو بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ)( 3)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کرديا.
اس آيت کی روشنی ميں معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم يہ چاہتا ہے کہ پيغمبراکرمۖ کی عظمت و جلال کو اس دنيا ميں پھيلا دے اور خود ذات کردگار نے بھی قرآن مجيد ميں آنحضرتۖ کی تعظيم کی ہے اس لئے ہم بھی قرآن مجيد کی پيروی کرتے ہوئے پيغمبراکرمۖ جو کہ اسوه کمال و فضيلت ہيں کی ياد منا کر ان کی تعظيم کرتے ہيں .اور اس طرح پروردگار عالم کی پيروی کرتے ہيں. واضح ہے کہ مسلمانوں کا ان محافل کو منعقد کرنے کا مقصد پيغمبراکرمۖ کے ذکر کو بلند کرنے کے علاوه کچھ نہيں ہے. ٤۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہيں ہے
قرآن مجيد نے حضرت عيسیٰ کی دعا کو يوں بيان کيا ہے: قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (4)
عيسیٰ ابن مريم نے کہا اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما تاکہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عيد ہوجائے اور تيری طرف سے نشانی بن جائے .
حضرت عيسیٰ نے خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ ان پر آسمان سے ايک دسترخوان نازل کيا جائے تاکہ اس کے نازل ہونے کادن ان کيلئے عيد بن جائے .
اب ہم يہ سوال کرتے ہيں کہ جب خدا کے ايک نبی کی نگاه ميں دسترخوان (جس سے جسمانی لذت حاصل ہوتی ہے ) کے
نازل ہونے کا دن عيد ہے تو اب اگر دنيا کے مسلمان وحی کے نازل ہونے اور( پيغمبراکرمۖ جو انسانوں کی بخشش کا ذريعہ
اور حيات ابدی کا سرچشمہ ہيں) کی ولادت با سعادت کے دن کو عيد قرار ديتے ہوئے اس دن جشن منائيں اور محفليں منعقد
کريں تو کيا يہ شرک يا بدعت ہوجائے گا؟! ٥۔ مسلمانوں کی سيرت
دين اسلام کے پيرو پيغمبراکرمۖ کی ياد کو ہميشہ زنده رکھنے کے لئے مدتوں سے اس قسم کی جشن منعقد کرتے آرہے ہيں
اس سلسلے ميں حسين بن محمد دياربکری اپنی کتاب ''تاريخ الخميس'' ميں يوں لکھتے ہيں : ''ولايزال أھل الاسلام يحتفلون بشھر مولده عليہ السلام و يعملون الولائم و يتصدقون ف لياليہ بأنواع الصدقات و يظھرون السرور و يزيدون ف المبرات و يعتنون بقرائة مولده الکريم و يظھر عليھم من برکاتہ کل فضل عميم''( 5)
دنيا کے مسلمان ہميشہ سے پيغمبر اکرمۖ کی ولادت کے مہينے ميں جشن کی محفليں منعقد کرتے ہيں اور لوگوں کو کھانا
کھلاتے ہيں اس مہينے کی راتوں ميں طرح طرح کے صدقے ديتے ہيں اور خوشی کا اظہار کرتے ہيں اور بہت زياده
نيکياں انجام ديتے ہيں وه لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کی ولادت کی مناسبت سے قصيدے پڑھتے ہيں اور ان کی برکت
سے ان پر ہر قسم کے فضل ظاہر ہوتے ہيں .
اس بيان سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن اور مسلمانوں کی نگاه ميں اوليائے خدا کی ياد منانا ايک پسنديده اور جائز عمل ہے
اور ساتھ ہی ساتھ اوليائے خدا کی ياد منانااور اسی طرح يہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وه لوگ جو اوليائے خدا کی ياد منانے
کو شرک سمجھتے ہيں ان کا يہ دعوی بے بنياد اور بے دليل ہے اور اسی کے ساتھ اولياء خدا کی ياد منانے کو بدعت
سمجھنے والے لوگوں کا نظريہ بھی باطل ہوجاتا ہے کيونکہ يہ فعل اس وقت بدعت قرار پاتا جب اس عمل کا جائز ہونا ،
خصوصی يا عمومی طور پر قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوتا جبکہ ہم ديکھتے ہينکہ قرآن مجيد ميں کلی طور پر اس مسئلہ کا
حکم موجود ہے اور مسلمانوں کی سيرت ميں بھی اس کے نقوش ملتے ہيں .
اسی طرح يہ محفليں خدا کے نيک بندوں کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہوئے صرف ان کے احترام کی
خاطر منعقد کی جاتی ہيں.
اس اعتبار سے يہ عمل توحيد سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے. اور يہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وه لوگ جو اولياے خد
اکی ياد منانے کو شرک سمجھتے ہيں ان کا يہ دعوی بے بنياد اور بے دليل ہے۔
قرآن مجيد نے مسلمانوں کو پيغمبرخداۖ اور ان کے اہل بيت٪ سے محبت کرنے کا حکم ديا ہے:
قُلْ لاَسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِ الْقُرْبَیٰ (1)
(اے پيغمبر)آپ کہہ ديجئے کہ ميں تم سے اس تبليغ رسالت کا کوئی اجر نہيں مانگتا سوائے اس کے کہ ميرے اقربا سے
محبت کرو .
اس ميں شک نہيں ہے کہ مسلمان اولياء خد اکی ياد منا کر ان سے اپنی اس
محبت و الفت کا اظہار کرتے ہيں جس کا حکم قرآن مجيد نے ديا ہے. ٢۔پيغمبر اکرمۖ کی ياد منانا آنحضرتۖ کی تعظيم کا اظہار ہے
قرآن مجيد نے رسول خدا کی نصرت کرنے کے علاوه آپ کے احترام کو بھی کاميابی اور سعادت کا معيار قرار ديا ہے.
فَالَّذِينَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِ نزِلَ مَعَہُ وْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُون ( 2)
پس جو لوگ پيغمبر پر ايمان لائے اور ان کا احترام کيا، ان کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کيا جو ان کے ساتھ نازل ہوا
ہے وہی درحقيقت فلاح يافتہ اور کامياب ہيں.
گزشتہ آيت کی روشنی ميں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نگاه ميں پيغمبراکرمۖ کا احترام انتہائی پسنديده کام ہے اور
ان کی ياد کو ہميشہ زنده رکھنے اور ان کے بلند مقام کی تعظيم کے لئے جشن منانا خداوندعالم کی خوشنودی کا باعث بنتا
ہے کيونکہ اس آيت ميں
فلاح يافتہ لوگوں کے لئے چار صفات ذکر کی گئی ہيں:
الف:ايمان(الَّذِينَ آمَنُوا بِہ) وه لوگ نبیۖ پر ايمان لائے.
ب:ان کے نور کی پيروی (وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِ نزِلَ مَعَہُ) اور اس نور کی پيروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا.
ج:ان کی نصرت کرنا (وَنَصَرُوه) اورانہوں نے ان کی نصرت کی.
د:پيغمبراکرمۖ کی تعظيم(وَعَزَّرُوه) اور ان کا احترام کيا.
اس اعتبارسے پيغمبر اکرمۖ پر ايمان لانے اور ان کی نصرت کرنے اور ان کے دئيے ہوئے احکام کی پيروی کرنے کے
علاوه آنحضرت کا احترام اورآپۖ کی تعظيم بھی ايک ضروری امر ہے اس لحاظ سے حضور سرورکائنات کی ياد کو باقی
رکھنا ''وَعَزَّرُوهُ'' کے امر کا امتثال ہے. ٣۔انکی ياد منانے ميں خداوندعالم کی پيروی ہے.
خداوندعالم قرآن مجيد ميں پيغمبراکرمۖ کی عظمت کو بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ)( 3)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کرديا.
اس آيت کی روشنی ميں معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم يہ چاہتا ہے کہ پيغمبراکرمۖ کی عظمت و جلال کو اس دنيا ميں پھيلا دے اور خود ذات کردگار نے بھی قرآن مجيد ميں آنحضرتۖ کی تعظيم کی ہے اس لئے ہم بھی قرآن مجيد کی پيروی کرتے ہوئے پيغمبراکرمۖ جو کہ اسوه کمال و فضيلت ہيں کی ياد منا کر ان کی تعظيم کرتے ہيں .اور اس طرح پروردگار عالم کی پيروی کرتے ہيں. واضح ہے کہ مسلمانوں کا ان محافل کو منعقد کرنے کا مقصد پيغمبراکرمۖ کے ذکر کو بلند کرنے کے علاوه کچھ نہيں ہے. ٤۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہيں ہے
قرآن مجيد نے حضرت عيسیٰ کی دعا کو يوں بيان کيا ہے: قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (4)
عيسیٰ ابن مريم نے کہا اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما تاکہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عيد ہوجائے اور تيری طرف سے نشانی بن جائے .
حضرت عيسیٰ نے خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ ان پر آسمان سے ايک دسترخوان نازل کيا جائے تاکہ اس کے نازل ہونے کادن ان کيلئے عيد بن جائے .
اب ہم يہ سوال کرتے ہيں کہ جب خدا کے ايک نبی کی نگاه ميں دسترخوان (جس سے جسمانی لذت حاصل ہوتی ہے ) کے
نازل ہونے کا دن عيد ہے تو اب اگر دنيا کے مسلمان وحی کے نازل ہونے اور( پيغمبراکرمۖ جو انسانوں کی بخشش کا ذريعہ
اور حيات ابدی کا سرچشمہ ہيں) کی ولادت با سعادت کے دن کو عيد قرار ديتے ہوئے اس دن جشن منائيں اور محفليں منعقد
کريں تو کيا يہ شرک يا بدعت ہوجائے گا؟! ٥۔ مسلمانوں کی سيرت
دين اسلام کے پيرو پيغمبراکرمۖ کی ياد کو ہميشہ زنده رکھنے کے لئے مدتوں سے اس قسم کی جشن منعقد کرتے آرہے ہيں
اس سلسلے ميں حسين بن محمد دياربکری اپنی کتاب ''تاريخ الخميس'' ميں يوں لکھتے ہيں : ''ولايزال أھل الاسلام يحتفلون بشھر مولده عليہ السلام و يعملون الولائم و يتصدقون ف لياليہ بأنواع الصدقات و يظھرون السرور و يزيدون ف المبرات و يعتنون بقرائة مولده الکريم و يظھر عليھم من برکاتہ کل فضل عميم''( 5)
دنيا کے مسلمان ہميشہ سے پيغمبر اکرمۖ کی ولادت کے مہينے ميں جشن کی محفليں منعقد کرتے ہيں اور لوگوں کو کھانا
کھلاتے ہيں اس مہينے کی راتوں ميں طرح طرح کے صدقے ديتے ہيں اور خوشی کا اظہار کرتے ہيں اور بہت زياده
نيکياں انجام ديتے ہيں وه لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کی ولادت کی مناسبت سے قصيدے پڑھتے ہيں اور ان کی برکت
سے ان پر ہر قسم کے فضل ظاہر ہوتے ہيں .
اس بيان سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن اور مسلمانوں کی نگاه ميں اوليائے خدا کی ياد منانا ايک پسنديده اور جائز عمل ہے
اور ساتھ ہی ساتھ اوليائے خدا کی ياد منانااور اسی طرح يہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وه لوگ جو اوليائے خدا کی ياد منانے
کو شرک سمجھتے ہيں ان کا يہ دعوی بے بنياد اور بے دليل ہے اور اسی کے ساتھ اولياء خدا کی ياد منانے کو بدعت
سمجھنے والے لوگوں کا نظريہ بھی باطل ہوجاتا ہے کيونکہ يہ فعل اس وقت بدعت قرار پاتا جب اس عمل کا جائز ہونا ،
خصوصی يا عمومی طور پر قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوتا جبکہ ہم ديکھتے ہينکہ قرآن مجيد ميں کلی طور پر اس مسئلہ کا
حکم موجود ہے اور مسلمانوں کی سيرت ميں بھی اس کے نقوش ملتے ہيں .
اسی طرح يہ محفليں خدا کے نيک بندوں کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہوئے صرف ان کے احترام کی
خاطر منعقد کی جاتی ہيں.
اس اعتبار سے يہ عمل توحيد سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے. اور يہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وه لوگ جو اولياے خد
اکی ياد منانے کو شرک سمجھتے ہيں ان کا يہ دعوی بے بنياد اور بے دليل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سوره شوریٰ آيت : ٢٣
- سوره اعراف آيت: ١٥٧
- سوره انشراح آيت ٤
- سوره مائده آيت : ١١٤
- حسين بن محمد بن حسن ديار بکری ، تاريخ الخميس جلد ١ ص ٢٢٣ طبع بيروت
تبصرے