کيوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟
جواب:اس سوال کے جواب کے لئے سب سے پہلے ہم قرآن و حديث کی روشنی ميں ان تين لفظوں نبوت، رسالت اور امامت کی وضاحت پيش کريں گے تاکہ يہ معلوم ہوجائے کہ منصب امامت ان دو منصبوں سے افضل ہے.١۔منصب نبوت
لفظ نبی کو''نبأ'' سے اخذ کيا گيا ہے جس سے مراد ''اہم خبر''ہے اس اعتبار سے نبی کے لغوی معنی ہيں وه شخص جس کے پاس کوئی اہم خبر ہو يا وه اس خبر کو پہنچانے والا ہو. (1)
قرآن کی اصطلاح ميں بھی ''نبی'' ايسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خداوندعالم سے مختلف طريقوں سے وحی حاصل کرتا ہو اور کسی بشر کے واسطے کے بغير خد اکی طرف سے خبر ديتا ہو علماء نے نبی کی يہ تعريف کی ہے
اِنّہ مؤدٍ من للهّ بلاواسطة من البشر (2)
نبی ايسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغير خدا کی طرف سے پيغام پہنچاتا ہے
اس بنياد پر ''نبی '' کاکا م صرف يہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجيد اس سلسلے ميں يہ فرماتا ہے:
فبعث للهّ النبيّين مبشرين و منذرين (3)
پھر لله نے بشارت دينے والے اور ڈرانے والے انبياء بھيجے .
وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ (4)
نبی ايسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغير خدا کی طرف سے پيغام پہنچاتا ہے
اس بنياد پر ''نبی '' کاکا م صرف يہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجيد اس سلسلے ميں يہ فرماتا ہے:
فبعث للهّ النبيّين مبشرين و منذرين (3)
پھر لله نے بشارت دينے والے اور ڈرانے والے انبياء بھيجے .
٢۔منصب رسالت
وحی الٰہی کی اصطلاح ميں رسول ان پيغمبروں کو کہا جاتا ہے جو خدا سے وحی لينے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوه خدا کی طرف سے اس کی شريعت کو بيان کرنے اور اپنی رسالت کے اعلان کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہوں قرآن مجيد اس سلسلے ميں يہ فرماتا ہے:وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ (4)
پھر اگر تم نے منہ پھير ليا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچادينا ہے.
لہذا منصب رسالت ايک ايسا منصب ہے جو نبی کو عطا کيا جاتا ہے دوسرے لفظوں ميں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصيت کی طرف اشاره کرتے ہيں جو پيغمبروں ميں پائی جاتی ہے اگر پيغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہيں ليکن اگر وه رسالت و شريعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے .
اب ہم قرآنی آيات کی روشنی ميں اس موضوع کے بارے ميں چند واضح دلائل پيش کرتے ہيں .
١۔قرآن کريم حضرت ابراہيم خليل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (5)
اور (وه وقت ياد کيجئے) جب ابراہيم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذريعہ آزمايا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھايا تو ارشاد ہوا ميں تمہيں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور ميری ذريت ؟
قرآن مجيد کی اس آيت سے دو حقيقتيں آشکار ہوجاتی ہيں :
الف: مذکوره آيت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوه ايک تيسرا منصب ہے کيونکہ حضرت ابراھيم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعيل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے يہ بات درج ذيل دليل سے ثابت ہوتی ہے:
ہم سب يہ جانتے ہيں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہيم کو بڑھاپے ميں حضرت اسماعيل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجيد حضرت ابراہيم کی زبان سے يوں حکايت کرتا ہے : الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاء (6)
اسحق عطاکئے. اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہيم کی مذکوره آزمائشوں ميں سے ايک حضرت اسماعيل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے ميں انہيں منصب امامت عطا کيا گيا تھا نيز انہيں يہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے ميں عطا کيا گياتھا.جبکہ وه کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کيونکہ حضرت ابراہيم پر ان کی ذريت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی (7) ذْ ابْتَلَیٰ بْرَ اہِيمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و ◌ِ ب:اسی طرح اس آيت ( وَ رسالت سے بالاتر ہے کيونکہ قرآن مجيد کی گواہی کے مطابق خداوندکريم نے جناب ابراہيم کو نبوت و رسالت کے عہده پر فائز ہونے کے باوجود جب انہيں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمايا تھا اور جب وه اس امتحان ميں کامياب ہوئے تب اس کے بعد يہ منصب انہيں ديا تھا اس بات کی دليل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض ميں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شريعت کے پہنچانے والے کے علاوه امت کی رہبری اور ان کی ہدايت کرتے ہوئے انہيں کمال وسعادت کی راه پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب يہ بات فطری ہے کہ وه منصب ايک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغير ممکن ہی نہ ہو.
٢۔گذشتہ آيت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں کے بعد جناب ابراہيم کو امامت اورمعاشره کی قيادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہيم نے خدا سے درخواست کی تھی خدايا! اس منصب کو ميری ذريت ميں بھی قرار دينا اب قرآن مجيد کی چند دوسری آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہيم کی يہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہيم کی نيک اور صالح ذريت ميں بھی قرار دے ديا تھا. قرآن مجيد اس سلسلے ميں فرماتا ہے:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ بْرَاہِيمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَيْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِيمًا (8)
تو پھر ہم نے آل ابراہيم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظيم سلطنت عنايت کی.
اس آيت سے يہ استفاده ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ايک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظيم القدر نبی جناب ابراہيم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمايا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو ميری ذريت ميں بھی قرار دے تو خدائے حکيم نے ان کی يہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہيں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوه ''ملک عظيم'' (يعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی لہذا ہم ديکھتے ہيں کہ خداوندکريم نے جناب ابراہيم کی ذريت کے بعض افراد (جيسے حضرت يوسف حضرت داؤد اور حضرت سليمان ) کو منصب نبوت کے علاوه حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمايا تھا ان بيانات کی روشنی ميں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہده نبوت و رسالت کے علاوه ايک تيسرا منصب ہے جو کہ مزيد قدرت اور ذمہ داريوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زياده اہميت کا حامل ہے .
لہذا منصب رسالت ايک ايسا منصب ہے جو نبی کو عطا کيا جاتا ہے دوسرے لفظوں ميں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصيت کی طرف اشاره کرتے ہيں جو پيغمبروں ميں پائی جاتی ہے اگر پيغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہيں ليکن اگر وه رسالت و شريعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے .
٣۔منصب امامت
قرآن مجيد کی نظر ميں منصب امامت، نبوت او رسالت کے علاوه ايک تيسرا عہد ه ہے جس ميں صاحب منصب کو لوگوں کی رہبری کے ساتھ ساتھ کچھ زياده تصرفات کا اختيار حاصل ہوتا ہے.اب ہم قرآنی آيات کی روشنی ميں اس موضوع کے بارے ميں چند واضح دلائل پيش کرتے ہيں .
١۔قرآن کريم حضرت ابراہيم خليل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (5)
اور (وه وقت ياد کيجئے) جب ابراہيم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذريعہ آزمايا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھايا تو ارشاد ہوا ميں تمہيں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور ميری ذريت ؟
قرآن مجيد کی اس آيت سے دو حقيقتيں آشکار ہوجاتی ہيں :
الف: مذکوره آيت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوه ايک تيسرا منصب ہے کيونکہ حضرت ابراھيم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعيل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے يہ بات درج ذيل دليل سے ثابت ہوتی ہے:
ہم سب يہ جانتے ہيں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہيم کو بڑھاپے ميں حضرت اسماعيل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجيد حضرت ابراہيم کی زبان سے يوں حکايت کرتا ہے : الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاء (6)
اسحق عطاکئے. اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہيم کی مذکوره آزمائشوں ميں سے ايک حضرت اسماعيل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے ميں انہيں منصب امامت عطا کيا گيا تھا نيز انہيں يہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے ميں عطا کيا گياتھا.جبکہ وه کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کيونکہ حضرت ابراہيم پر ان کی ذريت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی (7) ذْ ابْتَلَیٰ بْرَ اہِيمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و ◌ِ ب:اسی طرح اس آيت ( وَ رسالت سے بالاتر ہے کيونکہ قرآن مجيد کی گواہی کے مطابق خداوندکريم نے جناب ابراہيم کو نبوت و رسالت کے عہده پر فائز ہونے کے باوجود جب انہيں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمايا تھا اور جب وه اس امتحان ميں کامياب ہوئے تب اس کے بعد يہ منصب انہيں ديا تھا اس بات کی دليل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض ميں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شريعت کے پہنچانے والے کے علاوه امت کی رہبری اور ان کی ہدايت کرتے ہوئے انہيں کمال وسعادت کی راه پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب يہ بات فطری ہے کہ وه منصب ايک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغير ممکن ہی نہ ہو.
٢۔گذشتہ آيت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں کے بعد جناب ابراہيم کو امامت اورمعاشره کی قيادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہيم نے خدا سے درخواست کی تھی خدايا! اس منصب کو ميری ذريت ميں بھی قرار دينا اب قرآن مجيد کی چند دوسری آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہيم کی يہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہيم کی نيک اور صالح ذريت ميں بھی قرار دے ديا تھا. قرآن مجيد اس سلسلے ميں فرماتا ہے:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ بْرَاہِيمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَيْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِيمًا (8)
تو پھر ہم نے آل ابراہيم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظيم سلطنت عنايت کی.
اس آيت سے يہ استفاده ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ايک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظيم القدر نبی جناب ابراہيم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمايا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو ميری ذريت ميں بھی قرار دے تو خدائے حکيم نے ان کی يہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہيں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوه ''ملک عظيم'' (يعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی لہذا ہم ديکھتے ہيں کہ خداوندکريم نے جناب ابراہيم کی ذريت کے بعض افراد (جيسے حضرت يوسف حضرت داؤد اور حضرت سليمان ) کو منصب نبوت کے علاوه حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمايا تھا ان بيانات کی روشنی ميں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہده نبوت و رسالت کے علاوه ايک تيسرا منصب ہے جو کہ مزيد قدرت اور ذمہ داريوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زياده اہميت کا حامل ہے .
منصب امامت کی برتری
گذشتہ بيانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اور رسول کا کام صرف لوگوں تک پيغام پہنچانا اور انہيں راه دکھانا ہے اور اگر کوئی نبی منصب امامت پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور نتيجے ميں معاشرے کو سنوارنے اور سعادت مند بنانے کے لئے شريعت کے احکامات کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے دوش پر آجاتی ہے اس طرح وه امت کو ايسے راستے پر گامزن کرديتا ہے جس سے وه دونوں جہان ميں خوشبخت بن جاتی ہے .واضح ہے کہ اس قسم کی اہم ذمہ داری ايک عظيم معنوی قدرت او ر خاص لياقت کی نياز مند ہے اور اس سنگين عہدے کے لئے راه خدا ميں صبراور ثبات قدم کی ضرورت ہے کيونکہ اس راه ميں ہميشہ سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے يہی وجہ ہے کہ عشق خدا اور رضائے پروردگار کے بغير اس عظيم منصب کا حصول ممکن نہيں ہے ان ہی سب وجہوں سے خداوندعظيم نے جناب ابراہيم کو ان کی عمر کے آخری حصے ميں انتہائی سخت آزمائشوں کے بعد يہ منصب عطا کيا تھا اور پھر اپنے بہترين بندوں جيسے حضرت پيغمبر ختمی مرتبت کو يہ منصب امامت و رہبری عنايت فرمايا تھا.
کيا نبوت اور امامت ايک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہيں؟
اس سوال سے ايک اور سوال بھی سامنے آتا ہے اور وه يہ ہے کہ : کيا ہر نبی کے لئے امام ہونا اور ہر امام کے لئے نبی ہونا ضروری ہے؟ان دو سوالوں کا جواب منفی ہے ہم اس جواب کو واضح کرنے کيلئے وحی الہی کا سہارا ليں گے وه آيتيں جو طالوت اور ظالم جالوت کی جنگ کے سلسلے ميں نازل ہوئی ہيں اس بات کو بيان کرتی ہيں کہ خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کے بعد منصب نبوت کو بظاہر ''اشموئيل'' نامی شخص کو عطا فرمايا تھا اور ساتھ ہی ساتھ منصب امامت و حکومت کو جناب طالوت کے سپرد کيا تھا اس قصے کی تفصيل يوں بيان کی گئی ہے :
حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدبنی اسرائيل کے ايک گروه نے اپنے زمانے کے پيغمبرسے کہا کہ ہمارے لئے ايک حکمران معين کيجئے تاکہ اس کی سربراہی ميں ہم راه خدا ميں جنگ کرينتو اس وقت ان کے پيغمبر نے ان سے يوں کہا:
وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ نَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا نَّیٰ يَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ حَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ نَّ اللهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللهُ يُؤْتِ مُلْکَہُ مَنْ يَشَائُ وَاللهُ وَاسِع عَلِيم (9)
اور ان کے پيغمبرنے ان سے کہا : لله نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاه مقرر کيا ہے . ان لوگوں نے کہا: اسے ہم پربادشاہی کرنے کا حق کيسے مل گيا ہے؟ ہم خود بادشاہی کے اس سے زياده حق دار ہيں . وه تو کوئی دولت مند آدمی نہيں ہے . نبی نے جواب دياکہ لله نے اسے تمہارے لئے منتخب کيا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور لله جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے ديتا ہے اور لله بڑا وسعت والا، دانا ہے.
اس آيت سے درج ذيل باتيں سامنے آتی ہيں :
١۔يہ ممکن ہے کہ کچھ مصلحتيں اس بات کا تقاضا کريں کہ منصب نبوت کو منصب امامت سے جدا کرديا جائے اور ايک ہی زمانے ميں دو الگ الگ افراد نبی و امام ہوں اور ان ميں سے ہر ايک اپنے خاص منصب ہی کی لياقت وصلاحيت رکھتا ہو .
اسی لئے بنی اسرائيل نے اپنے زمانے ميں ان دو منصبوں کے جدا ہونے پر کوئی اعتراض نہيں کيا تھا کہ اے پيغمبر آپ طالوت سے زياده حکومت کے حقدار ہيں .بلکہ انہوں نے يہ اعتراض کيا تھا کہ ہم اس سے زياده حکومت کے حقدار ہيں.
٢۔جناب طالوت کو حکومت خداوندکريم ہی نے عطا کی تھی قرآن مجيد اس سلسلے ميں فرماتا ہے :
نَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا(ِنَّ اللهَ ( ◌ِ اصْطَفَاهُ عَلَيْکُمْ) بے شک لله نے اسے تمہارے لئے منتخب کيا ہے.
٣۔جناب طالوت کايہ الہی منصب صرف فوج کی سربراہی تک محدود نہيں تھا بلکہ وه بنی اسرائيل کے حاکم و فرمانروا بھی تھے کيونکہ قرآن نے انہيں ''مَلِکاً'' کہہ کر ياد کيا ہے اگرچہ اس دن اس رہبری کامقصد يہ تھا کہ جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائيل کی سربراہی کريں ليکن ان کا يہ الہی منصب انہيں دوسری حکومتی ذمہ داريوں کو بھی انجام دينے کی اجازت ديتا تھا .اس لئے قرآن مجيد اس آيت کے اختتام ميں فرماتا ہے : (وَاللهُ يُؤْتِ مُلْکَہُ مَنْ يَشَائ) اور لله جسے چاہے اپنا ملک ديدے .
٤۔امت کی رہبری اور امامت کے لئے اہم ترين شرط يہ ہے کہ اس ميں علمی، جسمانی،اور معنوی توانائی پائی جاتی ہو اس قسم کی صلاحيت اس زمانے ميں زياده اہميت رکھتی تھی کيونکہ ان ايام ميں حاکم خود ميدان ميں حاضر ہو کر جنگ کرتا تھا(10
گذشتہ بيانات سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ نبوت اور امامت ايک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہيں ہيں بلکہ ممکن ہے کہ ايک شخص نبی تو ہو ليکن منصب امامت پر فائز نہ ہو يا يہ کہ کوئی شخص خدا کی جانب سے امام تو ہو ليکن اسے عہدهٔ نبوت حاصل نہ ہوا ہو اور يہ بھی ممکن ہے کہ پروردگارعالم يہ دونوں منصب ايک ہی شخص کو عطا کردے جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے:
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (11)
چنانچہ لله کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کرديا اور لله نے انہيں
سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہيں سکھاديا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (11)
چنانچہ لله کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کرديا اور لله نے انہيں
سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہيں سکھاديا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- اگر نبی صيغۂ لازم ہو گا تو پہلے معنی ميں ہوگا اور اگر متعدی ہوگا تو دوسرے معنی ميں ہوگا
- رسائل العشر (مصنفہ شيخ طوسی )ص ١١١
- سوره بقره آيت: ٢١٣
- سوره مائده آيت ٩٢
- سوره بقره آيت : ١٢٤
- سوره ابراہيم آيت : ٣٩
- اس سلسلے ميں سوره صافات کی آيت نمبر ٩٩ سے لے کر ١٠٢ تک اور سوره حجر کی آيت نمبر ٥٣ اور ٥٤ اور سوره ہود کی ) آيت ٧٠ اور ٧١ کا مطالعہ فرمائيں
- سوره نساء آيت ٥٤
- سوره بقره آيت ٢٤٧
- منشور جاويد (مصنفہ استاد جعفرسبحانی) سے ماخوذ
- سوره بقره آيت ٢٥١
تبصرے