کيا شيعوں کی نظر ميں جبرئيل نے منصب رسالت کے پہنچانے ميں خيانت کی ہے اور کيا يہ صحيح ہے کہ انہوں نے حضرت علی کے بجائے قرآن مجيد کو رسول اکرمۖ پر نازل کيا ہے؟
جواب: بعض جاہل اور خود غرض افراد نے شيعوں پر يہ تہمت لگائی ہے .اس مسئلے کے جواب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہيں کہ اس سوال کے پيداہونے کا اصلی سبب بيان کرديں:اس تہمت کا اصلی سبب
قرآنی آيات اور احاديث نبوی کے مطابق يہوديوں کا يہ عقيده تھا کہ حضرت جبرئيل نے رسالت کے پہنچانے ميں خيانت کی ہے کيونکہ خداوندعالم نے انہيں حکم ديا تھا کہ منصب نبوت کو خاندان اسرائيل ميں قرارديں ليکن انہوں نے پروردگار عالم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصب نبوت کو اولاد اسماعيل ميں قرار دے ديا اسی بنياد پر يہودی جناب جبرئيل کو اپنا دشمن سمجھتے ہيں (1)
اور ان کے بارے ميں ہميشہ ''خان الامين'' ''جبرائيل نے خيانت کی'' کا جملہ استعمال کرتے ہيں اسی وجہ سے قرآن مجيد نے ان پر اعتراض کيا ہے اور ان کے نظرئيے کو باطل قرار ديتے ہوئے مندرجہ ذيل آيت ميں جناب جبرئيل کو فرشتہ ''امين'' کے نام سے ياد کيا ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ، عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (2)
اس( قرآن مجيد)کو روح الامين (جبرائيل) لے کر نازل ہوئے ہيں يہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والوں ميں سے ہوجائيں.
ايک اور آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِ ذْنِ اللهِ (3).
آپ کہہ ديجئے: جو کوئی جبرئيل کا دشمن ہے وه يہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل
کيا ہے.
اگر ان آيات کی تفسير کا مطالعہ کيا جائے تو يہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم يہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئيل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہيں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے ميں خيانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامين'' کا سرچشمہ قوم يہود کا عقيده ہے اور بعض جاہل مصنفين نے شيعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتيجے ميں بے انصافی سے کام ليتے ہوئے يہوديوں کے اس جملے کو شيعہ قوم سے منسوب کرديا ہے. شيعوں کی نگاه ميں منصب نبوت
شيعہ ،قرآن وسنت کی پيروی اور ائمہ معصومين ع کی روايات کی روشنی ميں نہ صرف يہ کہ حضرت محمد بن عبدلله کو
حکم خدا سے ساری دنيا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہيں بلکہ وه آنحضرتۖ کو آخری نبی اور سيد المرسلين بھی مانتے ہيں شيعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب اپنے اس گہربار کلام ميں اس حقيقت کی يوں گواہی ديتے ہيں:
وأشھد أن لاالہ الا للهّ وحده لاشريک و أشھد أن محمّدًا عبده و رسولہ خاتم النبيّين و حجة للهّ علیٰ العالمين.(4)
ميں گواہی ديتا ہوں کہ کوئی معبود نہيں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شريک نہيں اور گواہی ديتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبياء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہيں.
امام جعفرصادق نيز فرماتے ہيں:
''لم يبعث للهّ عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبياء ھودًا و صالحًا و اسماعيل و شعيبًا و محمدًا خاتم النبيّين '.'(5)
خداوندعالم نے پانچ انبياء کو قوم عرب ميں سے مبعوث فرمايا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعيل ،حضرت شعيب اور خاتم النبيين حضرت محمد مصطفی . يہ حديث بخوبی شيعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کرديتی ہے اور حضرت محمدبن عبدلله کو خدا کے آخری نبی کی حيثيت سے پہچنواتی ہے(6)
اسی بنياد پر تمام شيعہ جناب جبرئيل کو رسالت پہنچانے ميں امين سمجھتے ہيناوراسی طرح ان کا عقيده ہے کہ حضرت محمد بن عبدلله خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب آنحضرت کے حقيقی وصی اور جانشين تھے۔
يہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہيں کہ پيغمبراکرمۖ کی درج ذيل حديث پيش کريں جس کے صحيح ہونے پر شيعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہيں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثين نے اس حديث کو اپنی معتبر کتابوں ميں نقل کيا ہے يہ حديث ''حديث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حديث ميں آپ نے اپنی رسالت کی خاتميت بيان کرنے کے بعد حضرت علی کو اپنا وصی اور جانشين معين فرماياہے پيغمبراکرم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمايا ہے:
أما ترضیٰ أن تکون منّ بمنزلة ھارون من موسیٰ الا اِنّہ لانبّ بعد(7)
آپ کہہ ديجئے: جو کوئی جبرئيل کا دشمن ہے وه يہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل
کيا ہے.
اگر ان آيات کی تفسير کا مطالعہ کيا جائے تو يہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم يہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئيل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہيں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے ميں خيانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامين'' کا سرچشمہ قوم يہود کا عقيده ہے اور بعض جاہل مصنفين نے شيعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتيجے ميں بے انصافی سے کام ليتے ہوئے يہوديوں کے اس جملے کو شيعہ قوم سے منسوب کرديا ہے. شيعوں کی نگاه ميں منصب نبوت
شيعہ ،قرآن وسنت کی پيروی اور ائمہ معصومين ع کی روايات کی روشنی ميں نہ صرف يہ کہ حضرت محمد بن عبدلله کو
حکم خدا سے ساری دنيا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہيں بلکہ وه آنحضرتۖ کو آخری نبی اور سيد المرسلين بھی مانتے ہيں شيعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب اپنے اس گہربار کلام ميں اس حقيقت کی يوں گواہی ديتے ہيں:
وأشھد أن لاالہ الا للهّ وحده لاشريک و أشھد أن محمّدًا عبده و رسولہ خاتم النبيّين و حجة للهّ علیٰ العالمين.(4)
ميں گواہی ديتا ہوں کہ کوئی معبود نہيں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شريک نہيں اور گواہی ديتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبياء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہيں.
امام جعفرصادق نيز فرماتے ہيں:
''لم يبعث للهّ عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبياء ھودًا و صالحًا و اسماعيل و شعيبًا و محمدًا خاتم النبيّين '.'(5)
خداوندعالم نے پانچ انبياء کو قوم عرب ميں سے مبعوث فرمايا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعيل ،حضرت شعيب اور خاتم النبيين حضرت محمد مصطفی . يہ حديث بخوبی شيعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کرديتی ہے اور حضرت محمدبن عبدلله کو خدا کے آخری نبی کی حيثيت سے پہچنواتی ہے(6)
اسی بنياد پر تمام شيعہ جناب جبرئيل کو رسالت پہنچانے ميں امين سمجھتے ہيناوراسی طرح ان کا عقيده ہے کہ حضرت محمد بن عبدلله خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب آنحضرت کے حقيقی وصی اور جانشين تھے۔
يہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہيں کہ پيغمبراکرمۖ کی درج ذيل حديث پيش کريں جس کے صحيح ہونے پر شيعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہيں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثين نے اس حديث کو اپنی معتبر کتابوں ميں نقل کيا ہے يہ حديث ''حديث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حديث ميں آپ نے اپنی رسالت کی خاتميت بيان کرنے کے بعد حضرت علی کو اپنا وصی اور جانشين معين فرماياہے پيغمبراکرم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمايا ہے:
أما ترضیٰ أن تکون منّ بمنزلة ھارون من موسیٰ الا اِنّہ لانبّ بعد(7)
(اے علی )کياتم اس بات سے خوش نہيں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ويسی ہی ہے جيسی ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف يہ (فرق ہے) کہ ميرے بعد کوئی پيغمبر نہيں آئے گا.
يہ حديث جو کہ سند کے اعتبار سے شيعہ و سنی محدثين کی نظر ميں معتبر ہے شيعوں کے درج ذيل دو نظريوں کی واضح دليل ہے:
١۔حضرت محمد بن عبدلله خدا کے آخری نبی ہيں.
٢۔حضرت علی بن ابی طالب پيغمبراکرمۖ کے جانشين اور بلافصل خليفہ ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يہ حديث جو کہ سند کے اعتبار سے شيعہ و سنی محدثين کی نظر ميں معتبر ہے شيعوں کے درج ذيل دو نظريوں کی واضح دليل ہے:
١۔حضرت محمد بن عبدلله خدا کے آخری نبی ہيں.
٢۔حضرت علی بن ابی طالب پيغمبراکرمۖ کے جانشين اور بلافصل خليفہ ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- تفسير فخررازی جلد ١ ص ٤٣٦ اور ٤٣٧ طبع مصر ١٣٠٨ ھ
- سوره شعراء آيت: ١٩٤
- سوره بقره آيت: ٩٣ ۔ ١٩٤
- نہج السعادة جلد ١ ص ١٨٨ طبع بيروت اور کافی جلد ٨صفحہ ٦٧ طبع ٢ تہران
- پيغمبراسلامۖ کی خاتميت کے سلسلے ميں زياده روايات سے آگاہی کے لئے استاد جعفر سبحانی کی کتاب ''مفاہيم القرآن'' کا مطالعہ )فرمائيں.
- بحار الانوار جلد ١١ ص ٤٢ طبع ٢ بيروت ١٤٠٣ ھ
- اس حديث کے بے شمار ماخذ موجود ہيں ان ميں سے بعض يہ ہيں:١۔صحيح بخاری جلد ٦ ص ٣ باب غزوه تبوک (طبع مصر)
٢۔صحيح مسلم جلد ٧ ص ١٢٠ باب فضائل علی (طبع مصر)
٣۔سنن ابن ماجہ جلد ١ ص ٥٥ باب فضائل اصحاب النبی (طبع اول مصر)
٤۔مستدرک حاکم جلد ٣ ص ١٠٩ (طبع بيروت)
١٨٥ اور جلد ٣ ميں ص ٣٢ ،١٨٤ ،١٨٢ ،١٧٩ ،١٧٧ ، ٥۔مسند احمد جلد ١ ص ١٧٠
٦۔صحيح ترمذی جلد ٥ ص ٢١ باب مناقب علی بن ابی طالب (طبع بيروت)
٧۔مناقب ابن مغازلی ص ٢٧ طبع بيروت ١٤٠٣ ھ
٨۔بحارالانوار جلد ٣٧ ص ٢٥٤ طبع ٢ بيروت ١٤٠٣ ھ
٩۔معانی الاخبار (شيخ الصدوق) ص ٧٤ طبع بيروت ١٣٩٩ ھ
١٠ ۔کنزالفوائد جلد ٢ ص ١٦٨ طبع بيروت ١٤٠٥ ھ
تبصرے