کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟
جواب:عقل اور منطق وحی کے اعتبار سے تمام انسان بلکہ کائنات کے تمام موجودات جس طرح وجود ميں آنے کے لئے خدا کے محتاج ہيں اسی طرح دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی اس کے محتاج ہيں. قرآن مجيد اس بارے ميں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (1)
اے لوگو تم سب لله کی بارگاه کے فقير ہو اور لله صاحب دولت اور قابل حمدوثنا ہے.
اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہر قسم کی فتح اور نصرت پروردگار جہان کے قبضۂ قدرت ميں ہے.
وَمَا النَّصْرُ لاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَکِيمِ (2)
مدد تو ہميشہ صرف خدائے عزيز و حکيم ہی کی طرف سے ہوتی ہے.
اسلام کی اس مسلم الثبوت اصل کی بنياد پر ہم سب مسلمان اپنی ہر نماز ميں اس آيہ شريفہ کی تلاوت کرتے ہيں:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تيری ہی عبادت کرتے ہيں اورتجھی سے مدد چاہتے ہيں.
اس مقدمہ کی روشنی ميں اب ہم مذکوره سوال کے جواب ميں يہ کہنا چاہيں گے کہ:غير خدا سے مدد مانگنا دو صورتوں ميں قابل تصور ہے:
١۔ پہلی صورت يہ ہے کہ ہم کسی انسان يا موجودات ميں سے کسی سے اس طرح مدد مانگيں کہ اسے اس کے وجود يا اس کے اپنے کاموں ميں مستقل سمجھيں اور اسے مدد پہنچانے ميں خدا سے بے نياز تصور کريں. ايسی صورت ميں شک نہيں ہے کہ غير خدا سے مدد مانگنا شرک ہوگا جيسے قرآن مجيددرج ذيل آيت ميناس کو باطل قرار ديتا ہے.
قُلْ مَنْ ذَا الَّذِ يَعْصِمُ کُمْ مِنَ اللهِ نْ رَادَ بِکُمْ سُوئً ا وْ رَادَ بِکُمْ رَحْمَةً وَلايَجِدُونَ لَہُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِيًّا وَلانَصِيرًا (2)
جئے کہ اگر خدا برائی کا اراده کر لے يا بھلائی ہی کرنا چاہے تو تمہيں اس سے کون بچا سکتا ہے اور يہ لوگ اس کے علاوه نہ کوئی سرپرست پاسکتے ہيں اور نہ مددگار.
٢۔دوسری صورت يہ ہے کہ کسی انسان سے مدد مانگتے وقت اسے خدا کی مخلوق اور اس کا ضرورتمندبنده سمجھا جائے اوريہ عقيده ہو کہ وه اپنی طرف سے کسی قسم کا استقلال نہيں رکھتا اور اسے بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحيت خد اہی نے عطا فرمائی ہے. اس فکر کی رو سے اگر کسی چيز ميں ہم اس انسان سے مددمانگ رہے ہيں تو وه اس سلسلے ميں واسطے کا کام کرتا ہے کيونکہ پروردگار نے اسے بندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ''وسيلہ'' قرار ديا ہے اس قسم کی مدد مانگنا حقيقت ميں خداوندکريم سے مدد مانگنا ہے کيونکہ اسی نے ان وسائل اور اسباب کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس شخص کو انسانوں کی حاجات کو پورا کرنے کی صلاحيت اور قدرت عطا کی ہے اصولی طور پر بشر کی زندگی کی اساس ان اسباب اور مسببات سے مدد مانگنے پر استوار ہے اس طرح کہ ان سے مدد نہ لينے کی صورت ميں انسان کی زندگی اضطراب کا شکار ہوجائيگی يہاں پر ہم اگر انہيں اس نگاه سے ديکھيں کہ وه خدا کی مدد پہنچانے کا وسيلہ ہيں اور ان کا وجوداور ان کی تاثير خدا کی طرف سے ہے تو ان سے مدد مانگنا کسی بھی اعتبار سے توحيد اور يکتا پرستی کے خلاف نہيں ہے. ايک موحد اور خدا شناس کسان جو کہ زمين پانی ہوا اور سورج سے مدد لے کر ايک بيج کو ايک پھل دار درخت ميں تبديل کرديتا ہے تو حقيقت ميں وه کسان خدا سے مدد مانگتا ہے کيونکہ وہی ہے کہ جس نے ان اسباب کو قدرت اور استعداد بخشی ہے.
واضح ہے کہ يہ مدد مانگنا توحيد اور يکتا پرستی سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے بلکہ قرآن مجيد تو ہميں بعض چيزوں (جيسے صبر اور نماز) سے مدد لينے کا حکم ديتا ہے اور فرماتا ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاة (4)
صبر اور نماز کے ذريعہ مدد مانگو. واضح ہے کہ صبر اور پائيداری انسان کا کام ہے اور ہميں حکم ديا گيا ہے کہ ان سے مدد حاصل کريں جب کہ اس قسم کی استعانت خدا سے مانگی جانے والی اس مدد کی مخالف نہيں ہے جسے اِيّاک نَستعينَ کے ذريعہ طلب کيا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (1)
اے لوگو تم سب لله کی بارگاه کے فقير ہو اور لله صاحب دولت اور قابل حمدوثنا ہے.
اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہر قسم کی فتح اور نصرت پروردگار جہان کے قبضۂ قدرت ميں ہے.
وَمَا النَّصْرُ لاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَکِيمِ (2)
مدد تو ہميشہ صرف خدائے عزيز و حکيم ہی کی طرف سے ہوتی ہے.
اسلام کی اس مسلم الثبوت اصل کی بنياد پر ہم سب مسلمان اپنی ہر نماز ميں اس آيہ شريفہ کی تلاوت کرتے ہيں:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تيری ہی عبادت کرتے ہيں اورتجھی سے مدد چاہتے ہيں.
اس مقدمہ کی روشنی ميں اب ہم مذکوره سوال کے جواب ميں يہ کہنا چاہيں گے کہ:غير خدا سے مدد مانگنا دو صورتوں ميں قابل تصور ہے:
١۔ پہلی صورت يہ ہے کہ ہم کسی انسان يا موجودات ميں سے کسی سے اس طرح مدد مانگيں کہ اسے اس کے وجود يا اس کے اپنے کاموں ميں مستقل سمجھيں اور اسے مدد پہنچانے ميں خدا سے بے نياز تصور کريں. ايسی صورت ميں شک نہيں ہے کہ غير خدا سے مدد مانگنا شرک ہوگا جيسے قرآن مجيددرج ذيل آيت ميناس کو باطل قرار ديتا ہے.
قُلْ مَنْ ذَا الَّذِ يَعْصِمُ کُمْ مِنَ اللهِ نْ رَادَ بِکُمْ سُوئً ا وْ رَادَ بِکُمْ رَحْمَةً وَلايَجِدُونَ لَہُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِيًّا وَلانَصِيرًا (2)
جئے کہ اگر خدا برائی کا اراده کر لے يا بھلائی ہی کرنا چاہے تو تمہيں اس سے کون بچا سکتا ہے اور يہ لوگ اس کے علاوه نہ کوئی سرپرست پاسکتے ہيں اور نہ مددگار.
٢۔دوسری صورت يہ ہے کہ کسی انسان سے مدد مانگتے وقت اسے خدا کی مخلوق اور اس کا ضرورتمندبنده سمجھا جائے اوريہ عقيده ہو کہ وه اپنی طرف سے کسی قسم کا استقلال نہيں رکھتا اور اسے بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحيت خد اہی نے عطا فرمائی ہے. اس فکر کی رو سے اگر کسی چيز ميں ہم اس انسان سے مددمانگ رہے ہيں تو وه اس سلسلے ميں واسطے کا کام کرتا ہے کيونکہ پروردگار نے اسے بندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ''وسيلہ'' قرار ديا ہے اس قسم کی مدد مانگنا حقيقت ميں خداوندکريم سے مدد مانگنا ہے کيونکہ اسی نے ان وسائل اور اسباب کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس شخص کو انسانوں کی حاجات کو پورا کرنے کی صلاحيت اور قدرت عطا کی ہے اصولی طور پر بشر کی زندگی کی اساس ان اسباب اور مسببات سے مدد مانگنے پر استوار ہے اس طرح کہ ان سے مدد نہ لينے کی صورت ميں انسان کی زندگی اضطراب کا شکار ہوجائيگی يہاں پر ہم اگر انہيں اس نگاه سے ديکھيں کہ وه خدا کی مدد پہنچانے کا وسيلہ ہيں اور ان کا وجوداور ان کی تاثير خدا کی طرف سے ہے تو ان سے مدد مانگنا کسی بھی اعتبار سے توحيد اور يکتا پرستی کے خلاف نہيں ہے. ايک موحد اور خدا شناس کسان جو کہ زمين پانی ہوا اور سورج سے مدد لے کر ايک بيج کو ايک پھل دار درخت ميں تبديل کرديتا ہے تو حقيقت ميں وه کسان خدا سے مدد مانگتا ہے کيونکہ وہی ہے کہ جس نے ان اسباب کو قدرت اور استعداد بخشی ہے.
واضح ہے کہ يہ مدد مانگنا توحيد اور يکتا پرستی سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے بلکہ قرآن مجيد تو ہميں بعض چيزوں (جيسے صبر اور نماز) سے مدد لينے کا حکم ديتا ہے اور فرماتا ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاة (4)
صبر اور نماز کے ذريعہ مدد مانگو. واضح ہے کہ صبر اور پائيداری انسان کا کام ہے اور ہميں حکم ديا گيا ہے کہ ان سے مدد حاصل کريں جب کہ اس قسم کی استعانت خدا سے مانگی جانے والی اس مدد کی مخالف نہيں ہے جسے اِيّاک نَستعينَ کے ذريعہ طلب کيا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سوره فاطر آيت 15
- سوره آل عمران آيت ١٢٦
- سوره احزاب آيت: ١٧
- سوره بقره آيت ٤٥
تبصرے