افسانہ عقد ام کلثوم


افسانہ عقد ام کلثوم


ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ٨٩ ہمیں اس بات کا پوری احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر ایسے فر سودہ موضوعات پر صرف وقت کسی طرح مفید نہیں ہے لیکن سخت مجبوری کے تحت اس شرمناک واقعہ پر قلم اٹھانا ضروری خیال کیا گیا ہے کیونکہ بعض شرپسند عناصر جان بوجھ کر ایسے لاحاصل مسائل کی تشہیر کر کے ایک طرف خاندان رسول سے اپنی دشمنی کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسلام جیسے مصفی وپاکیزہ دین کو اس قسم کی شرمناکیوں کے ساتھ پیش کرکے دین الہی کی تذلیل پر کمربستہ ہیں ۔ لہذا ناموس اکابرین اسلام اور تحفظ طہارت دین کے لئے اس مضر پروپیگنذے کی نشرو اشاعت کی روک تھام کی جانب یہ قدم اٹھایا گیا ۔ کیونکہ اگر ایسے موضوعات کی تردید نہ کی جائے تو یہ خاموشی اور چشم پو شی مستقبل قریب میں سخت رسوائی کا سبب ٹھہرسکتی ہے ۔ بے باک قلم کاروں ،مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں نے اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان رکیک موضوعات سے صحابہ کرام کا وقار خاک میں ملت ہے حضور اور اہلبیت اطہار کی توہین ہوتی ہے ۔انھیں صرف اپنے ممدوح کی جھوٹی سچی مدح سے غرض ہے خواہ ان کی یہ اندھی محبت روشن دشمنی ثابت ہو یا ان کی بے جا عقیدت دوسرے مذاہب کی نظر میں اسلام کی تضحیک وتذلیل بن جائے ۔مگر مرغا ایک ٹانگ پر ہی رہے گا ۔ افسانہ عقد ام کلثوم پر ہماری طرف سے لاتعداد کتب پیش کی جاچکی ہیں جو تاہنوز لا جواب ہیں مگر پھر بھی دن بدن بعض ضدی افراد اس جھوٹ کی پٹاری کو بازار میں فروخت کرنے لاتے رہتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خاک اپنے سر میں پڑے گی ۔چاند پر تھوکا واپس اپنے ٩٠ پر پلٹے گا ۔دنیا نے پہلے "رنگیلا رسول" لکھ کر بدنام کیا تھا اب "عیاش خلیفہ" بھی چھپ سکتا ہے کہ پھر ہمیں منہ چھپانے کا کوئی کونہ بھی نظر نہ آئے گا ۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگے گی ۔ پس دوسرے مذاہب میں اسلام کی حرمت بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بے ہودہ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے کہ اس سے مجموعی طور پر خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ایسی حیا سوز ، پست اخلاق اور مضحکہ خیز باتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کرتوتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ منصف مزاجوں کی عقلیں دنگ ہوجاتی ہیں ۔ نگاہیں شرم سے گڑ جاتی ہیں ۔ نظریں پتھر ہوجاتی ہیں ، سرگریبان میں چھپ جاتے ہیں گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔چہرے فق ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔ زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، سخت ذلت ،شدید رسوائی وبدنامی کا سامنا ہوتا ہے ۔مذہب سے بیزاری کے خیالات ذہن پر تسلط جمالیتے ہیں ۔ہر راہ مسدود نظر آتی ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ۔ روایات کو مانیں یا دین کو بچائیں ۔ فرقہائے اسلامیہ کے اختلافات کو اگر داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو لا تعداد مسائل متنازعہ سامنے آتے ہیں ہر مکتب فکر کی جانب سے اپنے مسلک کی تائید میں متعدد تصانیف موجود ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حق میں زور صرف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی لیکن یہ مسائل اندرونی و داخلی حیثیت کے ہیں اور ان مباحثوں میں کم سے کم ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیر مذاہب والوں کے لئے ہمارے خلاف ہتھیار مہلک ثابت ہو سکے ۔ٹھیک ہے اندر ونی معاملات ہیں جو آپس میں تفہیم و افہام سے طے ہوسکتے ہیں ۔لیکن چند ٩١ امور ایسے بھی ہیں جن کی ہرگز کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے ان کو اس طرح مشہور کردیا گیا ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگا ہے ۔ ان میں عقد ام کلثوم کا افسانہ بھی ہے لیکن یہ اختلاف توایسا ہے کہ مصنف عقل انگشت بد نداں نظر آتی ہے ۔یہ قصہ واہی اسلام کے جسم پر ناسور نظر آتاہے ۔وہ دین جو داعی شرافت وشرم وحیا ہے ۔جو بلند اخلا قی اور پاکیزہ معاشرت کی ضمانت دیتا ہے اسی دین کی مسند پر بیٹھنے والا مدعی خلافت بزرگ عالم پیری میں ایسی شرمناک حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے پر بھی راقم و ناظر دونوں پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔ ایسے ناگفتہ بہ واقعات کا بیان سراسر اسلام کی بدخواہی ،دین کی تحقیر وتقصیر اور بزرگان دین کی تو ہین ہے ۔لہذا تمام مخلص مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محض ضد میں آکر دین اور اکابرین اسلام کی مٹی پلید ہونے سے پہلے ہی حفظ تقدم کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہر بات کو کہنے سے پہلے سوچیں کہ ہم اسلام اور بزرگان اسلام کی عزت افزائی کررہے ہیں یا تعظیم کشی عقل وانصاف کے ترازو پر تول کر قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچ کر فطرت وعدل کی میزان دیکھکر کسی امر کا پر چار کریں وقتی مصلحت کے تحت جو بات آپ کو مفید نظرآتی ہے وہ دائمی طور پر مضرت رساں ہوسکتی ہے لہذا پہلے تو لو پھر بولو۔ "خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر اور حال گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہوگی "۔ ٩٢ یہ عبادت جلیل القدر مورخ ابن خلدون کی ہے ۔اس قتباس کے آئینہ میں افسانہ عقد ام کلثوم کو دیکھئے تو یقینا عقل کا فیصلہ ،ضمیر کی آواز ،انسانیت کی پکار ،شرم وحیا کی تائید ،تہذیب وتمیز کی تصدیق ،اخلاق وتمدن کی توثیق مندرجہ ذیل ہوگی ۔ "یہ قصّہ قطعی غلط بے بنیاد اور بہتان عظیم ہے ۔کیونکہ یہ واقعہ خلاف عقل وقیاس ہے "۔ کسی خبر کا لغو ہونا ازخود اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوتا ہے ۔اور یہ فسانہ سرتا پا لغو ہے ، حماقت ہے ،بے مقصد تضیع وقت ہے

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ٨٩ ہمیں اس بات کا پوری احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر ایسے فر سودہ موضوعات پر صرف وقت کسی طرح مفید نہیں ہے لیکن سخت مجبوری کے تحت اس شرمناک واقعہ پر قلم اٹھانا ضروری خیال کیا گیا ہے کیونکہ بعض شرپسند عناصر جان بوجھ کر ایسے لاحاصل مسائل کی تشہیر کر کے ایک طرف خاندان رسول سے اپنی دشمنی کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسلام جیسے مصفی وپاکیزہ دین کو اس قسم کی شرمناکیوں کے ساتھ پیش کرکے دین الہی کی تذلیل پر کمربستہ ہیں ۔ لہذا ناموس اکابرین اسلام اور تحفظ طہارت دین کے لئے اس مضر پروپیگنذے کی نشرو اشاعت کی روک تھام کی جانب یہ قدم اٹھایا گیا ۔ کیونکہ اگر ایسے موضوعات کی تردید نہ کی جائے تو یہ خاموشی اور چشم پو شی مستقبل قریب میں سخت رسوائی کا سبب ٹھہرسکتی ہے ۔ بے باک قلم کاروں ،مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں نے اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان رکیک موضوعات سے صحابہ کرام کا وقار خاک میں ملت ہے حضور اور اہلبیت اطہار کی توہین ہوتی ہے ۔انھیں صرف اپنے ممدوح کی جھوٹی سچی مدح سے غرض ہے خواہ ان کی یہ اندھی محبت روشن دشمنی ثابت ہو یا ان کی بے جا عقیدت دوسرے مذاہب کی نظر میں اسلام کی تضحیک وتذلیل بن جائے ۔مگر مرغا ایک ٹانگ پر ہی رہے گا ۔ افسانہ عقد ام کلثوم پر ہماری طرف سے لاتعداد کتب پیش کی جاچکی ہیں جو تاہنوز لا جواب ہیں مگر پھر بھی دن بدن بعض ضدی افراد اس جھوٹ کی پٹاری کو بازار میں فروخت کرنے لاتے رہتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خاک اپنے سر میں پڑے گی ۔چاند پر تھوکا واپس اپنے ٩٠ پر پلٹے گا ۔دنیا نے پہلے "رنگیلا رسول" لکھ کر بدنام کیا تھا اب "عیاش خلیفہ" بھی چھپ سکتا ہے کہ پھر ہمیں منہ چھپانے کا کوئی کونہ بھی نظر نہ آئے گا ۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگے گی ۔ پس دوسرے مذاہب میں اسلام کی حرمت بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بے ہودہ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے کہ اس سے مجموعی طور پر خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ایسی حیا سوز ، پست اخلاق اور مضحکہ خیز باتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کرتوتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ منصف مزاجوں کی عقلیں دنگ ہوجاتی ہیں ۔ نگاہیں شرم سے گڑ جاتی ہیں ۔ نظریں پتھر ہوجاتی ہیں ، سرگریبان میں چھپ جاتے ہیں گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔چہرے فق ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔ زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، سخت ذلت ،شدید رسوائی وبدنامی کا سامنا ہوتا ہے ۔مذہب سے بیزاری کے خیالات ذہن پر تسلط جمالیتے ہیں ۔ہر راہ مسدود نظر آتی ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ۔ روایات کو مانیں یا دین کو بچائیں ۔ فرقہائے اسلامیہ کے اختلافات کو اگر داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو لا تعداد مسائل متنازعہ سامنے آتے ہیں ہر مکتب فکر کی جانب سے اپنے مسلک کی تائید میں متعدد تصانیف موجود ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حق میں زور صرف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی لیکن یہ مسائل اندرونی و داخلی حیثیت کے ہیں اور ان مباحثوں میں کم سے کم ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیر مذاہب والوں کے لئے ہمارے خلاف ہتھیار مہلک ثابت ہو سکے ۔ٹھیک ہے اندر ونی معاملات ہیں جو آپس میں تفہیم و افہام سے طے ہوسکتے ہیں ۔لیکن چند ٩١ امور ایسے بھی ہیں جن کی ہرگز کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے ان کو اس طرح مشہور کردیا گیا ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگا ہے ۔ ان میں عقد ام کلثوم کا افسانہ بھی ہے لیکن یہ اختلاف توایسا ہے کہ مصنف عقل انگشت بد نداں نظر آتی ہے ۔یہ قصہ واہی اسلام کے جسم پر ناسور نظر آتاہے ۔وہ دین جو داعی شرافت وشرم وحیا ہے ۔جو بلند اخلا قی اور پاکیزہ معاشرت کی ضمانت دیتا ہے اسی دین کی مسند پر بیٹھنے والا مدعی خلافت بزرگ عالم پیری میں ایسی شرمناک حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے پر بھی راقم و ناظر دونوں پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔ ایسے ناگفتہ بہ واقعات کا بیان سراسر اسلام کی بدخواہی ،دین کی تحقیر وتقصیر اور بزرگان دین کی تو ہین ہے ۔لہذا تمام مخلص مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محض ضد میں آکر دین اور اکابرین اسلام کی مٹی پلید ہونے سے پہلے ہی حفظ تقدم کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہر بات کو کہنے سے پہلے سوچیں کہ ہم اسلام اور بزرگان اسلام کی عزت افزائی کررہے ہیں یا تعظیم کشی عقل وانصاف کے ترازو پر تول کر قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچ کر فطرت وعدل کی میزان دیکھکر کسی امر کا پر چار کریں وقتی مصلحت کے تحت جو بات آپ کو مفید نظرآتی ہے وہ دائمی طور پر مضرت رساں ہوسکتی ہے لہذا پہلے تو لو پھر بولو۔ "خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر اور حال گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہوگی "۔ ٩٢ یہ عبادت جلیل القدر مورخ ابن خلدون کی ہے ۔اس قتباس کے آئینہ میں افسانہ عقد ام کلثوم کو دیکھئے تو یقینا عقل کا فیصلہ ،ضمیر کی آواز ،انسانیت کی پکار ،شرم وحیا کی تائید ،تہذیب وتمیز کی تصدیق ،اخلاق وتمدن کی توثیق مندرجہ ذیل ہوگی ۔ "یہ قصّہ قطعی غلط بے بنیاد اور بہتان عظیم ہے ۔کیونکہ یہ واقعہ خلاف عقل وقیاس ہے "۔ کسی خبر کا لغو ہونا ازخود اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوتا ہے ۔اور یہ فسانہ سرتا پا لغو ہے ، حماقت ہے ،بے مقصد تضیع وقت ہے

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ٨٩ ہمیں اس بات کا پوری احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر ایسے فر سودہ موضوعات پر صرف وقت کسی طرح مفید نہیں ہے لیکن سخت مجبوری کے تحت اس شرمناک واقعہ پر قلم اٹھانا ضروری خیال کیا گیا ہے کیونکہ بعض شرپسند عناصر جان بوجھ کر ایسے لاحاصل مسائل کی تشہیر کر کے ایک طرف خاندان رسول سے اپنی دشمنی کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسلام جیسے مصفی وپاکیزہ دین کو اس قسم کی شرمناکیوں کے ساتھ پیش کرکے دین الہی کی تذلیل پر کمربستہ ہیں ۔ لہذا ناموس اکابرین اسلام اور تحفظ طہارت دین کے لئے اس مضر پروپیگنذے کی نشرو اشاعت کی روک تھام کی جانب یہ قدم اٹھایا گیا ۔ کیونکہ اگر ایسے موضوعات کی تردید نہ کی جائے تو یہ خاموشی اور چشم پو شی مستقبل قریب میں سخت رسوائی کا سبب ٹھہرسکتی ہے ۔ بے باک قلم کاروں ،مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں نے اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان رکیک موضوعات سے صحابہ کرام کا وقار خاک میں ملت ہے حضور اور اہلبیت اطہار کی توہین ہوتی ہے ۔انھیں صرف اپنے ممدوح کی جھوٹی سچی مدح سے غرض ہے خواہ ان کی یہ اندھی محبت روشن دشمنی ثابت ہو یا ان کی بے جا عقیدت دوسرے مذاہب کی نظر میں اسلام کی تضحیک وتذلیل بن جائے ۔مگر مرغا ایک ٹانگ پر ہی رہے گا ۔ افسانہ عقد ام کلثوم پر ہماری طرف سے لاتعداد کتب پیش کی جاچکی ہیں جو تاہنوز لا جواب ہیں مگر پھر بھی دن بدن بعض ضدی افراد اس جھوٹ کی پٹاری کو بازار میں فروخت کرنے لاتے رہتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خاک اپنے سر میں پڑے گی ۔چاند پر تھوکا واپس اپنے ٩٠ پر پلٹے گا ۔دنیا نے پہلے "رنگیلا رسول" لکھ کر بدنام کیا تھا اب "عیاش خلیفہ" بھی چھپ سکتا ہے کہ پھر ہمیں منہ چھپانے کا کوئی کونہ بھی نظر نہ آئے گا ۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگے گی ۔ پس دوسرے مذاہب میں اسلام کی حرمت بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بے ہودہ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے کہ اس سے مجموعی طور پر خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ایسی حیا سوز ، پست اخلاق اور مضحکہ خیز باتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کرتوتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ منصف مزاجوں کی عقلیں دنگ ہوجاتی ہیں ۔ نگاہیں شرم سے گڑ جاتی ہیں ۔ نظریں پتھر ہوجاتی ہیں ، سرگریبان میں چھپ جاتے ہیں گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔چہرے فق ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔ زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، سخت ذلت ،شدید رسوائی وبدنامی کا سامنا ہوتا ہے ۔مذہب سے بیزاری کے خیالات ذہن پر تسلط جمالیتے ہیں ۔ہر راہ مسدود نظر آتی ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ۔ روایات کو مانیں یا دین کو بچائیں ۔ فرقہائے اسلامیہ کے اختلافات کو اگر داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو لا تعداد مسائل متنازعہ سامنے آتے ہیں ہر مکتب فکر کی جانب سے اپنے مسلک کی تائید میں متعدد تصانیف موجود ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حق میں زور صرف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی لیکن یہ مسائل اندرونی و داخلی حیثیت کے ہیں اور ان مباحثوں میں کم سے کم ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیر مذاہب والوں کے لئے ہمارے خلاف ہتھیار مہلک ثابت ہو سکے ۔ٹھیک ہے اندر ونی معاملات ہیں جو آپس میں تفہیم و افہام سے طے ہوسکتے ہیں ۔لیکن چند ٩١ امور ایسے بھی ہیں جن کی ہرگز کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے ان کو اس طرح مشہور کردیا گیا ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگا ہے ۔ ان میں عقد ام کلثوم کا افسانہ بھی ہے لیکن یہ اختلاف توایسا ہے کہ مصنف عقل انگشت بد نداں نظر آتی ہے ۔یہ قصہ واہی اسلام کے جسم پر ناسور نظر آتاہے ۔وہ دین جو داعی شرافت وشرم وحیا ہے ۔جو بلند اخلا قی اور پاکیزہ معاشرت کی ضمانت دیتا ہے اسی دین کی مسند پر بیٹھنے والا مدعی خلافت بزرگ عالم پیری میں ایسی شرمناک حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے پر بھی راقم و ناظر دونوں پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔ ایسے ناگفتہ بہ واقعات کا بیان سراسر اسلام کی بدخواہی ،دین کی تحقیر وتقصیر اور بزرگان دین کی تو ہین ہے ۔لہذا تمام مخلص مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محض ضد میں آکر دین اور اکابرین اسلام کی مٹی پلید ہونے سے پہلے ہی حفظ تقدم کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہر بات کو کہنے سے پہلے سوچیں کہ ہم اسلام اور بزرگان اسلام کی عزت افزائی کررہے ہیں یا تعظیم کشی عقل وانصاف کے ترازو پر تول کر قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچ کر فطرت وعدل کی میزان دیکھکر کسی امر کا پر چار کریں وقتی مصلحت کے تحت جو بات آپ کو مفید نظرآتی ہے وہ دائمی طور پر مضرت رساں ہوسکتی ہے لہذا پہلے تو لو پھر بولو۔ "خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر اور حال گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہوگی "۔ ٩٢ یہ عبادت جلیل القدر مورخ ابن خلدون کی ہے ۔اس قتباس کے آئینہ میں افسانہ عقد ام کلثوم کو دیکھئے تو یقینا عقل کا فیصلہ ،ضمیر کی آواز ،انسانیت کی پکار ،شرم وحیا کی تائید ،تہذیب وتمیز کی تصدیق ،اخلاق وتمدن کی توثیق مندرجہ ذیل ہوگی ۔ "یہ قصّہ قطعی غلط بے بنیاد اور بہتان عظیم ہے ۔کیونکہ یہ واقعہ خلاف عقل وقیاس ہے "۔ کسی خبر کا لغو ہونا ازخود اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوتا ہے ۔اور یہ فسانہ سرتا پا لغو ہے ، حماقت ہے ،بے مقصد تضیع وقت ہے

ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے ۔چنانچہ اس بات کی تردید ہم نہایت معتبر حوالہ سے کرتے ہیں جناب شاہ عبد العزیز دہلوی مصنف کتاب تحفہ اثنا عشریہ نے ایک نہایت قابل قدر کتاب "سر الشہادتین" تحریر فرمائی ہے اور ان کے معتمد محترم شاگرد جناب شاہ سلامت اللہ دہلوی نے اس کتاب کی فارسی زبان میں شرح لکھی ہے جو "تحریر الشہادتین " کے نام سے مشہور ہے ۔وہ قافلہ سادات کی دربار یزید پلید میں پیشی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ "یزید نے لوگوں سے پوچھا یہ کون عورت ہے؟لوگوں نے کہا ٧٧ امام حسین کی بہن اور فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت زینب ہیں ۔اس کے بعد جناب ام کلثوم کھڑی ہوگئیں اور امام حسین کے سرپر اپنے آپ کو گرادیا ۔پھر حضرت کے ہونٹ اور دانتوں پر اپنا منہ اس طرح ملایا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر لوٹنے لگیں جب ہوش میں آئیں تو یزید کے حق میں بد دعا کرنے لگیں اور فرمایا اے یزید تو دنیا سے زیادہ نفع نہیں اٹھا سکے گا ۔ اور جس طرح تونے ہم لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا ہے تو بھی دنیا و آخرت میں آرام کا منہ نہیں دیکھے گا ۔ یزید پلید نے پوچھا کیا یہ عورت بھی حسین کی بہن ہی ہے ؟لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا کی صاحبزادی ہیں "(تحریر الشہادتین ص ٧٧ مطبوعہ لکھنو)۔ پس دربار یزید میں دی گئی مخالفین کی گواہی اس شبہ کے ازالے کے لئے کافی ہے کہ اسیرہ شام سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا دختر علی و فاطمہ علیھام السلام ہی تھیں ۔جبکہ زوجہ عمر ام کلثوم اس واقعہ سے سات سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے سیدہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا سے نوحہ جات نقل کئے ہیں ۔ خصوصا وہ نوحہ جو سیدہ نے اسیری کے بعد مدینہ واپس آکر پڑھا بہت مشہور ہے ۔ اور جید سنی عالم مفتی اعظم سلیمان قندوزی نے اپنی کتاب ینابیع المودہ میں درج کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سیدہ طاہرہ کی دختر تھیں ۔آپ نے نوحہ میں اپنی والدہ معظمہ کو بھی پکارا ہے ۔اور اس کا آغاز ہی "مدینہ جدنا" کے الفاظ سے کیا ہے ۔یعنی ہمارے نانا کے شہر "معلوم ہوا کہ آپ حضور اکرم کی نواسی تھیں نہ کسی اور بی بی کی بیٹی تھیں ۔ ٧٨ ترقی پر تنزلی کا شوق حضرت عمر کے افسانوی نکاح کی خوشی میں ان کے نادان دوست یہ شادیا نے بڑی دھوم سے بچاتے ہیں کہ ہمارے فاروق کو رسول سے والہانہ عشق تھا وہ اس نکاح پر محض اس لئے مصر تھے کہ رسول سے سببی رشتہ مستحکم ہوجائے میں اس مقام پر حیران ہوں کہ فیصلہ کیا کروں جناب عمر جیسے مدبر سیاست داں اور جہاں دیدہ حکمراں کی عقل کو روؤں یا ان کے خوشامدی بہی خو اہوں کی سادگی کا ماتم کروں ۔کیونکہ عقلی فیصلہ ہے کہ ہرشخص ترقی کرنے ،اونچا ہونے ،عروج پانے اور بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے اپنے مقام سے گرنے اور ترقی سے تنزل کی جانب آنے کا رادہ کوئی بھی صاحب ہوش شخص نہیں کرتا ہے ۔ اب غور کریں کہ حضرت عمر تو اس مرتبے پر آچکے تھے کہ انھیں رسول خدا کے والد نسبتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا تھا یعنی وہ اللہ کے رسول کے بھی بزرگ بن گۓ تھے اب بعد از رسول ان کو کیا ہوگیا کہ اس عمر میں جبکہ وہ ٹانگیں قبر میں لٹکا ئے تھے بجائے ترقی کے تنزل کی طرف راغب ہوگئے ۔حضرت رسول کریم (ص) کے بزرگ اور والد نسبتی بننے کے بعد اس قدر چھوٹا بننے کی خواہش کیسے ان کے دل میں آگئی ۔ہماری عقل میں تو بات آتی نہیں ہے کہ کوئی خسر اپنے داماد کی نواسی کو ساٹھ سال کی عمر میں دلھن بنانے اور "باپ" ہوتے ہوئے اسی کا "نواسہ"بن جانے کی حماقت کردے ۔کم سے کم حضرت ٧٩ عمر سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ محض حضرت عمر پر بہتان ہے ۔تہمت ہے حضرت عمر کی شان کے سراسر خلاف بات ہے کہ اپنی گود کی پالی ہوئی پر نواسی کو اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ کیا ہو۔معمولی اخلاق کا ادمی بھی ایسی نا زیبا حرکت نہیں کرسکتا ہے ۔ اگر حضرت کو بالفرض محال ایسا رشتہ پیدا کرنے کا شوق پیدا ہوا تھا ۔جیسا کہ ان کے بے وقوف دوست خیال کرتے ہیں تو اولا یہ شوق ہی غیرمعقول تھا کہ یہ خواہش تو کئی سال قبل حضرت حفصہ کے نکاح سے پوری ہوچکی تھی اور اس سے کہیں کم تر نہایت شرمناک نیا رشتہ پیدا کرنے کی ضرورت بے محل وبے کار تھی ۔کیونکہ اس عرصہ میں بار ہا حضرت عمر حضرت ام کلثوم کو بچی سمجھتے ہوئے اپنی گود میں کھلا چکے ہوں گے ۔اور ام کلثوم بھی ان کو نانا جان ہی سمجھتی ہوں گی لہذا ایسے حالات میں یہ رشتہ قطعا بے جوڑ تھا ۔ البتہ یہ شوق جناب عمر اپنی اولاد کے لئے کرتے تو پھر بھی بات معقول ہوتی ۔ عقل تو حضرت عمر کے بارے میں ایسی حرکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی نہ ہی تہذیب اس کی اجازت دیتی ہے کیونکہ جو رشتہ حضرت رسو ل(ص) سے جناب عمر کو پہلے حاصل ہوچکا تھا وہی سبب ورشتہ ان کو اس ارادہ نکاح سے سختی سے روکنے کے لئے کافی تھا ۔ کیونکہ اس نام نہاد فعل کے غیر معقول ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے سنہ ٣ ھ میں حضرت عمر رسول (ص) کے خسر بن گئے تھے اور ام کلثوم کے سوتیلے پر نانا ہوگئے تھے اب ایسا خیال نہ صرف خلاف تہذیب وشرافت تھا بلکہ خلاف انسانیت تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے جناب فاطمہ کا رشتہ بھی طلب کیا تھا تو اس سلسلے میں عرض یہ ہوگی یہ خواستگاری حضرت حفصہ کی ٨٠ شادی سے قبل ہوئی یعنی سنہ ٢ ھ میں جبکہ حضور اور حضرت حفصہ کا عقد اس واقعہ کے ایک سال بعد ہوا ۔ ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جناب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کی موجودگی میں آخر بڑی کو چھوڑ کر چھوٹی کا رشتہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی حالانکہ حضرت زینب بھی اس وقت کنواری تھیں ۔ پس معمولی عقل رکھنے والا شخص اور بنیادی اخلاقی ضوابط سے آگاہ انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ محض خاندان رسول (ص) کی تحقیر اور حضرت عمر کی توہین کرنے کے لئے یہ شرمناک افسانہ وضع کیا گیا اور نہ حضرت عمر ایسے ناعاقبت اندیش ہرگز نہ تھے کہ بڑھاپے میں اپنی پر نواسی سے شادی رچالیتے ۔بقول قرآن مجید ۔ "بڑی ہی سخت بات ہے ۔جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔یہ سفید جھوٹ بکتے ہیں "(پ ١ بقرہ) اس نکاح سے نہ ہی حضرت عمر کی شان ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔بلکہ الٹا جناب عمر کا کرداری چہرہ کالا نظر آتا ہے ۔ اور اسلام کی تعلیمات مکروہ دکھائی دیتی ہیں ۔ ام کلثوم زوجہ حضرت عمر کون تھیں ؟ مورخین ومحدثین اور علمائے فریقین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو ام کلثوم حضرت عمر کے نکاح میں آئیں وہ کم سن تھیں اور روایات میں اس بی بی کا سن چار سال سے سات سال تک کا بیان ہوا ہے ۔علماء یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ٨١ کہ یہ عقد سنہ ١٧ ھ میں ہوا ہے ۔ہم نے اوپر ثابت کیا کہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کی عمر سنہ ١٧ ھ میں گیارہ بارہ سال تھی اور یہ سن عرب کی آب وہوا کی مناسبت سے صغیر سنی کا نہ تھا بلکہ اس عمر میں عربی لڑکیاں قابل شادی ہوچکی ہوتی ہیں لہذا زوجہ عمر ام کلثوم وہ نہیں ہوسکتی تھیں جو بنت علی و فاطمہ (علیھما السلام)تھیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر کے نکاح میں ام کلثوم نا م کی بیوی متعدد تھیں مثلا ١:- ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت ۔جو عاصم بن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری جلد ٢ ص ٢٥١) ٢:-ام کلثوم بنت جرول خزاعیہ ۔ان کا اصل نام ملیکہ تھا ۔یہ زیدبن عمر کی ماں تھیں ۔(تاریخ کامل جلد ٣ ص ٢٢) ٣:- ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ۔زہری کے مطابق یہ بی بی زمانہ جاہلیت میں عمربن عاص کے پاس بھاگ کر آئی تھیں اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ان کے رشتہ داروں نے حضور (ص) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آنحضرت نے فرمایا ۔"جو عورت اسلام قبول کرے وہ واپس نہیں جائیگی چونکہ ابن عاص ابھی کافر تھا لہذا واپس نہ کیا گیا اور حضرت عمر نے ان سےنکاح کرلیا (تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد ٨ ۔شرح بخاری قسطلانی ج ٤ ص ٣٤٩) ٤:- ام کلثوم بنت راہب۔ (سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد ) ٥:- ام کلثوم بنت ابو بکر ۔ دختر اسماء بنت عمیس خواہر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ (طبقات الاتقیاء ابن جہاں ۔اعلام النساء جلد ٤ ص ٢٥٠) استعیاب ،طبری ،کامل وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیس کو ایک لڑکی سنہ ١٢ ھ میں پیدا ہوئی چونکہ اسماء نے حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) سے شادی کرلی تھی لہذا اس بچی کو جس کا نام ام کلثوم تھا لیکر وہ حضرت علی کے گھر آگئیں چنانچہ مصنف رحمۃ اللعالمین لکھتے ہیں کہ ٨٢ "اسماء بنت عمیس (بیوہ ابو بکر) کے بطن سے ایک لڑکی بعد وفات ابو بکر پیدا ہوئی تھی۔ اسی لڑکی سے حضرت عمر کانکاح ہوا (ملاحظہ کریں الفضائل تبلیغ مولوی محمد زکریا ۔کتاب ہدایۃ السعداء علامہ دولت آبادی ) پس چونکہ یہ ام کلثوم ربیبہ حضرت علی علیہ السلام کی تھیں لہذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علی کہا گیا ۔ حضرت عمر نے اس رشتہ کے حصول کے لئے ام المسلمین حضرت عائشہ کو راضی کیا ان ہی کی کوششوں سے یہ نکاح ہوا ۔چنانچہ علامہ ابن حجر نس اصابہ میں طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اثیر نے کامل میں لکھا ہے ۔ "حضرت عمر نے ان (ام کلثوم بنت ابو بکر) سے اپنے عقد کے لئے پیغام حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور وہ راضی ہو گئیں "۔ گو کہ حضرت علی علیہ السلام ذاتی طور پر اس رشتہ پر ناخوش تھے مگر اصل وارث خاندان ابو بکر تھا جن کی سرکردہ بی بی عائشہ تھیں لہذا ان کے دباؤ کے تحت آپ بھی بادل نخواستہ آمادہ ہوگئے ۔دشمنان اہلبیت نے اس رشتہ کو انتہائی غلط رنگوں میں پیش کیاجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تفصیل میں نے اپنی کتاب "ذکا الاذہان بجواب جلاء الاذہان المعروف "ہزار تمھاری دس ہماری " میں پیش خدمت کردی ہے ۔ حضرت عمر کا بی بی عائشہ کے پاس ام کلثوم بنت ابو بکر کے لئے پیغام عقد بھیجنا اور بی بی صاحبہ کا رضامند ہونا مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے ۔ ١:-تاریخ الخمیس علامہ حسین دیار بکری مطبوعہ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٦٧ ٢:- تاریخ کامل علامہ ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد نمبر ٣ ص ٢١ ٣:- استیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البر مطبوعہ حیدر آباد دکن جلد ٢ ص ٧٩ ٨٣ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد کوئی بیٹی ان کی پیدا نہ ہوئی جس کا نام ام کلثوم رکھا گیا حالانکہ مندرجہ ذیل شواہد سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے ۔ ١:- تاریخ الامم و الملوک ابن جریر طبری مطبعہ الحسینہ قاہرہ مصر الجزء الثانی ص ٥٠ ٢:- تاریخ الکامل علامہ ابن الاثیر مطبوعہ مصر الجزء الثانی ص ١٦١ ٣:- تاریخ الخمیس علامہ دیار بکری مطبوعہ مطبعۃ العامرہ العثمانیہ مصر جلد ٢ ص ٢٧٦ ٤:-الاصابہ فی تمیز الصحابہ حافظ ابن حجر عسقلانی مطبوعہ مطبعہ الشرفیہ مصر الجزء الثامن ص ٢٧٦۔الجزء الثالث ص ٢٧ ترجمہ زید بن خارجہ اور الجزء الثالث ص ٢١١ ترجمہ الشماخ ۔ کچھ لوگوں کاگمان ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے نہ تھیں ۔چنانچہ صاحب بوارق محرقہ نس استیعاب اور کنز العمال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ام کلثوم کی ماں جناب اسماء بنت عمیس تھیں ۔ پس قرائن ثابت کرتے ہیں کہ سنہ ١٧ میں چار پانچ سالہ لڑکی ام کلثوم جس کا عقد حضرت عمر سے ہوا وہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی ربیبہ تھیں ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ام کلثوم اگر ربیبہ تھیں تو پھر حضرت عمر نے حضرت علی کے سامنے نسب وسبب رسول کا ذکر کیوں کیا تو جواب یہ ہے یہ روایات ثبوت صحت کی محتاج ہیں کیوں کہ یہ سب تو جناب عمر کو پہلے ہی حاصل ہوچکا تھا حالانکہ اسلام میں رشتہ داری کوئی معیار نہیں ہے ۔ اور مناکحت شرط فضیلت نہیں ہے ۔کیونکہ آسیہ کی زوجیت فرعون کےلئے مفید نہیں ہے ۔ اور لوط علیہ السلام اور نوح ٨٤ علیہ السلام کی بیویوں کے لئے رشتہ ازدواج کسی فائدہ کا سبب نہیں ہے ۔اسی طرح ابو لہب کے فرزند عقبہ وعتبہ جو بقول اہل سنت داماد رسول تھے وہ بھی رشتہ دامادی سے کوئی شرف نہ پاسکے ۔ ہم شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کی ایک عبارت نقل کرتے ہیں ۔ "فلسفہ تاریخی کایہ ایک راز ہے کہ جو واقعات جس قدر زیادہ شہرت پکڑ جاتے ہیں اسی قدر ان کی صحت زیادہ مشتبہ ہوتی ہے ۔ دیوار قہقہہ ،چاہ بابل ، اب حیواں ، مارضحاک، جام جم سے بڑھ کر کس واقعہ نے شہرت عام کی سند حاصل کی ہے ؟ لیکن کیا ان میں ایک بھی اصلیت سے علاقہ رکھتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کسی خاص وقتی سبب سے شہرت کی منزل پرآجاتے ہیں ۔پھر عام تقلید کے اثر سے جو خاصہ انسانی ہے ۔شہرت عام کی بنا پر لوگ اس پر یقین کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو تنقید اور تحقیق کا خیال تک نہیں آتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ مسلمات عامہ میں داخل ہوجاتے ہیں "۔ پس مولوی شبلی کی اس عبارت کو مد نظر رکھ کر اس واقعہ عقد ام کلثوم کو دیکھنا چاہئے ۔اور اندھا دھند روایات میں نہیں کھونا چاہئیے ۔کیونکہ روایات میں غلط اور صحیح ہرطرح کی خبریں ہیں سچ اور جھوٹ کی پہچان کے لئے ہم مسلمانوں کے پاس خدا کی کتاب بہترین کسوٹی ہے ۔کتابیں لاکھ صحیح ہوں ، مگر بلاخر وہ الہامی تو نہیں ہیں ۔محدثین و مورخین کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ ہوں بہر حال وہ معصوم او ر محفوظ عن الخطا نہ تھے ان سے غلطی کا صدور جائز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں تو یہ ہے کہ اپنی کتب کے صحیح ہونے کا دعوی ہے یعنی وہ اپنی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں اوران چھ میں دو کو صحیحن سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ان صحیح کتابون میں لاتعداد غلط ٨٥ اور غیر معقول باتیں موجود ہیں جن کو بالاتفاق مبنی بر کذب تسلیم کیا گیا ہے ۔مگر شیعوں کا اپنی کتابون کے بارے میں ہرگز ایسا دعوی نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی چار کتابون کو صحاح اربعہ کہتے ہیں بلکہ محض کتب اربعہ کہتے ہیں اور ان کتابوں میں بھی جھوٹی سچی ہرطرح کی روایات موجود ہیں ۔ پس جو بھی روایت خلاف قرآن ہو اس کو ترک کردیجئے خواہ وہ شیعہ کتاب سے ہو سنی صحیح سے ۔چنانچہ جب ہم اس نکاح کےافسانے کو قرآن مجید کی روشنی میں دکھتے ہیں تو یہ تمام روایات بے کار بے ہودہ موضوع اور خلاف قرآن قرار پاتی ہیں ۔پس تمام مسلمان کو چاہئیے کہ ایسی لغو باتوں کو بہتان سمجھکر ٹھکرادیں کیونکہ نہ ہی عقلی طورپر یہ پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں اور نہ ہی نقلی اعتبار سے ۔ ایسی خلاف شان روایات کی اشاعت کے بجائے متفق فضائل اور علمی مسائل کی تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئیے تاکہ دنیا حقیقی اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوسکے ۔ دور حاضر میں زمانہ جن مسائل سے دوچار ہے اور جسے پر خطرات حالات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر ایسے فرضی اور غیر ضروری مباحثے باہمی تلخی پیدا کرکے فضا کو مسموم تو کرسکتے ہیں مگرکسی تعمیری منصوبے کی تکمیل میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتے ہیں لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ ان فرسودہ بحثوں کو ختم کرکے اسلام کی عالمگیر حیثیت کو نمایاں کریں اور مخالفین اسلام کے عزائم کو خاک ميں ملا ئیں ۔دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے یہ حقیقت ہر خاص وعام سے منوائیں کہ دنیا کے تمام مادی وروحانی مسائل کا واحد حل "دین اسلام "ہی پیش کرتا ہے ۔یہی وہ خدا کا صحیح دین ہے جو تمام الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کاراستہ بتا تا ہے ۔کوئی سائنس ٨٦ ہو یا کوئی فن کوئی ہنر ہو یا حرقت اسلام سے اس کی ہم آہنگی ثابت ہے ۔حقیقی علوم اسلامیہ ہی تمام جدید علوم کا سرچشمہ ہیں جن گتھیوں کو آج مشینی دور میں ان تھک کاوشوں سے کھولا جارہا ہے –چودہ سوسال قبل اسلام نے ان کا واحد حل پیش کیا ہے مگر افسوس کہ مسلمان خواب خرگوش میں محور ہے ۔اور انھوں نے اپنی فلاح وبہبود کے حصول کی پراوہ نہ کی ۔گھر کے جوگی کو جوگڑ ا سمجھ کر نظر انداز کیا اور باہر کے سدھ کے پیچھے بھاگنے لگے ۔نہ ادہر کے رہے نہ ادھر کے ۔ المختصر ہم نے اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا کہ یہ افسانہ با لکل بے بنیاد ہے ۔کچھ دشمنان اسلام نس اشتباہ نام سے فائدہ اٹھا کر اس کی مشہور ی کردی اور بعض نے نادانستہ طور پر مغالطہ کھایا ورنہ حقیقت شناسوں کے لئے صحیح صورت معلوم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔ شیخ المحدثین جناب شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے رجال مشکواۃ میں اس قصہ کو ص ١١٥ پر تحریر کرکے ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اورعلامہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ کامل کی تیسری جلد کے ص ٢٣ پر یہی مضمون درج کیا ہے جناب ملک العلماء دولت آبادی نے اس قصہ کی اصلیت یوں لکھی ہے ۔ "اسماء بنت عمیس اول زن جعفر طیار بود باز در نکاح ابو بکر آمدہ از ابو بکر یک پسر و یک دختر ام کلثوم نام زائید بعد از اں بہ نکاح علی بن ابی طالب آمد ۔ام کلثوم ہمراہ مادر آمدہ عمرابن خطاب بام کلثوم دختر ابو بکر نکاح کرد"۔ یعنی حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر طیار کی زوجہ تھیں ان کےبعد حضرت ابو بکر کے نکاح میں آئیں ان کے ہاں ایک لڑکا اور ٨٧ ایک بیٹی ام کلثوم پیدا ہوا ہیں ۔ابو بکر کے بعد آپ حضرت علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) کی زوجیت میں آئیں ۔ام کلثوم اپنی والدہ کے ہمراہ آئیں اور حضرت عمربن "خطاب نے ان ام کلثوم بنت ابو بکر سے نکاح کیا ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ ص ٣٤٣ پر لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت ابو بکر بوقت وفات ابو بکر شکم مادر میں تھیں ۔حضرت ابو بکر کی وفات سنہ ١٣ھ میں ہوئی ہے پس سنہ ١٧ میں عمر کے نکاح میں آتے وقت یہی ام کلثوم ٤، ٥ برس کی ہوسکتی ہیں ۔ حضرت عمر کی زوجہ ام کلثوم علامہ دولت آبادی کی تحقیق کے مطابق صغیر سنی میں حضرت عمر ہی کے گھر انتقال کر گئیں اوران کی کوئی اور لاد نہ تھی ہدایت السعداء ص ٢٥٩۔ لیکن ٥٥ سالہ ام کلثوم بنت علی سلام اللہ علیھا کے واقعہ کربلا کے بعد والے خطبے جو انھوں نے عالم اسیری میں فاسقوں کے دربار میں فرماکر مسلمانوں کی خوابیدہ حمیت کو جگایا آج بھی تاریخوں میں محفوظ ہیں ۔ آپ کے پر فصاحت وبلاغت کلام نے شیر خدا علی المرتضی علیہ السلام کی آواز کا اشتباہ پیدا کردیا مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔سیدہ نس اہل کوفہ سے خطاب فرمایا ۔ "اے اہل کوفہ ! تمھارا برا حال ہو کس لئے تم نے حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑا ۔اوران کو شہید کیا ۔ان کا مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس کو اپنا ورثہ قرار دیا ۔اور ان کے اہل بیت کو قیدی بنالیا ۔ہلاک ہوتم ۔اور خدا کی رحمت تم سے دور رہے ۔وائے ہو تم پر ۔کیا جانتے ہو کس بلا میں گرفتار ہوئے اور کیسے کیسے خون تم نے بہائے کس کس کی بیٹیوں کو تم نے بے پردہ کیا کیسے اموال کو لوٹ لیا ۔تم نے ایسے شخص کے خون میں ہاتھ رنگے ہیں جو ٨٨ پیغمبر کے بعد تمام عالم سے بہترین تھا ۔تمھارے دلوں سے رحم اٹھ گیا ۔بے شک اللہ کے بندے حق پر اور شیطان کے پیروکار نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اس کے بعد بی بی نے کئی اشعار ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے ۔وائے ہو تم پر کہ تم نے بے جرم خطا میرے بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔عنقریب تمھاری سزا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہوگی کہ تم نے ایسے شخص کو بے گنا ہ (قصدا) قتل کیا جس کا خون خدا اور اس کے رسول (ص) نے قرآن میں حرام کیا ہے ۔تم کو دوزخ کی بشارت ہو ۔تم روز قیامت یقینا جہنم کا ایندھن ہوگے ۔اور میں ساری عمر اپنے بھائی پر جو بعد ازرسول تمام مخلوق سے بہتر ہے گریہ وزاری کرتی رہوں گی اور آنسوؤں کے دریا اس غم جاودانی میں بہاتی رہوں گی ۔ روای کا بیان ہے کہ سیدہ کے اس خطاب کےبعد مجمع سامعین پر حزن وملال طاری ہوگیا لوگ آہ وبکاہ و نوحہ گریہ کرنے لگے ،عورتوں نے اپنے بال پر یشان کرلئے ،سر میں خاک ڈالی ،منہ پر طمانچے مارنے لگے ،رخسار چھیلنے لگے ، اور دیکھتے ہی دکھتے نالہ وشیون برپا ہوا فضا میں کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف دیکھتے ہی دیکھتے نالہ وشیون برپا ہوافضا مین کہرام برپا ہوگیا ۔ہر طرف وایلا ،وامصیبتاہ کا شور اٹھا ،ہر سو ماتم شروع ہوا ۔ اور لوگوں نے یزیدی ظلم کے خلاف علانیہ احتجاج کیا ۔راوی کہتا ہے کہ اس دن سے زیادہ کوئی روز ایسا گریہ وبکا ہمارے دیکھنے میں نیں آیا ۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نےیہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو لوگوں کو چپ ہونے کا اشارہ کیا اور بعد میں حمد خدا اور نعت رسول (ص) کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ٨٩ ہمیں اس بات کا پوری احساس ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر ایسے فر سودہ موضوعات پر صرف وقت کسی طرح مفید نہیں ہے لیکن سخت مجبوری کے تحت اس شرمناک واقعہ پر قلم اٹھانا ضروری خیال کیا گیا ہے کیونکہ بعض شرپسند عناصر جان بوجھ کر ایسے لاحاصل مسائل کی تشہیر کر کے ایک طرف خاندان رسول سے اپنی دشمنی کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسلام جیسے مصفی وپاکیزہ دین کو اس قسم کی شرمناکیوں کے ساتھ پیش کرکے دین الہی کی تذلیل پر کمربستہ ہیں ۔ لہذا ناموس اکابرین اسلام اور تحفظ طہارت دین کے لئے اس مضر پروپیگنذے کی نشرو اشاعت کی روک تھام کی جانب یہ قدم اٹھایا گیا ۔ کیونکہ اگر ایسے موضوعات کی تردید نہ کی جائے تو یہ خاموشی اور چشم پو شی مستقبل قریب میں سخت رسوائی کا سبب ٹھہرسکتی ہے ۔ بے باک قلم کاروں ،مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں نے اس بات کی قطعا پر واہ نہیں کی کہ ان رکیک موضوعات سے صحابہ کرام کا وقار خاک میں ملت ہے حضور اور اہلبیت اطہار کی توہین ہوتی ہے ۔انھیں صرف اپنے ممدوح کی جھوٹی سچی مدح سے غرض ہے خواہ ان کی یہ اندھی محبت روشن دشمنی ثابت ہو یا ان کی بے جا عقیدت دوسرے مذاہب کی نظر میں اسلام کی تضحیک وتذلیل بن جائے ۔مگر مرغا ایک ٹانگ پر ہی رہے گا ۔ افسانہ عقد ام کلثوم پر ہماری طرف سے لاتعداد کتب پیش کی جاچکی ہیں جو تاہنوز لا جواب ہیں مگر پھر بھی دن بدن بعض ضدی افراد اس جھوٹ کی پٹاری کو بازار میں فروخت کرنے لاتے رہتے ہیں اور یہ بات نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خاک اپنے سر میں پڑے گی ۔چاند پر تھوکا واپس اپنے ٩٠ پر پلٹے گا ۔دنیا نے پہلے "رنگیلا رسول" لکھ کر بدنام کیا تھا اب "عیاش خلیفہ" بھی چھپ سکتا ہے کہ پھر ہمیں منہ چھپانے کا کوئی کونہ بھی نظر نہ آئے گا ۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگے گی ۔ پس دوسرے مذاہب میں اسلام کی حرمت بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بے ہودہ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے کہ اس سے مجموعی طور پر خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ایسی حیا سوز ، پست اخلاق اور مضحکہ خیز باتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کرتوتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ منصف مزاجوں کی عقلیں دنگ ہوجاتی ہیں ۔ نگاہیں شرم سے گڑ جاتی ہیں ۔ نظریں پتھر ہوجاتی ہیں ، سرگریبان میں چھپ جاتے ہیں گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں ۔چہرے فق ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیجے منہ کو آتے ہیں ۔ زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، سخت ذلت ،شدید رسوائی وبدنامی کا سامنا ہوتا ہے ۔مذہب سے بیزاری کے خیالات ذہن پر تسلط جمالیتے ہیں ۔ہر راہ مسدود نظر آتی ہے کہ جائیں تو کدھر جائیں ۔ روایات کو مانیں یا دین کو بچائیں ۔ فرقہائے اسلامیہ کے اختلافات کو اگر داخلی لحاظ سے دیکھا جائے تو لا تعداد مسائل متنازعہ سامنے آتے ہیں ہر مکتب فکر کی جانب سے اپنے مسلک کی تائید میں متعدد تصانیف موجود ہیں بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے حق میں زور صرف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی لیکن یہ مسائل اندرونی و داخلی حیثیت کے ہیں اور ان مباحثوں میں کم سے کم ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیر مذاہب والوں کے لئے ہمارے خلاف ہتھیار مہلک ثابت ہو سکے ۔ٹھیک ہے اندر ونی معاملات ہیں جو آپس میں تفہیم و افہام سے طے ہوسکتے ہیں ۔لیکن چند ٩١ امور ایسے بھی ہیں جن کی ہرگز کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے ان کو اس طرح مشہور کردیا گیا ہے کہ اب جھوٹ بھی سچ دکھائی دینے لگا ہے ۔ ان میں عقد ام کلثوم کا افسانہ بھی ہے لیکن یہ اختلاف توایسا ہے کہ مصنف عقل انگشت بد نداں نظر آتی ہے ۔یہ قصہ واہی اسلام کے جسم پر ناسور نظر آتاہے ۔وہ دین جو داعی شرافت وشرم وحیا ہے ۔جو بلند اخلا قی اور پاکیزہ معاشرت کی ضمانت دیتا ہے اسی دین کی مسند پر بیٹھنے والا مدعی خلافت بزرگ عالم پیری میں ایسی شرمناک حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو نقل کرنے پر بھی راقم و ناظر دونوں پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔ ایسے ناگفتہ بہ واقعات کا بیان سراسر اسلام کی بدخواہی ،دین کی تحقیر وتقصیر اور بزرگان دین کی تو ہین ہے ۔لہذا تمام مخلص مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محض ضد میں آکر دین اور اکابرین اسلام کی مٹی پلید ہونے سے پہلے ہی حفظ تقدم کی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہر بات کو کہنے سے پہلے سوچیں کہ ہم اسلام اور بزرگان اسلام کی عزت افزائی کررہے ہیں یا تعظیم کشی عقل وانصاف کے ترازو پر تول کر قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچ کر فطرت وعدل کی میزان دیکھکر کسی امر کا پر چار کریں وقتی مصلحت کے تحت جو بات آپ کو مفید نظرآتی ہے وہ دائمی طور پر مضرت رساں ہوسکتی ہے لہذا پہلے تو لو پھر بولو۔ "خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر اور حال گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہوگی "۔ ٩٢ یہ عبادت جلیل القدر مورخ ابن خلدون کی ہے ۔اس قتباس کے آئینہ میں افسانہ عقد ام کلثوم کو دیکھئے تو یقینا عقل کا فیصلہ ،ضمیر کی آواز ،انسانیت کی پکار ،شرم وحیا کی تائید ،تہذیب وتمیز کی تصدیق ،اخلاق وتمدن کی توثیق مندرجہ ذیل ہوگی ۔ "یہ قصّہ قطعی غلط بے بنیاد اور بہتان عظیم ہے ۔کیونکہ یہ واقعہ خلاف عقل وقیاس ہے "۔ کسی خبر کا لغو ہونا ازخود اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوتا ہے ۔اور یہ فسانہ سرتا پا لغو ہے ، حماقت ہے ،بے مقصد تضیع وقت ہے

سیدہ ام کلثوم کا مشہور نوحہ افسانہ عقد ام کلثوم سیدہ ام کلثوم کا مشہور نوحہ ١:- اے ہمارے نانا کے مدینہ تو ہم کو قبول نہ کر کیونکہ ہم غم وحزن لے کر آئے ہیں ۔ ٢:- اے مدینہ ! رسول اللہ کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر کہ ہم اپنے پدر بزرگوار کی مصیبت میں گرفتار ہوئے ۔ ٣:- اے مدینہ ! ہمارے مدر کربلامیں بے سرپڑے ہیں اور ہمارے فرزند ذبح ہوچکے ہیں ۔ ٤:- ہمارے نانا کو خبر کر ہم گرفتار کرکے قیدی بنالئے گئے ۔ ٥:- اور اے خدا کے رسول ! آپ کا خاندان کربلا میں بے گور و کفن پڑا ہے ان کے کپڑے تک چھین لئے گئے ۔ ٦:- حسین کو شہید کیا اور آپ کی رعایت ہمارے واسطے نہ کی ۔ ٧:- اے رسول خدا ! کا ش آپ اپنی آنکھوں سے ان قیدیوں کو پالان شتر پر سوار دیکھتے ! ٨:- یا رسول اللہ ! پردہ وحجاب کے بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ ہمارا تماشہ ٩٣ دیکھنے کے لئے آئے ۔ ٩:- یا رسول اللہ ! آپ ہماری حفاظت ونگہداشت فرماتے تھے آپ کے بعد دشمنوں نے ہم پر ہجوم کیا ہے ۔ ١٠:- اے فاطمہ ! کا ش آپ اپنی بیٹیوں کو دیکھیں کہ کس طرح قیدی بنا کر شہر شہر پھرائی گئی ہیں ۔ ١١:- اے فاطمہ ! کا ش ہم سرگشتوں کی جانب آپ دیکھتیں اور کاش زین العابدین کی حالت کو ملاحظہ فرماتیں ۔ ١٢:- اے فاطمہ ! کاش آپ دیکھتیں کہ راتوں کی بیداری نے ہم کو اندھا کردیا ۔ ١٣:- اے فاطمہ ! جو مصائب ہم نے دشمنوں کے ہاتھوں پرداشت کئے ہیں ان مظالم سے کہیں سوا ہیں جو آپ نے اپنے دشمنوں سے اٹھائے تھے ١٤:- اے فاطمہ ! اگر آپ ہوتیں تو ہماری حالت دیکھ کر قیامت تک روتیں اور نوحہ کرتیں ۔ ١٥:- (اب ذرا) بقیع جا کر حبیب خدا کے فرزند کو پکارو۔ ١٦:- اور کہو کہ اے چچا حسن مجتبی آپ کے بھائی کے عیال و اطفال مارڈالے گئے ۔ ١٧:- اے چچا! آپ کا ماں جایا بہت دور کربلا کی ریت پرپڑا ہے ۔ ١٨:- بغیر سر کے آرام کررہا ہے جس میں پرندے ودرندے نوحہ وبکا کررہے ہیں ۔ ١٩/٢٠:- اے مولا کاش آپ وہ منظر دیکھتے جبکہ بے یارو مددگار اہل حرم کو بے کجادہ اونٹوں پر تشہیر کیا جارہا تھا اس وقت آپ کے اہل عیال سر ننگے نظر آتے تھے ۔ ٩٤ ٢١:- اے ہمارے نانا کے مدینہ ! اب ہم تجھ میں رہنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ بڑے رنج وغم کو لے آئے ہیں ۔ ٢٢:- جب ہم تجھ سے نکلے تھے تو تمام اہل عیال کے ساتھ نکلے تھے اور اب جو پلٹے ہیں تو نہ مردوں کا سایہ ہمارے سروں پر ہے نہ بچے ہماری گودیوں میں ہیں ۔ ٢٣:- مدینہ سےنکلتے وقت ہم سب اکٹھا ہوکر نکلے تھےلیکن جب لوٹے تو سر برہنہ ہوچکے تھے ۔ ہماری چادریں چھینی جاچکی تھیں ۔ ٢٤:- مدینہ سے نکلتے وقت ہم اللہ کی امان میں تھے ۔جب واپس آئے ہیں تو خائف وترساں ہیں ۔ ٢٥:- جب ہم یہاں سے نکلے تھے تو ہمارا والی و وارث حسین ہمارے سرپرموجود تھا اور اب ان کو کربلا میں دفن کرکے آرہے ہیں ۔ ٢٦:- ہم وہ اجڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی کفیل نہیں ہے ہم اپنے بھائی کے نوحہ گر ہیں ۔ ٢٧:- ہم وہ ہیں جن کو شتران برہنہ پر در بدر پھرایا گیا ۔ ٢٨:- ہم یسین و طہ کی دختران ہیں ۔ ہم اپنے باپ کی نوحہ گر ہیں ۔ ٢٩:- ہم وہ پاکیزہ مخدرات ہیں جن کی طہارت چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ ٣٠:- ہم بلاؤں پر صبر کرنے والے ہیں ۔ہم صدق وصفا والے ہیں ۔ ٣١:- اے نا نا ! آپ کی امت نے حسین کو مارڈالا ۔اور آپ کا کوئی خیال نہ کیا ۔ ٣٢:- اے نانا ! دشمن اپنی مراد کو پہنچ گئے اور ہمارے بارے میں انھوں نے اپنی شقاوت ک انتہا کردی ۔ ٩٥ ٣٣:- انھوں نے عورتوں کی بے حرمتی کی اور ظلم و قہر سے ان کو اونٹوں پر پھرایا ۔ ٣٤:- انھوں نے زینب کو خیمہ سے باہر نکالا فاطمہ گریاں ہیں ۔ ٣٥:- خیانت سکینہ سوزش غم سے فریاد کناں پروردگار عالم کو مدد کے لئے پکار رہی ہے ۔ ٣٦:- خیانت کاروں نے زین العابدین کو ذلت کے ساتھ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی ہیں ان کے قتل کا ارادہ کیا ۔ ٣٧:- ان مرنے والوں کے بعد زندگانی دنیا پر خاک ہے کیونکہ اسی دنیا کے سبب ہو کو موت کا جام پلایا گیا ہے ۔ ٣٨:- اے سننے والو! یہ ہے میری داستان غم اور شرح حال ہم پر گریہ وبکا کرو ۔ (بحار الانوار حصہ دوم پ ٢ ص ٨٣) سید ہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا کا یہ نوحہ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے جب قافلہ سادات اسیری سے رہائی پا کر مدینہ کی طرف پلٹا تو شہزادی نے مدینہ کودیکھتے ہی گریہ وبکا شروع کردیا اور خوب روئیں ۔شہر مدینہ کی جانب توجہ کرکے مندرجہ بالا پر درد نوجہ پڑھا ۔بی بی پاک اسیرہ کربلا کے بعد اس کرہ ارضی پر حیات تھیں اور آپ کا اپنے نانا ،والدہ معظمہ اور برادر محترم کا پکارنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ بطن سیدہ طاہرہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے تھیں نہ کہ حضرت علی علیہ السلام کی کسی دوسری زوجہ سے ۔ پس ثابت ہوا کہ وہ ام کلثوم جو حضرت عمر کے عقد میں آئیں ۔حضرت ٩٦ علی و فاطمہ (علیھما السلام) کی دختر نہ تھیں ۔کیونکہ زوجہ عمر کا انتقال عہد معاویہ میں ہوگیا جبکہ بنت علی کی وفات سنہ ٦٢ ھ سنہ ٦٥ھ یا سنہ ٧٥ ھ میں با ختلاف روایات بیان ہوئی ہے ۔ لہذا عقل ونقل کی بنیاد پر شیعہ وسنی کی نہایت معتبر ومستند کتب سے روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ امیر المومنین سیدنا علی المرتضی اور سیدہ نسا ء العالمین حضرت فاطمہ (علیھما السلام) کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم حضرت عمر کی رشتہ میں پر نواسی تھیں لہذا افسانہ نکاح ام کلثوم ہر لحاظ سے باطل ہے اور اس عقد کو فرض کرنے سے حضرت عمر کی سخت توہین او ر حضرت علی کی بہت بے عزتی ہوتی ہے ۔ ہم قرآن مجید کی اس آیت کو اپنی اس کتاب کا تتمہ بالخیر قرار دے کر التماس دعا کرتے ہیں ۔ "قد بیننا لکم الآیات ان کنتم تعقلون" ہم نے تمھارے سامنے بد لائل ثابت کردیا اگر عقلمند ہو

سیدہ ام کلثوم کا مشہور نوحہ افسانہ عقد ام کلثوم سیدہ ام کلثوم کا مشہور نوحہ ١:- اے ہمارے نانا کے مدینہ تو ہم کو قبول نہ کر کیونکہ ہم غم وحزن لے کر آئے ہیں ۔ ٢:- اے مدینہ ! رسول اللہ کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر کہ ہم اپنے پدر بزرگوار کی مصیبت میں گرفتار ہوئے ۔ ٣:- اے مدینہ ! ہمارے مدر کربلامیں بے سرپڑے ہیں اور ہمارے فرزند ذبح ہوچکے ہیں ۔ ٤:- ہمارے نانا کو خبر کر ہم گرفتار کرکے قیدی بنالئے گئے ۔ ٥:- اور اے خدا کے رسول ! آپ کا خاندان کربلا میں بے گور و کفن پڑا ہے ان کے کپڑے تک چھین لئے گئے ۔ ٦:- حسین کو شہید کیا اور آپ کی رعایت ہمارے واسطے نہ کی ۔ ٧:- اے رسول خدا ! کا ش آپ اپنی آنکھوں سے ان قیدیوں کو پالان شتر پر سوار دیکھتے ! ٨:- یا رسول اللہ ! پردہ وحجاب کے بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ ہمارا تماشہ ٩٣ دیکھنے کے لئے آئے ۔ ٩:- یا رسول اللہ ! آپ ہماری حفاظت ونگہداشت فرماتے تھے آپ کے بعد دشمنوں نے ہم پر ہجوم کیا ہے ۔ ١٠:- اے فاطمہ ! کا ش آپ اپنی بیٹیوں کو دیکھیں کہ کس طرح قیدی بنا کر شہر شہر پھرائی گئی ہیں ۔ ١١:- اے فاطمہ ! کا ش ہم سرگشتوں کی جانب آپ دیکھتیں اور کاش زین العابدین کی حالت کو ملاحظہ فرماتیں ۔ ١٢:- اے فاطمہ ! کاش آپ دیکھتیں کہ راتوں کی بیداری نے ہم کو اندھا کردیا ۔ ١٣:- اے فاطمہ ! جو مصائب ہم نے دشمنوں کے ہاتھوں پرداشت کئے ہیں ان مظالم سے کہیں سوا ہیں جو آپ نے اپنے دشمنوں سے اٹھائے تھے ١٤:- اے فاطمہ ! اگر آپ ہوتیں تو ہماری حالت دیکھ کر قیامت تک روتیں اور نوحہ کرتیں ۔ ١٥:- (اب ذرا) بقیع جا کر حبیب خدا کے فرزند کو پکارو۔ ١٦:- اور کہو کہ اے چچا حسن مجتبی آپ کے بھائی کے عیال و اطفال مارڈالے گئے ۔ ١٧:- اے چچا! آپ کا ماں جایا بہت دور کربلا کی ریت پرپڑا ہے ۔ ١٨:- بغیر سر کے آرام کررہا ہے جس میں پرندے ودرندے نوحہ وبکا کررہے ہیں ۔ ١٩/٢٠:- اے مولا کاش آپ وہ منظر دیکھتے جبکہ بے یارو مددگار اہل حرم کو بے کجادہ اونٹوں پر تشہیر کیا جارہا تھا اس وقت آپ کے اہل عیال سر ننگے نظر آتے تھے ۔ ٩٤ ٢١:- اے ہمارے نانا کے مدینہ ! اب ہم تجھ میں رہنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ بڑے رنج وغم کو لے آئے ہیں ۔ ٢٢:- جب ہم تجھ سے نکلے تھے تو تمام اہل عیال کے ساتھ نکلے تھے اور اب جو پلٹے ہیں تو نہ مردوں کا سایہ ہمارے سروں پر ہے نہ بچے ہماری گودیوں میں ہیں ۔ ٢٣:- مدینہ سےنکلتے وقت ہم سب اکٹھا ہوکر نکلے تھےلیکن جب لوٹے تو سر برہنہ ہوچکے تھے ۔ ہماری چادریں چھینی جاچکی تھیں ۔ ٢٤:- مدینہ سے نکلتے وقت ہم اللہ کی امان میں تھے ۔جب واپس آئے ہیں تو خائف وترساں ہیں ۔ ٢٥:- جب ہم یہاں سے نکلے تھے تو ہمارا والی و وارث حسین ہمارے سرپرموجود تھا اور اب ان کو کربلا میں دفن کرکے آرہے ہیں ۔ ٢٦:- ہم وہ اجڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی کفیل نہیں ہے ہم اپنے بھائی کے نوحہ گر ہیں ۔ ٢٧:- ہم وہ ہیں جن کو شتران برہنہ پر در بدر پھرایا گیا ۔ ٢٨:- ہم یسین و طہ کی دختران ہیں ۔ ہم اپنے باپ کی نوحہ گر ہیں ۔ ٢٩:- ہم وہ پاکیزہ مخدرات ہیں جن کی طہارت چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ ٣٠:- ہم بلاؤں پر صبر کرنے والے ہیں ۔ہم صدق وصفا والے ہیں ۔ ٣١:- اے نا نا ! آپ کی امت نے حسین کو مارڈالا ۔اور آپ کا کوئی خیال نہ کیا ۔ ٣٢:- اے نانا ! دشمن اپنی مراد کو پہنچ گئے اور ہمارے بارے میں انھوں نے اپنی شقاوت ک انتہا کردی ۔ ٩٥ ٣٣:- انھوں نے عورتوں کی بے حرمتی کی اور ظلم و قہر سے ان کو اونٹوں پر پھرایا ۔ ٣٤:- انھوں نے زینب کو خیمہ سے باہر نکالا فاطمہ گریاں ہیں ۔ ٣٥:- خیانت سکینہ سوزش غم سے فریاد کناں پروردگار عالم کو مدد کے لئے پکار رہی ہے ۔ ٣٦:- خیانت کاروں نے زین العابدین کو ذلت کے ساتھ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی ہیں ان کے قتل کا ارادہ کیا ۔ ٣٧:- ان مرنے والوں کے بعد زندگانی دنیا پر خاک ہے کیونکہ اسی دنیا کے سبب ہو کو موت کا جام پلایا گیا ہے ۔ ٣٨:- اے سننے والو! یہ ہے میری داستان غم اور شرح حال ہم پر گریہ وبکا کرو ۔ (بحار الانوار حصہ دوم پ ٢ ص ٨٣) سید ہ ام کلثوم سلام اللہ علیھا کا یہ نوحہ شیعہ وسنی محدثین ومورخین نے اپنی کتب میں درج کیا ہے جب قافلہ سادات اسیری سے رہائی پا کر مدینہ کی طرف پلٹا تو شہزادی نے مدینہ کودیکھتے ہی گریہ وبکا شروع کردیا اور خوب روئیں ۔شہر مدینہ کی جانب توجہ کرکے مندرجہ بالا پر درد نوجہ پڑھا ۔بی بی پاک اسیرہ کربلا کے بعد اس کرہ ارضی پر حیات تھیں اور آپ کا اپنے نانا ،والدہ معظمہ اور برادر محترم کا پکارنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ بطن سیدہ طاہرہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے تھیں نہ کہ حضرت علی علیہ السلام کی کسی دوسری زوجہ سے ۔ پس ثابت ہوا کہ وہ ام کلثوم جو حضرت عمر کے عقد میں آئیں ۔حضرت ٩٦ علی و فاطمہ (علیھما السلام) کی دختر نہ تھیں ۔کیونکہ زوجہ عمر کا انتقال عہد معاویہ میں ہوگیا جبکہ بنت علی کی وفات سنہ ٦٢ ھ سنہ ٦٥ھ یا سنہ ٧٥ ھ میں با ختلاف روایات بیان ہوئی ہے ۔ لہذا عقل ونقل کی بنیاد پر شیعہ وسنی کی نہایت معتبر ومستند کتب سے روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ امیر المومنین سیدنا علی المرتضی اور سیدہ نسا ء العالمین حضرت فاطمہ (علیھما السلام) کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم حضرت عمر کی رشتہ میں پر نواسی تھیں لہذا افسانہ نکاح ام کلثوم ہر لحاظ سے باطل ہے اور اس عقد کو فرض کرنے سے حضرت عمر کی سخت توہین او ر حضرت علی کی بہت بے عزتی ہوتی ہے ۔ ہم قرآن مجید کی اس آیت کو اپنی اس کتاب کا تتمہ بالخیر قرار دے کر التماس دعا کرتے ہیں ۔ "قد بیننا لکم الآیات ان کنتم تعقلون" ہم نے تمھارے سامنے بد لائل ثابت کردیا اگر عقلمند ہو

http://www.youtube.com/watch?v=KEwU8xOwH5M

نیز اہلسنت عالم دین کی اس افسانے کے متعلق یہ ویڈیوز بھی ضرور سے ملاحظہ فرمائیں

http://www.youtube.com/watch?v=ejXv7z9so8Y

تاریخی خامیاں :-(١):- یہ عقد ذیقعد سنہ ١٧ ھ میں منعقد ہونا بیان کیا گیا ہے ۔اسی سال حضرت زینب بنت علی علیھما السلام کی شادی خانہ آبادی جناب عبد اللہ بن جعفر سے ہوئی ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑی بیٹی کی موجودگی میں چھوٹی دختر کا نکاح پہلے کیوں کردیا گیا ؟(٢):- تاریخ میں تصریحا مرقوم ہے ۔ام کلثوم اور ان کے صاحبزادے زید جنکی عمر بیس بر س تھی کا انتقال ایک ہی وقت پر ہوا ۔امام حن نے عبداللہ بن عمر کو نماز جنازہ پڑھنے کو کہا جبکہ ام کلثوم سنہ ٦١ ھ میں واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھیں اور اسیران کربلا میں تھیں ۔عبداللہ بن عمر کا یزیدی حکومت پر بہت اثر ورسوخ تھا حتی مختار کو ان ہی عبداللہ کی سفارش پر رہا کردیاگیا تھا حالانکہ وہ اعلانیہ بنی امیہ کے جانی دشمن تھے ۔ مگر ان عبداللہ بن عمر کی سوتیلی ماں ہوتیں تو وہ ضرور غیرت کھاتے اور اپنے باپ کی عزت کو بازاروں میں در بدر نہ ہونے دیتے ۔(٣):- مورخین نے لکھا ہے کہ بعد از وفات عمر حضرت ام کلثوم کا نکاح عون بن جعفر سے ہوا حالانکہ شیعہ روایات میں سنہ ١٧ ھ میں بی بی زینب و ام کلثوم

٧١دونوں کا عقد ایک ہی وقت میں ایک ہی وقت میں عبد اللہ اور عون سے ہوا ۔بعد از وفات عمر حضرت عون سے بی بی ام کلثوم کا نکاح اس لئے نا قابل تسلیم ہے کہ جناب عون بن جعفر زمانہ عمر ہی میں جنگ فارس میں کام آگئے یعنی عون حضرت عمر کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے ۔پس بعد از موت عمر کیا عون کی روح سے شادی ہوئی ؟ ۔سنہ ٢٠ ھ میں ام کلثوم کا دوسرا عقد جناب محمد بن جعفر طیار سے ہوا جو جنگ صفین میں شہید ہوگئے اس کے بعد ام کلثوم کی نسبت سے ان کی کنیت ام کلثوم ہوگئی جبکہ اصل نام زینب صغری تھا ۔(نوٹ :- بعض علماء اور عہد حاضر کے محققین کا خیال ہے کہ حضرت ام کلثوم کا عقد صرف عون بن جعفر ہی سے ہوا جو واقعہ کربلا میں جہاد کے میدان میں شہید ہوئے ۔)(٤):- کسی بھی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وقت نکاح یعنی سنہ ١٧ ھ میں منکوحہ ام کلثوم بالغہ تھیں بلکہ صغیرہ اور صبیہ کے الفاظ کمسنی پر زور دیاگیا ہے ۔جبکہ حضرت ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سنہ ١٧ ھ میں قابل شادی تھیں ۔ام کلثوم کا نابالغی اور کمسنی پر تمام مورخین کا اتفاق ہے اور ابن حجر مکی نے اس سلسلہ میں ایک وضاحتی بیان لکھا ہے جو آپ آئندہ ملاحظہ کریں گے ۔(٥):- اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افراد نے اکثر اس نام نہاد نکاح کا انکار کیا ہے چنانچہ علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ۔"اہل بیت کی جماعت جہلا اس نکاح سے کرتی ہے جس سے ہمیں تعجب ہوتا ہے " ابن حجر مزید لکھتے ہیں "جب حضرت علی نے  ٧٢ام کلثوم کو حضرت عمر کے پاس بھیج دیا تو وہ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ان کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ ان کے بوسے لئے ان کے حق میں دعا ئے خیر کی اور حضرت عمر نے ام کلثوم کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنے سینے سے چمٹایا ان کے ساتھ یہ برتاؤ ان کی عزت کے خیال سے کیا کیونکہ ام کلثوم اپنی کم سنی کی وجہ سے اس عمر کو نہ پہنچی تھیں کہ ان پر شہوت ہوسکتی جس کی وجہ سے حضرت عمر پر یہ باتیں حرام ہوتیں ۔اگر وہ بہت چھوٹی بچی نہ ہوتیں تو ان کے والد ان کو حضرت عمر کے پاس بھیجتے ہی نہ تھے "۔(صواعق محرقہ مطبوعہ مصر ٩٤)۔اب ہم علامہ ابن حجر مکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر یہ ام کلثوم واقعی بنت علی و فاطمہ تھیں (معاذاللہ ) تو سنہ ١٧ ھ میں و ہ گیارہ بارہ برس کی ہوچکی تھیں اتنی چھوٹی کس طرح ہوگئیں کہ مؤرخین نے صبیہ تک تعبیر کردیا حالانکہ مورخین نے ام کلثوم کا سن پیدائش سنہ ٥ ص یا سنہ ٦ بیان کیاہے پھر کس طرح حضرت علی علیہ السلام کا ان کو حضرت عمر کے پاس بھیجنا درست ہوگیا اور حضرت عمر کا بوس کنار ،سینے سے لپٹنا اور گود میں لینا جائز ٹھہرا ۔جبکہ عرب کی آب ہوا کے مطابق قریشی عورتوں کی حالت یہ تھی کہ بی بی عائشہ صرف نو برس کی عمر میں ہم بستری کے قابل ہوگئیں تھیں چنانچہ محترمہ خود فرماتی ہیں کہ اتنی عمر میں رسول نے میرے ساتھ جماع کیا ۔پس عقل ونقل دونوں طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سنہ ١٧ ص میں بالغہ تھیں اور ام کلثوم زوجہ عمر اس وقت بلک ننھی ،نادان ،گود میں بٹھانے بلکہ بوسے کے قابل اور تمام بد دیکھے جانے کے لائق بچی تھیں ۔یہ وہی ام کلثوم تھیں جو سنہ ٤٩ ھ میں فوت

٧٣ہوگئیں اور اس کے بعد دنیا میں ان کاوجود نہ تھا ۔سنہ ٥٠ کے بعد جو ام کلثوم دنیا میں تھی وہ زوجہ عمر ہرگز نہ تھیں کیونکہ ایک ہی عورت کا سنہ ٤٩ ھ دونوں کے خلاف ہے اور جو شخص ان دونوں کو ایک ہی کہے یا دونوں کے حالات ایک ہی عورت کے قرار دے یا دونوں کے تعلقات ایک ہی بی بی سے منسوب کرے ۔اس کے دماغ کا علاج کرنا ضروری ہوگا ۔ ایک بچہ بھی یہ سجھ سکتا ہے کہ سنہ ٥٠ سے قبل مری ہوئی ام کلثوم اور تھی اور کربلا والی ام کلثوم اور .

ام کلثوم کی شخصیت کے تعین میں سنی علما کی گھبراہٹ:-علمائے اہل سنت نے اپنے خلیفہ دوم پر سیدہ طاہرہ کی ناراضگی کا الزام دور کرنے کے لئے نکاح کلثوم کا افسانہ تو مشہور کردیا مگر اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے بہت کچے سہارے ڈھونڈے اور لاکھ کو ششوں کے باوجود بھی یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ جس ام کلثوم بنت علی کا عقد سنہ ١٧ ھ میں فرض کیا گیا وہ جناب امیر علیہ السلام کی کونسی صاحبزادی تھیں وہ کب مری اور کس کس سے عقد کیا ۔ ایک جماعت علمائے اہل سنت نے دعوی کیا کہ ام کلثوم جناب زینب سے بڑی تھیں مثلا ابن سعد ،امام نووی ،حافظ ذہبی ، مسعودی وغیرہ اسی اشتباہ کی وجہ سے اہل سنت میں اختلاف ہے کہ عبداللہ بن جعفر سے ام کلثوم کی شادی کب ہوئی ۔ چنانچہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن جعفر کا عقد ام کلثوم سے ان کی بہن زینب کے انتقال کے بعد ہوا ۔لیکن ابن انباری نے اس کے ٧٤خلاف یہ لکھا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر کی شادی پہلے ام کلثوم سے ہوئی ان کے مرنے کے بعد زینب س نکاح کیا حسن عدوی ک بھی یہی رائے ہے ۔حالانکہ یہ بلکل غیر معقول بات ہے کیونکہ علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ام کلثوم زوجہ عمر کا انتقال معاویہ بن ابو سفیان کے دور میں ہوا پھر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ زینب بنت علی کے پہلے شوہر عبد اللہ بن جعفر ہیں اگر ابن انباری اور عدد ی کا قول مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ بی بی زینب کی شادی ٤٩ سال کی عمر میں ہوئی جو قطعا باطل ہے کیونکہ سنہ ١٧ جناب علی علیہ السلام خود نے حضرت زینب کا عقد عبد اللہ سے کیا ۔ مصری ادیب حسن قاسم اپنی کتاب "السیدہ زینب " میں دعوی کرتے ہیں کہ ام کلثوم کی شادی حضرت عمر سے ہوئی اور عہد معاویہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ میں وفات پائی (صفحہ ٢٣) مگر یہی صاحب آگے جا کر پھر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور شام میں مدفون ہوئیں (صفحہ ٦٤)۔"دروغ گو حافظہ ندارد" اب بھلا سوچیں معاویہ کے دور میں مرگئی ام کلثوم یزید کے زمانہ حکومت میں اس قیدی بننے کے لئے مدینہ کے قبر ستان سے اٹھ کر شام چلی گئی تھی؟۔بعض علمائے اہل سنت مثلا ابن جوزی اور لیث وغیرہ نے دعوی کیا ہے کہ ام کلثوم بنت علی جن کا اصل نام رقیہ تھا وہ کم سنی میں وفات پاگئیں ۔جن لوگوں نے اس افسانوی نکاح کو بیان کیا ہے انھوں نے عمر کی  ٧٥وفات کے بعد مختلف شوہروں کو مختلف ترتیب سے بیان کیا ہے ۔اور یہ اختلاف ازخود ثابت کرتا ہے کہ کہانی جھوٹی ہے

تبصرے

نام

ابن ابی حدید,2,ابنِ تیمیہ,8,ابن جریر طبری شیعہ,1,ابن حجر مکی,2,ابن خلدون,1,ابن ملجم لعین,1,ابو یوسف,1,ابوسفیان,1,ابومخنف,1,اجماع,2,احمد بن محمد عبدربہ,1,اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی,7,افطاری کا وقت,1,اللہ,4,ام المومنین ام سلمہ سلام علیھا,2,امام ابن جوزی,1,امام ابو زید المروزی,1,امام ابوجعفر الوارق الطحاوی,2,امام ابوحنیفہ,17,امام احمد بن حنبل,1,امام الزھبی,2,امام بخاری,1,امام جعفر صادق علیہ السلام,3,امام حسن علیہ السلام,11,امام حسین علیہ السلام,21,امام شافعی,5,امام علی رضا علیہ السلام,1,امام غزالی,3,امام مالک,3,امام محمد,1,امام مہدی عج,5,امامت,4,امداد اللہ مکی,1,اہل بیت علیھم السلام,2,اہل حدیث,16,اہل قبلہ,1,آذان,2,آن لائن کتابوں کا مطالعہ,23,آیت تطہیر,1,بریلوی,29,بریلوی اور اولیاء اللہ کے حالات,2,بنو امیہ,3,تبرا,8,تحریف قرآن,6,تراویح,2,تقابل ادیان و مسالک,34,تقيہ,2,تکفیر,3,جنازہ رسول اللہ,1,جنگ جمل,4,جنگ صفین,1,حافظ مبشر حسین لاہوری,1,حدیث ثقلین,5,حدیث طیر,1,حدیث غدیر,7,حدیث قرطاس,1,حضرت ابن عباس رض,3,حضرت ابو طالب علیہ السلام,5,حضرت ابوبکر,20,حضرت ابوزر غفاری رض,1,حضرت ام اکلثوم سلام علیھا,2,حضرت خدیجہ سلام علھیا,1,حضرت عائشہ بنت ابوبکر,14,حضرت عثمان بن عفان,7,حضرت علی علیہ السلام,64,حضرت عمار بن یاسر رض,3,حضرت عمر بن خطاب,23,حضرت عیسیٰ علیہ السلام,4,حضرت فاطمہ سلام علیھا,16,حضرت مریم سلام علیھا,1,حضرت موسیٰ علیہ السلام,2,حفصہ بنت عمر,1,حلالہ,1,خارجی,2,خالد بن ولید,1,خلافت,10,دورود,1,دیوبند,55,رافضی,3,رجال,5,رشید احمد گنگوہی,1,روزہ,3,زبیر علی زئی,7,زنا,1,زیاد,1,زیارات قبور,1,زيارت,1,سب و شتم,2,سجدہ گاہ,3,سرور کونین حضرت محمد ﷺ,14,سلیمان بن خوجہ ابراہیم حنفی نقشبندی,1,سلیمان بن عبد الوہاب,1,سنی کتابوں سے سکین پیجز,284,سنی کتب,6,سولات / جوابات,7,سیرت معصومین علیھم السلام,2,شاعر مشرق محمد اقبال,2,شاعری کتب,2,شجرہ خبیثہ,1,شرک,8,شفاعت,1,شمر ابن ذی الجوشن لعین,2,شیخ احمد دیوبندی,3,شیخ عبدالقادرجیلانی,1,شیخ مفید رح,1,شیعہ,8,شیعہ تحریریں,8,شیعہ عقائد,1,شیعہ کتب,18,شیعہ مسلمان ہیں,5,صحابہ,18,صحابہ پر سب و شتم,1,صحیح بخاری,5,صحیح مسلم,1,ضعیف روایات,7,طلحہ,1,عبادات,3,عبدالحق محدث دہلوی,1,عبداللہ ابن سبا,1,عبدالوہاب نجدی,2,عرفان شاہ بریلوی,1,عزاداری,4,علامہ بدرالدین عینی حنفی,1,علمی تحریریں,76,علیہ السلام لگانا,1,عمامہ,1,عمر بن سعد بن ابی وقاص,1,عمران بن حطان خارجی,2,عمرو بن العاص,3,غزوہ احد,1,غم منانا,12,فتویٰ,4,فدک,3,فقہی مسائل,17,فیض عالم صدیقی ناصبی,1,قاتلان امام حسینؑ کا مذہب,6,قاتلان عثمان بن عفان,1,قادیانی,3,قادیانی مذہب کی حقیقت,32,قرآن,5,کالا علم,1,کتابوں میں تحریف,5,کلمہ,2,لفظ شیعہ,2,ماتم,3,مباہلہ,1,متعہ,4,مرزا بشیر احمد قادیانی,2,مرزا حیرت دہلوی,2,مرزا غلام احمد قادیانی,28,مرزا محمود احمد,2,مسئلہ تفضیل,3,معاویہ بن سفیان,25,مغیرہ,1,منافق,1,مولانا عامر عثمانی,1,مولانا وحید الزماں,3,ناصبی,22,ناصر الدین البانی,1,نبوت,1,نماز,5,نماز جنازہ,2,نواصب کے اعتراضات کے جواب,72,واقعہ حرا,1,وسلیہ و تبرک,2,وصی رسول اللہ,1,وضو,3,وہابی,2,یزید لعنتی,14,یوسف کنجی,1,Requests,1,
rtl
item
شیعہ اہل حق ہیں: افسانہ عقد ام کلثوم
افسانہ عقد ام کلثوم
افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ افسانہ عقد ام کلثوم ایک شبہ کا ازالہ دور حاظر میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پر چار کر رہے ہیں کہ جو ام کلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں وہ ام کلثوم صغری تھیں یہ علی مرتضی کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں یہ بات قطعا غیر مستند ہے اور کسی صحیح تاریخ حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی ہے
شیعہ اہل حق ہیں
https://www.shiatiger.com/2014/03/blog-post_9799.html
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/
https://www.shiatiger.com/2014/03/blog-post_9799.html
true
7953004830004174332
UTF-8
تمام تحریرں دیکھیں کسی تحریر میں موجود نہیں تمام دیکھیں مزید مطالعہ کریں تبصرہ لکھیں تبصرہ حذف کریں ڈیلیٹ By مرکزی صفحہ صفحات تحریریں تمام دیکھیں چند مزید تحریرں عنوان ARCHIVE تلاش کریں تمام تحریرں ایسی تحریر موجود نہیں ہے واپس مرکزی صفحہ پر جائیں Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content