مہدی آل محمدعليہ السلام کون ہيں اور انکا انتظار کيوں کيا جاتا ہے؟
جواب: کچھ امور ايسے ہيں جن کے سلسلے ميں تمام آسمانی شريعتيں اتفاق نظر رکھتی ہيں ان ميں سے ايک امر عالمی مصلح کا وجود بھی ہے جو کہ آخری زمانہ ميں ظہور کرے گا اس سلسلے ميں صرف مسلمان نہيں بلکہ يہودی اور عيسائی بھی اس کی آمد کے منتظر ہيں جو پوری دنيا ميں عدل و انصاف قائم کريگااسکے لئے اگر کتاب عہد عتيق اور عہد جديد کا مطالعہ کيا جائے تو حقيقت واضح ہوجائے گی. ( ١
اس سلسلہ ميں پيغمبرخداۖ کی حديث بھی موجود ہے کہ جسے مسلمان محدثين نے نقل کيا ہے چنانچہ فرماتے ہيں :
''لولم يبق من الدھر اِلا يوم لبعث للهّ رجلاًمن
.............
١) عہد عتيق : مز امير داؤد ، مز مور ٩٧ ۔ ٩٦ اور کتاب دانيال نبی باب ١٢ عہد جديد : انجيل متی باب ٢٤ انجيل ) مرقوس باب ١٣ انجيل لوقا باب ٢١ (جہاں اس موعود کے بارے ميں بيان ہوا ہے جس کے انتظار ميں دنيا ہے .)
أھل بيت يملأ ھا عدلا کما ملئت جوراً''( ١
اگر زمانے کا صرف ايک ہی دن باقی بچے گا تب بھی خداوندعالم ميرے خاندان ميں سے ايک فرد کو مبعوث کرے گا جوکہ اس جہان کو اسی طرح سے عدالت سے بھر دے گا جس طرح وه ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہوگا. جيسا کہ ہم کہہ چکے ہيں کہ دنيا ميں ايک مصلح کے آنے کا عقيده تمام آسمانی شريعتوں ميں موجود ہے اسی طرح اہل سنت کی صحيح اور مسند کتابوں ميں بھی امام مھدی عج کے بارے ميں بہت سی روايتيں نقل ہوئی ہيں اور ان دونوں(شيعہ اور سنی) اسلامی فرقوں کے محدثين اور محققين نے امام زمانہ عج کے بارے ميں بہت سی کتابيں تحرير کی ہيں. ( ٢
روايات کے اس مجموعے ميں انکی وه خصوصيات اور نشانياں بيان ہوئی ہيں جو صرف شيعوں کے گيارہويں امام حسن
عسکری کے بلافصل فرزند ہی مينپائی جاتی ہيں( ٣)ان روايات کے مطابق امام مہدی پيغمبر اکرمۖ کے ہم نام ہيں( ٤)۔
.............
. ١) صحيح ابی داؤد جلد ٢ ص ٢٠٧ طبع مصر مطبعہ تازيہ ، ينابيع المودة ص ٤٣٢ اور کتاب نور الابصار باب ٢ ص ١٥٤ )
٢) جيسے کتاب البيان فی اخبار صاحب الزمان تاليف محمد بن يوسف بن الکنجی الشافعی ہے اور اسی طرح کتاب البرھان فی علامات )
مھدی آخر الزمان تاليف علی بن حسام الدين جو کہ متقی ھندی کے نام سے مشہور ہيں اور اسی طرح کتاب المہدی والمہدويت تاليف احمد امين مصری ہے البتہ شيعہ علماء نے اس بارے ميں بہت سی کتابيں لکھی ہيں جنہيں شمار کرنا آسان کام نہيں ہے جيسے کتاب الملاحم والفتن وغيره .
٣) ينابيع المودة باب ٧٦ ، مناقب ميں جابر بن عبدلله انصاری کی روايت ہے. )
٤) صحيح ترمذی ،مطبوعہ دہلی ١٣٤٢ ،جلد ٢ ص ٤٦ اور مسند احمدمطبوعہ مصر ١٣١٣ )
يہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اس قسم کی طولانی عمر نہ تو علم اور دانش کے خلاف ہے اور نہ ہی منطق وحی سے تضاد رکھتی ہے آج کی علمی دنيا انسانوں کی طبيعی عمر کو بڑھانا چاه رہی ہے صاحبان علم اور سائنسدانوں کا يہ يقين ہے کہ ہر انسان کے اندر لمبی عمر گذارنے کی صلاحيت پائی جاتی ہے اور اگراسے بعض آفتوں اور بيماريوں سے بچاليا جائے تو قوی امکان ہے کہ اس کی عمر بڑھ جائيگی. تاريخ نے بھی اپنے دامن ميں ايسے افراد کے نام محفوظ کئے ہيں جنہوں نے اس دنيا ميں طولانی عمر پائی ہے . قرآن مجيدحضرت نوح کے بارے ميں فرماتا ہے:
( (فَلَبِثَ فِيہِمْ لْفَ سَنَةٍ لاَّ خَمْسِينَ عَامًا)( ١
اور (نوح)اپنی قوم کے درميان نوسوپچاس سال رہے .
اور اسی طرح قرآن مجيد حضرت يونس کے بارے ميں فرماتا ہے :
( ( فَلَوْلا أنّہُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِ بَطْنِہِ لَی يَوْمِ يُبْعَثُونَ)( ٢
پھر اگر وه تسبيح کرنے والوں ميں سے نہ ہوتے تو روز قيامت تک اسی (مچھلی) کے شکم ميں رہتے.
اسی طرح قرآن مجيداور تمام مسلمانوں کے نظريہ کے مطابق حضرت خضر اور حضرت عيسیٰ ابھی تک باحيات ہيں اور زندگی گذار رہے ہيں۔
.............
١) سوره عنکبوت آيت ١٤ )
٢) سوره صافات آيت ١٤٤
تبصرے