جس شفاعت کا آپ عقيده رکھتے ہيں وه کيا ہے؟
جواب: شفاعت، اسلام کی ايک ايسی مسلم الثبوت اصل ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن کی آيات اور روايات کی پيروی کرتے ہوئے قبول کيا ہے بس صرف ان کے درميان شفاعت کے نتيجے کے بارے ميں اختلاف نظر ہے . شفاعت کی حقيقت يہ ہے کہ ايک ايسا محترم انسان جو پروردگار کے نزديک صاحب مقام ومنزلت ہو وه خداوند متعال سے کسی شخص کے گناہوں کی بخشش يا اس کے درجات کی بلندی کی دعا کرے.
رسول گرامی فرماتے ہيں:
( ''أعطيت خمسًا...و أعطيت الشفاعة فادخرتھا لأمت ''( ١
.............
١) مسند احمدجلد ١ ص ٣٠١ ، صحيح بخاری جلد ١ ص ٩١ ط مصر. )
پانچ چيزيں مجھے عطا کی گئی ہيں ... اور شفاعت مجھے عطا ہوئی ہے جسے ميں نے اپنی امت کے لئے ذخيره کرديا ہے. شفاعت کا دائره قرآن مجيد کی نگاه ميں وه شفاعت صحيح نہيں ہے جو کسی قيد اور شرط کے بغيرہو بلکہ شفاعت صرف مندرجہ ذيل صورتوں ميں مؤثر ہوگی:
١۔شفاعت کرنے والا اس وقت شفاعت کرسکتا ہے جب کہ اسے شفاعت کرنے کے لئے خداوندعالم کی جانب سے اجازت حاصل ہو لہذا صرف وه لوگ شفاعت کرسکتے ہيں جنہيں خدا سے معنوی قربت بھی حاصل ہو اوروه اذن شفاعت بھی رکھتے ہوں قرآن مجيد اس بارے ميں فرماتا ہے:
( (لايَمْلِکُونَ الشَّ فَاعَةَ لاَّ مَنْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَانِ عَہْدًا)( ١
اس وقت کوئی شفاعت کے سلسلے ميں صاحب اختيار نہ ہوگا مگر وه جس نے رحمان کی بارگاه ميں شفاعت کا عہد لے ليا ہے .اور ايک اور جگہ پر فرماتا ہے:
.............
١)سوره مريم آيت: ٨٧
( يَوْمَئِذٍ لاتَنف عُ الشَّفَاعَةُ لاَّ مَنْ ذِنَ لَہُ( لَہُ قَوْلاً )( ١ ◌َ الرَّحْمَانُ وَرَضِ
اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہيں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وه ان کی بات سے راضی ہو.
٢۔ضروری ہے کہ جو شخص شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے وه شفاعت کرنے والے کے ذريعے فيض الہی کو لينے کی صلاحيت رکھتا ہو. يعنی اس شخص کا خدا سے ايمانی رابطہ اور شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے ، لہذا کفار چونکہ خداوندکريم سے ايمانی رابطہ نہيں رکھتے اور اسی طرح بعض گنہگار مسلمان جيسے بے نمازی اور قاتل افرادچونکہ شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ توڑ بيٹھے ہيں لہذا يہ سب شفاعت کے مستحق قرار نہيں پائيں گے.
قرآن مجيد بے نمازی اور منکر قيامت کے بارے ميں فرماتا ہے:
( ( فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ )( ٢
تو انہيں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی کوئی فائده نہ پہنچائے گی.
اور قرآن مجيد ظالم افراد کے بارے ميں فرماتا ہے :
( (مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلاَشَفِيعٍ يُطَاعُ )( ٣
اور ظالموں کيلئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ ہی سفارش کرنے والا جس کی بات سن لی جائے .
.............
١)سوره طہ آيت: ١٠٩ )
٢)سوره مدثر آيت : ٤٨ )
٣)سوره غافر آيت : ١٨
شفاعت کا فلسفہ
شفاعت ، توبہ کی طرح اميد کا ايک دروازه ہے جسے ايسے لوگوں کيلئے قرار ديا گيا ہے جو گناه اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کر اپنی باقی مانده عمر کو خدا کی اطاعت ميں گزارنا چاہتے ہيں کيونکہ جب بھی گنہگار انسان يہ احساس کرلے کہ صرف چند محدود شرطوں کيساتھ (نہ يہ کہ ہر حالت ميں) شفاعت کرنيوالے کی شفاعت کا مستحق ہوسکتا ہے تو پھر وه کوشش کريگا کہ ان شرطوں کا خيال رکھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے.
شفاعت کا نتيجہ
مفسرين کے درميان اس سلسلے ميں اختلاف ہے کہ شفاعت کا نتيجہ گناہوں کی بخشش ہے يااس کا نتيجہ بلندی درجات ہے ليکن اگر پيغمبرگرامیۖ کے اس ارشاد کو ملاحظہ کيا جائے جس ميں آنحضرت فرماتے ہيں کہ :
( ''اِنّ شفاعت يوم القيامة لأھل الکبائر مِن أمت''( ١
''ميری شفاعت قيامت کے دن ميری امت کے ان افراد کے لئے ہوگی جو گناہان کبيره کے مرتکب ہوئے ہيں.''
تو پہلا نظريہ زياده صحيح نظر آتا ہے۔
.............
١)سنن ابن ماجہ جلد ٢ ص ٥٨٣ ،مسند احمد جلد ٣ ص ٢١٣ ، سنن ابی داؤد جلد ٢ ص ٥٣٧ ، سنن ترمذی جلد ٤ ص ٤٥
تبصرے