ناصبی قیاس کہ امام حسن نے معاویہ سے وظیفہ وصول کرکے معاویہ کی خلافت کو تسلیم کرلیا
نواصب کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی کے کہ کسی نہ کسی طرح معاویہ کی ملوکیت کو خلافت کا رنگ دیا جائے اور ایسے دلائل تلاش کئے جائیں کہ جس سے وہ معاویہ کی ملوکیت کو جائز ٹھہرا سکیں ۔ اسی طرح کی ایک ناکام کوشش وہ اس دلیل سے پیش کرنے لگے ہیں کہ چونکہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی حکمرانی کے دوران اس سے وظیفہ حاصل کیا لہٰذا امام حسن کی نظر میں معاویہ کی حکمرانی جائز ہوئی۔
جواب نمبر 1 :
اگر ظالم کسی مظلوم سے اس کا حق چھین لے اور بعد میں اس چھینی ہوئی مقدار سے قسطوں کے طور پر تھوڑا تھوڑا حق واپس مظلوم کو دیتا رہے تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ظالم مظلوم کی طرف رحم دل ہوگیا ہے یا پھرمظلوم کا ظالم سے اپنے حق میں سے ملنا والا ذرا سا حصہ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ظالم کہ پاس بچ جانے والا باقی مال جائز ہوگیا۔ مقبوضہ فلسطین کی مثال لے لیجئے جہاں ظالم و غاصب اسرائیلیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرلیا لیکن مظلوم فلسطینیوں سے معاہدہ کے بعد اسرائیل نے فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ دوبارہ فلسطینیوں کو دے دیا۔ اسرائیل کی جانب سے غصب شدہ زمیں کا کچھ حصہ واپس فلسطینیوں کو دینے کا مطلب یہ نہیں کہ زمیں کا باقی حصہ جو اسرائیل کے پاس ہے وہ جائز ہوگیا۔ کچھ بھی ہوجائے، اسرائیل ظالم اور فلسطین مظلوم ہی رہینگے۔
جواب نمبر 2 :
اللہ کے نبی موسی (ع) نے کافر فرعون کے گھر پرورش پائی اور بچپن سے ہی فرعون کے مہیا کیے گئے رزق، مال و متاع پرمنحصر رہے اس کے باوجود نبی نبی ہی رہا اور کافر کافر ہی رہا۔ اسی طرح امام حسن )ع( معاویہ کے دور میں بیت المال سے وظیفہ تسلیم کیا لیکن امام حق، امام حق ہی رہا اور ظالم ظالم ہی رہا۔
جواب نمبر 3 :
حضرت یوسف(ع) اللہ کے نبی تھے لیکن وہ ایک کافر بادشاہ کے گھر پر رہے، اس کے گھر کا زرق کھایا اور اس کے مال پر انحصار کیا اور ایک وقت وہ آیا جب کافر بادشاہ نے حضرت یوسف کو غلہ کا نگہبان مقرر کردیا لیکن پھر بھی حضرت یوسف اللہ کے نبی ہی رہے اور وہ بادشاہ کافر ہی رہا۔ اسی طرح اگر امام حسن (ع) نے ظالم بادشاہ سے وظیفہ تسلیم کیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ امام امام ہی رہا اور ظالم ظالم ہی۔
جواب نمبر 4 :
بیت المال معاویہ کی ذاتی ملکیت نہ تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا اور اس بیت المال سے معاویہ نے جو کچھ بھی امام حسن کو بھیجا وہ انہوں نے اپنی ضروریات کے لئے رکھا اور باقی غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے کام میں لائے۔ پس، امام حسن نے ایک غاصب سے غریبوں کا حق حاصل کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ مال انہی لوگوں تک پہنچے جو اس کے حقدار ہیں۔
جواب نمبر 5 :
علمی جوابات کے بعد آیئے اب حوالہ جات کی بنا پر ناصبی قیاس کا رد کریں جو کہ ناصبیت کے اس قیاس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ امام اہل سنت ابو بکر
الجصاص الرازی (متوفی 370 ھ) لکھتے ہیں :
حسن بصری، سعید بن جبیر ، شبعی اور تمام تابعین ان ظالم (حکمرانوں) سے وظیفے لیتے تھے لیکن اس بناء پر نہیں کہ وہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز تصور کرتے تھے بلکہ اس لئے لیتے تھے کہ یہ تو ان کے اپنے حقوق ہیں جو ظالم و فاجر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے دوستی کی بنیاد پر یہ کام کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ انہوں نے حجاج سے تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا چار ہزار قراء )علماء( نے جو تابعین میں سے بہترین اور فقہاء تھے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کی قیادت میں حجاج سے اھواز کے مقام پر جنگ کی پھر بصرہ اور بعد ازاں کوفہ کے قریب فرات کے کنارے دیر جماجم کے مقامات پر حجاج سے جنگ کی ہے۔ انہوں نے عبد الملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی ان (اموی حکمرانوں) پر لعنت کرتے اور ان سے تبرا کرتے تھے۔ ان سے پہلے کے لوگوں کا معاویہ کے ساتھ بھی یہی طریقہ تھا جب وہ حضرت علی کی شہادت کے بعد زبردستی حکمران بن گیا حسن اور حسین بھی (معاویہ سے(وظائف لیتے تھے بلکہ معاویہ سے اسی طرح تبرا کرتے تھے جس طرح حضرت علی معاویہ سے تبرا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات کے بعد جنت اوررضوان میں لے گیا۔چنانچہ ان )ظالم حکمرانوں( کی طرف سے عہدہ قضاء قبول کرنے اور وظائف لینے میں یہ دلیل نہیں ہے کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز اعتقاد کرتے تھے۔
82 طبع بیروت ، احکام القرآن للجصاص ج 1 ، ص 81
Download Post
تبصرے