اہل بیت پیامبر سے مراد کون ؟
دینی پیشوائی اور امت کی رہبری کے مسئلہ میں اہل بیت سے مراد آنحضرت کے خاندان میں سے وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد لوگوں کا دینی پیشوا اور امام تھے.
اسکی دو دلیلیں ہیں :
الف : حدیث ثقلین : اهل بیت پیامبر کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث الثقلین کے نام سے مشہور ہے
اور سبھی معتبر منابع حدیث بمع صحاح ستہ میں یه حدیث متفق علیہ اورقابل وثوق حدیث کے طور پر مذکور ہے یه حدیث کئی طریقوں سے نقل ہوئی ہے - صحیح ترمذی میں ہے کہ زید بن ارقم نے روایت کیا کہ ؛ ترجمہ؛ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک چیز اللہ کتاب ہے جو اسکی رسی کی مانند آسمان تا زمین ممدود ہے اور دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں، اور دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتّی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے، اب میں دیکھتا ہوں کہ کہ (بھلا) تم ان کے بارے میں میری وصیت پر کیسے عمل کرو گے[1]
اس حدیث میں موجود دو نکتے :
الف : اس حدیث میں لفظ ’’عترتی اہل بیتی‘‘ استعمال ہوا ہے، عترت کا لفظ کسی صورت میں بھی ازواج کو شامل نہیں ہوسکتا ، اسی لئے بعض لوگ اس[ عترتي أهل بيتي] والی حدیث کو ذکر سے کتراتے ہے.
ب : حدیث کا مفہوم اور معنی خود اس بات پر شاہد ہے کہ اہل بیت پیامبر سے مراد وہی لوگ ہیں کہ آنحضرت نے اس میں جنکی اطاعت کا حکم دیا اور انہیں اپنے بعد امت کے لئے دینی پیشوا کے طور پر متعارف فرمایا ، لہذا آنحضرت نے اس مسئلہ کو امت کی دینی پیشوائی کے مسئلہ کے ساتھ جوڑنے کے ذریعہ ہر قسم کی غلط تفسیر کرنے والوں کے آگے بند باندھ دیے ، اسی لئے اہل بیت سے وہی لوگ مراد ہے جو دین کی حفاظت اور دین کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار اور اہل ہوں . لہذا اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے،اہل بیت پیامبر (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں.انکی پیروی اور اطاعت امت پر واجب ہے۔
لہذا ان احادیث کی اصلی مفھوم اور مقصود کے مطابق احادیث کے مصداق پیدا کرنے کی بجاے صرف لغت یا دوسرے استعمالات کے اعتبار سے اس لفظ کی تفسیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اس جہت سے صرف لغوی اور عام استعمالات کی بنا پر ازواج کے اس میں شامل ہونے یا نہ ہونے سے بحث یہاں معنی نہیں رکھتا ۔
اس حدیث میں موجود دو نکتے :
الف : اس حدیث میں لفظ ’’عترتی اہل بیتی‘‘ استعمال ہوا ہے، عترت کا لفظ کسی صورت میں بھی ازواج کو شامل نہیں ہوسکتا ، اسی لئے بعض لوگ اس[ عترتي أهل بيتي] والی حدیث کو ذکر سے کتراتے ہے.
ب : حدیث کا مفہوم اور معنی خود اس بات پر شاہد ہے کہ اہل بیت پیامبر سے مراد وہی لوگ ہیں کہ آنحضرت نے اس میں جنکی اطاعت کا حکم دیا اور انہیں اپنے بعد امت کے لئے دینی پیشوا کے طور پر متعارف فرمایا ، لہذا آنحضرت نے اس مسئلہ کو امت کی دینی پیشوائی کے مسئلہ کے ساتھ جوڑنے کے ذریعہ ہر قسم کی غلط تفسیر کرنے والوں کے آگے بند باندھ دیے ، اسی لئے اہل بیت سے وہی لوگ مراد ہے جو دین کی حفاظت اور دین کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار اور اہل ہوں . لہذا اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے،اہل بیت پیامبر (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں.انکی پیروی اور اطاعت امت پر واجب ہے۔
لہذا ان احادیث کی اصلی مفھوم اور مقصود کے مطابق احادیث کے مصداق پیدا کرنے کی بجاے صرف لغت یا دوسرے استعمالات کے اعتبار سے اس لفظ کی تفسیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اس جہت سے صرف لغوی اور عام استعمالات کی بنا پر ازواج کے اس میں شامل ہونے یا نہ ہونے سے بحث یہاں معنی نہیں رکھتا ۔
ب: آیہ تطہیر اور اسکی شان نزول :
{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا } [الأحزاب: 33]
اس آيه شریفه کی شان نزول کے سلسلے میں نقل هوا ہے کہ رسول گرامي «ص» نے حضرت علي، حضرت فاطمه، حضرت حسن و حسين«ع» کو یمنی چادر میں جمع کرنے کے بعد دعا کی: ”خداوندا! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔« اللهم هؤلاء أهل بيتي[2]»
ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے آنحضرت سے سوال کیا ؛یا رسول اللہ! کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے ام سلمہ! تو ازواج میں شامل ہے۔اور یہ نہیں فرمایا ؛ تم میری اہل بیت میں سے ہو“[3]
ایک اور نقل کے مطابق ام سلمہ کہتی ہے’’میں نے جب چادر اٹھائی تاکہ میں بھی اس میں داخل ہو تو آپ نے چادر کو میرے ہاتھ سے کھینچ کر فرمایا ؛ تم خیر پر ہو[4]
اسی لئے جناب ام سلمه کہا کرتی تھی ؛ اگر آپ میرے سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتے تو یہ میرے لئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے اہم تھا [5]- جیساکہ پیغمبر اسلام (ص)نے کئی دوسرے مقامات پر بھی اس آیہ کی مصداق انہیں لوگوں کو بیان فرمایا ہے۔
مثلا : اس آیہ ٴ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد بعض روایات کے مطابق ۹ مہینے تک نماز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (ص) جب در ِفاطمہ زہر(ع)سے گزرتے تو آیہ تطہیر کی تلاوت کرتے ہوئےفرمایا کرتے تھے: اے اہل بیت نماز کا وقت ہے[6]
چنانچہ نجران کے عیسایوں کے ساتھ مباہلہ کے وقت بھی آنحضرت انہی ہستیوں کو لے کر میدان میں گئے اور آیہ تطہیر کی تلاوت کرتے ہویے فرمایا « اللهم هولاء اهل بيتي[7]
لہذا اگرچہ اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،لیکن قرآن مجید کی جو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی ہیں مخصوصا آیہ تطہیر کا مصداق صرف اہل بیت اطہار ہیں، ازواج اس میں شامل نہیں، اس آیہ کی شان نزول میں نقل شدہ احادیث اس مطلب پر روشن گواہ ہیں جیساکہ پیغمبر اکرم (ص)کا اہل بیت کو ایک جگہ جمع کرکے ان پر چادر ڈالنا اور خدا سے دعا مانگنا ، ایک لمبی مدت تک ہر روز انہی لوگوں پر اہل بیت پیامبر کہہ کر سلام کرنا، میدان مباہلہ میں اس عمل کا دوبارہ تکرار کرنا اور امام علی کو اپنے اہل بیت میں سے قرار دینا ، اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ آنحضرت (ص) اپنے اس عمل سے یہ بات بالکل واضح کرناچاہتے تھے کہ ”اہل بیت پیامبر“ سے مراد کون لوگ ہیں ، تاکہ کسی کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے،
لیکن واقعاً تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ قرآن اور سنت کے مطابق عقیدہ بنانے کے بجاے ،قرآن اور حدیث کی تفسیر اپنے عقائد کے ذریعہ سے کرنے اور اپنے عقیدہ کو قران اور سنت کی تفسیر کے لئے میزان قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جب خود رسول خدا فرمارہا ہے کہ میری اہل بیت صرف یہی لوگ { حضرت علی ، فاطمہ حسن اور حسین }ہیں اور ازوج کا اہل بیت سے ہونے سے انکار فرمایا اور ازواج یہ تمنا کرتی تھی ای کاش پیغمبر ہاں کہہ دیتے- لہذا اہل بیت پیامبر کی مصداق کے بارے میں پیغمبر کی تفسیر اور بیان کے خلاف کسی کو بھی بات کرنے کا حق نہیں ہے ، آپ سے بڑھ کر کوئی دین سے آشنا اور قرآن کی تفسیر کرنے والا نہیں ہوسکتا ، خدا نے تفسیر کی ذمہ داری آپ کے ذمہ قرار دیا ہے[8] لہذا شیعہ بھی رسول پاک کی تفسیر کے مطابق ازواج کو اہل بیت کا مصداق نہیں سمجھتے اور انکا یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے ؛
اسی طرح ایک اور مسئلہ مثلا صدقہ کا حرام ہونا کہ اس استعمال کو دینی پیشوای کے مسئلہ سے جو حدیث ثقلین وغیرہ میں بیان ہوئی ہے ، ملانا صحیح نہیں ہے دینی پیشوائی کا مسئلہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے.جبکہ صدقہ کا حرام ہونا ایک فقہی مسئلہ ہے
لہذا امت کی پیشوائی کے مسئلہ میں حدیث ثقلیں وغیرہ کے ارد گرد اہل بیت کے مصداق سے بحث کو لغوی اور دوسرے استعمالات اور فقہی مسئلہ مثلا آنحضرت کی ذریہ کے تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہونا جیسے مسائل کے ساتھ ملانا درست نہیں ہے، یہ در واقع پیغمبر اسلام کے مقام کو قرآن اور دینی معارف کے بیان میں اہمیت نہ دینا ہے اوراحادیث میں موجود مفھوم اور مطالب کی طرف توجہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے .
ان تمام تر حقائق کے باوجود جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد ازواج بھی ہیں اور جو فضیلتیں اہل بیت کے لئے ثابت ہیں اس میں ازواج بھی شامل ہیں، در واقع یہ باتیں اہل بیت کےمقام کو گھٹانے اور اہل بیت کو اپنے واقعی مقام سے دور رکھ کر ان پر ظلم کرنے والوں سے دفاع کی کوششوں کا نتیجہ ہے کیونکہ رسول گرامی کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے نہ صرف اہل بیت کی پیروی اور اطاعت نہ کیا بلکہ اہل بیت کو اپنے تابع بنانے کے لئے ان کے ساتھ سختی کی۔ جناب فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا اور آپ ناراضگی کی حالت میں دنیا سے چلی گئی حتی ایسے افراد کو اپنے نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی، بعض نے امام علی کے خلاف جنگ اور آپ پر سب و شتم کو رواج دیا ؛ امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا اور اس پر خوشیاں منائے ، امام حسین اور انکے ساتھ خاندان پیامبر کے مردوں کو قتل کر کے بچوں اور عورتوں کو اسیر بنا کر درباروں اور بازاروں میں پھرایا گیا ؛
تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ کسی نے اہل بیت کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا ، یہ لوگ ایک طرف سے اہل بیت کے دشمنوں سے دفاع کرتے ہیں دوسری طرف یہ دعوی کرتے ہیں کہ خود ہی اہل بیت کے دوست اور پیروکار ہیں اور شیعہ جو ہر دور میں اہل بیت سے دفاع ، انسے اظہار عقیدت اور انکے دشمنوں سے نفرت کی وجہ سے ، اہل بیت کے دشمنوں کے ظلم کی چکیوں میں پیستے آیئے ہیں ، انہیں جھوٹا ، فریب کار اور اہل بیت کے دشمن وغیرہ کی تہمتوں لگاتے ہیں ۔
خدا ہم سب کو اہل بیت کے واقعی مقام کی معرفت ، انسے محبت اور انکی پیروی کی توفیق دیں
تبصرے