شیعہ کیوں اہل بیت کی پیروی کو واجب سمجھتےہیں ؟
فرقہ ناجیہ (نجاتیافتہ فرقہ):
«ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی» کے نام «آیةاللہ شیخ محمد مہدی آصفی» کا کھلا خط سے اقتباس:
قرضاوی صاحب کیونکر اپنے لئے یہ کہنے کے حق کے قائل ہوئی ہیں کہ «صرف اہل سنت» فرقہ ناجیہ ہے جبکہ شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اس حق کے قائل نہیں ہیں؟ جبکہ شیعیان اہل بیت (ع) نے رسول اللہ (ص) کے کلام،
بالفاظ دیگر سنت رسول (ص)، سے تمسک کیا ہے؛ اور تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس کلام سے مراد اہل بیت (ع) ہیں. اہل تشیع نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے کو بخاری اور مسلم کے ہاں بھی صحیح بخاری اور سنن ترمدی میں منقول ہے اور اس حدیث میں دینی اور مرجعیت کی اہل بیت (ع) کو منتقلی پر تصریح ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت (ع)، اہل بیت (ع) کی تعلیمات سے تجاوز نہیں کرتے
کیا یہ صحیح ہے کہ جب کتاب و سنت کے ادراک کے سلسلے میں ہمارے درمیان اختلاف واقع ہؤا ہے تو ہم ایک دوسرے پر بدعت گذاری کی تہمت لگائیں؟
فرقہ ناجیہ سے مراد وہ فرقے کیوں نہیں ہیں جنہوں نے کتاب اور سنت سے استناد کیا ہے خواہ اجتہاد کی روش میں فرق ہی کیوں نہ ہو؟ حالانکہ بدعت اور گمراہی اور ہلاکت سے مراد کتاب و سنت کی پیروی سے خروج اور ان سے روگردانی ہے. لیکن جو روش قرضاوی نے فرقہ ناجیہ کے اثبات کے لئے اپنائی ہے جس کے مطابق وہ دوسروں کی نفی کرتی ہیں؛ یہ بہت ہی بےجا روش ہے اور اس طرح کوئی بھی چیز کسی جگہ ٹھک نہیں سکے گی.
ان کا کہنا ہے: فرقہ ناجیہ والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کے سوا باقی تمام فرقے گمراہ اور ہلاک ہوئی ہیں کیونکہ فرقہ حقہ ایک ہی ہے اور متعدد نہیں ہیں!
اگر اہل سنت و الجماعت فرقہ ناجیہ ہیں – جیسا کہ قرضاوی صاحب نے دعوی کیا ہے – پس دیگر تمام فرقے گمراہ، بدعت گذار اور ہلاکت پانے والے ہونگے اور ان ہی فرقوں میں ایک شیعہ فرقہ ہے کیوں کہ بقول ان کے فرقہ ناجیہ کی حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے. اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو یقیناً اس کی زد میں دیگر سنی فرقے بھی آئیں گے اور وہ بھی بدعت گذار اور گمراہ کہلائیں گے کیونکہ اہل سنت کے مختلف فرقے آپس میں بھی اصول اور فروع کے لحاظ سے مختلف اور متفاوت ہیں.
اہل سنت فقہ اور اصول مذہب کے لحاظ سے ایک نہیں ہیں بلکہ متعدد ہیں اور ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں.
اول یہ کہ جناب قرضاوی نے فروع کو کیوں مستثنی قرار دیا ہے جبکہ خداوند متعال کے احکام فروع میں متعدد نہیں ہیں جیسا کہ اصول میں بھی حق ایک ہی ہے اور اہل سنت آپس میں فروع کے لحاظ سے وسیع اختلافات رکھتے ہیں؟
دوئم یہ کہ وہ اصول میں اہل سنت کے آپس کے اختلافات کو نظرانداز کرتے ہیں؟
چنانچہ بدعت اور بدعت گذاری کا مسئلہ اہل سنت کو بھی سرایت کرتا ہے اور شیعہ مکتب تک ہی محدود نہیں رہتا؟
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ ایسا نہیں ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ اتنا واضح مسئلہ آپ کی نظروں سے مخفی رہے.
جو بھی – نص کی بنیاد پر یا پھر اجتہاد کی بنیاد پر – کتاب و سنت کا سہارا لے وہ نجات یافتہ فرقے کا فرد شمار ہوگا اور جو شخص کتاب و سنت کے دائرے سے نکل جائے گا اور کلّی یا جزئی طور پر کتاب و سنت سے روگردانی کرے گا وہ گمراہوں اور ہلاک شدہ لوگوں میں شمار ہوگا. البتہ یہاں ہم نے اجتہاد کا جو ذکر کیا ہے یہ وہ اجتہاد ہے جو علمی بنیادوں پر استوار ہو اور علمی قواعد و ضوابط و اصول کے تحت انجام پائے نہ وہ اجتہاد جو ہوا و ہوس اور سیاسی ضرورت کے تحت انجام پاتی ہے (جبکہ نہ تو قرآن میں اس کی سند ہوتی ہے اور نہ ہی سنت میں) جیسا کہ صدر اول کے خوارج اور زمانہ معاصر کے تکفیریوں کا شیوہ ہے اور وہ نفسانی خواہشات یا پھر بعض دوسروں کے سیاسی اہداف کے تحت خون مسلم حلال کرتے ہیں اور مسلمان کا خون غیر حق بہانے کی حرمت پر دلالت کرنے والی حدیث نبوی کو تنقیض کرتے ہیں جبکہ بغیر کسی دلیل کے مسلم کا قتل بھی حرمت کے زمرے میں آتا ہے
تبصرے