کيوں حضرت علی ہی پيغمبرۖ کے وصی اور جانشين ہيں ؟
جواب:ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہيں کہ شيعوں کا راسخ عقيده يہ ہے کہ منصب خلافت ، خدا عطا فرماتا ہے اسی طرح ان کا يہ بھی عقيده ہے کہ پيغمبراکرمۖ کے بعد شروع ہونے والی امامت چند اعتبار سے نبوت کی طرح ہے جس طرح يہ ضروری ہے کہ پيغمبر کو خدا معين فرمائے اسی طرح يہ بھی ضروری ہے کہ پيغمبرۖ کے وصی کو بھی خدا ہی معين کرے اس حقيقت کے سلسلے ميں حيات پيغمبر اکرم کی تاريخ بہترين گواه ہے کيونکہ پيغمبراکرمۖ نے چند موقعوں پر اپنا خليفہ معين فرمايا ہے ہم يہاں ان ميں سے تين موقعوں کا ذکر کرتے ہيں:
١۔ آغاز بعثت ميں: جب پيغمبر اسلام کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قريبی رشتہ داروں کو اس آيہ کريمہ (وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ) (1) کے مطابق آئين توحيد کی طرف دعوت ديں، تو آنحضرتۖ نے ان سب کو خطاب کرتے ہوئے يوں فرمايا ''جو بھی اس راستے ميں ميری مدد کرے گا ، وہی ميرا وصی ، وزير، اور جانشين ہوگا'' پيغمبراکرمۖ کے الفاظ يہ تھے:
'' فأيکم يؤازرن ف ھذاالأمر علی أن يکون أخ و وزير و خليفت و وصی فيکم''
تم ميں سے کون ہے جو اس کام ميں ميری مدد کرے تاکہ وہی تمہارے درميان ميرا بھائی، وزير، وصی اور جانشين قرار پائے؟ اس ملکوتی آواز پر صرف اور صرف علی ابن ابی طالب نے لبيک کہا اس وقت پيغمبر اکرم نے اپنے رشتہ داروں کی
طرف رخ کرتے ہوئے ارشاد فرمايا:
''اِن ھذا أخ و وصی و خليفت فيکم فاسمعوا لہ و أطيعوه''(2)
بہ تحقيق يہ (علی ) تمہارے درميان ميرا بھائی ، وصی اور جانشين ہے. اس کی باتوں کو سنو اور اس کی پيروی کرو.
٢۔ غزوهٔ تبوک ميں
پيغمبر خدا نے حضرت علی سے فرمايا :
''أما ترضی أن تکون من بمنزلة ہارون من موسیٰ اِلا أنّہ لانب بعد''(3)
کيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ويسی ہی ہے جيسی ہارون کو موسیٰ سے تھی بجز اس کے کہ ميرے بعد کوئی پيغمبر نہيں آئے گا. يعنی جس طرح ہارون حضرت موسیٰ کے بلا فصل وصی اور جانشين تھے ، اسی طرح تم بھی ميرے خليفہ اور جانشين ہو۔
٣۔ دسويں ہجری ميں
رسول خدا نے حجة الوداع سے و اپس لوٹتے وقت غدير خم کے ميدان ميں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے درميان حضرت علی کو مسلمانوں اور مومنوں کا ولی معين کيا اور فرمايا:
''مَن کنت مولاه فھذا علّ مولاه''
''جس کا ميں سرپرست اور صاحب اختيار تھا اب يہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہيں.'' يہاں پر جو اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے وه يہ کہ پيغمبر اسلامۖ نے اپنے خطبے کے آغاز ميں ارشاد فرمايا:
''ألستُ أولیٰ بکم مِن أنفسکم؟''
''کيا ميں تمہارے نفسوں پر تم سے بڑھ کر حق نہيں رکھتا ؟''
اس وقت تمام مسلمانوں نے يک زبان ہوکر پيغمبراکرمۖ کی تصديق کی تھی لہذا يہاں پر يہ کہنا ضروری ہے کہ آنحضرتۖ کی اس حديث کی رو سے جو برتری اور اختيار تام رسول کو حاصل تھا وہی برتری و اختيار کامل علی کو حاصل ہے۔ اس اعتبار سے يہاں پر يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آنحضرتۖ مومنين پر برتری اور فوقيت رکھتے تھے اسی طرح حضرت علی بھی مومنين کے نفسوں پر برتری اور فوقيت رکھتے ہيں اس دن حسان بن ثابت نامی شاعر نے غدير خم کے اس تاريخی واقعے کو اپنے اشعار ميناس طرح نظم کيا ہے : يناديھم يوم الغدير نبيُّھم
بخم واسمع بالرسول مناديا
فقال فمن مولاکم و نبيُّکم ؟
فقالوا ولم يبدوا ھناک التعاميا
الھک مولانا و أنت نبيُّنا
و لم تلق منا فِ الولاية عاصيا
فقال لہ قم يا عل فنن
رضيتک من بعد اِماما وھاديا
فمن کنت مولاه فھذا وليہ
فکونوا لہ أتباع صدق مواليا
ھناک دعا: اللّھم وال وليہ
وکن للذ عادیٰ علياً معاديا(4)
حديث غدير ، اسلام کی ايسی متواتر (5) احاديث ميں سے ايک ہے جس کو شيعہ علماء کے علاوه تقريبا تين سو ساٹھ سنی علماء نے بھی نقل کيا ہے (6) يہاں تک کہ اس حديث کا سلسلہ سند ايک سو دس اصحاب پيغمبرۖ تک پہنچتا ہے اور عالم اسلام کے چھبيس بزرگ علماء نے اس حديث کے سلسلۂ سند کے بارے ميں مستقل طور پر کتابيں لکھی ہيں. مشہور مسلمان مورخ ابوجعفر طبری نے اس حديث شريف کے سلسلۂ اسناد کو دو بڑی جلدوں ميں جمع کيا ہے اس سلسلے ميں مزيد معلومات کے لئے کتاب ''الغدير'' کا مطالعہ کريں.
........................
1- سوره شعراء آيت ٢١٤
2- تاريخ طبری ؛ جلد 2 ص 62،63 تاريخ کامل جلد ٢ ص ٤١ ۔ ٤٠ اور مسند احمد جلد ١ ص ١١١ اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحديد ) جلد ١٣ ص 210-212
3- سيرهٔ ابن ہشام جلد ٢ ص ٥٢٠ اور الصواعق المحرقہ طبع دوم مصر باب ٩ فصل ٢ ص ١٢١
4- المناقب (خوارزمی مالکی)ص ٨٠ اور تذکرة خواص الامہ (سبط ابن جوزی حنفی) ص ٢٠ اور کفاية الطالب ص ١٧ (مصنف گنجی شافعی) وغيرهشافعی) وغيره
5- حديث متواتر: وه روايت ہے جو ايسے متعدد اور مختلف راويوں سے نقل ہوئی ہو جس ميں ذرا بھی جھوٹ کا شائبہ نہ ره جائے.(مترجم)
6- بطور نمونہ کتاب ''الصواعق المحرقہ'' (ابن حجر) طبع دوم مصر باب ٩ اور فصل ٢ ص ١٢٢ کا مطالعہ کريں
تبصرے