صحابۂ کرام کے بارے ميں شيعوں کا کيا نظريہ ہے؟
جواب:شيعوں کے نزديک پيغمبرخدا کو ديکھنے اورانکی مصاحبت سے شرفياب ہونے والے افراد چند گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں ليکن اس بات کی وضاحت سے قبل بہتر يہ ہے کہ لفظ ''صحابی'' کو واضح کرديا جائے صحابی پيغمبرۖ کی مختلف تعريفيں کی گئی ہيں يہانہم ان ميں سے بعض تعريفوں کی طرف اشاره کرتے ہيں:
١۔سعيد بن مسيب کہتے ہيں کہ: ''صحابی'' وه ہے جو ايک يا دو سال تک پيغمبر خداۖ کی خدمت ميں رہا ہو اور اس نے آنحضرت کی ہمراہی ميں ايک يا دو جنگيں بھی لڑی ہوں.( 1)
٢۔واقدی کہتے ہيں کہ:علماء کے نزديک ہر وه شخص رسولۖ کا صحابی شمار ہوتا ہے جس نے آنحضرتۖ کوديکھاہو اور اسلام کی طرف مائل ہو اور اس نے دين اسلام کے سلسلے ميں غور وفکر کرنے کے بعد اسے قبول کرليا ہو اگرچہ وه گھنٹہ بھر ہی آنحضرت کے ہمراه رہا ہو. ( 2)
٣۔محمد بن اسماعيل بخاری کہتے ہيں کہ: مسلمانوں ميں سے ہر وه شخص جو آنحضرتۖ کی مصاحبت ميں رہا ہو يا اس نے آپۖ کو ديکھا ہو وه آنحضرتۖ کے اصحاب ميں شمار ہوگا.( 3)
٤۔احمد ابن حنبل کہتے ہيں کہ: ہر وه شخص جو ايک ماه يا ايک دن يا چند گھڑياں پيغمبر اکرمۖ کے ہمراه رہا ہو يا اس نے آنحضرتۖ کو ديکھا ہو وه ان کے اصحاب ميں شمار ہوگا.( 4)
علمائے اہل سنت کے نزديک ''عدالت صحابہ'' ايک متفق عليہ مسئلہ ہے اس کے مطابق جس شخص کو بھی پيغمبراکرمۖ کی مصاحبت حاصل ہوئی ہو وه عادل ہے! ( 5)
يہاں پر ضروری ہے کہ اس نظريہ کا قرآنی آيات کی روشنی ميں تجزيہ کيا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بارے ميں وحی الہی کے سرچشمہ سے حاصل شده شيعوں کے نکتہ نظر کا بھی تذکره کيا جائے ۔ تاريخ نے باره ہزار سے زياده افراد کے نام اصحاب پيغمبرۖ کی فہرست ميں درج کئے ہيں جنکے درميان مختلف قسم کے چہرے دکھائی پڑتے ہيں بے شک آنحضرتۖ کی مصاحبت ايک بہت بڑا افتخارتھا جو صرف چند افراد ہی کو نصيب ہوا اور امت اسلامی نے ہميشہ ايسے افراد کو ادب و احترام کی نگاہوں سے ديکھا ہے کيونکہ انہی بزرگان نے سے نقل کرتے ہوئے.
آئين اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام کی عزت اور شوکت کے پرچم کو لہرايا ہے.
قرآن مجيد نے بھی ان کی تعريف کرتے ہوئے يوں فرمايا ہے:
لايَسْتَوِ مِنْکُمْ مَنْ نْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ وْلٰئِکَ عْظَمُ دَرَجَةً مِنْ الَّذِينَ نْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا( 6)
اور تم ميں سے فتح سے پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جيسا نہيں ہوسکتا جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے. ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرلينا چاہيئے کہ پيغمبر خداۖ کی مصاحبت کوئی ايسا کيمياوی نسخہ نہيں تھا جو انسانوں کی حقيقت کو بدل ديتا اور عمر کے آخری حصے تک ان کی زندگی کی ضمانت ليتا نيز انہيں ہميشہ کے لئے عادلوں کی صف ميں کھڑا کرديتا. اس مسئلے کی وضاحت کے لئے بہتر يہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے درميان قابل اعتماد کتاب قرآن مجيد کا مطالعہ کريناور اس سلسلے ميں اس سے مدد حاصل کريں.
صحابی قرآن مجيد کی نگاه ميں
قرآن کے نکتہ نظر سے نبی اکرمۖ کی خدمت ميں حاضر ہونے اور آپۖ کی مصاحبت اختيار کرنے والوں کی دوقسميں ہيں:
پہلی قسم
وه ايسے اصحاب ہيں جن کی قرآن مجيد کی آيتيں مدح و ستائش کرتی ہيں اور انہيں شوکت اسلام کا بانی قرار ديتی ہيں يہاں پر ہم صحابہ کرام کے ايسے گروه سے متعلق چند آيتوں کا ذکر کرتے ہيں:
١۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (7)
اور مہاجرين اور انصار ميں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نيکی ميں ان کا اتباع کيا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگيا ہے اور يہ سب خدا سے راضی ہيں اورخدا نے ان کے لئے وه باغات مہيا کئے ہيں جن کے نيچے نہريں جاری ہيں اور يہ ان ميں ہميشہ رہنے والے ہيں اور يہی بہت بڑی کاميابی ہے.
٢۔درخت کے نيچے بيعت کرنے والے
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً فَقَدْ جَاء أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ (8)
يقينا خدا صاحبان ايمان سے اس وقت راضی ہوگيا جب وه درخت کے نيچے آپ کی بيعت کررہے تھے پھر اس نے وه سب کچھ ديکھ ليا جوان کے دلوں ميں تھا تو ان پر سکون نازل کرديا اور انہيں اس کے عوض قريبی فتح عنايت کردی.
٣۔مہاجرين لِلْفُقَرَاء الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (9)
يہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہيں ان کے گھروں سے نکال ديا گيا اور ان کے اموال سے انہيں دور کرديا گيا اور وه صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہيں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہيں يہی لوگ دعوائے ايمان ميں سچے ہيں. ٤۔اصحابِ فتح
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا (10)
محمد لله کے رسول ہيں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں وه کفار کے لئے سخت ترين اور آپس ميں انتہائی رحم دل ہيں تم ان کوديکھو گے کہ بارگاه احديت ميں سرخم کئے ہوئے سجده ريز ہيں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہيں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجده کے نشانات پائے جاتے ہيں. دوسری قسم
بزم رسالت ميں کچھ افراد ايسے بھی تھے جنہيں پيغمبر خداۖ کی مصاحبت تو حاصل ہوئی تھی مگر وه يا تو منافق تھے يا پھر ان کے دل ميں مرض تھا قرآن مجيد نے پيغمبر اسلامۖ کے لئے ايسے افراد کی حقيقت کو نماياں کيا ہے اور آنحضرتۖ کو يہ تاکيد کی ہے کہ ان سے محتاط رہيں يہاں پر ہم اس سلسلے ميں نازل ہونے والی آيتوں کے چند نمونے پيش کرتے ہيں: ١۔معروف منافقين
إِذَا جَاءكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (11)
اے پيغمبر! يہ منافقين آپ کے پاس آتے ہيں تو کہتے ہيں کہ ہم گواہی ديتے ہيں کہ آپ لله کے رسول ہيں اور لله بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہيں ليکن لله گواہی ديتا ہے کہ يہ منافقين اپنے دعوے ميں جھوٹے ہيں ٢۔غير معروف منافقين
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ (12)
اور تم لوگوں کے گرد، ديہاتيوں ميں بھی منافقين ہيں اور اہل مدينہ ميں تو وه بھی ہيں جو نفاق ميں ماہر اور سرکش ہيں تم لوگ ان کو نہيں جانتے ہو ليکن ہم خوب جانتے ہيں. ٣۔دل کے کھوٹے
وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُؤُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (13)
اور جب منافقين اور جن کے دلوں ميں مرض تھا يہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دينے والا وعده کيا ہے.
٤۔گناه گار
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَی اللهُ نْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ نَّ اللهَ غَفُور رَحِيم (14)
اور دوسرے وه لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کيا کہ انہوں نے نيک اور بد اعمال مخلوط کردئيے ہيں عنقريب خدا ان کی توبہ قبول کر لے گا وه بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.
قرآن مجيد کی آيات کے علاوه پيغمبر اکرمۖ سے بھی بعض صحابہ کی مذمت ميں بہت سی روايات نقل ہوئی ہيں ان ميں سے ہم صرف دو روايتوں کو بطور نمونہ پيش کرتے ہيں :
١۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہيں کہ پيغمبر خداۖ نے ارشاد فرمايا : ''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم يظمأ أبداً و ليردنّ علّ أقوام أعرفھم و يعرفونن ثم يحال بين و بينھم.''
ميں تم سب کو حوض کی طرف بھيجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وه اس ميں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وه تاابد پياس محسوس نہينکرے گا پھر ايک گروه ميرے پاس آئے گا جسے ميں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وه بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کرديا جائے گا .''
ابو حازم کا بيان ہے کہ جس وقت ميں نے نعمان ابن ابی عياش کے سامنے يہ حديث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کيا تم نے يہ حديث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ ميں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عياش نے کہا کہ ابوسعيد خدری نے بھی اس حديث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پيغمبر اکرمۖ سے نقل کيا ہے کہ آنحضرتۖ فرماتے ہيں :
''اِنھم من فيقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد''( 15)
يہ افراد مجھ سے ہينپس کہا جائے گا کہ آپ نہيں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کيا کام انجام ديئے ہيں ! پس ميں کہوں گا ايسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے ميرے بعد (احکام دين ميں ) تبديلی کی.
پيغمبر اسلامۖ کی اس حديث ميں ان دو جملوں'' جنہيں ميں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وه سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''ميرے بعد تبديلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتۖ کی مراد آپکے وه اصحاب ہيں جو کچھ مدت آنحضرتۖ کے ہمراه رہے ہيں (اس حديث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کياہے)
٢۔بخاری اور مسلم ،پيغمبر خداۖ سے روايت کرتے ہيں کہ آنحضرتۖ نے فرمايا ہے:
''يرد علَّ يوم القيامة رھط من أصحاب أو قال من أمت فيحلون عن الحوض فأقول يارب أصحاب فيقول اِنّہ لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنھم ارتدوا علیٰ أدبارھم القھقری. ''(16)
قيامت کے دن ميرے اصحاب ميں سے يا فرمايا ميری امت ميں سے ايک گروه ميرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کرديا جائے گا اس وقت ميں کہوں گا اے ميرے پروردگار! يہ ميرے اصحاب ہيں تو خدا فرمائے گا آپ نہيں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کيسے کيسے کام انجام دئيے ہينبے شک يہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہليت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے. نتيجہ:قرآنی آيات اور سنت پيغمبر کی روشنی ميں يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وه افراد جنہيں آنحضرتۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وه سب ايک ہی درجہ کے نہيں تھے ان ميں بعض ايسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھيلانے ميں انتہائی مؤثر کردار ادا کيا ہے ليکن بعض ايسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مريض اور گمراه تھے. (17)
اسی بيان کے ساتھ صحابۂ پيغمبرۖ کے بارے ميں شيعوں کا نظريہ (جو درحقيقت قرآن اور سنت کا نظريہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) اسد الغابة جلد ١ ص ١١ ،١٢ طبع مصر
١۔سعيد بن مسيب کہتے ہيں کہ: ''صحابی'' وه ہے جو ايک يا دو سال تک پيغمبر خداۖ کی خدمت ميں رہا ہو اور اس نے آنحضرت کی ہمراہی ميں ايک يا دو جنگيں بھی لڑی ہوں.( 1)
٢۔واقدی کہتے ہيں کہ:علماء کے نزديک ہر وه شخص رسولۖ کا صحابی شمار ہوتا ہے جس نے آنحضرتۖ کوديکھاہو اور اسلام کی طرف مائل ہو اور اس نے دين اسلام کے سلسلے ميں غور وفکر کرنے کے بعد اسے قبول کرليا ہو اگرچہ وه گھنٹہ بھر ہی آنحضرت کے ہمراه رہا ہو. ( 2)
٣۔محمد بن اسماعيل بخاری کہتے ہيں کہ: مسلمانوں ميں سے ہر وه شخص جو آنحضرتۖ کی مصاحبت ميں رہا ہو يا اس نے آپۖ کو ديکھا ہو وه آنحضرتۖ کے اصحاب ميں شمار ہوگا.( 3)
٤۔احمد ابن حنبل کہتے ہيں کہ: ہر وه شخص جو ايک ماه يا ايک دن يا چند گھڑياں پيغمبر اکرمۖ کے ہمراه رہا ہو يا اس نے آنحضرتۖ کو ديکھا ہو وه ان کے اصحاب ميں شمار ہوگا.( 4)
علمائے اہل سنت کے نزديک ''عدالت صحابہ'' ايک متفق عليہ مسئلہ ہے اس کے مطابق جس شخص کو بھی پيغمبراکرمۖ کی مصاحبت حاصل ہوئی ہو وه عادل ہے! ( 5)
يہاں پر ضروری ہے کہ اس نظريہ کا قرآنی آيات کی روشنی ميں تجزيہ کيا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بارے ميں وحی الہی کے سرچشمہ سے حاصل شده شيعوں کے نکتہ نظر کا بھی تذکره کيا جائے ۔ تاريخ نے باره ہزار سے زياده افراد کے نام اصحاب پيغمبرۖ کی فہرست ميں درج کئے ہيں جنکے درميان مختلف قسم کے چہرے دکھائی پڑتے ہيں بے شک آنحضرتۖ کی مصاحبت ايک بہت بڑا افتخارتھا جو صرف چند افراد ہی کو نصيب ہوا اور امت اسلامی نے ہميشہ ايسے افراد کو ادب و احترام کی نگاہوں سے ديکھا ہے کيونکہ انہی بزرگان نے سے نقل کرتے ہوئے.
آئين اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام کی عزت اور شوکت کے پرچم کو لہرايا ہے.
قرآن مجيد نے بھی ان کی تعريف کرتے ہوئے يوں فرمايا ہے:
لايَسْتَوِ مِنْکُمْ مَنْ نْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ وْلٰئِکَ عْظَمُ دَرَجَةً مِنْ الَّذِينَ نْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا( 6)
اور تم ميں سے فتح سے پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جيسا نہيں ہوسکتا جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے. ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرلينا چاہيئے کہ پيغمبر خداۖ کی مصاحبت کوئی ايسا کيمياوی نسخہ نہيں تھا جو انسانوں کی حقيقت کو بدل ديتا اور عمر کے آخری حصے تک ان کی زندگی کی ضمانت ليتا نيز انہيں ہميشہ کے لئے عادلوں کی صف ميں کھڑا کرديتا. اس مسئلے کی وضاحت کے لئے بہتر يہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے درميان قابل اعتماد کتاب قرآن مجيد کا مطالعہ کريناور اس سلسلے ميں اس سے مدد حاصل کريں.
صحابی قرآن مجيد کی نگاه ميں
قرآن کے نکتہ نظر سے نبی اکرمۖ کی خدمت ميں حاضر ہونے اور آپۖ کی مصاحبت اختيار کرنے والوں کی دوقسميں ہيں:
پہلی قسم
وه ايسے اصحاب ہيں جن کی قرآن مجيد کی آيتيں مدح و ستائش کرتی ہيں اور انہيں شوکت اسلام کا بانی قرار ديتی ہيں يہاں پر ہم صحابہ کرام کے ايسے گروه سے متعلق چند آيتوں کا ذکر کرتے ہيں:
١۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (7)
اور مہاجرين اور انصار ميں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نيکی ميں ان کا اتباع کيا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگيا ہے اور يہ سب خدا سے راضی ہيں اورخدا نے ان کے لئے وه باغات مہيا کئے ہيں جن کے نيچے نہريں جاری ہيں اور يہ ان ميں ہميشہ رہنے والے ہيں اور يہی بہت بڑی کاميابی ہے.
٢۔درخت کے نيچے بيعت کرنے والے
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً فَقَدْ جَاء أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ (8)
يقينا خدا صاحبان ايمان سے اس وقت راضی ہوگيا جب وه درخت کے نيچے آپ کی بيعت کررہے تھے پھر اس نے وه سب کچھ ديکھ ليا جوان کے دلوں ميں تھا تو ان پر سکون نازل کرديا اور انہيں اس کے عوض قريبی فتح عنايت کردی.
٣۔مہاجرين لِلْفُقَرَاء الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (9)
يہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہيں ان کے گھروں سے نکال ديا گيا اور ان کے اموال سے انہيں دور کرديا گيا اور وه صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہيں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہيں يہی لوگ دعوائے ايمان ميں سچے ہيں. ٤۔اصحابِ فتح
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا (10)
محمد لله کے رسول ہيں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں وه کفار کے لئے سخت ترين اور آپس ميں انتہائی رحم دل ہيں تم ان کوديکھو گے کہ بارگاه احديت ميں سرخم کئے ہوئے سجده ريز ہيں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہيں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجده کے نشانات پائے جاتے ہيں. دوسری قسم
بزم رسالت ميں کچھ افراد ايسے بھی تھے جنہيں پيغمبر خداۖ کی مصاحبت تو حاصل ہوئی تھی مگر وه يا تو منافق تھے يا پھر ان کے دل ميں مرض تھا قرآن مجيد نے پيغمبر اسلامۖ کے لئے ايسے افراد کی حقيقت کو نماياں کيا ہے اور آنحضرتۖ کو يہ تاکيد کی ہے کہ ان سے محتاط رہيں يہاں پر ہم اس سلسلے ميں نازل ہونے والی آيتوں کے چند نمونے پيش کرتے ہيں: ١۔معروف منافقين
إِذَا جَاءكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (11)
اے پيغمبر! يہ منافقين آپ کے پاس آتے ہيں تو کہتے ہيں کہ ہم گواہی ديتے ہيں کہ آپ لله کے رسول ہيں اور لله بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہيں ليکن لله گواہی ديتا ہے کہ يہ منافقين اپنے دعوے ميں جھوٹے ہيں ٢۔غير معروف منافقين
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ (12)
اور تم لوگوں کے گرد، ديہاتيوں ميں بھی منافقين ہيں اور اہل مدينہ ميں تو وه بھی ہيں جو نفاق ميں ماہر اور سرکش ہيں تم لوگ ان کو نہيں جانتے ہو ليکن ہم خوب جانتے ہيں. ٣۔دل کے کھوٹے
وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُؤُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (13)
اور جب منافقين اور جن کے دلوں ميں مرض تھا يہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دينے والا وعده کيا ہے.
٤۔گناه گار
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَی اللهُ نْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ نَّ اللهَ غَفُور رَحِيم (14)
اور دوسرے وه لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کيا کہ انہوں نے نيک اور بد اعمال مخلوط کردئيے ہيں عنقريب خدا ان کی توبہ قبول کر لے گا وه بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.
قرآن مجيد کی آيات کے علاوه پيغمبر اکرمۖ سے بھی بعض صحابہ کی مذمت ميں بہت سی روايات نقل ہوئی ہيں ان ميں سے ہم صرف دو روايتوں کو بطور نمونہ پيش کرتے ہيں :
١۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہيں کہ پيغمبر خداۖ نے ارشاد فرمايا : ''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم يظمأ أبداً و ليردنّ علّ أقوام أعرفھم و يعرفونن ثم يحال بين و بينھم.''
ميں تم سب کو حوض کی طرف بھيجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وه اس ميں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وه تاابد پياس محسوس نہينکرے گا پھر ايک گروه ميرے پاس آئے گا جسے ميں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وه بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کرديا جائے گا .''
ابو حازم کا بيان ہے کہ جس وقت ميں نے نعمان ابن ابی عياش کے سامنے يہ حديث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کيا تم نے يہ حديث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ ميں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عياش نے کہا کہ ابوسعيد خدری نے بھی اس حديث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پيغمبر اکرمۖ سے نقل کيا ہے کہ آنحضرتۖ فرماتے ہيں :
''اِنھم من فيقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد''( 15)
يہ افراد مجھ سے ہينپس کہا جائے گا کہ آپ نہيں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کيا کام انجام ديئے ہيں ! پس ميں کہوں گا ايسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے ميرے بعد (احکام دين ميں ) تبديلی کی.
پيغمبر اسلامۖ کی اس حديث ميں ان دو جملوں'' جنہيں ميں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وه سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''ميرے بعد تبديلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتۖ کی مراد آپکے وه اصحاب ہيں جو کچھ مدت آنحضرتۖ کے ہمراه رہے ہيں (اس حديث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کياہے)
٢۔بخاری اور مسلم ،پيغمبر خداۖ سے روايت کرتے ہيں کہ آنحضرتۖ نے فرمايا ہے:
''يرد علَّ يوم القيامة رھط من أصحاب أو قال من أمت فيحلون عن الحوض فأقول يارب أصحاب فيقول اِنّہ لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنھم ارتدوا علیٰ أدبارھم القھقری. ''(16)
قيامت کے دن ميرے اصحاب ميں سے يا فرمايا ميری امت ميں سے ايک گروه ميرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کرديا جائے گا اس وقت ميں کہوں گا اے ميرے پروردگار! يہ ميرے اصحاب ہيں تو خدا فرمائے گا آپ نہيں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کيسے کيسے کام انجام دئيے ہينبے شک يہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہليت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے. نتيجہ:قرآنی آيات اور سنت پيغمبر کی روشنی ميں يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وه افراد جنہيں آنحضرتۖ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وه سب ايک ہی درجہ کے نہيں تھے ان ميں بعض ايسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھيلانے ميں انتہائی مؤثر کردار ادا کيا ہے ليکن بعض ايسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مريض اور گمراه تھے. (17)
اسی بيان کے ساتھ صحابۂ پيغمبرۖ کے بارے ميں شيعوں کا نظريہ (جو درحقيقت قرآن اور سنت کا نظريہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) اسد الغابة جلد ١ ص ١١ ،١٢ طبع مصر
2) گذشتہ حوالہ
3) اسدالغابة جلد ١ ص ١١،١٢
4) گذشہ حوالہ
5) الاستعياب فی اسماء الاصحاب جلد ١ ص ٢ ''الاصابة'' کے حاشيے ميں اسدالغابة جلد ١ صفحہ ٣ ميں ابن اثير
6) سوره حديد آيت: ١٠
7) سوره توبہ آيت: ١٠٠
8) سوره فتح آيت: ١٨
9) سوره حشر آيت: ٨
10) سوره فتح آيت: ٢
11) سوره منافقون آيت: ١
12) سوره توبہ آيت: ١٠١
13) سوره احزاب آيت : ١٢
14) سوره توبہ آيت : ١٠٢
15) کتاب الحوض فی ورود الناس عليہ ص ١٢٠ حديث نمبر ٧٩٧٢ ١)جامع الاصول (ابن اثير) جلد ١
16) جامع الاصول جلد ١١ ص ١٢٠ حديث ٧٩٧٣
17) اس بارے ميں مزيد وضاحت کے لئے سوره منافقون ملاحظہ کريں
تبصرے