رافضیوں کی مذمت کی پیش گوئی پر موجود احادیث پر زبیر علی زئی کی تحقیق
اکثر فسادی ملا یہ حدیثیں شیعہ کے خلاف پیش کرتے ہیں اور سادہ لو سنیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور شیعیوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں اس لئے ہم آپ سب کے سامنے ایک سلفی عالم زبیرعلی زائی کی تحقیق پیش کر رہے ہیں اور کتاب کے اصل صحات کے سکین پیجز لگا رہے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہ جائے ۔ یہ تحقیق اس کی کتاب فتویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام مکتبہ اسلامیہ سال 2009 صفحہ نمبر 139 تا 148 میں موجود ہے
زبیر علی زائی سے جو سوال کیا جاتا ہے وہ صفحہ صفحہ 139 پر موجود ہے اس کو نیچے دئیے گئے سکین پیج میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔
پہلی روایت
اس کو ابن حبان کی المجروحین، ۱/۱۸۷؛ میں ہے، اور ابن حبان نے اسے باطل کہا ہے
ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا (میزان الاعتدال، ۱/۳۲)
پہلی روایت ابن حبان کی المجروحین، ۱/۱۸۷؛ میں ہے، اور ابن حبان نے اسے باطل کہا ہے
ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا (میزان الاعتدال، ۱/۳۲)
اس کے راوی بشیر القصیر کے متعلق ابن حبان نے کہا کہ یہ سخت منکر الحدیث ہے (المجروحین، ص ۱۸۷)
ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا (میزان الاعتدال، ۱/۳۲)
پہلی روایت ابن حبان کی المجروحین، ۱/۱۸۷؛ میں ہے، اور ابن حبان نے اسے باطل کہا ہے
ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا (میزان الاعتدال، ۱/۳۲)
اس کے راوی بشیر القصیر کے متعلق ابن حبان نے کہا کہ یہ سخت منکر الحدیث ہے (المجروحین، ص ۱۸۷)
دوسری روایت
یہ مسند احمد، ۱/۱۰۳، حدیث ۸۰۸ ہے، زبیر علی زئی نے سند کو ضعیف کہا ہے کیونکہ ابو عقیل یحیی ابن متوکل اور کثیر ابن اسماعیل النواء ضعیف ہیں
نیز حافظ ابن جوزی نے کہا کہ یہ حدیث رسول اللہ سے صحیح نہیں ہے (العلل المتناہیہ، ۱/۱۵۷ حدیث ۲۵۲)
تیسری روایت
نیز حافظ ابن جوزی نے کہا کہ یہ حدیث رسول اللہ سے صحیح نہیں ہے (العلل المتناہیہ، ۱/۱۵۷ حدیث ۲۵۲)
تیسری روایت
یہ مسند عبد ابن حمید اور المسند الجامع سے ہے، اور حافظ صاحب نے اس کے راویان عمران بن زید اور حجاج بن تمیم کے متعلق کہا کہ یہ ضعیف ہیں
چوتھی روایت
حلیۃ الاولیا، تاریخ بغداد اور العلل المتناہیہ سے ہے۔ حافظ صاحب کو بقول یہ روایت باطل و مردود ہے کیونکہ سوار بن مصعب الہمدانی پر شدید جرح ہے اور اسے منکر الحدیث بھی کہا گیا
اسی طرح جمیع بن عمیر بھی ضعیف ہے، اور عصام بن حکم مجہول ہے
اسی طرح جمیع بن عمیر بھی ضعیف ہے، اور عصام بن حکم مجہول ہے
پانچویں روایت
یہ المجروحین ابن حبان، العلل المتناہیہ، مسند ابو یعلی، تاریخ دمشق ابن عساکر، موضع اوہام الجمع و التفریق خطیب سے ہے
حافظ صاحب نے اس سند کو بھی ضیعف اور باطل کہا کیونکہ اس کا راوی تلید بن سلیمان پر شدید جرح ہے، اور یحیی ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے؛ اور اس پر لعنت کی ہے
اس موقع پر حافظ صاحب نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ مسند ابو یعلی میں غلطی ہے کہ ابو ادریس، جو کہ تلید ہے؛ اس کی جگہ پر ابن ادریس لکھا ہے۔ اور انہوں نے اس کو واضح کیا کہ مسند ابو یعلی کے محقق، ارشاد الحق اثری نے اس کو بیان کیا ہے، تاہم حسین درانی نے غلطی کی ہے۔
حافظ صاحب نے اس سند کو بھی ضیعف اور باطل کہا کیونکہ اس کا راوی تلید بن سلیمان پر شدید جرح ہے، اور یحیی ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے؛ اور اس پر لعنت کی ہے
اس موقع پر حافظ صاحب نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ مسند ابو یعلی میں غلطی ہے کہ ابو ادریس، جو کہ تلید ہے؛ اس کی جگہ پر ابن ادریس لکھا ہے۔ اور انہوں نے اس کو واضح کیا کہ مسند ابو یعلی کے محقق، ارشاد الحق اثری نے اس کو بیان کیا ہے، تاہم حسین درانی نے غلطی کی ہے۔
چھٹی حدیث
یہ معجم کبیر طبرانی، حلیۃ الاولیا، مسند ابو یعلی، السنۃ ابن ابی عاصم؛ سے ہے، اس کو بھی زبیر زائی نے ضعیف کہا کیونکہ حجاج بن تمیم ضعیف ہے، اور اس مقام پر انہوں نے ہیثمی کا اس روایت کو حسن سند کہنے کا بھی تعاقب کیا، کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ راوی ضعیف ہے
ساتویں روایت
یہ تاریخ بغداد اور معجم اوسط طبرانی سے ہے، اس کو بھی حافظ صاحب نے سخت ضعیف، باطل و مردود قرار دیا کیونکہ اس میں فضل بن غانم اور عطیہ عوفی ہیں، نیز سوار بن مصعب ہیں جن کے بارے میں چوتھی روایت میں بات ہو چکی ہے
آٹھویں روایت
یہ السنۃ ابن ابی عاصم سے ہے، اور حافظ صاحب کے مطابق یہ محمد بن اسعد تغلبی کی وجہ سے ضعیف ہے
نویں روایت
یہ بھی السنۃ ابن ابی عاصم سے ہے، اور اس کو بھی انہوں نے سخت ضعیف و مردود قرار دیا کیونکہ بکر بن خنیس ضعیف اور سوار منکر الحدیث ہے
آخر میں فرماتے ہیں
خلاصۃ الجواب: سوال میں بیان کردہ روایت بے اصل و باطل ہے
اس کے بعد سوال میں کی گئی دوسری ، تیسری اور چوتھی روایت کا جواب دیا گیا ہے جن کے جواب نیچے دئے گئے سکین پیج میں پڑھیں۔
نتیجہ :
کوئی بھی ایسی کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے جس میں صحابہ پر تبرہ کرنے والے رافضیوں کی پیش گوئی کی گئی ہو اور ان سے بیزاری کا حکم دیا گیا ہو۔
تبصرے