شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسن ا ور امام حسین) کو رسول خدا ۖکے بیٹے کیوں کہتے ہیں؟
جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں.
اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :
قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.
قرآن مجید اور سنت پیغمبر ۖ میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :
١۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:
( وَوَہَبْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا ہَدَیْنَا وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وََیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی)(1)
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں.
مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداۖ کی اولاد اورآپۖ کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم یہاں ان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں: جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں: ''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغن أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النب ۖ تجدہ ف کتاب اللّہ و قد قرأتہ من أولہ اِلیٰ آخرہ فلم أجدہ قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراھیم و لیس لہ أب؟ قال: صدقتَ''(2)
حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمۖ کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.
یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے ''وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ'' یہاں تک کہ خدا فرماتا ہے و یَحْیَی وَعِیسَی؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو . مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداۖ کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں.
٢۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین)(3)
(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداۖ اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتۖ کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتۖ ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ع رسول خداۖ کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خدا ۖ کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے . یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں:(أنفسنا و أنفسکم)رسول اللہ ۖو علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمہ.(4)
(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خدا ۖ اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں.
ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : واعلم ان ھذہ الروایة کالمتفق علیٰ صحتھا بین اھل التفسیر والحدیث (5)
جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔
اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں ''المسألة الرابعة: ھذہ الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّہ ۖ وعد أن یدعوا أبنائہ فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیہ''(6)
یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمۖ کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداۖ اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتۖ نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرت ۖ کے بیٹے ہیں۔
ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ : (أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً.(7)
کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔
٣۔رسول خدا ۖ کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتۖ کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتۖ کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
الف:رسول خداۖ حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں : ھذان ابنا مَن أحبھما فقد أحبن.(8)
حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی .
ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ن بنّ ھٰذین ریحانت من الدنیا.(9)
میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- سورہ انعام آیت : ٨٤ اور ٨٥
- تفسیر در المنثور جلد٣ ص٢٨ طبع بیروت سورہ انعام کی ٨٤ اور ٨٥ آیت کی تفسیر کے ذیل میں
- سورہ آل عمران آیت : ٦١
- تفسیر در المثور جلد ٢ ص ٣٩ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں
- تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ٢ ص ٤٨٨ طبع ١ول مصر ١٣٠٨ ھ
- تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ٢ ص ٤٨٨ طبع ١ول مصر ١٣٠٨ ھ
- الجامع لاحکام القرآن جلد ٤ ص ١٠٤طبع بیروت
- تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص٥٩حدیث ١٠٦طبع اول بیروت ٠ ١٤٠ھ
- گذشتہ حوالہ ص٦٢ حدیث نمبر ١١٢
تبصرے